طلاق یافتہ لڑکی 7

0










مائرہ کے جانے کے بعد میں بھی سب کچھ نارمل کر کے کمرے سے باھر اگیا ازانیں ھو چکی تھی دن چرھنے کے قدیب تھا اور مجھے یقین تھا کہ امی نماز کے لے باھر اتی ھو گی میں اپنے کل کے پلین کو گھرای سے بنا کر چار پای پر لیٹ گیا... لیٹتے ساتھ ھی نیند کی اگوش میں ڈوب گیا کیوں کہ پجھلے 3 4 گھنٹوں کی تھکاوٹ نے بھت تھکا دیا تھا...

مجھے لیٹے ابھی کچھ دیر ھی ھوی تھی کہ امی نے شفقت سے ھاتھ چھرے پر پھیرا اور مجھے جگا کر پوچھنے لگی کہ میں یھا کوں سو رھا ھوں.. مے نے امی کو اپنے پاس بٹھایا اور انکے سامنے چھرا کر کے بتانے لگا ک" رات کو باجی میرے باتھروم میں گی اور پاوں تلکنے کی وجہ سے بہت برا گر گی اپ سو رھی تھی اس لے جگانا مناسب نھی سمجھا مائرہ نے سب سمبھال لیا تھا باجی کو میرے ھی کمرے میں سلا کر وہ بھی سونے چلی گی اور میں بھی باھر لیٹ گیا.. امی زرا پریشان ھوی پر جب انکو پتہ چلا سب ٹھیک ھے تو وہ بھی مطمعن ھو گی..

امی کے جانے کے بعد میں بھی سکون کی نیند سو گیا اور صبح بھابھی کی اواز پر اٹھا جو اج کسی خاص وجہ سے صبح صبح تیار ھو گی تھی..

پوچھنے پر پتہ چلا کہ بھابھی کی امی کی تبیعت خراب ھے بھابھی ایک ھفتے ک لے اپنے گھر جا رھی ھیں.

بھابھی پیلے رنگ کے فٹنگ والے جورے میں ملبوث اپنے کندھے کے ایک سایڈ پر دپٹہ لٹکایا ھلکا سا میک اپ کر کے لال ڈارک لپسٹک لگا کر کھلے بالوں میں دلکش دوشیزہ لگ رھی تھی..

بھابھی دکھنے میں بھی بہت موٹی یا پتلی نھی ھے ایک نارمل فگر کی خوش شکل عورت ھے

بھابھی کو زیادا سجنے سورنے کا شوق نھی ھے پر جب بھی ھلکا سا تیار ھوتی ھے تو کسی بھی لن کی ملکہ با اسانی بن سکتی ھے..

بھابھی کی خوبصورتی کی ایک خاص وجہ انکے چھرے کے کھڈے(Dimple)بھی تھے جب بھی وہ کھل کر ھنستی تھی تو َنکے چھرے پر بھت گھرے کھڈے بن جاتے تھے جو انکے حسن پر چار چاند لگا دیتے تھے...

بھابھی نے مجھے جگا کر برے پیار سے کھا "اٹھ جایں نواب صاحب ناشتہ تیار ھے"

میں بھی انکھیں ملتا باجی کے کسے ھوے بدن کا اچھی طرح معاینہ کر کے باتھروم جانے ک لے اپنے کمرے کی طرف چل دیا...

اپنے کمرے میں پھنچ کر دیکھا کہ تینوں ماں بیٹیاں ایک ساتھ بیٹھی باتیں کر رھی ھے

پھلے تو میں کافی ڈر گیا کیوںکہ میں نے امی سے جو جھوٹ بولا تھَ وہ میں نے دونوں مے سے کسی کو نھی بتایا تھَا.. مجھے دروازے پر کھرا دیکھ امی نے مجھے اندر بلا لیا اور بیڈ پر بیٹھنے کے لے کھا..

میں امی کی بات مَانتا ھوا مائرہ کے ساتھ بیٹھ گیا..

میر سامنے امی بیٹھی باجی کے سر پے ھاتھ پھیر رھی تھی جو کہ ابھی بھی بیڈ پر لیٹی ھوی بھتر لگ رھی تھی...

سب ادھر ادھر کی باتیں کر رھے تھے اسی دوران امی میرا ناشتہ لینے باھر چلی گی تو انکے جانے کے فورن بعد میں نے باجی کی طرف دیکھا جو پھلے سے ھی مجھے دیکھ رھی تھی..

میں نے پھر مائرہ کی طرف دیکھا اور اسکو رعب بھرے انداز میں کھا تم زرا باھر جاو مجھے باجی سے بات کرنی ھے وہ منہ بناتے ھوے باھر نکل گی اور میں فورن باجی کے قریب ھو کر انکے ھاتھ پر ھاتھ رکھ دیا.. باجی نے اپنا ھاتھ میرے ھاتھ سے نکال کر دسری طرف منہ کر لیا.. جس کا مطلب. میں سمجھا نھی تھا نہی میں نے باجی کی طرف دیکھتے ھوے انکو اواز دی پر وہ میری کسی بات کا جواب نھی دے رھی تھی..

میں نے باجی کے چھرے کو ایک کوبے سے پکر کر اپنی طرف گھمایا اور کھا "پلز باجی مجسے بات کرے اپکا یہ رویہ نا قابل قبول ھے" باجی نے اپنی اواز کو دباتے ھوے مجھے قدر غصے سے کھا '"کیا بات کروں تمسے ھان؟ اج تمباری وجہ سے میں اپنی چھوٹی بھن سے نظرے ملانے کے قابل نھی رھی.. ساری رات میں اس نا بالغ بچی کے سامنے ننگی پری رھی جیسے کسی کوٹھے کی طوایف ھوں.. تمھاری وجہ سے میں نے صرف َایک سچ چھپانے ک لے سو جھوٹ بولے ھے..اور تم ابھی بھی میرے سامنے ڈھیٹوں کی طرح بیٹھے باتیں کر رے ھو.. اس سے تو بھتر تھا میں کسی بَاھر کے بندے سے اپنی پیاس بجھا لیتی کم سے کم ساری زندگی کے لے اپنے بھن بھاییوں کے سامنے شر مندہ تو نہ ھونا پرھتا"..

ابھی باجی اپنی بھراس نکال ھی رھی تھی کہ امی کمرے میں داخل ھو گی اور باجی نَارمل ھو گی..

امی کے سامنے وہ ایسے ھی دکھا رھی تھی جیسے انکے پاوں میں چوٹ لگی ھے..

امی نے میرے سامنے ناشتہ رکھا اور مجھسے مخَاطب ھو کر مجھے سختی سے حکم دیا کہ باجی کو ہسپتال لے کر جاوں اور ڈاکٹر سے چیک کرواوں..

میں نے جلدی سے ناشتہ کیا اور فورن تیار ھو کر باجی کے پاس چلا گیا انکو ھسپتال لے جانے ک لے..

باجی جانا تو نھی چاھتی تھی پر مجبوری تھی امی کی بات بھی نھی ٹال سکتی تھی.. باجی بھت مشکل سے ابھی بھی چل رھی تھی اور بھت زیادا تکلیف کے بعد موٹر سایکل پر میرےپیجھے بیٹھی اور ھم لوگ گھر سے روانہ ھو گے. ھم

ابھی کچھ دور ھی گے تھے کہ باجی نے مجسے پوچھا "ھم کھا جا رھے" میں نے بھی ڈھیٹ بن کر جواب دے دیا ڈاکٹر کے پاس".....

بَاجی نے بھت سخت مزاج میں مجھسے پھر پوجھا" مجھے صحی جواب دو ھم کھَا جا رھے ھے" میں نے پھر سے کھا" باجی اپکی تکلیف بھت زیادہ ھے ھمیں کسی ڈاکٹر کو دکھانا چاھے. باجی نے صاف جواب دے دیا کی انکو کسی ڈاکٹر کے پاس نھی جانا گھر چلے.. 

میں باجی کے لاکھ منا کرنے کے بعد بھی اپنے علاقے سے کافی دور ایک بھت چھوٹے سے پرایویٹ ھسپتال لے ایا... باجی نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے مجھے کچا چبا جاے گی..

میں باجی کو بھت مشکل سے وارڈ تک لے کر گیا اور وھا بیٹھی ایک موٹی لرکی سے ڈاکٹر کے متعلق پوچھا...اسنے ھمارا نام پتہ سب پوچھا جو میں نے غلط ھی بتایا؛ اسکے کچھ دیر کے انتظار کے بعد ایک ھٹہ کٹہ ادمی وارڈ بواے کے کپرے پھنے ھمارے سامنے ایا اور کھنے لگا اب"اپ اندر چلے جاے" ھم دونو بھن بھای کھرے ھوے کھرے ھونے کے دوران شاید باجی کا زور انکی پھدی پر گیا تھا کیوںںکہ انھو نے ھلکی سی سسکی لیکر اپنی چوٹ پر ھاتھ رگرا تھا..

وارڈ بواے نے جیسے ھی میری بھن کا یہ نظارو دیکھا اسکے منہ سے لارے ٹپکنے لگی.. میں باجی کو سہارا دیتا ھوا

ڈاکٹر کے کمرے تک لے گیا اور انکے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا.. ڈاکٹر شکل سے ھی بہت بھن چود لگ رھا تھا باجی کے بیٹھنے کے دوران انھو نے ٹیبل کا سہارا لے کر اگے کو جھک کر جھٹکے سے پیچھے کو بیٹھی تھی جس سے یقینن اسنے باجی کے مومے ھلتے ھوے دیکھ لے ھونگے..

جیسے ھی باجی بیٹھ گی ڈاکٹر نے باجی کی طرف گھری نظر ڈالی اور چھرے پر شیطانی مسکراھٹ لاتے ھوے پوجھنے لگا جی کیا مسلہ ھے (وہ باجی کے چلنے کے انداز سے سمجھ گیا تھا ھمارا مسلہ کیا ھے) میں اسکی نیت سمجھ رھا تھا.. اور باجی بھی اتنی بچی تو تھی نھی کہ مرد کی نظر کا اندازہ نا لگا سکے..

با جی بھی اسکے ارادے بھاپ گی اور اسکو مزید ترپاتے ھوے کرسی کے ساتھ ٹیک لگا کر مومے باھر کی طرف نکال لے اور ڈاکٹر سے مخاطب ھوتے ھوے کھنے لگی "مسلہ تو بہت برا ھے پتہ نھی اپ سلجھا بھی سکے گے یا نھی"

ڈاکٹر نے بھی باجی کا لھجا سمجھتے ھوے مزید کھل کر جواب دیا"اپ مسلا تو بتاے ھم نے تو بہت برے برے مسلے کچھ ھی دیر میں سلجھا دے" میں ان دونوں کے ایک سایڈ پر بیٹھا دونوں کی شکلیں دیکھ رھا تھا..جو اپنی باتوں میں اس قدر مصروف تھے کہ شاید میں انکو دکھنا بھی بند ھو گیا تھا.. باجی جو کہ ویسے تو بہت با پردہ پرھیزگار عورت تھی.. پر اج وہ بھی کسی غیر مرد سے کھل کر فلرٹ کروا رھی تھی.. ڈاکٹر نے پھر میری طرف دیکھا اور سیریس طریقے سے بات کرتے ھوے کھنے لگا مجھے مریض کے ساتھ اکیلا چھور دیں..

یہ سنتے ھی میرے پاؤں سے زمین نکل گی... میں نے فورن. نظر باجی کی طرف ڈالی جو اپنے دونو ھاتھ سر کے پیچھے لے جا کر اپنگ بالوں کو ترتیب دے رھی تھی اور باجی کا سینہ ھر حد تک باھر نکل ایا تھا.. میں نے ھلکی اواز میں پوچھا میں جاوں؟ باجی نے نظر انداز کرنے کے انداز میں نظر گھما دی جیسے انکو اب میرے ھونے یا نا ھونے سے کوی فرق ھی نھی پرھتا تھا... میں ٹایر والی کرسی کو پیچھے گھسیٹ کر کھرا ھوا اور بھاری قدموں کے ساتھ باھر کی طرف چل دیا..

جب میں نے دروازے پر پہنچ کر ایک اخری دفعہ باجی کی طرف دیکھا تو وہ باجی کے سامنے کھرا ھوا انکے دل کی دھرکن کو اپنے کانوں پر کچھ لگا کر چک کر رھا تھا.. سو طرح کے خیال میرے زھن میں ارھے تھے میں سمجھ گیا تھا اب اکیلے میں مزیر اگے کیا کچھ ھو سکتا ھے.. پر میں کر بھی کچھ نھی سکتا تھا کیوںکہ بَاجی کو یھا لانے والا ھی میں تھا اور سب سے پرھ کر میری اپنی بھن اسکا مکمل ساتھ دے رھی تھی وہ بھی میرے سامنے.. طلاق کے بعد اسکو کسی قسم کا ڈر نھی رھا تھا اب وہ ازاد پرندے کی طرح ھر گھونسلے پر جا کر بیٹھنا چاھتی تھی....

باھر کاؤنٹر کے قریب پہنچا تو وہ موٹی لرکی میری ھی طرف دیکھ کر ھنس رھی تھی... اسکو میری حالت کا اندازہ ھو گیا تھا... اور اب یقینن وہ میرے زھن میں چلنے والے خیالات کو سمجھتے ھوے مجھے اشارے سے اپنے پاس بلایا...اور اندر جس کمرے میں میری باجی اور ڈاکٹر اکیلے تھے وھا کا کیمرہ زووم کر کے مجھے دکھانے لگی.. اسنے میری طرف دیکھتے ھوے کھا "تم اسکے جو بھی لگتے ھو یہ لرکی کو اس درندے سے بچا لو ورنہ یہ لرکیوں کو کاٹ کھاتا ھے...

.جاری ھے

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)