میں بن گیا امی کا شوہر

0

 



میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں اور ابو نوکری کے لیے سعودی میں ہوتے ہیں۔ گھر پر صرف میں اور امی ہی ہوتے ہیں اور ابو سال میں صرف ایک مرتبہ دو ہفتے کے لیے آتے ہیں۔
یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں پندرہ سال کا اور امی بیالیس سال کی تھیں۔ میں نیا نیا بڑا ہوا تھا اور میرے دماغ پر سیکس اور سیکس کے نام پر امی سوار تھیں۔ امی تھیں بھی بڑی سیکسی۔ لمبی چوڑی اور بھرا بھرا میری توجہ کا مرکز ۳۶ سائز کے ممے اور کمر سے باہر نکلتی ہوئی موٹی موٹی گول گانڈ تھی۔ امی گھر میں ڈھیلے ڈالے شلوار قمیض پہنتی تھیں اور دوپٹہ کبھی نہیں لیتی تھیں۔ قمیض کا گلا ہمیشہ بڑا ہوتا کیونکہ امی کو گرمی بہت لگتی تھی۔ میں اکثر امی کے جھکنے پر مموں کا دیدار کرتا، پیچھے سے دیکھ کر گانڈ کا نظارہ کرتا اور لاڈ کے بہانے امی کے جسم اور مموں سے خود کو مسّ کر کے مزے لوٹتا۔
امی بھی اکیلی پڑی تھیں اور سیکس کے لیے بے قرار کیونکہ وہ ایک سیکس بم تھیں اور سال کے دو ہفتے امی کی چُدائی میں نے اچھے سے سُنی تھی۔ جب ابو آتے تھے تو امی خوب سجتی سنورتی تھیں، چکنا بدن گھر میں خوب دکھاتیں، مٹک مٹک کے چلتیں اور روز رات کو چُدواتیں۔ امی چُدواتے وقت خوب زور زور سے بولتیں اور آوازیں نکالتیں تھیں اور اسی لیے کمرے سے باہر مجھے سب سُنائی دیتا تھا۔ میں روز چُدائی کی آوازیں سُنتا، اور امی کے نام کی مُٹھ مارتا۔
مجھے معلوم تھا کہ امی کا یہ جسم اور ادائیں دکھانا ابو کے لیے تھا لیکن میں بھی نظارے کے مزے لوٹتا تھا۔ امی صوفے پر ٹیڑھی گانڈ سے بیٹھتیں، کھلے چاک کی قمیض جس میں شلوار کے اُپر ننگی کمر دکھے پہنتیں، ہلکے رنگ لی قمیض کے نیچے کالا برا پہنتیں، قمیض اوپر کر کے شلوار کا نظارہ کرواتیں اور چال میں ایک لچک آ جاتی۔ ابو بھی امی لی تعریف کرتے رہتے۔
ابو کے جانے کے بعد جب امی اُداس ہو گئیں تو میں نے موقع سے فائدہ اٹھانے کا پلان بنایا اور امی کا بہت خیال رکھنا شروع کر دیا۔ امی کو گلے لگاتا، برا پر اوپر سے ہاتھ پھیرتا، گال پر کس کرتا، چپک کر بیٹھتا تو نوٹ کرتا کہ امی کے بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ امی کے پاس کافی برا تھے اور میں انہیں سونگھتا اور مست ہوتا۔ ایک رات میں نے امی سے کہا کہ آج میں آپ کے پاس ہی سو جاتا ہوں کیونکہ میرے حساب سے اُسی روز امی کے پیریڈ ختم ہوئے تھے اور امی فل مست چارج ہونی چاہیے تھیں۔ میں امی کے برابر میں لیٹ گیا، امی نے پنک نائنٹی پہنی تھی اور اندر برا بھی نہیں تھا۔ نیچے کوئی شلوار نہیں تھی اس لیے پنڈلیاں تک ننگی نظر آ رہی تھیں۔ میں نے تھوڑی دیر بعد امی سے کہا کہ نیند نہیں آ رہی تو امی بولیں مجھے بھی۔ میں نے پوچھا کیوں تو کہنے لگیں بس جسم میں درد سا ہو رہا ہے۔ میں بستر پر نیم دراز ہو کر امی سے چپک کر امی کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا اور امی کو ماتھے پر کس کر لیا۔ میں نے پوچھا کہاں درد ہے تو امی بولیں کمر میں۔۔۔ میں نے کہا کہ میں مساج کر دیتا ہوں تو امی نے منع کیا۔ میں نے کہا کے میں اپنی اتنی اچھی ماں کا خیال ضرور رکھوں گا۔ میرے ضد کرنے پر امی نے کہا کہ اُنہوں نے صرف نائنٹی پہنی ہوئی ہے اور اب اُن کی ہمت نہیں ہورہی کہ چینج کر کہ کچھ اور پہنیں مساج سے پہلے۔ اس پر میں نے مصنوعی غصے سے کہا کہ اب میں اتنا غیر ہو گیا توامی نے مُسکرا کے کہا کہ ایک تو ہی تو اپنا ہے اور تجھ سے بھلا کیا چھُپا ہے، چل کر دے مساج۔
میں نے امی کو کراس میں کروٹ کرکے دوسری طرف منہ کرنے کا کہا اور پھر نائنٹی کو اوپر اٹھانا شروع کیا۔ سلکی نائنٹی آرام سے اوپر ہوئی اور امی کے چوتڑوں سے ہوتی ہوئی کمر تک آ گئی۔ امی کی کمر، چوتڑ، رانیں، پنڈلیاں اور سفید پاؤں میرے سامنے ننگے پڑے تھے۔ میں نے آہستہ آہستہ کمر پر مساج کیا اور تھوڑی ہی دیر میں امی سے کہا کے اس نائنٹی کو اتار ہی دیں خواہ مخاہ بیچ میں آ رہی ہے۔ امی بولیں، اب کیا ماں کو پورا ننگا کرے گا؟ میں نے کہا کے ہاں اگر ماں اپنی خوشی سے ننگی ہو جائے تو ضرور کروں گا!!! امی کے جواب مے مجھے چونکا دیا جب انہوں نے یہ کہتے ہوئے نائنٹی اتار پھینکی کی بیٹے کی خوشی ہی میں میری خوشی ہے۔ اب امی مادرذاد ننگی میری جانب پیٹھ کیے لیٹی تھیں۔ میں مساج کرتا ہوا امی کے اوپر نیم دراز ہوگیا اور پوچھا، آپ ابو کو بہت مس کر رہی ہیں نہ؟ امی نے کہا،ہاں۔ میں نے کہا کہ میں آپ کی تکلیف سمجھ سکتا ہوں، آپ جوان ہیں، خوبصورت ہیں اور آپ کی کچھ ضرورتیں ہیں۔ امی نے میری شکل دیکھی اور بولیں،میرا بیٹا کتنا بڑا ہوگیا ہے! میں نے ہمت کر کے امی کے ممے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ امی میں آپ کی ضرورت پوری کروں گا۔۔۔۔امی نے سسکاری لیتے ہوئے صرف اتنا کہا، مگر یہ گناہ ہے۔ میں نے کہا کہ اور اگر آپ نے کہیں باہر یہ گناہ کر لیا تو پھر؟ میں آپ کا اپنا ہوں، گھر میں ہوں اور ضرورت صرف سیکس نہیں، محبت و الفت بھی ہے جو کہ ہمارے درمیان پہلے سے موجود ہے۔
میں نے امی کو اپنی جانب پلٹایا، امی کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر صرف اتنا کہا۔۔۔۔ آئی لو یو امی ۔۔۔۔ امی نے دھیرے سے اپنی آنکھیں بند کیں اور میں نے اپنے ہونٹ امی کے ہونٹوں پہ رکھ دیے۔۔۔ امی نے اپنے ہونٹوں کو ڈھیلا چھوڑا اور میں نے امی کا اوپری ہونٹ اپنے ہونٹوں میں دباتے ہوئے پہلا فرنچ کس سٹارٹ کر دیا۔ کوئی تیس سیکنڈ کے فرنچ کس کے بعد جب امی نے آنکھیں کھولیں تو تشکر اور محبت اُن کے چہرے سے صاف عیاں تھی۔ میں نے امی کے ننگے بدن کو اپنے سے لپٹا لیا، امی نے اپنے ہاتھ میری کمر کے گرد حمائل کرتے ہوئے میرے کان میں آہستہ سے کہا، جو کرنا ہے کر لے، میں سر سے پیر تک تیری ہوں۔ میں امی سے الگ ہوا اور ساتھ رکھی چادر امی کے ننگے جسم پر پہنائی، امی سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھنے لگیں تو میں نے کہا کہ میری خواہش صرف آپ کا جسم نہیں، بلکہ روح بھی ہے۔ ہماری محبت پاکیزہ ہے اور آج ہم ہمیشہ کے لیے ایک ہونے جا رہے ہیں، یہ لمحہ میرے لیے تو یادگار ہے ہی لیکن آپ کے لیے بھی یہ ایک نہ بھولنے والا وقت پے کہ کب آپ اپنی زندگی میں دوسری بار اپنا آپ مکمل طور پر کسی مرد کو سونپ رہی ہیں۔ ہم ان لمحات کو ایسے ہی نہیں گزر جانے دیں گے بلکہ یہ ہماری سہاگ رات ہے جسے ہر ممکن یادگار ہم ضرور بنائیں گے۔ امی نے مُسکرا کر مجھے ہونٹوں پر کس کیا اور پوچھا، تو کیسے منانا پسند کریں گے آپ اپنی سہاگ رات؟ میں نے کہا کہ آپ ہلکا سا میک اپ کر لیں، بالیاں، ہلکی سونے کی چین اور ہاتھوں میں سونے کے دو دو کڑے پہن لیں اور اس ننگے جسم پر اپنی شادی کے دوپٹّے سے گھونگٹ لے کر بیٹھ جائیے، جب تک میں شیو بنا کر آتا ہوں۔
میں اپنے واش روم سے شیو بنا کر واپس آیا تو میری دلہن میری ہدایات کے مطابق گھونگٹ میں تیار بیٹھی تھی۔ میں نے دروازہ بند کر لے کنڈی لگائی، ٹیوب لائٹ بند کر کے دونوں سائڈ لیمپ آن کر دیے اور امی کے برابر جا کر بیٹھ گیا۔ میں نے امی کا گھونگٹ اُٹھایا اور اپنی سپورٹس سائیکل لی چابی امی کو یہ کہتے ہوئے پکڑائی کہ آج میرے پاس یہ ہی ایک ملکیت ہے کہ جو میں اپنی دلہن کو منہ دکھائی میں دیتا ہوں۔ امی بے ساختہ ہنس پڑیں اور مجھے برہنہ سینے سے لگا کر دیوانہ وار پیار کرنے لگیں۔ میں نے امی کا ڈوپٹہ اُتار کر نیچے رکھ دیا اور کہا کے اس سے پہلے کہ ہم میں میاں بیوی بن جائیں، ضروری ہے کہ آئیندہ کی زندگی کے تمام اصول ابھی طے کر لیں کیونکہ ہمارے آپسی رشتے شدید تبدیلی سے گزرنے والے ہیں۔ امی نے کہا کہ بولو کیا کہنا چاہتے ہو۔ میں نے کہا کے دنیا کے سامنے ہم ماں بیٹے ہی رہیں گے لیکن جب کوئی نہ ہو تو مکمل میاں اور بیوی، امی بولیں ٹھیک ہے۔ میں نے پوچھا آپ مجھے کیا کہیں گی؟ تو امی بولیں جان کہوں گی۔ اس پر میں نے کہا کہ نہیں، جان تو آپ ابو کو کہتی ہیں۔۔۔۔ امی بولیں لیکن اب تو تم میری جان ہو۔ میں نے کہا کہ نہیں امی، آپ آج بھی ابو کی بیوی ہیں، آپ پر اُن کا حق ہے۔ امی نے کہا، تو کیا تم مجھے ابو کے ساتھ شیئر کر لو گے؟ میں نے کہا کہ مجھے بُرا تو ضرور لگے گا کی میری محبت کسی اور کے سامنے ننگی ہو، ٹانگیں پھیلائے، اور بستر گرم کرے لیکن وہ بھی تو آپ کے شوہر ہیں، وہ آپ دیکھنے، دبانے اور چودنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ امی بولیں تو ٹھیک ہے، میں تمہیں جان نہیں بلکہ جانو کہوں گی لیکن تم کیا کہو گے مجھے!!!!! میں نے مُسکراتے ہوئے کہا کہ وہی کہوں گا جو کہتے ہوئے ہمیشہ مُٹھ مارتا رہا ہوں یعنی چکنی۔ امی ہنس کر بولیں، اب میں کہاں رہی چکنی! میں نے مموں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، صرف چکنی نہیں، تجربہ کار چکنی۔۔۔۔ میں نے کہا، چل چکنی، کھڑی ہو جا، امی حیرت سے بولیں، سب آپ جناب بھول گیا! تو میں بولا اب میں شوہر ہوں اور تو بیوی، آج سہاگ رات ہے،اور میری چکنی تو تجربہ کار چُدکڑ ہے اس لیے مست چُدائی کروانا تیری زمہ داری ہے۔ امی میرے سامنے الف ننگی کھڑی ہو گئیں، لمبا قد، چوڑا سینہ، بڑے بڑے ممے، ہللللکی سی توند، گلابی چوت، موٹی موٹی ران اور پنڈلیاں اور اُس پر قیامت ڈھاتی باہر نکلتی، موٹی گانڈ۔۔۔۔ میں نے جھٹ امی کو گھما کر گانڈ کو چومنا شروع کر دیا، پھر دوبارہ امی کو گھمایا اور اپنا منہ مموں میں دے کے چوسنے کی کوشش کرنے لگا۔ امی بھی مست ہو گئیں تھیں اور میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے آہ جانو، آہ جانو کی آوازیں نکال رہی تھیں۔
میں امی کے مموں کو چوس کر دودھ نکالنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا اور دونوں ہاتھوں سے امی کی باہر نکلی گانڈ کو دبا کر مزے لوٹ رہا تھا۔ کچھ دیر امی کو دبانے کے بعد میں نے امی کی جانب دیکھ کر اپنے لنڈ کی طرف اشارہ کیا، امی نے مجھے کہا کہ کھڑا ہو جا اور اگلے ہی لمحے امی زمین پر ہگنے کے اسٹائل میں بیٹھ گئیں۔ امی دونوں ہاتھوں سے میرے لنڈ کو سہلانے لگیں اور میں نے امی کے کٹے ہوئے بال اُن کے چہرے سے ہٹا کر اُن کا سر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ میں نے کہا کہ چل چکنی، اب شروع ہو جا چوپا لگانا تو امی نے ایک ادائے دلبرانہ کے ساتھ میرے ٹوپے پر زبان پھیرنی شروع کر دی۔ مجھے معلوم تھا کہ امی ہر چُدائی میں ابو کا چوپا ضرور لگاتی تھیں اور چوپے میں پورا لنڈ اندر تک لے لیتی تھیں کیونکہ لنڈ حلق میں جانے کی آوازیں کمرے سے باہر تک صاف سُنائی دیتی تھیں۔
میں: چکنی، پورا لنڈ منہ میں لے نا
امی: پورا منہ میں لیا تو تُو فوراً جھڑ جائے گا
میں: ابو کا تو پورا منہ میں لے کر حلق تک لے جاتی ہے!
امی: تجھے کیسے پتا؟
میں: دو سال پہلے سے تیری ہر چُدائی دروازے کے دوسری طرف سے سُنی ہے میں نے
امی: کتنا حرامی ہےتو، اپنی ماں کے چُدنے سے مزے لیتا تھا!
میں: اور تُو کتنی بڑی چُدکڑ ہے جو اپنے ہی بیٹے سے چُدوا رہی ہے!
امی: ہنستے ہوئے، ہاں ہوں نہ میں چودو بلّے کی چُدکڑ ماں
میں: ٹٹے بھی چوس بھوسڑی کی۔۔۔ چوپے لگا لگا کے ہونٹ موٹے کر لیے ہیں اور اب کنواری لڑکی کی طرح ایکٹنگ کررہی ہے
ماں: تیرے لیے تو کنواری ہی ہوئی نہ! سہاگ رات ہے آخر، کچھ تو شرمانے دے مادر چور
میں: بہت لنڈ چوس لیا تُو نے، آجا بستر پہ
امی: کیوں؟ چودے گا مجھے؟
میں: تو اور!!! ننگی کھڑی چوپا لگا رہی ہے میرا، اب چودوں بھی نہیں کیا!
امی: چود دے۔۔۔۔۔
یہ کہہ کر امی بستر پہ لیٹ گئیں اور میں امی کے اُوپر لیٹ کر نرم نرم، موٹی موٹی ماں کے مموں اور پیٹ پر اپنا جسم مسلنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں امی گرم ہو گئی۔۔
امی: جانو بس کر، اب ڈال دے
میں: ارے چکنی زرا مولٹی فوم کا مزہ تو لینے دے
امی: مادرچود کتنے مزے لے گا!
میں: ساری رات مزے لوں گا اس تھولتھلے جسم کے، اب ننگی رہنے کی عادت ڈال لے جانم
امی: تو کہے تو تیری ماں ساری عمر ننگی گھومتی رہے
میں: بہت اچھی طرح جانتا ہوں تیری ٹھرک کو۔۔۔۔ ننگا ہونے کا تو بہت ہی شوق ہے تجھے، ہر جگہ پیٹ اور ممے دکھاتی ہے سب کو
امی: ہائے اللہ، تُو تو سب نوٹ کر کے بیٹھا ہوا ہے
میں: یہی دیکھ دیکھ کر تو چودنے کا من بنا تجھُکو
امی: تو چود ڈال نہ، کب سے چود تڑپ رہی ہے
یہ کہہ کر امی نے ٹانگیں اوپر کیں اور میں نے لنڈ امی کی جھانٹوں بھری چوت پہ رکھا اور دھکا دے کر امی کے اندر پیل دیا۔۔۔ امی کے منہ سے اچانک نکلا “آہ۔۔۔ چُد گئی”۔
میں: پہلی دفعہ چُدی ہیں کیا!
امی: تیرا لنڈ تو پہلی مرتبہ ہی لیا ہے نہ
میں: کتنے لنڈ لے چُکی ہی میری چکنی آج تک؟
امی: تُو کیا مجھے رنڈی سمجھتا ہے! صرف ابو کا لیا ہے اور اب تیرا دوسرا لوڑا ہے جو اس جنت کے اندر گیا ہے
میں: تو سب کو جسم کیوں دکھاتی پھرتی ہے؟
امی: وہ تو گرمی ہے اندر کی اس لیے ایکسپوز کرتی ہوں ورنہ چدوایا آج تک کسی اور سے نہیں ہے میں نے
انہیں باتوں کے بیچ میں امی کی ٹانگیں اُٹھائے اُنہیں چودے جا رہا تھا۔ امی کے ممے ہر دھکے سے اُوپر کی طرف ہوتے اور میں اور جوش میں گھسے مارتا
امی: اور زور سے، شاباش میرے راجہ، چود اپنی ماں کو
میں: چود بھوسڑی کی، آج تو تیرا بھوسڑا بنا دوں گا
امی: بنا دے، چود دے مجھے، ننگی پڑی ہوں تیرے نیچے
میں: چود تو رہا ہوں رنڈی، تیری تو ماں کو بھی چود دوں گا
امی: مادر چود، مجھے چود، اماں کو کیوں چودنا چاہتا ہے!
میں: اصل پیس تو تیری اماں ہی ہیں جو پانچ پانچ رنڈیاں پیدا کیں ہیں، سب یہ بڑے بڑے ممے لیے گھومتی ہیں
امی: بھڑوے، تو صرف مجھے چودے گا، خبردار جو اماں کی طرف دیکھا
میں: تو جب میں بولوں چُدوا لیا کر مجھ سے ورنہ کسی دن تیری ماں کو ننگا اسی بستر پہ لیٹا ہوا پائے گی
امی: بہت جوانی ہے تجھ میں! تو چود نہ مجھے، پورا کر سکتا ہے مجھے! بیالیس سال کی شادی شدہ عورت کو پورا کرنا آسان نہیں میرے ٹھوکو۔۔۔۔ چوس ڈالوں گی تجھے
امی فل گرم تھیں اور میں بھی اپنی پہلی چُدائی خوب اینجوائے کر رہا تھا کہ مجھے لگا میں چھوٹنے والا ہوں۔
میں: امی میں چھوٹنے والا ہوں
امی: میں بھی۔۔۔۔ بس دس سیکنڈ اور
میں: منی لے گی؟
امی: ہاں، ساری اندر ہی ڈال دے، بھر دے اپنی ماں کی چوت
اور پھر میں اور امی ایک ساتھ چھوٹے۔۔۔ امی کا جسم اکڑ سا گیا جبکہ میں نے ساری منی چوت کے اندر ہی نکال دی۔ میں نڈھال ہو کر امی کے اوپر ہی گر گیا۔ سانسیں بحال ہوئیں تو امی نے مجھے بےتحاشہ چومنا شروع کر دیا، امی کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اُن کی زندگی کی دوسری سہاگ رات پہ اُن کے دوسرے شوہر نے اُنہیں اچھی طرح مطمئن کر کے جسم کی آگ بجھا دی تھی اور سچ تو یہ ہے کہ میں خود ڈرا ہوا تھا کہ معلوم نہیں میں بستر میں اپنی بیالیس سالہ ماں کو مطمئن کر بھی پاؤں گا یا نہیں لیکن اب سب کچھ بہترین ہو گیا تھا اور ہم دونوں ننگے بستر پہ لیٹے ایک دوسرے کے جسم پہ ہاتھ پھیر رہے تھے۔
میں: امی
امی: بول میری جان
میں: میں نے سارا مال آپ کے اندر ہی چھوڑ دیا ہے، کہیں آپ پریگننٹ تو نہیں ہو جائیں گی!
امی: فکر نہ کر میرے جانو، میں نے پلز کھائی ہوئی ہیں۔ تیرے ابو چار پانچ دن پہلے ہی تو گئے ہیں اور پلز کا اثر ایک ہفتے تک رہتا ہے۔۔۔ اتنی جلدی بچہ نہیں کروں گی میں
میں: اتنی جلدی سے کیا مطلب ہے آپ کا؟
امی: مسکراتے ہوئے، مطلب یہ کہ تیرے بچے کی ماں تو میں نے بننا ہی ہے لیکن ہم بچہ باقائدہ پلان کر کے کریں گے
میں: لیکن آپ کو بچہ کیوں چاہیے؟
امی: کیونکہ ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ماں بنے اور تیری تو میں اب بیوی ہوں اور ویسے بھی مرد کو باندھ کے رکھنے کا سب سے اچھا طریقہ بچہ کر لینا ہی ہے سو بچہ تو میں تجھ سے لے کر ہی رہوں گی۔ امی بستر سے اُٹھیں اور بولیں، تجھے کچھ چاہیے کھانے کے لیے؟ میں نے امی کی ننگی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر کہا، ہاں اگر میٹھے میں ایک موٹی تازی عورت ہو جائے تو۔۔۔۔
امی: ابھی تو کھائی ہی موٹی عورت تُو نے!
میں: ہاں تو دوبارہ کھانے کا دل کر رہا ہے
امی: چپ کر، ایک دفعہ چود لیا رات میں، بہت ہے
میں: آپ اپنی پہلی سہاگ رات پہ کتنی مرتبہ چُدی تھیں
امی: دو بار، لیکن تب میں جوان تھی، اب اتنی طاقت کہاں!
میں: لیکن میں تو جوان ہوں نہ۔ مجھے تو دوسری بار بھی چودنا ہے۔۔۔۔ یا تو آپ چُدیں یا پھر اپنی اماں کو بلائیں چُدنے کے لیے
امی: اماں کو کیوں بلاؤں؟
میں: کیونکہ آپ ہی نے تو کہا تھا کہ میں خواہش پوری کروں گی جتنی بار تو کہے گا
امی: ارے میرے شہزادے میں کوئی جوان لڑکی تھوڑی ہوں۔۔۔ بیالیس سال عمر ہو گئی ہے، اتنی ہمت تھوڑی ہے کہ ایک رات میں دو مرتبہ تیرا جوان لنڈ اپنے اندر لے لوں
میں: میری پیاری امی، بیالیس سال تو چُدنے کے لیے عورت کی بہترین عمر ہوتی ہے، ایک مرتبہ اور ٹرائی تو کریں ۔۔۔ آپ بس لیٹ جائیں، باقی کام میرا ہے۔ میں نے زبردستی امی کو بستر پہ گرایا اور اوپر چڑھ کر اپنا لنڈ امی کے منہ میں دے دیا۔
میں: چوس، چوس چکنی، کھڑا کر ہتھیار کو اپنی چوت کے لیے
امی: اوں۔۔۔۔ کہاں منہ میں گھسا رہا ہے!
میں: ارے چوت میں بھی گھسا دوں گا میری موٹی رانڈ پہلے چوپا تو لگا
امی حلق تک منہ میں لے کر چوپا لگاتی ہوئی سیکسی آوازیں نکالتی رہیں اور جیسے ہی میرا لنڈ ٹائٹ ہوا میں نے جھٹ پٹ اسے امی کی چوت میں پیل دیا۔ چوت ابھی کچھ دیر پہلے ہی چُدنے اور فارغ ہونے کے سبب کافی گیلی اور کھُلی ہوئی تھی لہذا لنڈ پورا اندر جا کر بچہ دانی کو لگا اور امی کا زوردار چیخ کمرے میں گونجی “آہ۔۔۔۔
میں:امی کا ممہ منہ میں لیتے ہوئے، کچھ نہیں ہوتا امی، مزہ لیں چُدائی کا
امی: آہ، بہت درد ہو رہا ہے جان، پلیز مجھے چھوڑ دو
میں: ایسے کیسے چھوڑ دوں! سہاگ رات، ننگی عورت اور وہ بھی سگی ماں۔۔۔۔ نصیب والوں کو ملتی ہے یہ خوشی
امی: کل پھر چود لینا، ابھی بس کر دو، چوت جل رہی ہے اندر سے
میں: جان چودنے دے نہ
امی: اچھا جلدی فارغ ہو جا
میں: دوسری دفعہ ہے، دس پندرہ منٹ تو لگیں گے ہی میری چکنی امی
امی: پلیز ایسے نہ کر، میں مر جاؤں گی
میں: نہیں مرتیں، بہت شوق تھا نہ چُدائی کا، اب چُدیں
امی اسی طرح پندرہ منٹ تک میری منت کرتی رہیں اور روتی رہیں لیکن میں بھی مسلسل لنڈ کے گھسے امی کی چوت لے اندر پیلتا رہا اور آخر کا جب منی چھوڑی تو امی ایکدم چیخ پڑیں کیونکہ گرم گرم مواد نے اُن کی چوت کو اور بھی جلا دیا تھا۔ میں بھی نڈھال ہو کر برابر میں ہی لیٹ گیا جبکہ امی تو ایسا لگ رہا تھا کہ بےہوش ہی ہو گئی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد امی اُٹھیں، اپنی چوت صاف کی اور باتھ روم چلی گئیں، امی کی چال بالکل ایسے بدل گئی تھی جیسے نئی نویلی دلہن کی سہاگ رات چُدائی کے بعد بدلتی ہے۔ حالانکہ امی لاتعداد مرتبہ چُد چکی تھیں لیکن پھر بھی ایک نیا اور وہ بھی جوان لنڈ لینے کا اثر امی کی چال پر صاف ظاہر تھا۔ جب امی باتھ روم سے نکلیں تو باریک دھاگے والی بلیک پینٹی پہنے ہوئے تھیں جبکہ اُوپر ایک سفید رنگ کی ڈھیلی سی ٹی شرٹ تھی۔ امی آ کر میرے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئیں، امی نے شاور لیا تھا اور گیلے بالوں اور ننگی ٹانگوں کے ساتھ تازہ تازہ چُدائی کا روپ امی کو اور بھی سیکسی بنا رہا تھا۔ ہم بستر میں ساتھ لیٹ گئے اور تھوڑی ہی دیر میں نیا جوڑا نیند کی وادیوں میں گم تھا۔
اب ہم مکمل طور پر میاں بیوی کی زندگی گزار رہے تھے، نئے شادی شدہ جوڑے کی طرح ہم روز چُدائی کرتے تھے بلکہ گھر میں امی کے لیے میرا حکم تھا کہ کم سے کم کپڑے پہنیں اور کمرے میں تو میں اکثر امی سے ننگا ڈانس بھی کرواتا تھا اور اس ڈانس کی ویڈیو اپنے موبائل پر بناتا تھا۔ میں اکثر ہماری چُدائی کی ویڈیوز بھی اپنے موبائل سے شوٹ کرتا اور پھر اُنہیں بڑے ٹی وی پر چلا کر لُطف اندوز ہوتا۔ ایک اور شوق جو میرا اور امی کا مشترکہ تھا وہ امی کے بدن کی نمائش کا تھا۔ امی کو ایکسپوزنگ کر کے دوسروں کے جذبات برانگیختہ کرنے میں بہت مزہ آتا تھا اور مجھے بھی اچھا لگتا تھا جب امی اپنے چکنے جسم کی نمائش کرتیں اور توجہ کا مرکز بن جاتیں۔ میں نے تقریبات میں امی کو ساڑھی پہنانا شروع کر دیا جس میں زیادہ سے زیادہ پیٹ ننگا ہو، آستینیں نہ ہوں،پیٹھ کھلی دکھائی دے اور گلا اتنا بڑا ہو کہ مموں کی لکیر ہر کوئی دیکھ سکے۔ جب سب مڑ مڑ کر امی کو ایسے لباس میں دیکھتے تو مجھے بہت لُطف آتا۔ ایک مرتبہ ہم ایک شادی میں گئے تو میں نے امی کو اپنے ہاتھوں سے اسی طرح تیار کرا، شادی کی تقریب میں امی مجھ سے الگ بیٹھیں تھیں کہ اچانک مجھے امی میری جانب آتی دکھائی دیں، امی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ آتے ہی بولیں کہ چلو، گھر چلو فوراً۔ میں فوراً نکل پڑا، امی روہانسی ہو رہی تھی اور کچھ نہ بولیں، گھر پہنچ کر میں نے امی کو اپنی بانہوں میں لیا اور پوچھا تو امی بولیں کہ وہ دلہن کے کمرے کی طرف جا رہیں تھیں تو وہاں گلی میں اندھیرا تھا تو دو بندوں نے امی کی گانڈ پر ہاتھ پھیر دیا اور ایک نے تو اتنی زور سے انگلی کی کہ پوری انگلی امی کی گانڈ کے اندر چلی گئی۔ امی بتاتے ہوئے رونے لگیں کہ یہ سب ایسے کپڑوں کی وجہ سے ہوا ہے تو میں نے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں اگر کوئی ہاتھ پھیر گیا، آخر آپ چکنی بھی تو اتنی زیادہ ہو۔ آج مجھے امی پہ بہت پیار آیا کہ جسم کی نمائش اپنی جگہ لیکن چھونے کی اجازت اور بستر کا مزہ امی صرف میرے اور ابو کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ میں نے امی سے ننگا ہونے کو کہا اور ننگا کرنے کے بعد امی کو گھوڑی بننے کی فرمائش کی۔۔۔ امی کو گانڈ مروانے میں مزہ نہیں آتا تھا لیکن میں تو شروع ہی سے امی کی موٹی اور باہر نکلی ہوئی گانڈ کا عاشق تھا لہذا مجھے خوش کرنے کو امی مجھ سے ریگولر گانڈ مرواتی تھیں۔ آج ایک بار پھر میں نے رج کر امی کی گانڈ ماری تا کہ اُس حرامی کی کری ہوئی انگلی کا درد بھول کر امی میرے لنڈ کی تپش اپنی گانڈ میں محسوس کرنا شروع کر دیں۔ گانڈ مروا کر امی کی چال بالکل تبدیل ہو جاتی تھی.

اور مجھے وہ چال بے انتہا پسند تھی، امی ٹانگیں کھول کر اور گانڈ باہر نکال کر چلتیں اور مجھے مست کر دیتیں۔ آج بھی گانڈ مروانے کے بعد امی بستر پہ اُوندھی پڑی تھیں اور میری منی امی کی گانڈ کے اندر اور باہر ٹپک رہی تھی۔ میں نے امی کی بڑی سی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
میں: مزہ آیا میری چکنی؟
امی: بہت ظالم ہے تو، پہلے چود چود کے میرے کولہے باہر نکال دئیے اور اب پیچھے سے ڈال کر سائیڈیں بڑی کر رہا ہے
میں: ارے امی آپ کی گانڈ ہے بھی تو بہت ٹائٹ،ابو سے تو مرواتی نہیں تھیں آپ اس لیے کنواری گانڈ ملی ہے مجھے تو لنڈ تو گھسیڑوں گا ہی
امی: اور میرا کیا! اس عمر میں اتنی چودائی برداشت کرنا کیا کم ہے جو پیچھے سے بھی لیتا ہے تُو میری
میں: اگر آپ کو پسند نہیں ہے تو بتا دیں، نہیں چودا کروں گا آپ کو
امی: ارے نہیں جانو، تیرا حق ہے مجھ پہ، میرے جسم پہ۔۔۔۔ تو نے ہی تو اس کی پیاس بجھائی ہے، بھلا تجھے کیسے روک سکتی ہوں میں!!!! اچھا بتا، دودھ پیے گا؟
میں: دودھ دینے والی گائے بن جائیں فوراً
امی: جھک کر اپنے ممے میرے منہ پر لٹکاتے ہوئے، پی لے میرے ٹھوکو، چوس اپنی ماں کے دودھ کو۔۔۔ آہ ہ ہ ہ۔
میں: چلیں اب دوبارہ گھوڑی بن جائیں
امی: ابھی تو گانڈ ماری ہے تو نے میری، کچھ تو رحم کر اپنی ماں پر
میں: ارے گانڈ نہیں ماروں گا، چوت میں ڈالوں گا لیکن گھوڑی بنا کر
امی: گھوڑی بن کر چدوانے میں مزہ نہیں آتا، لگتا ہے میں رنڈی ہوں
میں: بستر میں تو رنڈی ہی ہے میری چکنی، روز دو شاٹ تو لے ہی لیتی ہے
امی: (گھوڑی بنتے ہوئے) چل اب ڈال دے
میں نے امی کی گانڈ پہ ہاتھ پھیرا، لنڈ کو چوت کے سوراخ پہ سیٹ کیا اور اندر پیل دیا، لنڈ پورا امی کی کھلی چوت کے اندر چلا گیا۔۔۔ امی نے مسکرا کر گردن موڑ کر مجھے دیکھا اور بولیں
امی: چود دے اپنی ماں کو، سارے سوراخ کھول دیے ہیں تُو نے میرے
میں زور زور سے دھکے لگا رہا تھا اور ہر دھکے سے امی کی کے دونوں چوتڑ زور سے ہلتے اور مجھے اور بھی مست کر دیتے۔ کمرہ پٹ پٹ اور چِپ چپ کی آوازوں سے گونج رہا تھا اور تھوڑی ہی دیر میں ان آوازوں میں امی کی مست آوازیں بھی شامل ہو گئیں جو کہ چُدائی کا مزہ لے رہی تھیں
امی: آہ، اور چود، اور زور سے، پھاڑ ڈال
میں: نہیں چھوڑوں گا تجھے، اتنا چکنا بدن لے کر گھومتی ہے، تیری چوت کو پھاڑ کر تیری گانڈ کے سوراخ سے ملا دوں گا
امی: تو پھاڑ نہ مادر چود، ماں کو رکھیل بنا کر چودتا ہے
میں: تو رکھیل ہے میری، ممے دکھاتی تھی نہ مجھے، اب پورا ننگا دیکھتا ہوں تجھے
امی: میں چھوٹنے والی ہو جانو
میں: تو چھوٹ جا۔۔۔
امی: تو بھی فارغ ہو، چھوٹنے کے بعد نہیں چودنے دوں گی، بہت درد ہوتا ہے
میں: چپ کر رنڈی، جب تک چاہوں گا چودوں گا تجھے
امی: آہُ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔ میں چھوٹ گئی۔۔ بس کر دے
میں: (امی کے چوتڑوں پہ زور سے ہاتھ مار کر) چُد نہ بھوسڑی کی، اب کیا تیری ماں کو چودوں میں
امی: پلیز جان بس کر، میں مر جاؤں گی، پلیز
میں: تو بول تیری ماں بھی رنڈی ہے
امی: ہاں وہ رنڈی ہے
میں: مجھ سے کب چُدے گی تیری ماں!
امی: جب تو کہے گا چُدوا دوں گی، ابھی مجھے چھوڑ دے
میں: تھوڑا اور برداشت کر حرامزادی
امی: میں مر جاؤں گی
میں: بس۔۔۔ یہ لے، پوری منی اندر لے لے
اور یہ کہتے ہوئے میں چھوٹ گیا اور امی کی پیٹھ پر ہی گر گیا
امی کی بس ہو گئی تھی اور ساڑھے پانچ فٹ کی امی میرے ساتھ بستر پر ننگی، نڈھال پڑی تھیں۔ میں نے امی کو کس کیا، جسم پہ ہاتھ پھیرا اور بولا
میں: آج ایسے ہی سو جاؤ
امی: کچھ تو پہن لینے دے۔۔۔۔ بالکل الف ننگی ہوں
میں: بستر میں ننگی ہی اچھی لگتی ہیں آپ
امی: نہ بابا نہ، رات میں تیرا پھر سے کھڑا ہو گیا تو پھر چڑھ جائے گا مجھ پر۔۔۔ اب ایک رات میں تیسری چُدائی کی ہمت نہیں ہے مجھ میں
میں: (ہنستے ہوئے) فکر نہ کر میری چکنی، تُو رنڈی تھوڑی ہے جسے پیسے دے کر ایک رات کے لیے لایا ہوں کہ بار بار چودوں، تُو تو بیوی ہے اب میری، تیری ہر رات میری ہے، ابھی تو تیرے اس جسم نے بہت مزے دینے ہیں مجھے۔ اتنا تو خیال رکھوں گا میں تیری اس بڑی اور کھُلی ہوئی چوت کا
امی: تو پھر سونے دے، بار بار ہاتھ کیوں پھیر رہا ہے!
میں: مزے تو لوں گا ہی نہ چکنی
پھر ہم دونوں سو گئے۔ صبح میں اُٹھا تو امی بستر پہ نہیں تھیں، میں کچن میں گیا تو امی ننگی کھڑی ناشتہ بنا رہی تھیں۔ میں نے گانڈ میں انگلی دی تو امی کی چیخ نکل گئی۔۔۔ میں نے امی کو سینے سے لگا لیا اور مارنگ فرنچ کس کیا، امی بھی خمار میں تھیں اور امی نے ایک ٹانگ اُٹھا کر سلیب پر رکھی، یہ میرے لیے اشارہ تھا کہ امی مارنگ سیکس کے لیے تیار ہیں۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے امی کی چوت میں اپنا لنڈ ڈال دیا اور ہم نے کچن ہی میں چُدائی کا مزہ لوٹا۔ چُدائی کے بعد ہم نے ناشتہ کیا اور میں ٹی وی دیکھنے بیٹھ گیا۔ تب ہی امی میرے برابر میں آ کر بیٹھ گئیں۔ امی نہا کر آئی تھیں، بال گیلے تھے اور پاجامہ اور ایک ڈھیلی ڈھالی، کھلے گلے کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔
امی: مجھے تجھ سے بات کرنی ہے
میں: بولیں امی
امی: میں ماں نہیں، تمہاری بیوی کی حیثیت سے کچھ کہنا چاہتی ہوں
میں: تو بولو نہ بیگم جان، ہم میں آخر کونسا پردہ ہے!
امی: (نظریں جھُکا کے) وہ میں، میں تمہاری ماں تھی لیکن تمہاری بیوی بننے کے بعد سے نہیں رہی تو میں پھر سے ماں بننا چاہتی ہوں
میں: لیکن اتنی جلدی کیوں! ابھی تو ہم نے زندگی کا مزہ لینا شروع کیا ہے، ہماری سیکس لائف کو آخر دن ہی کتنے ہوئے ہیں!
امی: جلدی ہے۔۔۔ تم ابھی جوان ہو لیکن میرے پاس وقت کم ہے، میری عمر بیالیس سال ہو چکی ہے اور میری ماہواری ختم ہونے میں دو یا تین سال ہی باقی ہیں۔ پھر میں ماں نہیں بن سکوں گی
میں: یعنی پیریڈز ختم ہونے کے بعد آپ مجھ سے نہیں چدوائیں گی!
امی: ارے نہیں پگلے، تجھ سے میں ساری عمر چدواتی رہوں گی لیکن ماں تو نہیں بن سکوں گی نہ!
میں: اور ابو کو کیا کہیں گی؟
امی: تو اُس کی فکر نہ کر، میرے پاس پورا پلان ہے، بس تو جلدی سے مجھے پیٹ سے کر دے، باقی میں سنبھال لوں گی.
میرے ذہن میں فوراً شیطانی خیال آیا اور میں نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن میری ایک شرط ہے بچہ کرنے کے لیے
امی: کیسی شرط؟
میں: میں تیری اماں کو ایک دفعہ چودنا چاہتا ہوں
امی: کیا بکواس کر رہا ہے!!! میں پوری نہیں پڑتی کہ اپنی ماں کو چدواؤں تجھ سے؟
میں: جانو سمجھ نا۔۔۔۔ میرا لنڈ اماں پہ کھڑا ہوتا ہے۔۔۔
امی: اب اماں میں کچھ نہیں بچا، مموں کی جگہ کھال رہ گئی ہے اور چوت کا سوراخ اتنا بڑا ہے کہ تجھ جیسے چار چار لنڈ اندر جائیں تب بھی پتہ نہ چلے
میں: مجھے نہیں پتا۔۔۔ مجھے آپ کو اور اماں کو ایک ساتھ چودنا ہے
امی: مجھے معلوم ہے کہ تو جانتا ہے کہ میں اماں کے سامنے ننگی ہوتی ہوں۔۔۔۔ چل ٹھیک ہے، اپنے ٹھوکو کے لیے ماں چُدوا لوں گی
میں: کب؟
امی: کل ہی بلا لیتی ہوں اماں کو
میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور اگلی ہی شام اماں گلابی شلوار قمیض میں ہمارے گھر موجود تھیں۔ امی نے اکیلے میں اُنہیں سب کچھ بتایا اور تھوڑی دیر میں وہ مسکراتے ہوئے میرے پاس آئی میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہنے لگیں
نانی: مجھ بُڑھیا میں ایسا کیا دیکھ لیا تو نے؟ ارے میرے تو بھاگ ہی کھل گئے کہ جوان لنڈ میرے نام کی مُٹھ لگاتا ہے
میں: (نانی کی پیٹھ سے گانڈ تک ہاتھ پھیرتے ہوئے) پانچ پانچ چکنی چکنی آئیٹم جس چوت نے نکالی ہوں اصل کمال تو اسی کا ہے نہ!
نانی: ارے اب وہ چوت کہاں رہی۔۔۔ ایک زمانے میں تھی
میں: بستر پہ چلیں۔۔۔ زرا ہم بھی گزرا زمانہ دیکھیں
میں نے نانی اماں کا ہاتھ پکڑ کر کمرے کا رخ کیا اور نانی اماں کو بستر پر بٹھایا اور امی کو آواز دی
میں: ناہید چکنی
امی: کیا ہوا میرے چودو بلے؟
میں: آ جا، اپنی ماں کی چُدائی نہیں دیکھے گی!
امی: تو چود، میرا بھلا کیا کام! میری اپنی ماں نے مجھ سے میرا ٹھوکو چھین لیا
میں: ارے ناہید میں تیرا ہی ہوں، صرف منہ کا ذائقہ بدل رہا ہوں
امی: میں نہیں آ رہی
میں: آ جا نہیں تو گانڈ پھاڑ دوں گا تیری
امی: وہ تو تُو نے ویسے ہی پھاڑ رکھی ہے، روز تو گانڈ مارتا ہے میری، رنڈی بنا کر رکھا ہوا ہے مجھے
میں: ماں کی لوڑی آ جا
امی: آ رہی ہوں
جیسے ہی امی کمرے میں آئیں میں نے نانی کو کس کیا اور ننگا ہونے کا اشارہ کیا، نانی نے قمیض اتاری اور اندر ہینڈ میڈ برا تھا جس میں لٹکی ہوئی کھال کے ممے گزرے ماضی کی نشانی بتا رہے تھے
میں: نانی، ننگی ہوں
نانی: چل بے شرم، بس دیکھ تو لیا تو نے
میں: تو چودا کہاں!
نانی: ہائے اللہ، واقعی میں چودے گا مجھے!
میں: ہاں، اتاریں شلوار
میں: امی سے: تو کیا کپڑے پہنے کھڑی ہی! تجھے نہیں معلوم کہ اس کمرے میں تجھے ننگا ہی رہنا ہوتا ہے!
امی: تو مجھے چودے گا یا اماں کو؟
میں: دونوں کو۔۔۔ دو تجربہ کار ریگولر چُدکڑ مزہ دیں گی آج مجھے
تھوڑی ہی دیر میں ہم تینوں ننگے تھے اور میں نے نانی سے کہا کہ امی کی چوت چاٹیں۔ امی کا چہرہ سرخ ہو گیا تو میں نے کہا
میں: ناہید، یہ میرا خواب ہے
امی: کتنا گرائے گا مجھے آخر
میں: ماں سے چوت چٹوا رہا ہوں، اس میں ایسا کیا، کسی غیر کے سامنے تھوڑی تیرا بدن ننگا کروایا میں نے
امی: مجھے شرم آ رہی ہے
میں: ہائے۔۔۔۔ تیری انہی اداؤں کا تو دیوانہ ہوں میں جانِ من
امی کھلکھلا کر ہنس پڑیں اور ٹانگیں پھیلا کر چوت کھول دی۔ نانی امی چوت پر ہاتھ پھیرنے لگیں تو میں نے کہا
میں: روبی (نانی کا نام روبینہ تھا)، چاٹ اس چوت کو
نانی: روبی تو میری چُدائی کا نام ہے، تجھے کیسے پتا چلا
میں: کتنے لنڈ لیے ہیں تو نے؟
نانی: بہت لیے ہیں، اب تو گنتی بھی یاد نہیں
امی: کیا!!!!!!
نانی: ہنستے ہوئے، اب اس عمر میں، بیٹی نواسے سے کیا چھپانا۔۔۔۔ ٹاپ کی رنڈی تھی میں اور اُس زمانے میں انگلش رنڈی کے نام سے مشہور تھی
امی: کیا مطلب انگلش رنڈی؟
نانی: اس ٹاٹم میں گشتیاں صرف ننگی لیٹ جاتی تھیں اور چُدوا لیتی تھیں پر میں فل مزہ دیتی تھی۔۔۔ لاہور میں صرف میں تھی جو چوپا لگاتی تھی، گانڈ مرواتی تھی، ٹانگیں اُٹھا کر چدتی تھی اور سب سے سے زیادہ مشہور میں اس لیے تھی کہ اوپر بیٹھ کر چدوانا میں نے ہی شروع کیا تھا
میں: دلا کون تھا آپ کا!
نانی: میں خود ڈیل کرتی تھی، روبی رنڈی آج پھر ننگی ہوئی ہے اتنے برسوں بعد
میں: اب تو تیری گانڈ چوت سب ماروں گا حرامن
نانی: تو مار نا۔۔۔ چود دے مجھے
میں: گھوڑی بن جا حرامن
نانی اماں فوراً بیڈ پر جھک کر گھوڑی بن گئیں اور اپنے ایک ہاتھ سے چوت کو سہلانے لگیں
میں: چوت تو بھوسڑا بنی پڑی ہے، کھڈے میں لنڈ ڈال کر بھلا کیا ملے گا مجھے۔۔۔۔ گانڈ کو کھول روبی! نانی نے فوراً دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں چوتڑ کھولے تا کہ گانڈ کا سوراخ نمایاں ہو جائے۔۔
میں (امی سے): جانِ من، تُو کیا کھڑی کھڑی ماں کی چُدائی کا انتظار کر رہی ہے!!! اِدھر آ اور اپنی گشتی ماں کی گانڈ کے سوراخ پہ تھوک ٹپکا
امی یہ سن کر نانی کی گانڈ کے اُوپر منہ لے آئیں تو میں نے کہا کہ پہلے گانڈ چاٹ کر گیلا کریں۔۔۔ امی نے زبان نکالی اور گانڈ کے اوپر پھیر کر مست مزہ لیا۔ اب میں نے لنڈ کا ٹوپا نانی کی گانڈ کے سوراخ پہ سیٹ کیا، امی نے اوپر سے تھوک کا دھار گرائی اور میں نے لنڈ نانی اماں کی گانڈ میں پیل دیا۔۔۔ نانی کی گانڈ کافی کھلی ہوئی تھی لیکن پھر بھی اتنے عرصے بعد لنڈ اندر جانے کی وجہ سے اُن کی چیخ نکل گئی۔۔۔ جیسے ہی مجھے نانی کے درد کا احساس ہوا میں نے امی سے کہا
میں: چکنی، جا اپنی ماں کا منہ چوس۔۔۔ مزہ دے اسے
امی اور نانی فرنچ کس اکثر کیا کرتی تھیں اور نانی کو بھی امی کے بدن سے لُطف ملتا تھا لہذا جیسے ہی امی نے نانی کو فرنچ کس کیا، نانی گانڈ کا درد بھول کر امی کے ننگے مموں پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔۔۔ میں پیچھے سے مسلسل گانڈ مار رہا تھا اور دو منٹ بعد میں بھی جھڑ گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے بالکل مزہ نہیں آیا لیکن نانی کو چودنے کی ٹھرک ضرور پوری ہو گئی۔ اب امی اور نانی ننگے بستر پہ پڑے ایک دوسرے کے جسموں سے لپٹے مزہ لے رہے تھے۔ میں نے نانی اماں کو گالی دیتے ہوئے کہا
میں: حرام کی جنی، یہ چکنی مجھ سے چُدنے کے لیے اپنی چوت سے نکالی ہے تو نے اور یہاں تو ہی مزے لے رہی ہے اس کے ننگے جسم کے!!!
نانی: ارے تو چود نہ اس موٹی رانڈ کو، میں بھی تو دیکھوں کہ میری اُولاد کی پرفارمنس بستر پہ کیسی ہے!
میں (امی سے): آجا ناہید، ٹانگیں اُٹھا اور چُد جا اپنی ننگی ماں کے سامنے
امی: آجا مادر چود، چود دے اپنی ماں کو اُس کی ماں سامنے
میں امی کے اوپر چڑھا اور امی کی ٹانگیں اُٹھا کر لنڈ چوت میں ڈال کر گھسے لگانے لگا۔۔۔ امی آں، آہ، آہ کی آوازیں نکالنے لگیں اور پانچ منٹ کی زوردار اور چیخوں کی آوازوں سے بھرپور چُدائی کے بعد میں نے منی نکال دی۔ اب میں اور نانی، امی کے ننگے جسم پر زبان پھیر رہے تھے، اُسے چوم رہے تھے جب کہ امی بے سدھ، بستر پہ الف ننگی سیدھی پڑی ہوئی تھیں۔ نانی نے میرے لنڈ کو ہاتھ میں لیتے ہوئے مجھے توصیفی نظروں سے دیکھا اور پھر امی کے منہ پہ کس کرتے ہوئے امی سے بولیں
نانی: بڑی ہمت ہے تیری جو ابھی بھی ایسا جوان لنڈ اتنی دیر تک برداشت کر لیتی ہے۔۔۔ شاباش میری ناہید۔۔۔ عورت کا اصل مقام بستر پہ مرد کے نیچے ہی ہے اور یہی عورت کا اصل امتحان ہوتا ہے۔۔۔ آج میں مطمئن ہو گئی کہ تو اس امتحان میں کامیاب ہے ۔
یہ رات ایک یادگار رات تھی اور اس کے بعد ہم تینوں ننگے ایک ہی بستر پہ ایسے سوئے کہ میں اپنی ماں اور نانی کے بیچ میں تھا۔
صبح میں دیر سے اُٹھا اور اس وقت تک نانی واپس جا چُکیں تھیں۔ ناشتے کے بعد میں بھی کام سے باہر چلا گیا اور شام کو واپس آیا تو امی کو فل سیکسی موڈ میں پایا۔ امی نے ٹائٹ اُف وائٹ ٹراؤزر اور وائٹ کلر کی چھوٹی سی ڈیپ نیک ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی. امی کا تھل تھل کرتے جسم کا ایک ایک انگ باہر جھلکتا تھا جبکہ موٹی گانڈ واضح طور پر باہر نکلی ہوئی تھی۔ امی نے میرے ہونٹوں پہ کس کیا تو میں نے بھی امی کی گانڈ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
میں: آج تو میری چکنی غضب ڈھا رہی ہے۔۔۔
امی: کل ہی تو چودا ہے اس چکنی کو
میں: تو آج کس سے چدوائے گی چکنی؟
امی: تجھ سے چدواؤں گی اور وہ بھی روز
میں: چل پھر آج ننگا مجرا ہو جائے
امی: جیسا تُو بولے
میں: تو نکال ممے
امی نے فوراً شرٹ اُتار دی اور اب ٹائٹ ٹراوزر میں باہر نکلی ہوئی موٹی گانڈ کے اُوپر ممے بالکل ننگے تھے۔ میں نے سیکسی پنجابی گانوں کی سی ڈی میوزک پلیئر پہ اُن کر دی اور امی نے مموں کو ہلا ہلا کر گانڈ مٹکانا شروع کر دیا۔ یہ مجرا دس منٹ تک چلا اور مجرے کے ختم ہونے تک امی مادر زاد ننگی ہو چکیں تھیں۔
میں: چل میری چکنی ماں، اب تیری چُدائی کا ٹائم آ گیا ہے
امی: چُدتی تو میں روز ہی ہوں تجھ سے پر آج سپیشل چُدائی ہو گی
میں: وہ کیسے؟
امی نے ٹی وی آن کیا تو یو ایس بی پہ ٹرپل ایکس فلم چالو تھی جس میں ایک انگریز لڑکا اپنی ماں کے ساتھ ہمبستری کر رہا تھا
امی: آج رات تم بھی مجھے ایسے ہی چودو گے
میں: بہن کی لوڑی، چڈکڑ چھنال، لوڑے کی دیوانی، موٹی رانڈ۔۔۔۔ آج تو تیری چوت کا بھوسڑا بنا دوں گا
امی: یہی تو میں چاہتی ہوں مادر چود۔۔۔۔ آج ساری رات میری چوت میں منی ڈال ڈال کے مجھے پیٹ سے کر دے۔۔۔۔
الغرض اُس رات میں نے امی کو تین مرتبہ چودا اور امی بھی تین بار فارغ ہوئیں۔ درد سے امی کا بُرا حال ہو گیا لیکن بچے کی خواہش میں امی رات بھر چُدواتی رہیں۔ ہم نے یہی معمول اگلے چار روز تک رکھا اور ان چار روز میں امی پندرہ بار مجھ سے چُدیں اور ان دنوں میں امی نے مجھے گانڈ نہیں مارنے دی تا کہ میری منی کا ایک ایک قطرہ امی کی چوت میں گرے اور بچہ دانی میں امی کا مواد میری منی سے مل کر امی کو پریگننٹ کر سکے۔ یہ امی کی چوت کے زرخیز دن تھے لہذا ہماری کوشش کامیاب ہوئی اور امی کو اگلا حیض نہیں آیا، تاریخ گزرنے کے بعد جب ٹیسٹ کروایا تو رزلٹ پازیٹو تھا اور امی میرے بچے کی ماں بننے والی تھیں۔ امی خوشی سے بے قابو ہوئے جا رہی تھیں اور اسی خوشی میں امی نے مجھے اُن کی چلی چکن گانڈ مارنے کی اجازت دے دی۔۔۔۔ میں تو اتنے دن سے اس موٹی گانڈ کے لیے ترس رہا تھا لہذا فوراً امی کو جھکایا، شلوار نیچے کھینچی اور بنا پورا ننگا کیے امی کا گانڈ مارنی شروع کر دی۔ امی بھی آج خوب جوش میں گانڈ مروا رہی تھیں
امی: آہ، آ، اُو، آہ، پھاڑ دے اس موٹی گانڈ کو آج، چود چود کے خون نکال دے، یہ میرا راجہ بیٹا، اور چود، زور سے چود۔۔۔۔
میں بھی خوب گھسے مار رہا تھا اور تھوڑی دیر میں، میں نے ساری منی امی کی گانڈ کے اندر ہی نکال دی۔ امی صوفے پہ اُوندھے لیٹے سستا رہی تھی اور تازہ تازہ چُدی ہوئی موٹی گانڈ اُبھر کر باہر نکلی ہوئی تھی۔
میں: چکنی، سیدھی لیٹ جاؤ
امی: اُوں۔۔۔۔
میں: کیا ہوا! تھک گئیں؟
امی: گانڈ میں درد ہو رہا ہے
میں: سوری جانو، آج جوش میں کچھ زیادہ ہی زور سے چود دیا شاید
امی: چُدنے میں تو مزہ آتا ہے مجھے، بس پیچھے سے لینے میں درد ہوتا ہے
میں: اب پیچھے سے لینے کی عادت ڈال لے میری چُدکڑ ماں۔۔۔
امی: وہ کیوں بھلا؟
میں: جب بچہ بنا رہی ہو گی تو گانڈ سے ہی تو خوش کرے گی اپنے مادر چود بیٹے کو
امی: ارے پگلے، تجھے معلوم ہی نہیں کے عورت پیٹ سے ہو تو چُدائی کی بھوک اُور بڑھ جاتی ہے
میں: نہیں نہیں! یہ تو مزہ ہی آ جائے گا، میں دنیا خوش نصیب ترین بندہ ہوں گا جس نے پہلے ماں کو چود چود کر پریگنینٹ کیا اور پھر پریگنینٹ ماں کو بھی چودے گا
امی: اور میں خوش نصیب نہیں کہ جو پہلے اپنے بیٹے سے چُدوا کر اُس کے بچے کی ماں بننے والی ہے اور پھر پورے نو مہینے بھی اپنے جوان بیٹے کا لنڈ اپنی چوت میں لے گی.
اُسی دن امی نے ابو کو فون کیا اور میرے سامنے ہی فون سیکس شروع کر دیا۔ جب میں نے امی کو چوت میں انگلی کرتے دیکھا تو اپنا لنڈ نکال کر امی کے منہ میں دے دیا۔ اب امی میرا چوپا لگا رہی تھیں اور فون پر ابو سمجھ رہے تھے کہ ان کی بیوی انگلی منہ میں لے کر اپنی سیکس کی بھوک مٹاتے ہوئے اُنہیں خوش کر رہی ہے۔ ابو لاؤڈاسپیکر پہ تھے، تبھی میں نے سنا کہ انہوں نے امی سے کہا کہ اب اُن کا چودنے کا من ہو رہا ہے، امی نے نے کہا کہ فون پر چود دو۔۔۔۔۔ اب ایک طرف سے ابو فون سیکس کر رہے تھے اور دوسری طرف اُن کی سیکسی بیوی کا ننگا جسم مجھ سے چُد رہا تھا۔ امی مجھ سے چُد رہی تھیں، آوازیں نکل رہی تھیں اور فون سیکس بھی جاری تھا۔ دس منٹ کی چُدائی کے بعد میں، امی اور ابو، تینوں فارغ ہو گئے تو امی نے اصل ڈرامہ شروع کیا اور ابو کو سنانی شروع کر دیں کہ ان کے جسم کی بھوک نہیں مٹ رہی اور ان کو چُدوانا ہے۔ امی نے ابو سے کہا کہ وہ فوری طور پر چھٹی لے کر آ جائیں اور اُن کو چود کر اُن کا حق ادا کریں۔ عورت جب ننگی ہو کر منوانے پر آئے تو کیا نہیں کر سکتی لہذا ابو نے ہامی بھر لی اور واقعی تین دن بعد ابو چار دن کی چھٹی لے کر پاکستان آ گئے۔
ابو کی فلائٹ رات بارہ بجے کی تھی۔ میں جانتا تھا کہ امی نے آج رات جم کر چُدنا ہے کیونکہ ابو بہت دنوں کے رکے ہوئے ہیں اور امی نے اُنہیں بلایا ہی چودنے کی دعوت پر ہے۔ رات کے کھانے کے بعد میں نے امی کو پیار کیا تو امی نے مجھے سینے سے لگا لیا اور ہلکے سے فرنچ کس سے میری پپی کا جواب دیا۔
میں: آج تو میری چکنی پہ روپ ہی کچھ الگ آ رہا ہے!
امی: میں تو وہی ہوں
میں: تو آ جائیں کمرے میں، ابھی چلنے میں دو گھنٹے ہیں
امی: نہیں جانو آج نہیں، ابو آ رہے ہیں اور آج تو ساری رات تیری ماں نے چُدنا ہے
میں: ہائے میری میری دو دو لنڈ لینے والی چھمک چھلو، بہت ایکسائٹیڈ ہے!
امی: لنڈ تو میں تیرا ہی لینا چاہتی ہوں پر بچے کو لیگل کرنے کے لیے ابو سے چدوانا بہت ضروری ہے۔۔۔۔ آنے والی چار راتیں تیری ماں پہ بہت بھاری ہوں گی۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی بھرپور چدواؤں گی ابو سے تا کہ اُنہیں بعد میں کسی قسم کا شک نہ ہو
میں: ارے یہ تو ابو کا حق ہے اور آپ بھی مست مزے لیجیے گا چُدائی کا۔۔۔ بھوسڑا تو میں نے بنا ہی دیا ہے
امی: چل ہٹ، اب تیار ہونے دے
میں: ایسے کیسے چکنی! چودوں گا تو ضرور تجھے تا کہ ابو کو آج رات چُدی ہوئی ناہید ملے
امی: رحم کر مجھ پر۔ پہلے ہی پیٹ سے ہوں اور ایک رات میں دو دو لنڈ اور بھی نجانے کتنی بار چودیں ابو مجھے آج رات!!!!!
میں: ارے چتو رانی، کچھ نہیں ہو گا تجھے۔۔۔۔ اتنے سالوں سے چُد رہی ہے۔ بھرپور چُدائی کا مزہ لے
امی: بہت ضدی ہے تُو، چل چود لے اپنی ماں کو
میں نے فوراً امی کے مموں کو ہاتھوں میں لے کر چومنا شروع کر دیا اور امی بھی میرے سر پہ دونوں ہاتھ پھیرتے ہوئے چُدائی کی شروعات کا مزہ لینے لگیں.

میں نے تھوڑی دیر میں امی کی شلوار جس میں ایک ڈھیلا سا الاسٹک ڈالا ہوا تھا (میں نے امی کو ازاربند والی شلواریں پہننے سے منع کر رکھا تھا اسی لیے امی نے اپنی ساری شلواروں میں ڈھیلا الاسٹک ڈال لیا تھا تا کہ میں جب چاہوں شلوار کھینچ کر امی کی موٹی گانڈ کا نظارہ دیکھ سکوں) نیچے کر کے اپنا ہاتھ امی کی گانڈ کے درمیان گھسا دیا۔ امی کی گانڈ کی درمیانی لائن بہت کھلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے چلتے وقت دونوں چوتڑ الگ الگ ہلتے اور دیکھنے والے کا لنڈ کھڑا کر دیتے تھے۔ میرا پورا ہاتھ امی کی گانڈ کے درمیان تھا اور امی مچل رہی تھیں۔ میں نے امی کو پلٹا کر اپنا منہ امی کی گانڈ میں دے دیا اور زبان سے گانڈ چاٹنے لگا۔ امی نے اپنی قمیض اُتار دی اور اب صرف کالے رنگ کا برا امی کے جسم پر موجود تھا۔ میں نے امی کو جھُکا دیا تھا اور دونوں ہاتھوں سے امی کے چوتڑ الگ کرتے ہوئے اپنا منہ گانڈ کے بیچ میں گھسایا ہوا زبان سے گانڈ کو سوراخ چاٹ رہا تھا۔ گانڈ چٹائی کے بعد میں نے امی کو بستر پہ دھکا دیا اور خود اوندھی لیٹی امی کے اُوپر چڑھ کر لنڈ امی کی گانڈ کی موری میں گھسانے لگا۔ امی کے چوتڑ اتنے بڑے اور باہر کو نکلے ہوئے تھے کہ ان کو کھولے بغیر میرا لنڈ گانڈ کے سوراخ تک پہنچنے کے بجائے چوتڑوں ہی کے درمیان پھنس جاتا تھا۔
امی: آگے سے ڈال نا
میں: گانڈ کا مزہ تو لے لوں موٹی رانڈ
امی: مادر چود، اوپر آ اور چود مجھے
میں: آ جا تجھے رنڈی بنا کر چودوں
امی: چود دے۔ رنڈی ہوں میں تیری۔۔۔ رکھیل ہوں رکھیل۔۔۔۔ کھیل مجھ سے، پھاڑ دے اپنی رکھیل کی چوت کو
میں نے امی کو سیدھا کر کے بیڈ کے کونے پر کیا، موٹی موٹی ننگی ٹانگیں اپنے ہاتھوں پہ اُٹھائیں اور لنڈ امی کی کھلی چوت میں پیل دیا۔۔۔ لنڈ سیدھا اندر گھسا تو امی نے آہ ہ ہ ہ کی آواز سے اپنے چُد جانے کا اعلان کر دیا۔ اب میں بیڈ کے ساتھ کھڑا امی کی چُدائی کر رہا تھا اور امی کا تھلتھلا پیٹ اور بڑے بڑے ممے میرے ہر جھٹکے سے میری نظروں کے سامنے اُوپر نیچے ہو رہے تھے۔ دس منٹ کی چُدائی کے بعد امی فارغ ہونے لگیں اور اُنکی چوت نے فوارے کی طرح پانی چھوڑ دیا۔ مجھے امی کے پانی چھوڑنے کے بعد اُن کو چودنے میں بہت مزہ آتا تھا کیونکہ پھر امی کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ لنڈ باہر نکال دیں اور امی منتیں کرتیں کہ اُنہیں چھوڑ دوں اور یہی چیز مجھے بہت ایکسائیٹ کرتی تھی۔ خیر، فوراً ہی میں نے بھی منی چھوڑ دی اور امی کے اوپر گر کر ممے دبانے لگا۔
بھرپور چُدائی کے بعد کچھ دیر میں اور امی اسی طرح ننگے بستر پے لیٹے ایک دوسرے کے جسم پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ میں نے امی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دباتے ہوئے فرنچ کس کیا اور کہا کہ امی، میں نے اچھی طرح چود کر آپ کو رات بھر چُدنے کے لیے تیار کر دیا ہے۔۔۔ آج تو خیر نہیں اس چکنے بدن کی۔ ایک چُدائی کروا لی ہے اور کم از کم دو اور چدائیاں ایک فریش لنڈ سے اور کروانی ہیں ابھی
امی: یہ سب تیرا بچہ پیدا کرنے کے لیے کچھ زیادہ قیمت تھوڑی ہے۔ چُدوا تو میں سالوں سے رہی ہوں، اچھا ہے کہ زیادہ چُدائی سے جسم اور چوت کھل جائے گی اور پھر تجھے زیادہ مزہ دیا کروں گی.
اب امی نہانے چلی گئیں اور جب تیار ہو کر باہر آئیں تو سچ میں قیامت لگ رہی تھیں۔ امی نے سرخ قمیض اور سفید پٹیالہ شلوار پہنی تھی۔ قمیض ٹائٹ فٹنگ کی تھی جس میں ممے اور گانڈ واضح طور پر نمایاں تھے۔ قمیض کا گلا خوب گہرا تھا جس میں مموں کی لکیر تک نظر آ رہی تھی۔ قمیض کی کواٹر آستینیں تھیں اور چاک بھی بہت بڑے تھی جس میں سے شلوار کے اوپر ننگی کمر دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے امی کے مموں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ چُدائی پوری طرح آپ کی شکل پہ لکھی ہے۔۔۔ امی شرما کر آگے بڑھ گئیں۔ بہرحال ہم ابو کو لے کر رات ڈیڑھ بجے گھر پہنچے تو توقع کے عین مطابق ابو سیدھے بیڈ روم کی جانب یہ کہتے ہوئے بڑھے کہ میں بہت تھک گیا ہوں اب کل صبح ملتے ہیں۔ میں نے امی کی طرف دیکھا جو اپنا چکنا بدن لیے پیچھے کھڑی تھیں۔ میں نے دل میں کہا کہ آج تو ہٹ ہٹ کے لیں گے ابو، امی کی اور پھر امی بھی چوتڑ مٹکاتی بیڈروم میں چلی گئیں اور دروازہ بند ہو گیا۔ میں دروازے کے باہر ہی کان لگا کر بیٹھ گیا اور کچھ ہی دیر میں مجھے امی ابو کی اٹھکیلیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد آوازوں سے معلوم ہوا کہ امی چوپا لگا رہی تھیں۔ میں نے کان دروازے سے لگا دئیے
ابو: پورا منہ میں لے
امی: لے تو رہی ہوں
ابو: چوس ناہید، چوس
امی: کب سے تڑپ رہی تھی اس لنڈ لے لیے!
ابو: کھا جا اس لنڈ کو میری جان
اور پھر کچھ ہی دیر میں چُدائی شروع ہو گئی اور میں اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا۔ مجھے معلوم تھا کہ امی نے پوری رات چُدنا تھا لہذا میں آرام سے نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔ صبح اُٹھا تو ابو سامان لینے ائرپورٹ چلے گئے تھے جبکہ میری چُدکڑ امی بستر ہی میں لیٹی تھیں۔ میں فوراً امی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ کروٹ کے بل لیٹی تھیں اور اُن کے بدن پر صرف ایک سرخ نائنٹی تھی۔ امی کی حالت کافی خراب معلوم ہوتی تھی اور میرے پوچھنے پر امی نے بتایا کہ رات ابو نے اُنہیں تین مرتبہ چودا۔ امی کے بقول، دوسری مرتبہ ہی میں اُن کی حالت خراب ہو گئی تھی اور ٹانگیں شدید درد کر رہیں تھیں لیکن پھر بھی ابو نے امی کو تیسری مرتبہ بھی تقریباً نیم بیہوشی کی حالت میں ہونے کے باوجود چودا اور مسلسل آدھے گھنٹے تک لگاتار چودتے رہے۔ امی گڑگڑاتی رہیں لیکن ابو نے زرا رحم نہیں کھایا اور جم کے گھسے لگائے۔ میں نے امی سے کہا کہ آپ سختی سے منع کر دیتیں تو امی بولیں کہ میں اپنے شوہر کو کیسے منع کر سکتی ہوں بھلا، شوہر کا حق ہے وہ کب چاہے، جتنا چاہے بیوی کو چودے۔ یہ سن کر میرے اندر موجزن ہمدردی کا جزبہ ایک دم ختم ہو گیا کہ میرے سامنے امی کے نخرے ختم نہیں ہوتے اور ابو کے معاملے میں ستّی ساوتری!!! میں نے بھی سوچ لیا کہ اب میں بھی مزہ چکھا کر رہوں گا۔۔۔۔ میں نے لنڈ نکالا اور امی کے منہ میں دے دیا
امی: کیا کر رہا ہے؟
میں: لنڈ چُسا رہا ہوں
امی: ابھی نہیں، میری حالت دیکھ، ساری رات چُدی ہوں
میں: میں بھی شوہر ہوں، مجھے کیوں منع کر رہی ہیں؟
امی: رحم کرو مجھ پر، دونوں باپ بیٹے چود چود کر جان سے مار دو گے
میں: ابھی تیری گانڈ مارتا ہوں رنڈی کی بچی
امی: نہیں، پلیز نہیں
میں جھٹ امی کے پیچھے آیا اور زبردستی گانڈ میں لنڈ گھسا دیا۔ امی کی ہلنے تک کی ہمت نہیں تھی لہذا روتے دھوتے گانڈ مروائی اور منی اندر لے لی۔ امی بالکل بے سدھ ننگی بستر پر اوندھی پڑی تھیں اور میری منی امی کے چوتڑوں پہ جمی ہوئی تھی۔ امی ہلکی ہلکی آہ آہ آہ کی آوازیں نکال رہیں تھیں۔ میں امی کے ساتھ بیٹھا امی کی گانڈ پے ہاتھ پھیرتا ہوا چوت تک پہنچا اور چوت میں انگلی کرنے لگا۔ چوت بہت زیادہ سوجی ہوئی تھیں کیونکہ پچھلے بارہ گھنٹوں میں امی چار مرتبہ چُدی تھیں اور رات بھر کی مسلسل چُدائی کا اثر امی کے پورے جسم اور چوت پر نمایاں تھا۔ میں کچن میں گیا اور گرم دودھ لے کر آیا، امی کو سہارا دے کر اٹھایا اور بیڈ کے سرہانے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا دیا۔ امی آہستہ آہستہ دودھ پینے لگیں جب کہ میں نے نیم گرم پانی میں کاٹن کے صاف کپڑے سے امی کی چوت صاف کر کے اس کی سکائی کرنی شروع کر دی۔ امی نے بھی ٹانگیں کھول کر پھیلا دی تھیں تا کہ میں چوت اور اس کے نیچے کے حصے کے علاوہ امی کی رانوں کی بھی سکائی کر سکوں۔ امی کے چہرے سے شدید تھکن کے آثار نمایاں تھے لیکن مجھے اپنی چُدکڑ ماں کو ایک اور لمبی چُدائی کے لیے تیار کرنا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ابو نے آج دوپہر میں بھی امی کے ساتھ سیکس کرنا ہے اور کیونکہ رات بھر وہ امی کو چود چکے ہیں اس لیے جلدی فارغ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یعنی ایک طویل چُدائی آج دوپہر میں میری ماں کا مقدر ہے۔
میں: امی، بہت درد ہو رہا ہے؟
امی: ہاں، درد ٹانگوں اور کمر میں ہے، چوت تو جیسے اندر تک جل رہی ہے
میں: بہت ظلم کیا ہے ابو نے آپ کے ساتھ کل رات
امی: وہ اسی طرح کرتے ہیں جب واپس آتے ہیں۔ اسی لیے تو میں تجھے روک رہی تھی چودنے سے کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ ابو نے آ کر میرے ساتھ کیا کرنا ہے
میں: تو آپ اُنہیں روکتی کیوں نہیں ہیں؟ منع کیوں نہیں کرتیں؟
امی: کیسے روکوں؟ شوہر ہیں وہ میرے، حق ہے ان کا میرے جسم پر
میں: لیکن حق کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ ایسا حال کر دیں آپ کا
امی: اب تو عادت ہو گئی ہے مجھے۔ تیرے ابو کمرے کے اندر اور کمرے سے باہر بالکل فرق بندے ہوتے ہیں۔ باہر وہ جتنے دھیمے، خوش اخلاق، خوش زبان ہیں، کمرے کے اندر سیکس کرتے ہوئے وہ اُتنے ہی جنگلی، ظالم، سخت دل اور اکھڑ ہوتے ہیں۔ شادی کے شروع میں وہ مجھے بستر سے باندھ کر چودتے تھے۔ یہ جو آج مجھ میں اسٹیمنا ہے اسقدر چُدنے کا، یہ سب اتنے سالوں کی سخت چُدائی ہی کی وجہ سے ہے۔ مجھے یہ سب سن کر پھر سے دکھ ہونے لگا تھا اور اپنی ماں کے لیے رحم اور ہمدردی محسوس ہونے لگی تھی۔
میں: ابو نے آپ کو آج دوپہر بھی چودنا ہے!
امی:ظاہر ہے
میں: لیکن آپ کی تو چوت پوری سوجی ہوئی ہے اور آپ کہہ رہی ہیں کہ جلن بھی ہو رہی ہے!
امی: سوجن کی تو خیر ہے لیکن بس یہ جلن کسی طرح کم ہو جائے۔۔۔۔ ٹھنڈک مل جائے کسی طرح
میں نے کچھ سوچا اور پھر فریج میں سے آئس کیوب نکال لایا اور امی کو لٹا کر چوت پر برف کی ٹکور کرنے لگا۔ امی کی خوب بڑی سی گلابی چوت پوری باہر نکلی ہوئی تھی اور پنکھڑیاں تک سوجی ہوئی تھیں۔ امی کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی تھی، برف لگاتے لگاتے میں نے بے اختیار امی کی چوت کو چوم لیا۔ امی کے منہ سے ایک اطمینان بھری سسکاری نکلی جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ امی کو مزہ آیا۔ میں نے فوراً اپنی زبان سے اپنی چُدی ہوئی ماں کی پھولی ہوئی خوب لمبی چوڑی چوت کو چاٹنا شروع کر دیا۔ امی کی چوت کی پنکھڑیاں اتنی بڑی اور باہر کو نکلی ہوئی تھیں کہ میں انہیں پورا پورا اپنے منہ میں لے کر چوس رہا تھا۔ امی کی چوت کا دانا بھی خوب موٹا تھا جس پر زبان پھیر کر خوب مزہ آ رہا تھا۔ غرض کوئی دس منٹ امی کی چوت چٹائی چلی اور پھر میں نے امی کو کپڑے پہنا کر تیار کر دیا کیونکہ ابو کسی بھی وقت آ سکتے تھے۔ امی کی حالت خراب ضرور ہو گئی تھی لیکن امی کو اس طرح چُدنے میں مزہ بھی بہت آتا تھا۔ کافی دن بعد رف چُدائی نے درد کیا تھا لیکن اب امی دوبارہ فلو میں آ گئیں تھیں اور لنچ پہ ابو کو بھرپور ادائیں دکھا کر رجھا رہی تھیں۔ کھانے کے بعد ابو کمرے میں چلے گئے اور امی اور میں برتن سمیٹ رہے تھے۔ میں نے امی کے چوتڑ دبا کر کہا کہ جائیں، چُدوا لیں اپنے ٹھوکو سے تو امی ہنستے ہوئے کمرے میں چلی گئیں اور پھر تو وہ چُدی ہیں امی کہ آوازیں باہر تک آ رہی تھیں۔ امی چار دن تک رج کے چُدیں اور پھر ابو واپس چلے گئے۔ قصہ مختصر، نو مہینے بعد امی نے میرے بیٹے کو جنم دیا جس کو دنیا میرا بھائی سمجھتی ہے۔ میں امی کو ریگولر چودتا رہا یہاں تک کہ جب میں اٹھائیس سال کا ہو گیا تو امی نے میری شادی کا کہنا شروع کر دیا۔ میں نے امی کو منع بھی کیا کہ میری بیوی تو امی خود ہیں تو امی نے اصرار کیا کہ اب ان کی عمر پچپن سال ہو گئی ہے اور جسم بھی چُدائی کے لائق نہیں رہا۔ حالانکہ میں ابھی بھی امی کو روز چودتا تھا اور میرے لیے امی میں آج بھی وہی کشش تھی لیکن اب امی کے پیریڈز آنے بند ہو چکے تھے، امی کی طاقت اور ہمت بھی بہت کم ہو گئی تھی اور وہ رات میں ایک مرتبہ چُدائی کے بعد ہی نڈھال ہو جاتی تھیں۔ امی کی ٹانگوں میں بھی درد رہتا تھا لہذا ٹانگیں اُٹھا کر چودنا ممکن نہیں رہا تھا، ہاں امی کی ایک چیز آج بھی جوان تھی اور وہ تھی امی کی گانڈ۔ اب کیونکہ امی کی چوت کھلی اور گرفت کمزور ہو چکی تھی لہذا میں زیادہ تر امی کی گانڈ مارتا تھا اور امی کی گانڈ کا سوراخ آج بھی ٹائٹ تھا۔ بہرحال میں دو شرائط پر شادی کے لیے راضی ہو گیا۔ ایک تو یہ کہ امی بدستور مجھ سے چُدنے کے لیے ایویلیبل رہیں گی یعنی میں جب چاہوں اُنہیں چودا کروں گا اور دوسری شرط یہ کہ میں شادی کسی چودہ، پندرہ سال کی بچی سے کروں گا تا کہ ٹائٹ کنواری چوت کا مزہ لوں اور چھوٹی بچی کو چودنے کا لُطف اُٹھا سکوں۔ امی نے میری دونوں شرائط بخوشی مان لیں اور تین ہی مہینے میں میرے لیے پندرہ سال کی کچی کلی، دلہن کے روپ میں موجود تھی۔ میری بیوی کا نام لیلیٰ تھا اور اس نے اُسی سال میٹرک کے پیپرز دئیے تھے۔ لیلیٰ کی عمر پندرہ سال تھی لیکن وہ بمشکل بارہ سال کی لگتی تھی۔ قد چار فٹ دس انچ، کمر چھبیس انچ، چھوٹی ہی ٹائٹ گانڈ اور چھوٹے چھوٹے لیکن انتہائی تنے ہوئے پنک نپّل والے تیس سائز کے ممے۔ سہاگ رات پہ وہ قیامت لگ رہی تھی لیکن میں پہلے ہی سوچ چکا تھا کہ پندرہ سال کی لیلیٰ کو چودنے سے پہلے میں پچپن سال کی امی کو چودوں گا۔ میں نے لیلیٰ کو کہا کہ میں پہلے امی کو سلا کر آتا ہوں کیونکہ وہ میری ماں ہیں تو اس نے بخوشی اجازت دے دی۔ میں امی کے کمرے میں آیا تو امی نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں نے فوراً امی کو لپٹا کر کس کرنا شروع کر دیا جس کا امی نے دیوانہ وار جواب دیا۔
امی: بس اب چھوڑ بھی دے، کیا رکھا ہے اس بڑھیا میں! جا، جا کر اپنی کنواری کلی سے دل بہلا
میں: پہلی چُدائی اُس کی جسے چود کر چُدائی سیکھی
امی: تو میرا راجہ بیٹا ہے، میں جانتی تھی کہ بھلے تجھے جوان لڑکی مل جائے پر تو اپنی ماں کو نہیں بھولے گا۔۔۔۔ آ مجھے چود تا کہ لیلیٰ کو اُس کہ سہاگ رات پہ بھی میرے اندر سے نکلا ہوا استعمالی لنڈ ملے
میں نے جھٹ پٹ امی کو دیوار سے لگا کر چودنا شروع کیا اور پھر فارغ ہونے کی لیے امی کی گانڈ ماری۔ امی کی چُدائی سے فارغ ہو کر میں نے لیلیٰ کے کمرے کا رخ کیا۔ کمرے میں زیرہ کا بلب جل رہا تھا لیکن میں نے ٹیوب لائٹ آن کر دی، ویاگرا کی گولی کھائی اور لیلیٰ کی جانب بڑھا جو سمٹی، سہمی بستر پہ بیٹھی آنے والی رات کے انجانے خوف میں مبتلا تھی۔ میں تو پہلے ہی ایک کھلاڑی تھا اور سوچ رکھا تھا کہ اس کچی کلی کو تو مسل کے ہی رکھ دینا تھا۔ میں نے لیلیٰ کو اپنے سامنے کھڑا کیا اور اپنے ایک ہی ہاتھ سے اُس کے دونوں چوتڑ دبا کر اُسے اوپر اُٹھا لیا۔ وہ رات لیلیٰ کے لیے ایک بھیانک رات ثابت ہوئی لیکن اس رات کے بعد سے میری زندگی میں بھی کافی تبدیلیاں آ گئیں
ختم شد

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)