اندھیر نگری
قسط نمبر:-2
غرور کے ساتھ ایک الل رنگ کے برا میں قید تھے. بشیر نے برا کو ذرا نیچے کھسکایا. چھوٹے
چھوٹے ہلکے سانولے نپل تنے ہوئے تھے. بشیر نے بہت پیار سے ایک پستان کو پکڑ کر دبایا تو
اس میں گھٹلیاں ہی گھٹلیاں تھیں. شبنم حقیقی معنوں میں ایک صاف شفاف جھیل تھی
جس میں آج بشیر کنکر پھینک کر ایک طوفان برپا کرنے واال تھا. بشیر نے دونوں ہاتھوں سے
شبنم کے دونوں مموں کو مسلنا شروع کیا اور شبنم کی سسکیاں نکلنا شروع ہوئی. بشیر نے
ذرا چہرہ اوپر اٹھایا اور شبنم کے ایک پستان پر جھک گیا. اس نے پہلے زبان کی نوک سے
آہستہ سے نپل کو چھوا. شبنم کو ایک جھٹکا لگا. بے اختیار لیٹے لیٹے اچھل گئی. ایک ہاتھ
غیر محسوس طریقے سے بشیر کے سر پر پہنچ گیا. دوسری طرف بشیر اب شبنم کے بائیں
ممے کے نپل پر زبان پھیر رہا تھا جبکہ دایاں مما اسکے بائیں ہاتھ میں تھا. تھوڑی دیر بعد
بشیر کا ایک ہاتھ پیٹ پر رینگتا ہوا نیچے منزل مقصود کی جانب سفر کر رہا تھا. اس نے
شبنم کے شفاف پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور پھر دھیرے سے اسکی ٹانگوں کے درمیان لے گیا.
شبنم نے ممکن حد تک ٹانگیں سختی سے آپس میں جوڑ لیں. ہاتھ شلوار کے اوپر پہنچ گیا
تھا مگر بشیر نے چاالکی دکھائی. چوت پر دستک دینے کے بجاۓ اس نے شبنم کے رانوں پر
ہاتھ پھیرنا شروع کیا. موٹے موٹے ران شلوار میں گویا مچل رہے تھے. ساتھ ہی ساتھ بشیر
دل ہی دل میں اپنی قسمت پر ناز کررہا تھا. اسکو سر سے پیر تک ایک تراشا ہوا ہیرا مال تھا.
ایک ایک عضو سیکس کی دعوت دیتا تھا. تھوڑی دیر بعد بشیر نے شبنم کی ٹانگوں میں
فاصلہ پیدا کیا اور ہاتھ اسکی چوت کی طرف لیکر جانے لگا. منہ اسکا اب بھی شبنم کے نرم
و نازک مموں پر تھا اور باری باری انکو چوس رہا تھا. نیچے ہاتھ رینگتا ہوا اچانک شبنم کی
ابھری ہوئی گداز چوت پر پہنچ گیا. اسے ایک لمحے کو یوں محسوس ہوا جیسے مکھن کی
چھوٹی سی ٹکی ہے. پانی پانی چوت کسی نرم و گداز روئی سے کم نہیں تھی. چھوٹی سی،
ابھری ہوئی، نازک سی. بشیر شبنم کی چوت پر ہاتھ پھیرنے لگا جو گرم ہو چکی تھی اور
ساتھ آہستہ آہستہ تھپکیاں دینے لگ گیا. شبنم کی شلوار گیلی ہو چکی تھی. یہی حال بشیر
کا بھی تھا. اب دونوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا تھا. شبنم بار بار اپنی گانڈ اٹھا کر زندگی
میں پہلی مرتبہ لنڈ لینے کے لئے تیار ہونے کے اشارے دے رہی تھی. بشیر نے ہاتھ شبنم کی
السٹک والی شلوار کے اندر ڈال دیا. شبنم کی گداز چوت لیس دار پانی سے مکمل گیلی ہو
چکی تھی اسکا پورا ہاتھ گیال ہوگیا. وہ شبنم کی نرم گداز پھدی کو مسل رہا تھا دبا رہا تھا.
چھپ چھپ کی آوازیں پیدا ہو رہی تھی. شبنم کے لئے ہر نیا مرحلہ کسی جّنت سے کم نہیں
تھا. کمرے میں اسکی آہیں گونج رہی تھی. وہ تڑپ رہی تھی، سسک رہی تھی. تھوڑی دائر
بعد وہ دونوں لباس سے مکّمل طور پر آزاد ہو چکے تھے. شبنم کا مخملی بدن اندھیری رات
میں بھی دمک رہا تھا. بڑے بڑے گول مٹول ممے سختی سے تنے ہوۓ تھے. کمر ذرا پتلی مگر
پیٹ اور اطراف گوشت سے بھرپور تھے. گانڈ پھیلی ہوئی اورگ گوالئی میں باہر کو نکلی
ہوئی تھی اور کمر کا پتال لگنا بھی دراصل اسی لئے تھا کہ گانڈ اور ممے کافی بڑے تھے.
دوسری طرف بشیر چھاتی پر ڈھیر سارے بال لئے اپنے ایک ہاتھ سے اپنا موٹا تازہ لنڈ سہال
رہا تھا. ماتھے پر پسینے کے قطرے تھے. شبنم کی دونوں ٹانگیں باری باری اپنے کندھوں پر
رکھ لی. اپنی اور شبنم کی پوزیشن درست کی. پھر جھک کر شبنم کے سر کے نیچے ایک
تکیہ رکھ لیا اور ہونٹوں پہ ایک کس کی. دونوں ہاتھوں سے شبنم کے ممے نچوڑے اور پھر
سیدھا ہو کر اپنے لنڈ کی جانب متوجہ ہوگیا. شبنم یہ سب کچھ ہراساں نظروں سے دیکھ
رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی. آج وہ اپنے کنوارے پن سے محروم
ہونے والی تھی مگر وہ نہال تھی. وہ اس میٹھے درد کا اندازہ کر چکی تھی جس کے بعد
لذت کی المتناہی وادیاں تھی. آہستہ سے اسکو اپنی چوت کے اوپر کچھ محسوس ہوا اور
وہ لرز گئی. بشیر آہستہ آہستہ اسکی چوت کے اوپر اپنا راڈ جیسا لنڈ سہال رہا تھا. شبنم نے
آنکھیں موند لی. اس نے اپنے دونوں ہاتھ پیچھے لے جا کر بیڈ کی چادر پکڑ لی اور گانڈ
اٹھانے لگی کہ اچانک کمرے میں ایک چیخ گونجی. بشیر نے فورًاشبنم کے ہونٹوں پر ہاتھ
رکھ لیا. وہ تھر تھر کانپنے لگی اسکے سب اندازے غلط نکلے. درد بے انتہا تھا. بشیر نے آہستہ
سے مسلنے کے بعد اپنا لنڈ سیدھا کیا تھا اور جیسے ہی پہلے دھکے سے ٹوپی اندر کی تو
شبنم کی تھراہ نکل گئی. ٹوپی ابھی تک شبنم کی چوت میں تھی. اسکی آنکھوں سے آنسوں
نکلنے لگے. بشیر نے اسکو لمبی سانسیں لینے کو کہا اور اسکے ہونٹوں پہ ایک لمبا سا بوسہ
دیا. تھوڑی دیر بعد شبنم کا جسم ڈھیال پڑ گیا تھا. وہ ساکت لیٹی چھت کو دیکھ رہی تھی
اور دل ہی دل میں اس آزمائش کے بارے میں سوچ رہی تھی. اس نے بشیر سے کہا
"سنئیے، بس کرتے ہیں مجھ میں اور طاقت نہیں ہے"
بس میری جان آدھا لنڈ تو تمھارے اندر گیا ہوا ہے اور باقی بھی اگر تم برداشت نہ کر سکو
"تو کوئی بات نہیں، میں یہ آدھا ہی چال لوں گا
بشیر نے جواب دیا
شبنم کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا. بشیر نے ایک ہاتھ اسکی گردن پر رکھا تھا اور ایک ہاتھ اسکے
منہ کے آس پاس اور چہرے پر پھیر رہا تھا. بشیر نے آہستہ سے ایک ہاتھ شبنم کے ہونٹوں پر
رکھا اور اچانک ایک زور دار جھٹکے سے اپنا پورا لنڈ شبنم کی چوت میں اتار دیا. شبنم نے
محسوس کیا جیسے لوہے کا ایک راڈ اسکے جسم میں گھس گیا ہو. وہ چیخی مگر اسکی
آواز بشیر کی سخت گرفت کی وجہ سے اندر ہی دب گئی. وہ اب کسی معصوم پرندے کی
طرح پھڑپھڑا رہی تھی. وہ ظالم شکاری بشیر کے شکنجے میں تھی. ٹانگیں بشیر کے کندھوں
پر تھیں صرف ہاتھ ہی آزاد تھے جسکا وہ بھرپور استعمال کر رہی تھی. وہ ناخن سے بشیر
کے ننگے بدن کو نوچنے لگی. آنسوں اس کی آنکھوں سے رواں دواں تھے. بشیر پورا لنڈ
گھسانے کے بعد اب شبنم پر جھک گیا تھا اور بوس و کنار کے ساتھ ساتھ اسکو تسلیاں دے
.رہا تھا
"بس تھوڑی سی ہّمت اور کرو پھر زندگی بھر مزے ہی مزے ہوں گے"
"بشیر میں مر جاؤں گی. مجھ پہ رحم کرو اس کو نکالو"
شبنم نے روتے ہوۓ بمشکل کہا
کچھ بھی نہیں ہوگا تمہیں. دیکھو نا میرا پورا لنڈ اپنے اندر سماں لیا اس سے اور خوشی"
"کی کیا بات ہے. ابھی تو درد ختم اور مزے شروع
بشیر نے جواب دیا
.جواب میں شبنم درد کے مارے بس سر کو دائیں بائیں ہالنے لگی
بشیر نے ذرا اٹھ کر شبنم کی ٹانگوں کے درمیان دیکھا تو بے اختیار اس کو اپنی نئی نویلی
دلہن پر بے حد ترس آیا. اس کی چوت خون میں لت پت ہونے کی وجہ سے نظر ہی نہیں
آرہی تھی. آس پاس رانوں اور ٹانگوں پر بھی کافی خون لگ چکا تھا. ان سب میں اس کی
چھوٹی سی نازک چوت میں ایک کاال موٹا لنڈ جڑ تک اندر دھنسا ہوا تھا. جیسے کسی
.چھوٹی سی کیل کی جگہ کسی نے کوئی موٹا سا سریا ٹھوک دیا ہو
شبنم کے منہ سے ایک ہی آواز آرہی تھی "میں مر جاؤں گی" اور وہ بھی نہایت خفیف آواز
.میں. بشیر نے بھی اب آہستہ آہستہ چوت میں لنڈ کی آمدورفت شروع کر لی
شبنم آخر شکار ہو گئی. بال منتشر، میک اپ خراب ہو چکا تھا. سفید رنگت میں سرخی عود
کر آئی تھی. وہُچد رہی تھی. زندگی میں پہلی مرتبہ وہ کسی مرد سےُچد رہی تھی مگر وہ
اس کا اپنا شوہر تھا. وہ اس کے سامنے ٹانگیں کھول کر بے خوف و خطر ننگی لیٹی ہوئی
تھی اور جھٹکے کھا رہی تھی. بشیر اس کو چود رہا تھا. وہ ہاتھ آئے اس انمول ہیر
ساتھ کھیل رہا تھا. جھٹکوں کی رفتار تیز ہوگئی تھی شبنم کا پورا جسم ہلکورے لے رہا تھا
خاص کر اس کے ممے. بشیر بھی سامنے کا منظر دیکھ کر اور وحشی سا ہو گیا، ایک ایک
جھٹکا آخری سمجھ کر لگاتا. شبنم کی انتہائی تنگ چوت کے در دیوار میں لنڈ کو خاصی
رگڑ لگتی تھی اور یہی رگڑ دونوں میاں بیوی کو کسی اور دنیا میں لے جا رہا تھا. شبنم اب
بھی درد سے کراہ رہی تھی مگر یہ درد اب بہت میٹھا ہوگیا تھا. تکلیف کی جگہ لذت نے لے
لی تھی اور اس کی کراہیت میں اب مٹھاس بھری آہیں شامل ہوگئی تھیں اس لئے وہ اب
گانڈ اٹھا اٹھا کر اپنے پتی پرمیشور کا ساتھ دے رہی تھی. بشیر چدائی کے ساتھ دونوں ہاتھ
کبھی مموں پر لے جاتا اور کس کہ پکڑتا تو کبھی نیچے لے جاکر زور سے شبنم کے بڑے بڑے
چوتڑ پکڑ کر دباتا. اس نے ایک دو مرتبہ لنڈ باہر نکال کر خون سے دوبارہ رنگ دیا اور خون و
خون لنڈ دوبارہ شبنم کی پھدی میں ڈال دیا. خون کی یہ ہولی رات بھر جاری رہی اور ہر بار
اس ہولی کا وہ سفید تخم بشیر شبنم کے اندر انڈیلتا رہا. شبنم ہر بار اپنے اندر اپنے شوہر کا
گرم گرم پانی اترتا محسوس کرتی تو جسم میں ایک لہر سی دوڑ جاتی. سہاگ رات اپنے
اختتام کو پہنچی وہ دونوں فتحیاب ہو چکے تھے. ایک چمکدار نئی صبح نے ان کا استقبال
کیا. ایسے ہی وہ سہانے دن رات گزارتے رہے اس بات سے انجان کہ کیسی ایک بڑی آفت ان کا
.استقبال کر رہی ہے
••••••••••••••••••
آج صبح نمودار ہوتے ہی حویلی میں ہلکا ہلکا شور بلند ہونے لگا. شبنم اور شبیر دونوں کمرے
سے نکل کر نیچے آگئے. شبیر کھیتوں کی طرف نہیں نکال تھا کیوں کہ کسی کو بھی آج
حویلی چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی. غریب صورت مالزمین ایک ایک کر کے باہر وسیع
صحن میں جمع ہوتے رہے. سب کے چہروں پر ایک انجانا سا خوف تھا. پرانے نوکر کسی حد
تک بات کی نوعیت کو سمجھ کر معاملے کی تہہ تک جانے کی کوشش کر رہے تھے. دھوپ
تیز ہونے لگی تھی. سب لوگ سرگوشیوں میں مصروف تھے کہ اچانک برآمدے میں ایک
کمرے سے چیمہ کاکا برآمد ہوا اور صحن کی طرف بڑھنے لگا. اس کے ساتھ ایک تیرہ سال کا
بچہ تھا جس کے ہونٹ پھٹ چکے تھے اور قمیض تار تار تھی. رسیوں سے اس کے دونوں
ہاتھ آگے کی طرف باندھے تھے. وہ سر جھکائے چیمہ کے ساتھ چال آرہا تھا کہ اچانک چیمہ
نے زور سے اس کے سر کے بال پکڑ کر کھینچے اور پھنکار
جاری ہے