اندھیر نگری قسط 1

0

 









اندھیر نگری 

قسط نمبر:-1

جل پور گاؤں میں صبح کا اجاال پھیل گیا تھا. گاؤں کے لوگ اپنے کاموں کی شروعات کر رہے

تھے. کوئی ہل چالنے کے لئے بیل تیار کر رہا تھا تو کوئی گدھا گاڑی پر منڈی لے جانے کے لئے

سبزیاں الد رہا تھا. کچی گلیوں میں بچے کھیلنے گھروں سے جوق در جوق نکل رہے تھے.

اسکول نہ ہونے کی وجہ سے بڑی عمر کے بچے کھیتوں اور باقی کاموں میں باپ کا ہاتھ

بٹھاتے جبکہ چھوٹے بچے دن بھر کھیل کود میں مصروف رہتے. گاؤں کے درمیان میں ایک

کچی سڑک گزرتی تھی. جس کے دونوں طرف گاؤں کی مفلس آبادی تھی جو کہ تقریبا تین

 .سو گھروں پر مشتمل تھی

اسی پرسان حال گاؤں میں ایک عالی شان حویلی بھی تھی. کوئلے میں پڑے کسی چمکدار

ہیرے کی طرح.. گاؤں کے بلکل وسط میں یہ خوبصورت حویلی جو گاؤں کے حاالت سے

بلکل بھی میل نہیں کھاتی تھی، چودھری کرامت علی کی تھی. چودھری کرامت اس حویلی

میں بیٹھ کر پورے گاؤں کے فیصلے کرتا تھا. کون کیا روزگار کرے گا کون سی عورت کتنے

بچے جنے گی اور کس کی لڑکی کہاں بیاہی جاۓ گی ان سب کا فیصلہ چودھری کرتا تھا.

تعلیم کی اجازت کسی کو نہیں تھی. ایک پرانا پرائمری اسکول تھا جس میں چودھری کی

بھینسیں بندھی ہوتی تھیں. مختصر چودھری کرامت جل پور کی ریاست کا بادشاہ تھا اور

پورا جل پور اسکی رعایا. وہ ہر سیاہ و سفید کا مالک تھا. جب جو جی چاہے وہ کر گزرتا

.تھا

                            •••••••••••••••••

شبنم کو حویلی میں آئے آج تیسرا دن تھا. تین دنوں سے وہ خود کو بے آرام محسوس کر

رہی تھی. یہاں آتے ہی اسکو ایک انجانا سا خوف الحق ہو چکا تھا. اسکا شوہر بشیر صبح

سویرے چودھری کے کھیتوں میں کام کرنے نکل جاتا تھا اور شبنم پھر دن بھر اسکی راہ

تکتی. یوں تو حویلی میں بیشمار آنکھیں شبنم کے جسم کا تعاقب کرتی مگر اس میں تیز

چھبنے والی آنکھیں چودھری کرامت کی تھی. ستم ذریفی یہ تھی کہ چودھری جب چاہے

شبنم کو حیلے بہانے سے بال کر باتیں کرتا جو کہ اکثر زو معنی ہوا کرتی تھی. باتوں کے

دوران اسکی نظریں شبنم کے پستانوں سے ہوتی ہوئی نیچے ٹانگوں تک کا طواف کرتی.


جبکہ شبنم اندر ہی اندر کڑھتی رہتی. وہ ہر روز بشیر کو بتانے کا فیصلہ کرتی مگر رات کو

اسکی تھکاوٹ اور بھولے بشیر کے دل میں چودھری کے لئے نرم گوشہ دیکھ کر چپ رہ جاتی

اور دعا کرتی کہ کسی طرح اس حویلی سے جان چھوٹے مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ

.کس دلدل میں پھنس چکی ہے

بشیر اور شبنم کی شادی کو چار ماہ ہی ہوۓ تھے. شادی سے پہلے وہ دونوں پڑوسی تھے.

بشیر بچپن سے ہی چودھری کی حویلی میں کام کرتا تھا. دو چار پیسے بھی ہاتھ آجاتے اور

کچھ نہ کچھ اناج بھی ہاتھ لگ جاتا. یوں زندگی کا پہیہ چل رہا تھا. ایک بہن تھی جس کی

شہر میں شادی ہوگئی تھی اور جیسے تیسے انکا وہاں گزارا چل رہا تھا. بیمار ماں تھی جو

دن بھر اپنے بیٹے کی بالئیں لیتی اور بشیر کو دولہا بننے کے خواب دیکھتی رہتی. پھر ایک

دن شبنم اور بشیر کی شادی کی بات چلی. دونوں کے گھر آمنے سامنے تھے. شبنم انیس سال

کی نو خیز لڑکی تھی. سفید رنگت کے ساتھ انتہائی مالئم جلد. باپ مٹی کے برتن بناتا تھا.

اسکے ساتھ ہمیشہ کام میں جتی رہتی مگر سخت جان شبنم کو گویا محنت راس آگئی تھی

اور جسم کندن بن گیا تھا. دوسری طرف بشیر دبلے جسم مگر مضبوط ہڈیوں کا مالک تھا.

لمبا قد لمبے بازو، اور بچپن سے ہی جفا کش.. آخر چودھری کرامت نے بھی شادی کا

"اپروول" دے دیا اور یوں شبنم اور شبیر کی شادی طے پائی. شادی کے بعد حاالت بہت

تیزی سے بدلے. بشیر کی ماں اور شبنم کی ساس ڈیڑھ ماہ بعد ہی مر گئی. اسکے جانے کے

بعد گھر کے کاغذات میں کوئی گڑ بڑ نکل آئی اور گھر بھی سرکاری ہوگیا. بشیر تو گویا

سڑک پر آگیا تھا مگر پھر چودھری نے اسکو ایک پرانے مزدور ہونے کے ناطے اپنے سرونٹ

کوارٹرز میں جگہ دی. کچھ ہی دنوں بعد دونوں میاں بیوی کو حویلی میں ایک کمرہ دے دیا

گیا. بھوال بشیر بہت خوش تھا. چودھری کی اتنی کرم نوازی سے وہ پھولے نہیں سمارہا تھا

مگر شبنم اندر سے خوش نہیں تھی. بات کی گہرائی میں وہ بھی نہیں پہنچ پا رہی تھی

 .مگر ایک دھڑکا سا لگا رہتا تھا

                          ••••••••••••••••••

شبنم سفید پھولدار سستے سے کاٹن کے سوٹ میں ملبوس تھی. وہ امید سے تھی. کولہے

مٹکاتی وہ نیچے سیڑھیوں سے اتر رہی تھی کہ اچانک سامنے چیمہ کاکا سامنے آگیا. وہ

سامنے سے گزر رہا تھا کہ اوپر سیڑھیوں سے اترتی شبنم کو دیکھا اور وہی ہاتھ پیچھے

باندھے کھڑا ہوگیا. شبنم بھی رک سی گئی اور اب بہت آہستہ سے پیر اتارنے لگی. چیمہ کاکا

 "کے چہرے پہ ایک شیطانی مسکراہٹ پھیلی. "صبح صبح کہاں چلی ہماری دھی رانی؟

اس نے پوچھا

"ویسے ہی بس نیچے جا رہی تھی"

"کس کے؟"

اس نے معنی خیز انداز میں پوچھا اور تیز نظروں سے شبنم کو مسکرا کر گھورنے لگ گیا.

.شبنم کو کچھ سمجھ نہیں آیا اور وہی سے واپس پلٹ گئ

چیمہ کاکا نیچے سے اسکے ہلکورے لیتا جسم کو تکتا رہا. وہ اس حویلی میں چودھری کے

سب سے قریب تھا. وہ پینتالیس سال کا ایک زہریال شخص تھا. چودھری کرامت علی کے ہر

جائز و ناجائز کام میں اس کا بھرپور ہاتھ بٹھاتا. اپنی ایک بیوی کے ساتھ اس حویلی میں

ہی رہتا تھا. چودھری کے نہایت قریب ہونے کی ایک وجہ اس کی کمینگی تھی جس کی اکثر

.چودھری جیسے لوگوں کو ضرورت پڑتی ہے اور دوسری وجہ اس کی بیوی تھی

شبنم جلدی سے اوپر اپنے کمرے میں داخل ہوئی. زور سے دروازہ بند کیا اور خستہ سے بیڈ

پر ڈھے گئی. اس کا اس حبس زدہ ماحول میں دم گھٹ رہا تھا. اس نے آنکھیں بند کی اور

 .پرانی یادوں میں کھو گئی. لیٹے لیٹے وہ اپنی شادی کا دن یاد کرنے لگی

جب شام کا وقت تھا اور وہ بشیر کی دلہن بن کر اس کے گھر میں آچکی تھی. گاؤں کے لوگ

اب گھروں کو لوٹ رہے تھے. چند ہی نوجوان لڑکیاں شبنم کے پاس رنگ برنگی چار پائی میں

بیٹھی تھیں. بشیر کی ماں جاال اپنی نئی نویلی دلہن کے صدقے اتار رہی تھی. اندھیرا

ڈھلنے کے ساتھ کچے مکان کے صحن میں رونق اب کم ہونے لگی تھی. سورج غروب ہوا تو

 .رات کے اندھیرے نے اپنے آنے کی بھی خبر دی اور شبنم کی سہاگ رات کی بھی

وہ عروسی الل جوڑے میں بیحد خوبصورت لگ رہی تھی. چہرے پر انتہا کی معصومیت

تھی. اس نے ہلکا سا میک اپ کر رکھا تھا. اپنی ایک سہیلی نے اسکو اپنے طور بڑی

خوبصورتی سے تیار کیا تھا. بالوں کا ایک جوڑا بنا رکھا تھا. نرم اور بھرے بھرے ہاتھوں پر

مہندی کا رنگ بہت جچ رہا تھا. وہ بیڈ کے وسط میں گھٹنے اپنے سینے کے قریب کئے بیٹھی

اپنے سرتاج کا انتظار کر رہی تھی کہ اتنے میں کمرے کا دروازہ کھال اور بشیر اندر داخل ہوا.

اس نے کمرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور آہستہ قدموں سے بیڈ کی جانب بڑھنے لگا. یہاں

معصوم شبنم کے دل کی دھڑکن بڑھنے لگی. بشیر بیڈ پر بیٹھا تو یک ٹک وہ شبنم کی طرف

دیکھنے لگا. شبنم تھوڑا کسمسائی اور مسلسل نیچے دیکھنے لگی. اسکی نظر بشیر کے

ہاتھوں پر گئی تو وہ لرز رہے تھے. شاید وہ بھی شرما رہا تھا. دونوں کے درمیان ایک طویل

خاموشی تھی کہ اچانک بشیر نے کہا

"شبنم تم مجھے بہت پیاری لگتی ہو"

شبنم ہولے سے مسکرائی اور اسکی نظریں اور جھک گئی. بشیر اب شبنم کے سامنے دو زانوں

بیٹھ گیا تھا. لرزتے ہاتھوں سے اس نے شبنم کے ہاتھ تھامے جو اسکی گود میں پڑے ہوۓ

تھے. بشیر کے جسم میں ایک لہر دوڑ گئی جب اسکے ہاتھ شبنم کے ران سے مس ہوۓ. شبنم

کے گوشت سے بھرپور بھرے بھرے ران اور اسکی ہاتھوں کا مسلسل لمس بشیر کو دیوانہ

بنانے کے لئے کافی تھا. دوسری طرف شبنم کا بھی یہی حال تھا. اسکی ہتھیلیوں پر پسینہ

آنے لگا تھا. بشیر نے بڑے پیار سے اسکی ٹھوڑی اٹھائی آنکھوں میں دیکھا پھر بے اختیار نظر

سیدھی شبنم کے گلے پر گئی. گہرے گلے والی الل قمیض میں دو گول مٹول بڑے بڑے

خوبصورت گہرے راز بشیر پر آشکار ہو رہے تھے. بشیر نے آہستہ آہستہ اسکے ہاتھ سہالنا

شروع کئے اور ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا. کمرے میں ہلکا اندھیرا تھا مگر وہ دونوں

ایک دوسرے کو صاف دیکھ سکتے تھے. دو منہ زور جوانیاں آپس میں ٹکرانے والی تھیں.

دو دل مل رہے تھے اور دو جوان جسموں کا مالپ ہونے واال تھا. بشیر نے شبنم کے عروسی

جوڑے کا دوپٹہ احتیاط سے اتار کر ایک طرف رکھ دیا. پنکھے کی مدھم ہوا میں شبنم کے

چہرے پر بالوں کے لٹ آئے. بشیر نے انکو پیار سے کانوں کے پیچھے پھنسایا. بشیر اب شبنم

کے بہت قریب آچکا تھا. ہاتھ اب ہتھیلیوں سے ہوتا ہوا شبنم کے بازو کو سہال رہا تھا. شبنم

بھی اب لرزنے لگی تھی. وہ زندگی میں پہلی مرتبہ لّذت کی ان وادیوں میں اتر رہی تھی.

اسکے گال اب سیاہی مائل سرخ ہوچکے تھے. اس نے بشیر کی پیش قدمی کا خاموشی کے

ساتھ استقبال کیا. بشیر کا بایاں ہاتھ شبنم کی کمر کا طواف کررہا تھا جبکہ دایاں ہاتھ بازو

سے ہوتا ہوا اب گلے اور چہرے پر پہنچ چکا تھا. بشیر نے شبنم کا ایک ایک کر کے سارا زیور

اتارا اور قریب ایک تپائی پر رکھ دیا. شبنم کا نسوانی حسن چیخ چیخ کر بشیر کو دعوت

دے رہا تھا. بشیر اب شبنم کے انتہائی قریب آچکا تھا. پھر اس نے شبنم کی دائیں ٹانگ اٹھا

کر اپنی بائیں ٹانگ کے اوپر رکھی اور سیدھی کر دی. پھر دوسری ٹانگ کے ساتھ بھی یہی

سلوک کیا اور اچانک شبنم کی کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا. میاں

بیوی کی شرمگاہیں آپس میں ٹکرائی. شبنم شرم سے پانی پانی ہوگئی. وہ بیٹھے بیٹھے

اچانک اپنے سرتاج کے گود میں چلی گئی تھی. یہ ایک اجڈ گاؤں والے کا پیار کا انداز تھا

لیکن کچھ بھی ہو پیار تو پیار ہوتا ہے. یہ فطرت کے منہ زور ریلے ہیں یہ چاہے جیسے بھی

بہے بس بہہ کر انکا حق ادا ہونا چاہیے اور بشیر وہی کر رہا تھا. شبنم شرمسار ہو رہی تھی

مگر وہ خوش بھی بہت تھی. اسکا انگ انگ آج رات رس پھوٹ رہا تھا. وہ دونوں اب گلے

مل رہے تھے. بشیر کا موٹا لمبا لنڈ شلوار کے اندر سے شبنم کی چوت کو لگ رہا تھا. اسکے

پورے جسم میں گدگدی ہو رہی تھی. بشیر نے آہستہ سے اپنے ہونٹ شبنم کی گردن پر رکھے.

وہ تڑپ کر رہ گئی. بشیر کی کمر کے گرد شبنم کے بازوؤں کا گھیرا سخت ہوگیا. شبنم کی

آنکھیں بند ہوگئی اور سر ایک طرف کو لڑھک گیا. اس نے خود کو بشیر کے حوالے کر دیا

تھا. اب بشیر کی مرضی تھی کہ وہ شبنم کی سیل توڑنے سے پہلے اسکو کتنا ترساتا ہے. اس

کی حرکات میں اب تیزی آگئی تھی. جلد ہی اس نے شبنم کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ لئے.

نوبیاہتا بیوی کے رس بھرے ہونٹ اب بشیر بے دردی سے چوس رہا تھا. شبنم نے بھی اب

نیچے سے ہلنا شروع کر لیا تھا. وہ اپنے جسم کو اٹھا اٹھا کر اپنے چوت کو بشیر کے موٹے لنڈ

کے اوپر رگڑنے لگی جبکہ بشیر کا لنڈ کسی سانپ کی طرح پھنکار رہا تھا. بشیر ایک ہاتھ

شبنم کے پستانوں پر لے آیا. بڑے پیار سے پہلے اس نے بایاں مما دبانا شروع کیا. دونوں میاں

بیوی الشعور میں جا چکے تھے. دونوں نے شرم و حیا کو ایک طرف رکھے سٹیل کے پلیٹ

میں رکھ دیا تھا. بشیر نے ہلکا سا دھکا دیکر شبنم کو گرایا اور خود اسکے اوپر لیٹ گیا.

شبنم نیچے ایک پیارے سے بوجھ تلے دب گئی. وہ پہلی مرتبہ کسی مرد کے نیچے لیٹی تھی.

اسکا پورا جسم اور بڑے ممے بشیر کے جسم کے نیچے دب گئے تھے جو شبنم کو ایک الگ ہی

احساس دال رہے تھے. اچانک بشیر اٹھ کر بیٹھ گیا اور شبنم کو بھی اٹھنے کو کہا. شبنم کی

سمجھ میں کچھ آیا تو نہیں مگر اٹھ کر بیٹھ گئی. بشیر نے پہلے اپنی قمیض اتاری پھر

بنیان اور پھر وہ شبنم کے کپڑوں کی طرف متوجہ ہوا. شبنم نے فورًاشرم کے مارے دونوں

ہاتھ سامنے چھاتی پر کراس کی شکل میں باندھے. وہ زندگی میں کبھی کسی کے سامنے

ننگی نہیں ہوئی تھی. اسکا نرم و نازک بدن اسکے عالوہ کسی نے نہیں دیکھا تھا. بشیر نے

ذرا سختی سے اسکے ہاتھوں کا گھیرا توڑا اور اطراف سے قمیض پکڑ کر اوپر اٹھانے لگا.

شبنم نے بھی بڑے شرمیلے انداز میں دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دیے. بشیر کی نظر سب سے پہلے

شبنم کے پیٹ پر گئی. سفید نرم ومالئم پیٹ میں اندر دھنسا ہوا ناف.. قمیض اوپر اٹھتی

گئی شبنم کا جسم پہلی مرتبہ کسی مرد کے سامنے ننگا ہوتا گیا اور کمرے میں اسکے جسم

کی خوشبو پھیلتی گئی. قمیض اتاری تو شبنم واپس لیٹ گئی. اسکے تنے ہوۓ پستان ایک

جاری ہے

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)