اندھیر نگری
قسط نمبر:-3
چہرہ اوپر کر حرامزادے تا کہ سب لوگ تیری شکل دیکھ لے کہ ایک چور کی شکل کیسی"
"ہوتی ہے
لوگوں میں ہراس پھیل گیا. سب کی نگاہوں کا مرکز وہ بچہ تھا جس کا نام خیرو تھا. خیرو
کا باپ بہت پہلے بارشوں میں چھت گرنے کی وجہ سے مر گیا تھا. وہ اور اس کی ماں آصفہ
کو چودھری نے "رحم کھا کر" حویلی میں کام اور جگہ دونوں دیا اور یہی ان کا گزر بسر
ہونے لگا. چیمہ خیرو کو لیکر صحن کے وسط میں پہنچ گیا. ہجوم پر نگاہ دوڑای اور اچانک
ایک زناٹے دار تھپڑ خیرو کے منہ پر رسید کیا اور بات کرنے کا باقاعدہ آغاز کیا
اس حرام کے پلے کو چودھری صاحب نے ہی بڑا کیا. یہ جسم کا سارا گوشت اس کو"
چودھری صاحب نے دیا ہے. تم سب لوگ جانتے ہو یہ اور اس کی وہ گشتی ماں کیسے در بدر
پھر رہے تھے جب چودھری صاحب نے ان دونوں پر ترس کھا کر ان کو کھانے کے لئے روٹی
."اور رہنے کے لئے چھت دی مگر یہ نیچ لوگ اس قابل ہی نہیں کہ ان پر ترس کھایا جاۓ
حویلی کے مالزموں کے عالوہ گاؤں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی. چیمہ تقریر کرتے
ہوۓ درمیان میں کھڑے ہو کر آہستہ آہستہ چاروں طرف گھوم بھی رہا تھا. ساتھ خیرو کو
.بھی کالر سے پکڑ کر گھما رہا تھا
اس حرامزادے نے کل بیگم صاحبہ کی ایک سونے کی انگھوٹی چوری کی اور حویلی سے"
بھاگ رہا تھا. اندر اس کی رنڈی ماں سے بھی تفتیش جاری ہے اور ابھی بہت جلد چودھری
"صاحب باہر آ کر دونوں کا فیصلہ کر دیں گے
حویلی کی دوسری منزل کے ایک کمرے سے نیچے کا یہ سارا نظارہ دیکھا جا سکتا تھا.
چودھری کھڑکی کے پاس کھڑا یہ پورا تماشا دیکھ کر مسکرا رہا تھا. کمرے کے وسط میں
ایک عورت گھٹنوں میں اپنا سر دیے زار و قطار رو رہی تھی. پھٹے پرانے کپڑوں میں اس کا
بھرپور جسم کئی جگہوں سے صاف نظر آرہا تھا مگر وہ اس سے بے نیاز تھی کیوں کہ اس
کا بیٹا نیچے ایک ظالم کے پاس کھڑا موت کے منہ میں جا رہا تھا. اس نے ایک آخری امید کے
ساتھ سر اٹھایا اور اشکبار لہجے میں بولی
چودھری صاحب میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں میرے بیٹے کی جان بخش دو وہ بے"
"قصور ہے
چودھری کھڑکی سے پلٹ کر آصفہ کی طرف بڑھا. نیچے پنجوں پر بیٹھ کر آصفہ کی
آنکھوں میں دیکھ کر بوال
ہم دونوں جانتے ہیں کہ تمہارا لونڈا بے قصور ہے مگر کیا کریں اس کی ماں جو بے وفا"
"ٹہری. اب ماں کے لئے وہ اتنی قربانی تو دے سکتا ہے نا
چودھری صاحب آپ کو خدا کا واسطہ ہے مجھ میں اور سکت نہیں ہے مجھے معاف کر"
دیں. میں کل اپنے بیٹے کو منہ دکھانے کے الئق نہیں رہوں گی. آج تک آپ نے جو جو کہا میں
"نے کیا مگر اب میں آپ کے پاؤں پکڑتی ہوں مجھے بخش دو
آصفہ باقاعدہ چودھری کے قدموں میں گر گئی. سجدے جیسی حالت میں اس کی ہموار کمر
چودھری کی حریص نظروں کے سامنے ہو گئی. قمیض جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی جس
کی وجہ سیاہ بریزر اور سفید کمر کا کافی سارا حّصہ صاف نظر آرہا تھا. آصفہ بلک بلک کر
رو رہی تھی. وہ چودھری کے پیروں میں گر کر اپنے معصوم بیٹے اور اپنی باقی کی عزت
کی بھیک مانگ رہی تھی مگر چودھری کے دل میں رحم کی معمولی سی بھی رمق آنے کے
بجاۓ ہوس کی چنگاری اور زیادہ بھڑک اٹھی. اسکا ہاتھ اس مظلوم عورت کے سر کے بجاۓ
سیدھا اسکی ادھ ننگی کمر پر گیا اور پھر پوری کمر پر گردش کرنے لگا. کمر پر ہاتھ
محسوس کرتے ہی آصفہ ایک طرف کو لڑھک گئی. وہ ہار گئی. وہ مظلوم عورت اپنی عزت
مزید لٹنے سے نہ بچا سکی. اس کا معصوم بیٹا شکنجے کے طور پر استعمال ہوا تھا اور
استعمال کرنے واال کامیاب ہوگیا. وہ آصفہ کو اپنی بستر کی زینت بننے کا سلسلہ جاری
رکھنے کا خواہاں تھا اور وہ کامیاب ہوگیا. آصفہ چودھری کی قدموں میں پڑی ہوئی تھی.
چودھری کا ہاتھ اب کمر سے ہوتا ہوا آصفہ کی پسلیوں اور پیٹ پر رینگ رہا تھا. اس کے
چہرے پر ایک زہریلی مسکراہٹ تھی. اس نے اپنا ایک ہاتھ اپنے ران پر رکھ کر کہا
پاگل عورت تم یہاں پلی بڑی ہو. یہاں... میری گود میں. اور اچانک سے تم نے فیصلہ کیا کہ"
"اب یہاں چڑھ کر نہیں بیٹھو گی
"میرے بیٹے کو چھوڑ دو میں تمہاری ہر بات مانوں گی"
آصفہ نے نہایت کمزور آواز میں کہ
چودھری نے ایک قہقہہ لگایا اور ہاتھ کی جگہ اب انگلی سے اسکے ادھ ننگے بدن پر خیالی
لکیریں بنانے لگا. رات بھر آصفہ پر کئی طرح کے حربے استعمال کرنے کے بعد اس کا لباس
کئی جگہوں سے پھٹ چکا تھا. شروع میں تو وہ جھجھک رہی تھی مگر بیٹے پر بڑھتے
.مظالم نے اس کو لباس سے غافل کر دیا تھا
آصفہ شوہر کے مرنے کے بعد چودھری کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی رہی. ابتدا میں اس نے
کافی مزاحت دکھائی مگر چودھری کے آگے اس کی ایک نہ چلی اور پھر ایک دن آگیا جب
آصفہ چودھری کے بستر پر اس کے نیچے لیٹی ہوئی تھی. آصفہ کا حسن اور جسم دونوں ہی
دیدنی تھے اور چودھری اس کے حسن اور بدن دونوں کے ہی مزے لوٹتا رہا. دن ہفتوں میں
اور ہفتے مہینوں میں بدل گئے اور مہینے سالوں میں، آصفہ کا چودھری کرامت علی سے
چدنے کا سلسلہ طویل ہوتا چال گیا. آصفہ کا بیٹا بڑا ہوا اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے
لگا تو آصفہ کو احساس ہونے لگا کہ کسی طرح اب چودھری سے جان چھڑانی چاہیے اور
مزید اس کی رکھیل بن کر زندگی نہیں گزار سکتی. اگر چہ شوہر سے زیادہ آصفہ کے جسم
کو چودھری نے نچوڑا تھا مگر آصفہ کے دل میں ہمیشہ سے ایک خلش رہتی تھی. کئی بار
چودھری سے چدتے وقت اپنے مرحوم شوہر کی یاد میں اس کی آنکھوں سے آنسوں جاری
ہوجاتے. اسی کشمکش میں ایک دن اس نے چودھری کے بالوے پر کان نہ دھرے اور اس کے
کمرے میں جانے سے انکار کر دیا. شروع میں اس پر سختی کی گئی ڈرایا دھمکایا مگر وہ
ڈٹی رہی. ابھی ہفتہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ چودھری نے چیمہ کا کا کو حکم صادر فرمایا کہ
یہ عورت باغی ہو چکی ہے کسی طرح اس کا دماغ ٹھیک کر دو. چیمہ جواب میں مسکرایا
اور سر ہال کر "جو حکم آقا" کا اشارہ کیا. وہ ان کاموں کے لئے مشہور تھا. چودھری نے اس
کو اس کی عیاری اور چاالکی کی وجہ سے اپنے پاس رکھا ہوا تھا. اس نے کچھ سوچ کر
آنکھیں پھیالئی اور چودھری کے قریب گیا. اجازت لیکر اس کے کان میں کچھ کہا اور
دونوں مسکرائے. اگلے ہی دن آصفہ کے معصوم بیٹے خیرو پر چوری کا جھوٹا الزام لگایا گیا
اور آصفہ کے سامنے ساری صورتحال رکھ دی گئی کہ اپنی عزت اور بیٹے کی جان میں اب
کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہوگا. وہ منت سماجت کرنے لگی. پیروں میں گر کر رحم کی
اپیل کرتی رہی مگر سفاک چودھری کے کان پر جوں نہ رینگی. چوری کی سزا چودھری نے
موت مقرر کی تھی موت بھی ایسی کہ مجرم کو ایک گہرے کھڈے میں چار عدد خونخوار
کتوں کے آگے ڈال دیا جاتا اس طرح وہ ایک اذیت ناک موت مرتا. آصفہ سپنے میں بھی اپنے
خیرو کو ایسی صورتحال سے دوچار نہیں دیکھ سکتی تھی. وہ الچار عورت گڑگڑاتی رہی
.مگر ہار گئی. وہ عزت اور بیٹے میں سے صرف اپنے بیٹے کو بچا سکی
چودھری نے آصفہ کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اٹھایا. اس کی آنکھوں میں حریص چمک
تھی. وہ اس اجڑی پجڑی عورت کے پستانوں کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا. پستان جو ایک
غرور کے ساتھ قمیض سے باہر آنے کے لئے بیتاب ہو رہے تھے. بڑے بڑے گول اور خوبصورت.
آصفہ کا جسم دلکش تھا. چہرہ اگر چہ مشقت کی وجہ سے ماند پڑ گیا تھا مگر رنگت صاف
تھی. پورا جسم سفید مالئی جیسا تھا. چودھری کے سخت ہاتھ جہاں پڑتے وہ جگہ سرخ
ہوجاتی. موٹی رانوں والی آصفہ بلکل ایک موتی کی طرح تھی. آصفہ کو دیکھ کر یہ یقین
پختہ ہوجاتا کہ حسن کا امیری غریبی سے کوئی تعلق نہیں ہے. بھری جوانی میں بیوہ ہوئی
اور پھر سالوں تک چودھری نے خوب رس نچوڑا. لمبی گردن کے نیچے بھرے بھرے کندھے
اسکے نیچے کشادہ سینہ.. دونوں پستان خوب بڑے تھے. اندر کو دھنسا ہوا پیٹ اور پھر
نہایت پھیلی ہوئی اور باہر کو نکلی ہوئی گول گانڈ... حویلی میں ہر مرد اس کو حسرت
.بھری نظروں سے دیکھتا تھا. وہ چلتی تھی تو اس کا ایک ایک انگ ناچ پیش کرتا تھا
چودھری اپنی عالی شان کرسی میں بیٹھا اور گود میں آصفہ کو بٹھا کر کہا
"بیٹھو ذرا یہاں، ہمیں بھی تو یقین ہو جاۓ کہ تم واقعی میرے پاس لوٹ آئی ہو"
آصفہ کو گود میں بٹھا کر اس کی کمر سے چہرہ لگایا اور دونوں ہاتھ سامنے لے جا کر آصفہ
کے پیٹ اور پھر بڑے بڑے مموں پر پھیرنے لگا. آصفہ زندہ الش بن کر مشینی انداز میں
.چودھری کے حکم کی تعمیل کر رہی تھی
"اب رونا دھونا بند کرو اور رات کی تیاری کرو تم آج رات میری دلہن بنو گی"
چودھری نے اس کی ران اور گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا
یہ سن کر آصفہ سکتے کی کیفیت سے نکل آئی. وہ کھڑی ہوئی اور کھڑکی کے پاس دوڑتی
ہوئی گئی اور پلٹ کر نم ناک آنکھوں کے ساتھ چودھری سے کہا
"میرے بیٹے کو چھوڑ دو وہ بے ہوش ہو جاۓ گا"
"ہاں ضرور... چھوڑیں گے مگر تھوڑا سوچ سمجھ کر
یہ کہہ کر اس نے باہر گارڈز کو آواز دی. ان کو کچھ ضروری ہدایات دی اور نیچے اترنے کی
تیاری کرنے لگا. حیران پریشان آصفہ نے دائیں بائیں دیکھا اور جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو
اچانک نیچے اپنے بیٹے کے پاس جانے کے لئے بھاگ کھڑی ہوئی. بکھرے بال اور اجڑی صورت
لئے وہ سیڑھیوں پر نیچے بھاگے جا رہی تھی. ہجوم کو چیرتے ہوۓ وہ اپنے خیرو کے پاس
پہنچ گئی جو آج اس تماشے کا مرکز تھا. ماں بیٹا گلے لگ کر خوب روۓ. تقریبا پورا گاؤں
کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا. لوگ سرگوشیوں میں مصروف تھے. چیمہ کی تقریر جاری تھی.
آصفہ کی انٹری کے بعد اس کی توپوں کا رخ اس کی طرف ہوگیا اور رنڈی اور گشتی جیسے
القابات سے نوازنے لگا. آصفہ نے خیرو کا چہرہ صاف کیا. اس کے ماتھے سے بال ہٹائے اور
.ایک بار پھر دیوانہ وار اس کا چہرہ چومنے لگی
کچھ ہی دیر بعد چودھری کرامت آ کر اپنے لئے مخصوص سجی ہوئی کرسی پر براجمان
ہوگیا. ہجوم پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑائی پھر خیرو اور آصفہ پر نگاہیں مرکوز کر لی. لوگ
سر جھکا کر مودب کھڑے ہوۓ تھے. چیمہ کا کا ایک طرف ہو کر دونوں ہاتھ سامنے کی
طرف جوڑ کر مودب کھڑا ہوگیا تھا جبکہ خیرو اور آصفہ کو دو عدد گارڈز نے پکڑا ہوا تھا.
آصفہ کے چہرے پر ایک طرح کا اطمینان تھا اور اس اطمینان کی اس نے بہت بڑی قیمت
چکائی تھی. چودھری نے گال کھنکار کر بولنا شروع کیا
تم سب لوگ جانتے ہو کہ ہم چوری کرنے والوں کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں اور چوری"
بھی پھر اگر حویلی میں ہوئی ہو. چور کو کتوں کی خوراک بنانا ہمارا یہ فیصلہ ہمیشہ سے
کارگر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ یہ واال چوری کا کیس پورے تین سال بعد آیا ہے. تم
سب لوگ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ میں اپنے اصولوں کا کتنا پکا ہوں مگر اس مرتبہ ہم نے
کچھ اور سوچا ہے. یہ لڑکا یتیم ہے جبکہ اس کی ماں بیوہ ہے. باپ کے مرنے کے بعد اس بچے
اور اس کی ماں کا ہم نے بہت خیال رکھا اور حویلی میں جگہ دی. یہی کھیال کودا اور بڑا
ہوا. اسلئے میں چودھری کرامت علی ان ماں بیٹے پر خاص ترس کھا کر اس لڑکے کی جان
."بخشتا ہوں اور سبق سکھانے کے لئے صرف ایک گھنٹہ الٹا لٹکانے کا فیصلہ کرتا ہوں
آصفہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی. وہ چیخی اور چودھری کے پاس دوڑی مگر گارڈ نے اس
کو مضبوطی سے تھام لیا. معصوم خیرو بلند آواز رونے لگا. وہ بے قصور تھا. وہ سارے
معاملہ سے انجان ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہا تھا. گاؤں کے لوگ کسی حد تک مطمئن تھے
کہ چلو بچے کی جان بچ گئی مگر اصل بات سواۓ آصفہ کے کسی کو پتہ نہیں تھی. اس کے