کہا۔۔۔ "جی۔۔۔" نجیبہ کی آواز میں گھبراہٹ صاف محسوس ہو رہی تھی۔۔۔"اب کیسا محسوس کر رہی ہو۔۔۔" میں نے اس کے پیٹ کو سہلاتے ہوے کہا۔۔۔ تو اس کا جسم پھر سے کانپ گیا۔۔۔
نجیبہ: جی پہلے سے بہتر ہے۔۔۔
میں:اچھا ٹھیک ہے۔۔۔میں تمہارے لیے چائے بنا لاتا ہوں۔۔۔پھر تمہیں اور اچھا لگے گا۔۔۔(میں ابھی اٹھنے ہی والا تھا کہ نجیبہ نے میرا وہ ہاتھ پکڑ لیا جو میں نے اس کے پیٹ پر رکھا ہوا تھا۔۔۔)
نجیبہ:مجھے چائے نہیں چاہیے۔۔۔
میں:تو پھر کیا چاہیے۔۔۔(میں من ہی من سوچ رہا تھا کہ کاش نجیبہ کہہ دے کہ مجھے صرف آپ چاہیے۔۔۔)
نجیبہ:کچھ نہیں میں اب ٹھیک ہوں۔۔۔(لیکن نجیبہ نے میرے ہاتھ کو کس کے پکڑ لیا تھا۔۔۔جیسے کہنا چاہتی ہو کہ میرے ساتھ ایسے ہی لیٹے رہو۔۔۔)
میں:اچھا ٹھیک ہے تو پھر میں چلتا ہوں۔۔۔
نجیبہ:(جب میں نے جانے کا کہا تو اس نے میرا ہاتھ اور زور سے پکڑ لیا۔۔۔) رک جائیں پلیز۔۔۔تھوڑی دیر اور۔۔۔
نجیبہ کی آواز میں خماری چھائی ہوئی تھی۔۔۔میں بھی وہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا۔۔۔اس لیے میں بھی اپنی کمر کو نیچے سے پش کیا تو میرا لن اس کی شلوار کے اوپر سے اسکی بنڈ کے مورے پر جا لگا۔۔۔اس کا پورا بدن مستی میں کانپ گیا۔۔۔سسی۔۔۔ اس کے منہ سے ہلکی سے سیسکاری بھی نکل گیا۔۔۔" تبھی باہر ڈور بيل بجی۔۔۔ ہم دونوں ہڑبڑا گئے۔۔۔میں جلدی سے اٹھا اور ٹائم دیکھا تو 7 بج رہے تھے۔۔۔'دودھ لے لو شاہ جی۔۔۔" باہر سے ہمارے دودھ والے کی آواز آئ۔۔۔تو مجھے خیال آیا کہ دودھ والا ہے۔۔۔میں کچن میں گیا۔۔۔اور وہاں سے برتن لے کر باہر آکر گیٹ کھولا۔۔۔دودھ والے نے دودھ برتن میں ڈالا اور چلا گیا۔۔۔میں نے گیٹ بند کیا اور دودھ کے برتن کو کچن میں رکھ کر پھر سے نجیبہ کے روم میں چلا گیا۔۔۔
جب میں وہاں پہنچا تو نجیبہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی ۔۔۔ جیسے ہی اس نے میرا عکس آئینے میں دیکھا تو اس نے شرمّا کر نظریں جھکا لیں۔۔۔"اب کیسی ہو۔۔۔؟" میں نے دروازے پر کھڑے کھڑے پوچھا۔۔۔'جی اب بہتر ہوں۔۔۔"
میں:دودھ کچن میں رکھ دیا ہے۔۔۔میں دوکان سے بریڈ اور انڈے لے آتا ہوں۔۔۔
میں نے باہر کا گیٹ کھولا اور دوکان کی طرف چل پڑا۔۔۔آج تو لگ رہا تھا کہ سردی پورے زور پر ہے۔۔۔گلی میں اتنی دھند چھائی ہوئی تھی کہ سامنے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔۔۔
گلی میں دھند چھائی ہوئی تھی۔۔۔جس کے باعث تھوڑی دور تک ہی نظر آ رہا تھا۔۔۔میں ابھی دوکان سے کچھ دور تھا۔۔۔اور جیسے ہی میں سمرا چاچی کے گھر کے سامنے سے گزرا تو ٹھیک اسی وقت سمرا چاچی ہاتھ میں بالٹی لیے باہر آئے۔۔۔
سمرا چاچی بھینس کا دودھ نکالنے جا رہی تھیں۔۔۔ان کے گھر کے ٹھیک سامنے ہی ان کا ایک چھوٹا سا پلاٹ تھا۔۔۔جس کے چاروں طرف بڑی بڑی باڑھ تھی۔۔۔اور سامنے ایک لکڑی کا دروازہ تھا۔۔۔جیسے ہی سمرا چاچی کی نظر مجھ پر پڑی۔۔۔تو وہ مسکراتے ہوے بولیں۔۔۔"سویرے سویرے کدھر دی سیر ہو رہی ہے ۔۔۔؟ میں اس کے پاس رک گیا۔۔۔"وہ دوکان سے بریڈ اور انڈے لینے جا رہا تھا۔۔۔"
سمرا چاچی نے دروازہ بند کیا اور گلی میں ادھر ادھر نظر ماری۔۔۔سردی کی وجہ سے کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔اگر گلی میں کوئی ہوتا بھی تو دھند کے باعث ہمیں دیکھ نہیں پاتا۔۔۔سمرا چاچی میرے پاس آئے اور دھیرے سے بولیں۔۔۔"چل اندر۔۔۔"
لیکن میں نے صاف انکار کر دیا۔۔۔کہہ دیا کہ نجیبہ گھر پر اکیلے ہے۔۔۔میں دوکان پر گیا۔۔۔وہاں سے دودھ اور انڈے خریدے اور گھر کی طرف چل پڑا۔۔۔جب میں گھر کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ہمارے گھر کے باہر ایک موٹر سائیکل کھڑی ہے۔۔۔پھر جب اور پاس پہنچا تو موٹر سائیکل دیکھ کر پتہ چلا کہ یہ بائیک تو نجیبہ کے ماما کی ہے۔۔۔
میں نے گیٹ کو دھکیلا تو گیٹ کھل گیا۔۔۔سامنے برآمدے میں نجیبہ کے ماما اور مامی جی بیٹھے ہوے تھے۔۔۔میں اندر گیا تو نجیبہ کچن سے باہر آ گئی۔۔۔میں نے اسکو بریڈ اور انڈے پکڑائے۔۔۔اور پھر نجیبہ کے ماما مامی کے سلام دیا ۔۔۔سلام کے بعد میں ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔۔۔نجیبہ چائے بنا کر لے آئے۔۔۔'آپ اتنی صبح صبح سب خیریت تو ہے نا۔۔۔؟" میں نے نجیبہ کے ماما سے پوچھا۔۔۔"ہاں سب ٹھیک ہے۔۔۔ہم نجیبہ کو لینے آئے تھے۔۔۔اسکی مامی نے آج شہر میں شاپنگ کے لیے جانا ہے۔۔۔یہ کہہ رہی تھی کہ نجیبہ کو ساتھ لے کر جاؤں گی۔۔۔ کیونکہ نجیبہ کی چوائس بہت اچھی ہے۔۔۔
میں: اوہ اچھا۔۔۔ضرور لے جائیے۔۔۔
میں نے نجیبہ کی طرف دیکھتے ہوے کہا۔۔۔اسکی آنکھیں معنی خیز تھیں جیسے مجھے شکریہ کہہ رہی ہوں کہ میں نے خوشی خوشی اسے ان کے ساتھ جانے دیا۔۔۔
مامی: چل بیٹا تیار ہو جا فوراً۔۔۔
نجیبہ:مامی ذرا بس 15 منٹ بیٹھائیے۔۔۔میں ناشتہ بنا لوں۔۔۔پھر چلتے ہیں۔۔۔
اس کے بعد نجیبہ ناشتہ بنانے لگی۔۔۔میں اس کے ماما مامی سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔۔۔نجیبہ نے ناشتہ بنایا اور مجھ سے پوچھا۔۔۔میں نے کہا کہ میں بعد میں کھا لوں گا۔۔۔تم جا کر تیار ہو جاؤ۔۔۔نجیبہ تیار ہونے چلی گئیں۔۔۔مجھے خیال آیا کہ نجیبہ۔۔۔
بھی جا رہی ہے…اور میں گھر پر اکیلا ہو جاؤں گا…کیوں نہ سمرا چاچی یا ردا کو اپنے گھر پر اکیلا ہونے کے بارے میں بتا دوں…آج گھر بلا کر دونوں میں سے کسی ایک کی اچھی طرح پھدی ماروں…ابھی میں من ہی من دعا کر رہا تھا کہ نجیبہ کے ماما مامی نجیبہ کو جلدی سے لے کر گھر سے چلے جائیں…قریب 15 منٹ بعد نجیبہ تیار ہو کر باہر آئی…اس نے مہرون رنگ کا شلوار قمیض پہن رکھا تھا…آج تو وہ غزب دکھائی دے رہی تھی…اس کے ماما مامی اسے ساتھ لے کر چلے گئے…ان کے جانے کے بعد میں گھر سے نکلا اور گیٹ کو تالا لگا کر سمرا چاچی کے گھر کی طرف چل پڑا…لیکن شاید آج میری قسمت ہی خراب تھی…سمر ا چاچی، ردا اور فاروق چاچا ٹیکسی میں بیٹھے ہوئے تھے…شاید وہ بھی کہیں جا رہے تھے…اس لیے میں پیچھے سے ہی مڑ آیا…گھر پہنچا، گیٹ کا تالا کھولا، اندر گیا…اور ناشتہ پلیٹ میں ڈال کر کھانے لگا…ناشتے کے بعد میں نے برتن کچن میں رکھے…اور اپنے کمرے میں آ کر ٹی وی آن کیا اور بستر پر رضائی اوڑھ کر بیٹھ گیا…میں من ہی من اپنے آپ کو کوستا رہا…تھوڑی دیر پہلے کتنا اچھا موقع تھا…سمرا چاچی کو چودنے کا…جو میں نے گنوا دیا تھا…بستر پر بیٹھے بیٹھے ایک بار پھر وہی یادیں تازہ ہونے لگیں…
اُس سے اگلے دن جب میں سکول سے آنے کے بعد سمرا چاچی کے گھر گیا تو، ردا آپی گھر پر اکیلی تھی…سمرا چاچی اور فاروق چاچا کسی رشتہ دار کے گھر گئے ہوئے تھے…اُس دن بھی میرے دماغ میں کل والا واقعہ اور بلّو کی کہی ہوئی باتیں گھوم رہی تھیں…جب میں ردا آپی کے ساتھ اوپر آیا تو، ہم ان کے کمرے میں چلے گئے…ردا آپی نے مجھ سے میرا سکول بیگ کھولنے کو کہا…میں نے بیگ کھولا تو، انہوں نے میری کاپیاں نکال کر چیک کیں…اور پھر مجھے ہوم ورک کرنے کو کہا…میں اپنا ہوم ورک کرنے لگا…ردا آپی نے بچوں کو چیک کیا…جب انہیں اطمینان ہو گیا کہ بچے سو رہے ہیں تو، وہ مجھ سے بولی…"سمیر میں کپڑے دھونے جا رہی ہوں…تم ہوم ورک کرو… اور ہاں آواز مت کرنا…نہیں تو بچے اٹھ گئے تو، میرا کام بیچ میں ہی رہ جائے گا…آج امی بھی گھر پر نہیں ہیں…" میں نے ردا اپنی کی بات سن کر ہاں میں سر ہلا دیا…ردا آپی باہر چلی گئیں…اور کپڑے دھونے کے لیے باتھ روم میں چلی گئیں…میں اپنی کتابیں نکال کر بیٹھ تو گیا تھا…لیکن میرا من پڑھائی میں نہیں لگ رہا تھا…بار بار میرا دھیان بلّو چاچا کی کہی ہوئی باتوں کی طرف جاتا…میرے ذہن میں یہی چل رہا تھا کہ کیا سچ میں پھدی مارنے سے اتنا مزا آتا ہے…میں شروع سے ہی دلیر قسم کا آدمی تھا…اس لیے کچھ بھی کرنے سے ڈرتا نہیں تھا…بلّو کی ایک بات میرے ذہن میں بس چکی تھی…کہ اگر کوئی عورت جو چدوانے کے لیے ترس رہی ہو…اگر وہ کسی کا سخت اور تھگڈا لن دیکھ لے تو، وہ خود اس کے آگے پیچھے گھومنے لگتی ہے…اس بات نے میرے ذہن میں طوفان اٹھا رکھا تھا…جب میرے ذہن میں کل سمرا چاچی کے کمرے کا واقعہ آیا تو، میرے لن جو کہ اس وقت 6 انچ کے قریب ہو چکا تھا…وہ دھیرے دھیرے میرے شلوار میں سر اٹھانے لگا تھا…میں اپنے خیالوں میں کھویا ہوا یہ سپنا دیکھ رہا تھا کہ، میں اور سمر چاچی دونوں ایک دم ننگے بستر پر لیٹے ہوئے ہیں…اور میں سمر ا چاچی کے اوپر چڑھا چاچی کی پھدی میں اپنے لن کو تیزی سے اندر باہر کر رہا ہوں…یہ خیال میرے ذہن میں ایسا سما چکا تھا… کہ مجھے لگ رہا تھا کہ، جیسے سب کچھ میرے آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہو…یہ سب سوچتے ہوئے میرے لن پوری طرح سخت ہو چکا تھا…اور مجھے پتہ نہیں چلا کب میں نے اپنے لن کو شلوار کے اوپر سے پکڑ کر دبانا شروع کر دیا…میں پتہ نہیں کب تک یہی سب سوچ رہا تھا…لیکن میرے خوشی کے لمحات اسی وقت ختم ہوے …جب ردا آپی کا ایک بچہ ایک دم سے اٹھ گیا…میں چونک کر اس کی طرف دیکھا تو، وہ ہلکا سا رویا اور پھر اس نے اپنی آنکھیں دھیرے دھیرے بند کر لیں…تب میں نے اپنے لن کی طرف اور غور کیا…جو شلوار کو اوپر سے اٹھائے ہوئے تھا…لن اتنا سخت کھڑا تھا کہ، اب مجھے اس میں ہلکی ہلکی درد ہونے شروع ہو گئی تھی…مجھے فیِل ہو رہا تھا…جیسے مجھے تیز پیشاب آ رہا ہو…میں بڑی آہستہ سے بستر سے نیچے اترا…تاکہ ردا آپی کے بچے اٹھ نہ جائیں…بستر سے اترنے کے بعد میں کمرے سے باہر آیا…اور باتھ روم کی طرف گیا…اوپر جو باتھ روم تھا…اس میں ایک طرف پر کموڈ تھا…ٹوائلٹ کے لیے الگ سے باتھ روم نہیں تھا…میں باتھ روم کے دروازے پر کھڑا ہوا…تو میری نظر ردا اپنی پر پڑی.. وہ نیچے پیروں کے بل بیٹھی ہوئی، کپڑوں کو رگڑ رہی تھی…ردا اپنی کے بڑے بڑے ممے آگے کی طرف جھکنے کی وجہ سے باہر آنے کو تیار ہو رہے تھے…میں اس کے بڑے بڑے سفید مموں کو صاف دیکھ سکتا تھا…ردا اپنی کی بلیک کلر کی برا کی جھلک بھی اوپر سے صاف دکھائی دے رہی تھی…یہ سب دیکھ کر میرا لن اور زیادہ سخت ہو گیا…"آپی …" میں نے دروازے پر کھڑے ہو کر ردا آپی کو پکارا…تو ردا آپی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا…"کیا ہوا…؟"میں: آپی وہ مجھے باتھ روم جانا ہے…ردا آپی میری بات سن کر کھڑی ہو گئیں…انہوں نے کپڑوں کو ایک طرف کیا اور باہر آ گئیں…"جاؤ…" وہ باہر کھڑی ہو گئیں…میں جلدی سے اندر گیا…کموڈ کے سامنے کھڑا ہو کر میں نے آگے سے اپنی
سے اپنی قمیض کو اوپر اٹھا لیا…اور اپنی شلوار کا ناڑا کھولنے لگا…لیکن جیسے ہی میں نے شلوار کا ناڑا کھولنا شروع کیا….تو اس میں گانٹھ پڑ گئی…میں شلوار کا ناڑا کھولنے کی جتنی کوشش کرتا..گانٹھ اتنی ٹائٹ ہو جاتی…گرمی کے وجہ سے میں اندر پسینے پسینے ہو رہا تھا..لیکن گانٹھ کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی…میں مجبور ہو کر کوشش کر رہا تھا…. "سمیر کیا ہوا…اتنی دیر اندر سو تو نہیں گیا …." باہر سے ردا آپی کے ہنسنے کی آواز آ رہی تھی….میں کچھ نہ کہہ پایا…ایک منٹ بعد پھر سے ردا آپی نے کہا.."سمیر…."
میں: جی آپی….
ردا:سمیر مسئلہ کیا ہے….؟ اتنا وقت کیوں لگا رہے ہو….؟
میں: آپی وہ ناڑے میں گانٹھ پڑ گئی ہے….کھل نہیں رہی….
میری بات سنتے ہی ردا آپی باتھ روم کے اندر آ گئیں…اور ہنستے ہوئے بولیں…. "شباش اے…شلوار کا ناڑا نہیں کھلتا تجھ سے…آگے چل کر تیرا پتہ نہیں کیا بننا ہے….؟" اُس وقت میری پیٹھ ردا آپی کی طرف تھی…."اب اس میں گانٹھ پڑ گئی تو میرا کیا قصور…کھلتی ہی نہیں…."میری بات سن کر ردا آپی قہقہ لگا کر ہنسنے لگیں..اور منہ سے چو چو کی آواز کرتے ہوئے بولیں…. "صدقے جواں تیرے…. تجھ سے ایک ناڑا نہیں کھلتا….شادی کے بعد پتہ میرا کیا بنانا ہے…." "اب اس کا میری شادی سے کیا تعلق…." میں نے جھجلاتے ہوئے کہا…. "چل ہٹ لا مجھے دکھا…." ردا آپی نے ایک دم سے میرے کندھے پکڑ کر مجھے اپنی طرف گھما لیا….ایک پل کے لیے تو میں اس بات کو لے کر سہم گیا کہ، اگر ردا آپی نے میرے لن کو اس طرح کھڑے شلوار میں تمبو بنے دیکھ لیا تو، پتہ نہیں کیا سوچیں گی…. لیکن اگلے ہی پل بلّو کی بات ذہن میں گھم گئی…میں بھی ردا آپی کی طرف گھوم گیا…اور جیسے ہی وہ شلوار کا ناڑا کھولنے کے لیے پیروں کے بل نیچے بیٹھیں…اس نے میری قمیض کو آگے سے پکڑ کر اوپر اٹھاتے ہوئے کہا…."یہ پکڑ اسے…." میں نے جیسے ہی قمیض اوپر کی..ردا آپی نے میرے شلوار کا ناڑا پکڑ لیا….تبھی ردا آپی کو جیسے شاک لگا ہو…اس کے ہاتھوں کی حرکت چار پانچ سیکنڈ کے لیے رک گئی…
وہ آنکھیں پھاڑے میرے شلوار میں بنے ہوئے تمبو کو دیکھ رہی تھی…. جو اس کے ہاتھوں کے ٹھیک ڈیڑھ انچ ہی نیچے تھا….میں نے غور کیا کہ، ردا آپی کے ہاتھ بڑی آہستہ سے حرکت کر رہے تھے….اور اس کی نظر میرے شلوار میں بنے تمبو پر تھی…ردا آپی کی آنکھیں چمک گئی تھیں…. ان کے گورے گال سرخ ہو گئے….مجھے صاف یاد ہے….کہ میرے لن کو شلوار کے اوپر سے دیکھ کر وہ کس قدر گرم ہو چکی تھیں.. انہوں نے نے اپنے گلے کا تھوک اندر نگلا…اور پھر سے میرے شلوار میں بنے ہوئے تمبو کو آنکھیں پھاڑے دیکھنے لگیں…پھر مجھے پتہ نہیں آپی نے جان بوجھ کر یا انجانے میں اپنے ہاتھوں سے شلوار کے اوپر سے میرے لن کو چھوا تو، میرے لن نے زور دار جھٹکا مارا….جو آپی کی ہتھیلی پر ٹکرایا….میں نے آپی کے جسم کو اس وقت کانپتا ہوا محسوس کیا…."آپی جلدی کریں نا…بہت تیز آ رہا ہے…." میں نے آپی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو انہوں نے ہاں میں سر ہلا دیا…اور میری شلوار کا ناڑا کھول دیا…جیسے ہی میرے شلوار کا ناڑا کھلا میں نے شلوار کو جھٹکے سے پکڑ لیا. اور آپی کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہو گیا…. میں کموڈ کی طرف منہ کر لیا….مجھے احساس ہوا کہ، ردا آپی ابھی بھی وہیں کھڑی ہے….میں نے فوراً منہ گھما کر دیکھا تو، ردا آپی میرے پیچھے ایک طرف کھڑی تھی….اور گھورتی نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی….میں نے اپنے لن کو باہر نکالا….جو اس وقت فل ہارڈ ہو چکا تھا….میرا دل زور سے دھڑک رہا تھا….یہ سوچ کر کہ ردا آپی ابھی بھی میرے پیچھے کھڑی ہے….مجھے اپنے لن کے ٹوپی پر ہلکی ہلکی سرسراہٹ محسوس ہو رہی تھی….ایسا لگ رہا تھا..جیسے جسم کا سارا خون میرے لن کے ٹوپی میں اکٹھا ہوتا جا رہا ہو….میرے لن کی نسوں ایک دم پھولی ہوئی تھی…. میں وہاں کھڑا پیشاب کرنے کی کوشش کر رہا تھا….لیکن پیشاب باہر نہیں نکل رہا تھا…."اب کیا مسئلہ ہے…." ردا آپی نے پیچھے کھڑے کہا…."کچھ نہیں آپ باہر جائیں….مجھے شرم آ رہی ہے…." ابھی میں نے یہ کہا ہی تھا کہ، باہر ڈور بیل بجی…."اس وقت کون آ گیا…." آپی ایسے جھجلا کر بولیں…..آپی باتھ روم سے باہر چلی گئیں…انہوں نے باہر نیچے جھانک کر دیکھا….نیچے سمرا چاچی تھیں….وہ نیچے چلی گئیں…بڑی مشکل سے فوراً پیشاب نکالا….میں نے شلوار کا ناڑا باندھا اور باہر آ گیا….میں اس کے بعد ردا آپی کے کمرے میں آ گیا….تھوڑی دیر بعد ردا آپی اوپر آئیں…انہوں نے نے اپنے ایک بچے کو گود میں اٹھایا اور دوسرے کو مجھ سے اٹھا کر نیچے لانے کو کہا…. میں ان کے دوسرے بچے کو اٹھا کر ان کے ساتھ نیچے آیا….جب میں نیچے پہنچا تو، دیکھا کہ سمرا چاچی کے ساتھ انکی دور رشتے دار آئی ہوئی تھی….میں نے ان کو سلام کیا ….تو چاچی نے میرا تعارف ان سے کروایا….
اُس دن اور کچھ خاص نہ ہوا….میں تھوڑی دیر اور وہاں رکا….شام کے 5 بجے میں وہاں سے نکل کر گراؤنڈ کی طرف چلا گیا….وہاں دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتا رہا….اور پھر شام کو سمرا چاچی کے گھر سے اپنا بیگ لیا اور گھر واپس آ گیا….اُس دن اور کوئی خاص بات نہ ہوئی….میں اپنے پرانے دنوں کی یادوں میں کھویا ہوا تھا…تبھی لائٹ چلی گئی….میں اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آیا.. میں بستر سے اٹھا اور ٹی وی سوئچ آف کر کے باہر برآمدے میں آیا گیا… دوپہر کے 12 بج رہے تھے….اور میں گھر پر اکیلا تھا…گھر میں ایسے بیٹھے بیٹھے مجھے بوریت ہونے لگی تھی….تو سوچا کیوں نہ
پھر سوچا کہ اپنے دوست فیاض سے مل کر آؤں۔ فیاض اور میں دونوں بچپن سے ایک ہی اسکول میں پڑھے تھے۔ فیاض کا خاندان ہمارے گاؤں میں سب سے زیادہ امیر تھا۔ فیاض کے پاس کثیر زمینیں اور جائیدادیں تھیں، کئی باغ تھے، کھیتوں سے بڑی آمدنی تھی۔ لیکن اس کے گھر میں فیاض کے علاوہ پیسے خرچ کرنے والا اور کوئی نہیں تھا۔ جب فیاض سات سال کا ہوا تھا، تب اس کے ابّا کا انتقال ہو گیا تھا۔ فیاض کے دادا دادی بڑے سخت قسم کے لوگ تھے۔ ان کے دباؤ اور رتبے کے چلتے ہی، انہوں نے فیاض کی امی صبا کی دوسری شادی نہیں ہونے دی تھی۔ فیاض کی امی صبا کے ماں باپ نے بڑا زور لگایا تھا کہ صبا کی دوسری شادی ہو جائے، پر فیاض کے دادا دادی نے ایسا ہونے نہیں دیا۔ فیاض کے ابّا کے دو بھائی اور تھے، جو کافی عرصہ پہلے اپنے حصے کی زمینیں بیچ کر شہروں میں جا کر اپنا بزنس کرنے لگے۔
اب فیاض اپنے دادا دادی اور امی صبا کے ساتھ رہتا تھا۔ فیاض نے مجھے کچھ دن پہلے کار چلانا سکھایا تھا، کیونکہ اس کے پاس دو دو کاریں تھیں۔ ایک دن میں اور ردا آپی اسی طرح باتیں کر رہے تھے کہ باتوں باتوں میں فیاض کا ذکر چل نکلا۔ اُس دن میں نے ردا آپی کی زبردست طریقے سے چودائی کی تھی۔ جب فیاض کے گھر کی باتوں کا ذکر شروع ہوا تو میں نے ردا آپی سے ایسے ہی پوچھ لیا۔
میں: ردا ایک بات بتائیں، یہ فیاض کی امی نے دوسری شادی کیوں نہیں کی؟
ردا: کیسے کرتی بیچاری، تمہیں نہیں پتا اس کے ساس سسر کتنے ظالم ہیں۔
میں: کبھی کبھی تو مجھے ترس آتا ہے ایسے لوگوں پر، ہم 21ویں صدی میں جی رہے ہیں اور ہمارے خیالات کتنے پچھڑے ہوئے ہیں۔
ردا: ہمم یہ گاؤں ہے، پہلے ایسے ہی ہوتا تھا۔
میں: ردا آپی آپ تو عورت ہیں، آپ مجھ سے بہتر جانتی ہوں گی، فیاض کی امی اتنے سالوں تک کیسے بغیر ساتھی کے رہی ہوں گی۔
ردا: ہاہاہا سیدھے سیدھے کیوں نہیں کہتے کہ اس کی امی اتنی سال بغیر لن کے اپنی پھدی میں لیے کیسے رہی ہوں گی۔
میں: کیا عورت مرد کے بغیر نہیں رہ سکتی؟
ردا: نہیں ضروری تو نہیں، پر سمیر، سیکس ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو غلط سمت میں قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس کی امی بھی کہاں رہ پائیں گی۔
میں: مطلب میں کچھ سمجھا نہیں۔
ردا: اب یہ تو وہی جانے کہ بات سچی ہے یا جھوٹی، پر گاؤں کے لوگ دبی زبان میں بات کرتے ہیں کہ فیاض کی امی صبا کا اپنے سسر کے ساتھ چکر تھا۔
میں: تھا مطلب۔۔۔
ردا: (ہنستے ہوئے) ہا ہاہاہا تم نے جمیل (فیاض کے دادا) کی عمر نہیں دیکھی اب، 70 کے اوپر کا ہو گیا ہے، اوپر سے دن رات شراب کے نشے میں ڈوبا رہتا ہے۔ پہلے شاید ہوگا ان کے بیچ میں چکر، پر اب وہ بوڑھا کہاں اپنی بہو کو چود پاتا ہوگا۔
میں: ہاہا کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔
ایسے ہی خیالوں میں ڈوبے ہوئے میں نے گھر کو لاک کیا اور فیاض کے گھر کی طرف چل پڑا۔ جب میں اپنی گلی کراس کر کے فیاض کے گھر کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا بلّو چاچا فیاض کے گھر کے سامنے پیپل کے درخت کے نیچے بنے تھڑے پر بیٹھا ہوا تھا اور فیاض کے گھر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جب میں نے بلّو چاچا کی نظروں کا پیچھا کیا تو دیکھا کہ سامنے چھت پر چبوترے کے پاس فیاض کی امی صبا کھڑی تھیں۔ اس کے بال کھلے ہوئے تھے، شاید وہ نہا کر باہر آئی تھیں۔ وہ اپنے ہاتھوں سے بالوں کو سیٹ کر رہی تھیں اور نیچے بیٹھے بلّو کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
بلّو چاچا جو پورے گاؤں میں اپنی اَشّین فحش گپیں کے لیے مشہور تھا، وہ صبا کو لائن مار رہا تھا۔ اور مجھے یہ دیکھ کر اور بھی زیادہ حیرت ہوئی کہ صبا بھی اسے لائن دے رہی تھیں۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے، عورت شان ا،آن ور دھن کے بغیر تو رہ سکتی ہے، پر لن کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ صبا کو میں چاچی کہتا تھا۔ وہ بھی بلّو کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ میں سیدھا بلّو کے پاس چلا گیا اور "چاچا جی، کیا حال ہے؟" میں نے بلّو کے پاس کھڑے ہو کر پوچھا۔ "اوے سمیر، تم ادھر کہاں۔۔۔ میں تو ٹھیک ہوں، پر تم ایسے کہاں غائب ہو گئے تھے؟" میں نے ایک بار پھر چھت پر کھڑی صبا کی طرف دیکھا، تو بلّو چاچا نے بھی میری نظروں کا پیچھا کیا اور پھر جیسے میں نے بلّو چاچا کی طرف دیکھا تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔ "کیوں چاچا، نیا شکار پھنسا لیا لگتا ہے۔" بلّو میری بات سن کر مسکرانے لگا۔ "یہی سمجھ بھتیجے۔۔۔ سالی پر بڑے دنوں سے ٹیڑھی نظر مار رہا ہوں، آج جا کر سمائل دی ہے۔" بلّو نے شلوار کے اوپر سے اپنے لن کو مسلتے ہوئے کہا۔ "مطلب ابھی تک بات آنکھوں آنکھوں میں ہو رہی ہے۔۔۔ کیوں چاچا؟" بلّو: "ہاہا بھتیجے جی۔۔۔ پر لگتا ہے اپنا معملہ سیٹ ہو گیا۔ اب کسی طرح ایک بار اس کی پھدی مل جائے بس، پھر تو خود ہی وہی آ جائیں گی جہاں پر میں اسے بلاؤں گا۔" میں: "پھر تو مزے ہو گئے چاچا۔۔۔ کیا مال پھنسا لیا ہے۔" بلّو: "یار پوچھو کچھ نہیں۔۔۔ سالی جب چلتی ہے تو اس کی بنڈ ایسی ہلتی ہے جیسے تربوز ہل رہا ہو۔ اس کی اچھی طرح کھڑا کر کے پیچھے سے اپنا لن اس کی بنڈ کے بیچ رگڑنے کا بڑا من کر رہا ہے۔ سالی کی بنڈ ۔۔۔"
کی بڑی گوشت سے بھری ہوئی ہے۔۔۔۔
میں: چاچا مال تمہارا ہے۔۔۔جیسے چاہو ویسے ماریں۔۔۔
میں مڑ کر دیکھا تو صبا ابھی بھی وہیں کھڑی تھی۔۔۔اور ہم دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔؟"اور تم سناؤ ۔۔۔تم ادھر کہاں گھوم رہے ہو۔۔۔؟"
میں: چاچا میں تو فیاض سے ملنے آیا تھا۔۔۔
بلّو: اوے خیال رکھیو۔۔۔فیاض کو غلطی سے کچھ بتا نہ دینا۔۔
میں: نہیں بتاؤں گا چاچا۔۔۔میں نے بتا کر کیا کرنا ہے۔۔۔اور سنو سمرا چاچی کی تو روز مارتے ہو گے۔۔۔
بلّو: کہاں یار۔۔۔پتہ نہیں سالی کو کیا ہو گیا۔۔۔دو سال ہو گئے اسکی پھدی مارے کو۔۔۔بہن چود اب تو ہاتھ بھی رکھنے نہیں دیتی اپنے اوپر۔۔۔
میں من ہی من سوچا چاچا ہاتھ تجھے صبا بھی نہیں رکھنے دے گی۔۔۔اب اس پر میری بھی آنکھ آ گئی ہے۔۔۔دیکھتا ہوں کہ، کون اسے پہلے چودتا ہے۔۔۔" اچھا چاچا میں ذرا فیاض سے مل کر آتا ہوں۔۔۔
بلّو: اچھا جا۔۔۔
میں واپس مڑا تو دیکھا کہ صبا اب وہاں نہیں کھڑی تھی۔۔۔میں فیاض کے گھر اندر داخل ہوا تو، سامنے برآمدے میں فیاض کی دادی بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔جو کافی بوڑھی ہو گئی تھیں۔۔۔آنکھوں پر نظر والا موٹا چشمہ لگا ہوا تھا۔۔۔میں نے جا کر انکو سلام کیا ۔۔۔'یہ کون ہے تو۔۔۔؟'
میں: دادی جی میں سمیر ۔۔۔بینک والے فیصل کا بیٹا۔۔۔
دادی: اوہ اچھا اچھا۔۔۔بیٹا اب ان بوڑھی آنکھوں سے دکھائی کم دیتا ہے۔۔۔
میں: کوئی بات نہیں دادی جی۔۔۔میں فیاض سے ملنے آیا تھا۔۔۔
دادی: اوپر ہی ہونا ہے۔۔۔جا کر مل لو۔۔۔
میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلا گیا۔۔۔جب میں اوپر پہنچا تو دیکھا صبا چارپائی پر دھوپ میں بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔"سلام چاچی جی۔۔۔"میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔"سلام اے سمیر پتر آج ادھر کا راستہ کیسے بھول گئے۔۔۔؟" صبا نے بھی مسکرا کر کہا۔۔۔"جی میں فیاض ملنے آیا تھا۔۔۔آج اتوار تھا تو سوچا فیاض کے ساتھ کہیں چل کر گھوم آؤں۔۔۔"
صبا چاچی: پر وہ تو اپنے دوستوں کے ساتھ شہر گیا ہے۔۔۔
میں: اچھا کوئی بات نہیں۔۔۔پھر کبھی اسے مل لوں گا۔۔۔میں چلتا ہوں۔۔۔
صبا: ارے ابھی تو آئے ہو۔۔۔رک کر دم تو لو۔۔۔میں تمہارے لیے چائے بناتی ہوں۔
میں: زحمت نہ دیں چاچی۔۔۔میں اس وقت چائے نہیں پیتا۔۔۔
صبا: تو کیا ہوا آج چاچی کے ہاتھ کی چائے پی لو۔۔۔ویسے بھی سردی ہے۔۔۔
میں: ٹھیک ہے۔۔۔چاچی جی جیسے آپ کہیں۔۔۔
صبا اندر چلی گئیں۔۔۔تھوڑی دیر بعد وہ چائے بنا کر لے آئیں۔۔۔ایک کپ انہوں نے مجھے دیا۔۔۔"اور سنو سمیر تمہاری پڑھائی کیسی چل رہی ہے۔۔۔؟" صبا چاچی نے میرے پاس چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
میں: جی ٹھیک چل رہی ہے۔۔۔(میں نے نوٹس کیا کہ صبا چاچی کسی بات کو لے کر پریشان ہو رہی تھیں۔۔۔مجھے ایسا لگ رہا تھا۔۔۔جیسے وہ مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں۔۔۔آخر کار تھوڑی دیر بعد انہوں نے مجھ سے پوچھ ہی لیا۔۔۔)
صبا چاچی: تم بلّو کے پاس کھڑے ہو کر کیا بات کر رہے تھے۔۔۔؟
میں: کچھ نہیں ایسے ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے۔۔۔
صبا چاچی: ادھر ادھر کی یا کچھ اور بات ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔؟
میں: نہیں تو بس ایسے ہی گاؤں کی باتیں کر رہے تھے۔۔۔
صبا: سمیر دیکھ میں نے دیکھا تھا۔۔۔جب تم دونوں بات کر رہے تھے۔۔۔تو بار بار مڑ کر میری طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔
میں: چاچی جی بھلا میں آپ کے بارے میں کیا بات کرنی ہے۔۔۔آپ کو ایسے ہی وہم ہو رہا ہے۔۔۔
صبا چاچی: اور وہ بلّو وہ تو میرے بارے میں ہی بات کر رہا تھا۔۔۔
میں صبا چاچی کی بات سن کر چپ ہو گیا۔۔۔میرے جان بوجھ کر انکی بات کا کوئی جواب نہ دینے سے صبا چاچی کا شک اور پکا ہو جائے کہ، ہم دونوں اسکے بارے میں ہی بات کر رہے تھے۔۔۔"کیا ہوا چپ کیوں ہو گئے۔۔۔وہ ضرور میرے بارے میں ہی بات کر رہا ہوگا۔۔۔آوارہ گرد قسم کا۔۔۔سارا دن گھر کے سامنے ڈیرا جمائے رہتا ہے۔۔۔" صبا چاچی مجھے یہ سب اس لیے سنا رہی تھیں کہ، میں انکے بارے میں کچھ غلط نہ سوچوں۔۔۔اور یہ سمجھوں کہ وہ بھی گاؤں کی دوسری عورتوں کی طرح بلّو کو آوارہ گرد قسم کا انسان سمجھتی ہیں۔۔۔
صبا چاچی: سمیر بول نا کیا کہہ رہا تھا۔۔۔
میں: جانے دیں نا چاچی۔۔۔وہ تو ہے ہی ایسا گندا انسان۔۔۔تو اسکی سوچ بھی تو گندی ہوگی نا۔۔۔
صبا چاچی: تو مجھے بتا تو سہی کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔۔
میں: چاچی بس وہ کہہ رہا تھا۔۔۔ جانے دیں نا چاچی۔۔۔مجھے تو کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔۔۔اور آپ کہیں مجھ پر ہی غصہ نہ ہو جائیں۔۔۔
صبا چاچی: تو بتا میں تم پر کیوں غصہ کروں گی۔۔۔تم تھوڑا نہ میرے بارے میں کچھ غلط کہہ رہے ہو۔۔۔
میں: چاچی جی وہ بول رہا تھا کہ، سالی کیا مال ہے۔۔۔بس ایک بار ہاتھ لگ جائے تو مزا آ جائے۔۔۔
میں نے دیکھا کہ، میری بات سن کر چاچی کے چہرے کا رنگ لال ہونے لگا تھا۔"بڑا کمینہ انسان ہے وہ تو۔۔۔" چاچی نے میری طرف۔۔۔
دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
میں:یہ تو کچھ تھا ہی نہیں چاچی جی۔۔۔جو اس نے آگے کہا۔۔۔اسے سن کر تو میرے ہوش اڑ گئے۔۔۔
چاچی:اچھا سنا کیا کہا اس نے۔۔۔میں تھی تو نہیں وہاں سنتی اسکی حرکات کے بارے میں۔۔۔
میں:چاچی جی وہ کہہ رہا تھا کہ۔۔۔
چاچی:بول نا کیا کہہ رہا تھا۔۔۔
میں:جانے دیں چاچی آپ مجھ پر ہی غصہ کریں گی۔۔۔
چاچی:میں نے کہا نا میں تم پر غصہ نہیں کروں گی۔۔۔
میں:وہ کہہ رہا تھا کہ، آپ کی اس پر بہت گوشت چڑھ گیا ہے۔۔۔
میرا بڑا من کرتا ہے کہ،میں صبا کو اسکو ہاتھ میں لے کر زور زور سے دباؤں۔۔۔
چاچی:کیا کہا۔۔۔کیسا ذلیل انسان ہے۔۔۔مجھے کہاں گوشت چڑھ گیا۔۔۔
میں:چاچی جی وہ آپکی بنڈ کی بات کر رہا تھا۔۔۔
چاچی:یہ کیا بدتمیزی ہے سمیر۔۔۔تم نے ایسے الفاظ کہاں سے سیکھ لیے۔۔۔
میں:دیکھا چاچی جی میں نے کہا تھا نا۔۔۔آپ سن نہیں پائیں گی اور مجھ پر غصہ کریں گی۔۔۔
چاچی:سوری بیٹا۔۔۔وہ مجھے غصہ آ گیا تھا۔۔۔لیکن اس میں تمہاری کیا غلطی۔۔۔ تم تو وہی کہہ رہے ہو جو وہ حرامزادہ کہہ رہا تھا۔۔۔آنے دو فیاض کے دادا کو۔۔۔اسکی خبر تو میں لیتی ہوں۔۔۔انہیں کہہ کر۔۔۔
میں:جانے دیں چاچی۔۔۔کیوں ایسے لوگوں کے منہ لگنا۔۔۔ویسے ایک بات کہوں چاچی جی۔۔۔(میں نے چائے کا خالی کپ نیچے رکھتے ہوئے کہا۔۔۔)
چاچی:ہاں بولو۔۔۔
میں:چاچی جی آپ تو اسے مسکرا کر لائن مار رہی تھیں۔۔۔
چاچی:تمہیں کس نے کہا۔۔۔وہ جھوٹ بولتا ہے۔۔۔
میں:اس نے نہیں کہا چاچی۔۔۔میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔۔۔
ویسے اس نے آپکے بارے میں ایک بات سچ کہی۔۔۔
چاچی:(تھوڑا سا غصے سے بولتے ہوئے۔۔۔) کیا۔۔۔
میں:آپکی بنڈ پر سچ میں بہت گوشت چڑھ گیا ہے۔۔۔جب آپ اندر گئی تھیں۔۔۔تب میں نے دیکھا تھا۔۔۔سچ میں چاچی جی۔۔۔اسے دیکھ کر دل کرتا ہی ہے دبانے کو۔۔۔
چاچی:اپنی حد میں رہ لڑکے۔۔۔میں نے تمہیں تھوڑی سی ڈھیل دے دی۔۔۔تم تو بدتمیزی پر ہی اتر آئے ہو۔۔۔منہ پر داڑھی مونچھیں آئی نہیں۔۔۔اور ابھی سے اتنی بیباک باتیں کرنے لگے ہو۔۔۔(جس طرح چاچی ری ایکٹ کر رہی تھیں۔۔۔اس سے صاف پتہ چل رہا تھا۔۔۔کہ انکا غصہ بناوٹی ہے۔۔۔)
میں:چاچی جی داڑھی مونچھوں کا کیا کرو گے۔۔۔اصلی چیز تو ابھی آپ نے دیکھی ہی نہیں۔۔۔
چاچی:چلے جاؤ یہاں سے اے بڑے۔۔۔(میں نے دیکھا چاچی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔۔۔) لگتا ہے تم نے فیاض کے دادا کی بندوق کے بارے میں سنا نہیں ہے۔۔۔
میں:میں نے تو بہت سنا ہے۔۔۔لیکن شاید آپ نے میری بندوق نہیں دیکھی۔۔۔(میرا اشارہ اپنے لن کی طرف تھا۔۔۔) اچھا اگر بلّو کے لیے کوئی پیغام بھیجوانا ہے تو، مجھے بتا دو۔۔۔میں بلّو کو بتا دوں گا۔۔۔آپ مجھ پر بھروسہ رکھیں، یہ بات میں کسی کو نہیں کہوں گا۔۔۔
چاچی:مجھے نہیں کوئی پیغام ویغام بھیجوانا۔۔۔
میں:اچھا پھر تو میں چلتا ہوں۔۔۔
میں واپس سے نکل کر اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔۔۔جب میں باہر نکلا تو، دیکھا بلّو ابھی بھی وہی تھڑے پر بیٹھا تھا۔۔۔"کیوں بھتیجے ملے اپنے دوست سے۔۔۔" میں نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور گھر کی طرف چل دیا۔۔۔
میں گھر پہنچا اور گیٹ پر لگا تالا کھولا اور گھر کے اندر داخل ہو گیا۔۔۔دوپہر کے 2 بج چکے تھے۔۔۔میں پھر سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔لائٹ آ چکی تھی۔۔۔میں نے ٹی وی آن کیا اور پھر سے رضائی میں گھس کر بستر پر بیٹھ گیا۔۔۔اور پھر سے پرانے دنوں کی یادوں میں کھو گیا۔۔۔اس سے اگلے دن جب میں اسکول سے آنے کے بعد سمرا چاچی کے گھر پہنچا تو،اس دن سمرا چاچی گھر پر ہی تھیں۔۔۔بلّو بھی وہی بیٹھا ہوا تھا۔۔۔اور ردا آپی کچن میں کھانا بنا رہی تھیں۔۔۔پاس ہی ردا آپی کے دونوں بچے لیٹے ہوئے تھے۔۔۔میں نے اسکول بیگ نیچے رکھا اور پلنگ پر بیٹھ گیا۔۔۔اور ردا آپی کے بچوں کو کھیلانے لگا۔۔۔"آج کیسا رہا اسکول۔۔۔" ردا آپی نے کچن کے دروازے پر آ کر کہا۔۔۔"جی اچھا تھا۔۔۔" ردا آپی نے سب کو کھانا دیا۔۔۔اور خود بھی کھانا کھانے لگیں۔۔۔
کھانا کھاتے ہوئے بار بار میری نظر کبھی سمرا چاچی تو، کبھی بلّو کی طرف جاتی۔۔۔اور جب بلّو سے میری نظریں ملتیں تو وہ مسکرا دیتا۔۔۔اور ساتھ ہی سمرا چاچی کی طرف دیکھ کر اشارہ کر دیتا۔۔۔ردا آپی نے جلدی جلدی کھانا کھایا۔۔۔اور اپنے بچوں کو لے کر اوپر چلی گئیں۔۔۔اور جاتے جاتے مجھ سے بولی کہ کھانا کھا کر میں بھی اوپر آ جاؤں۔۔۔میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔بلّو بار بار میری طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔۔"تم کیا دانت نکال رہے ہو بار بار، چپ چاپ کھانا نہیں کھایا جاتا تم سے۔۔۔" سمرا چاچی نے بلّو کو جھڑکتے ہوئے کہا۔۔۔سمرا چاچی پرسوں کی بات سے خوفزدہ تھیں۔۔۔انہیں ڈر تھا کہ، میں جو اس دن دیکھا تھا۔۔۔کسی کو بتا نہ دوں۔۔۔"بھتیجے کدھر پھر۔۔۔لینی ہے چاچی دی۔۔۔" بلّو نے پہلے میری طرف دیکھا اور پھر ہنستے ہوئے سمرا چاچی کی طرف۔۔۔