سوتیلی ماں اور بہن قسط 5

0

 








میرا تو گلا سوکھ گیا تھا۔۔۔بلّو کی بات سن کر۔۔۔میں نے اپنی نظریں جھکا لیں۔۔۔ "کیا بکواس کرتا جا رہا ہے۔۔۔کنجر نہ ہو تو۔۔۔" سمرا چاچی نے بلّو کو جھڑکتے ہوئے کہا۔۔۔تو بلّو بھی چپ ہو گیا۔۔۔بلّو نے کھانا کھایا اور پلیٹ کو کچن میں رکھنے چلا گیا۔۔۔میں سر اٹھا کر سمرا چاچی کی طرف دیکھا تو، وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھیں۔۔۔جیسے ہی ہماری نظریں ملیں میں نے فوراً اپنے سر کو جھکا لیا اور جلدی جلدی کھانا کھا کر وہاں سے اٹھا اور اپنا بیگ اٹھا کر اوپر چلا گیا۔۔۔فاروق چاچا روز کی طرح کھیتوں میں تھے۔۔۔ان کے کھیت گاؤں میں سب سے زیادہ دور پڑتے تھے۔۔۔اس لیے فاروق چاچا جب کھیتوں میں جاتے تو، شام کو گھر واپس آتے تھے۔۔۔سمرا چاچی بلّو کے ہاتھ فاروق چاچا کا کھانا بھجوا دیا کرتی تھیں۔۔۔میں جیسے ہی اوپر ردا آپی کے کمرے میں پہنچا تو، نیچے سے سمرا چاچی کی آواز آئی۔۔۔


چاچی ردا آپی کو بلا رہی تھیں۔۔۔ردا آپی کمرے سے باہر آئیں اور سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر نیچے آواز دے کر پوچھا۔۔۔"کیا ہوا امی۔۔۔؟"


چاچی: اُزمہ آئی ہے۔۔۔تجھے خانو کے گھر جانا نہیں ہے کیا۔۔۔؟


ردا: اوہہو میں تو بھول ہی گئی تھی۔۔۔میں ابھی تیار ہو کر آتی ہوں۔۔۔


اتنے میں اُزمہ جو کہ فاروق چاچا کے گھر کے پاس والے گھر میں رہتی تھی۔۔۔وہ اوپر آ گئی۔۔۔آج گاؤں میں کسی کے گھر شادی تھی۔۔۔انکی بیٹی کی، اس لیے ردا آپی کو بھی جانا تھا۔۔۔میں ابھی کمرے میں بستر پر بیٹھا ہی تھا کہ، دونوں اندر آ گئیں۔۔۔ردا آپی نے مجھے دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔"سمیر نیچے جاؤ۔۔۔مجھے کپڑے تبدیل کرنے ہیں۔۔۔"


میں: جی آپی۔۔۔


ردا: اپنا یہ بیگ بھی لے جاؤ۔۔۔مجھے کمرے کو بند کر کے جانا ہے۔۔۔


میں: جی۔۔۔


ردا: تم چلو گے ساتھ میں۔۔۔


میں: جی نہیں۔۔۔میں نے وہاں کیا کرنا ہے۔۔۔


میں نے بیگ اٹھایا اور نیچے آیا۔۔۔جب نیچے پہنچا تو، نیچے اُزمہ کی چھوٹی بہن چارپائی پر بیٹھی تھی۔۔۔میں نے نیچے بیگ رکھا اور پلنگ پر بیٹھ گیا۔۔۔سمرا چاچی کچن میں تھیں۔۔۔میں ابھی وہیں بیٹھا ہی تھا کہ، باتھ روم کا دروازہ کھلا اور بلّو باہر آیا۔۔۔"پرجائی چائے بنی کے نہیں۔۔۔؟" بلّو نے باہر آ کر تولیے سے ہاتھ پونچھتے ہوئے کہا۔۔۔اتنے میں سمرا چاچی چائے کا بڑا سا سٹیل کا گلاس لے کر باہر آ گئیں۔۔۔اسے بلّو کو گلاس پکڑایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔ "سمیر پتر تم چائے پیو گے۔۔۔" پر میں نے انکار کر دیا۔۔۔"اب جلدی چائے پی اور اپنے بھائی صاحب کو کھانا دے آ۔۔۔وہاں وہ مجھے گالیاں نکال رہا ہوگا۔۔۔" سمرا چاچی نے میرے پاس پلنگ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔بلّو چائے پینے لگا۔۔۔اتنے میں ردا آپی تیار ہو کر اُزمہ کے ساتھ نیچے آ گئیں۔۔۔اُزمہ اور ردا آپی دونوں نے ایک ایک بچہ اٹھایا ہوا تھا۔۔۔آج تو ردا آپی قیامت ڈھا رہی تھیں۔۔۔مجھے اس بات کا بڑا افسوس ہو رہا تھا کہ، آج میں ردا آپی کے ساتھ وقت نہیں گزار پاؤں گا۔۔۔وہ اُزمہ اور اسکی چھوٹی بہن کے ساتھ چلی گئیں۔۔۔"اف گرمی کی تو حد ہے۔۔۔دو منٹ گیس کے سامنے کھڑے ہونا بھی مشکل کر دیا گرمی نے۔۔۔" سمرا چاچی نے اپنے دوپٹے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔"لاؤ بھابھی کھانے کا ڈبہ دو۔۔۔" بلّو نے پلنگ سے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔اور گلاس سمرا چاچی کو پکڑا دیا۔۔۔سمرا چاچی اٹھیں اور کچن میں چلی گئیں۔۔۔انہوں نے لنچ باکس جا کر بلّو کو دیا۔۔۔


بلّو نے لنچ باکس لیا اور گیٹ کے پاس کھڑے اپنی سائیکل پر ٹانگ کر ایک بار میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا۔۔۔اور پھر سمرا چاچی کو اپنے پاس بلایا ۔۔۔سمرا چاچی اس کے پاس چلی گئیں۔۔۔وہ دونوں پتہ نہیں کیا بات کر رہے تھے۔۔۔لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ، شاید وہ میرے بارے میں ہی بات کر رہے ہوں گے۔۔۔اب اس کانٹے کو بیچ میں سے کیسے نکالا جائے۔۔۔کیونکہ آج اوپر کمرہ بند تھا۔۔۔اور میں نیچے بیٹھا ہوا تھا۔۔۔اتنی دھوپ میں سمرا چاچی مجھے باہر جانے کو بھی نہیں کہہ سکتی تھیں۔۔۔میں نے ان دونوں کی طرف دیکھا تو، چاچی مسکراتے ہوئے بلّو کے کندھے پر مکا مار رہی تھیں۔۔۔"چل جا پاگل۔۔۔"مجھے سمرا چاچی کی یہی بات سنائی دی۔۔۔پھر چاچی نے میری طرف دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی۔ پھر چاچی نے گیٹ کھولا اور بلّو اپنی سائیکل لے کر باہر چلا گیا۔۔۔اس نے باہر سے تیز اور اونچی آواز میں چاچی سے کہا۔۔۔"بھابھی میں شام کو ہی واپس آؤں گا۔۔۔" اس کے جانے کے بعد سمرا چاچی نے گیٹ بند کیا اور جب وہ اندر کی طرف آ رہی تھیں۔۔۔تو وہ بڑی عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھیں۔۔۔وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کچن میں چلی گئیں۔۔۔اور اندر جا کر برتن صاف کرنے لگیں۔۔۔"سمیر۔۔۔"


میں: ہاں جی چاچی جی۔۔۔


چاچی: پتر جا میرے کمرے میں جا کے لیٹ جا۔۔۔یہاں باہر تو گرمی ہے۔۔۔اندر سے کولر آن کر لے۔۔۔


میں: نہیں چاچی جی میں یہی ٹھیک ہوں۔۔۔


چاچی: سمیر تم نہ شرمایا کرو۔۔۔اسے اپنا ہی گھر سمجھو۔۔۔


میں: نہیں چاچی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔میں یہی ٹھیک ہوں۔۔۔


چاچی کے کمرے کے باہر ونڈو پر کولر لگا ہوا تھا۔۔۔من تو کر رہا تھا کہ، کولر چلا کر اندر جا کے آرام سے ٹھنڈی ہوا میں لیٹ جاؤں۔۔۔


۔۔۔پر میں اس وقت کسی اور گھر میں تھا۔۔۔اور میں جھجک بھی رہا تھا۔۔۔تھوڑی دیر بعد چاچی باہر آئیں۔۔۔"یہاں کیوں خوار ہو رہے ہو۔۔۔جا اندر جا کے لیٹ جا۔۔۔" چاچی نے کمرے کے باہر لگے ہوئے سوئچ کو آن کیا تو کولر چل پڑا۔۔۔"جا اندر جا کے لیٹ جا۔۔۔میں منہ دھو کے آتی ہوں۔۔۔اس پسینے سے تو مت مار رکھی ہے۔۔۔"


میں پھر کچھ بولے بغیر کمرے میں چلا گیا۔۔۔کیونکہ چاچی۔۔۔نے کولر چلا دیا تھا۔۔۔اس لیے میں انکی بات مان گیا۔۔۔میں اندر جا کر بستر پر بیٹھ گیا۔۔۔اندر لائٹ آف تھی۔۔۔پورا گھر چھت سے ڈھکا ہوا تھا۔۔۔اس لیے کمرے میں بہت ہلکی روشنی تھی۔۔۔مجھے وہاں بیٹھے ہوئے بڑا عجیب سا فیِل ہو رہا تھا۔۔۔مجھے عجیب عجیب طرح کے خیال آ رہے تھے۔۔۔جیسے کہیں چاچی مجھے کچھ کر نہ دے۔۔۔اپنا گناہ چھپانے کے لیے۔۔۔میں اپنے ہی خیالی پلاؤ پکا رہا تھا کہ، 10 منٹ بعد چاچی کمرے میں داخل ہوئیں۔۔۔اندر آ کر انہوں نے لائٹ آن کر دی۔۔۔"یہ کیا سمیر۔۔۔تم تو ایسے بیٹھے ہو۔۔۔جیسے کسی نے سزا دے دی ہو۔۔۔ہاہاہا۔۔۔آرام سے لیٹ جا۔۔۔" چاچی نے اپنے کھلے ہوئے بالوں کو ہاتھوں سے سیٹ کرتے ہوئے کہا۔۔۔میں بستر کے کنارے پر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔اور میرے سے 2 فٹ کے فاصلے پر ڈریسنگ ٹیبل تھا۔۔۔"


سمرا چاچی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئیں۔۔۔جیسے ہی وہ میرے سامنے پیٹھ کر کے کھڑی ہوئیں۔۔۔تو اپنے سامنے کا منظر دیکھ کر میرے پورے جسم میں کپکپی طاری ہو گئی۔۔۔سمرا چاچی نے بڑا ہی پتلا سا پنک رنگ کا شلوار قمیض پہنا ہوا تھا۔۔۔اس میں سے انکا پورا جسم نمایاں ہو رہا تھا۔۔۔مجھے پیچھے سے انکی پوری پیٹھ اس قدر صاف دکھائی دے رہی تھی۔۔۔جیسے انہوں نے قمیض پہنی ہی نہ ہو۔۔۔اوپر سے قمیض انکے گیلا بدن سے چپکی ہوئی تھی۔۔۔اپنے سامنے کا نظارہ دیکھ کر میرے لن نے میرے شلوار میں سخت ہونا شروع کر دیا۔۔۔میری نظر چاچی سمرا کی پیچھے کی طرف نکلی ہوئی موٹی سی بنڈ پر اٹکی ہوئی تھی۔۔۔"


اس وقت مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ، سیکس کے دوران بنڈ کو مسلا بھی جاتا ہے۔۔۔ پھر بھی میرا من اس وقت یہی کر رہا تھا۔۔۔کہ میں پیچھے سے چاچی سمرا کی بنڈ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر دبا دوں۔۔۔میں اپنے ہی خیالوں میں چاچی سمرا کی باہر نکلی ہوئی بنڈ کی طرف دیکھ رہا تھا کہ، چاچی سمرا ایک دم سے چوکس ہو گئیں۔۔۔میں چاچی کے ایسے مڑنے سے گھبرا گیا۔۔۔اور اپنی نظریں نیچی کر لیں۔۔۔چاچی سمرا میرے پاس بستر پر بیٹھ گئیں۔۔۔"کیا سوچ رہے ہو۔۔۔؟" چاچی سمرا نے میری ران پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔


چاچی کے نرم ہاتھ کو اپنی ران پر محسوس کر کے مجھے جھٹکا سا لگا۔۔۔جسے شاید چاچی سمرا نے بھی محسوس کیا۔۔۔"کچھ نہیں ایسے ہی۔۔۔" میں اس سے زیادہ نہ بول پایا۔۔۔


سمرا: تم نے کل بلّو کو کیا کہا تھا۔۔۔؟


چاچی کی بات سن کر میں حیرت سے انکی طرف دیکھنے لگا۔۔۔پھر سوچنے لگا کہ، کل میں نے بلّو کو کیا کہا تھا۔۔۔جب کوئی بات ذہن میں نہ آئی تو، میں نے نہ میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔"میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔۔۔۔" چاچی سمرا میری بات سن کر مسکرانے لگیں۔۔۔"بڑے چالاک ہو۔۔۔اب مکر کیوں رہے ہو۔۔۔"


میں: سچ میں چاچی میں نے تو بلّو چاچا سے کچھ بھی نہیں کہا ہے۔۔۔"


چاچی: اچھا پر وہ تو کہہ رہا تھا کہ، تم نے اسے کہا کہ تم بھی میری لینا چاہتے ہو۔۔۔


میں: نہیں چاچی میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔۔۔قسم سے۔۔۔


چاچی: تو پھر کیا وہ جھوٹ بول رہا تھا۔۔۔


میں: جی چاچی۔۔۔


چاچی: پر اس نے مجھے جھوٹ کیوں بولنا۔۔۔تم نے ضرور اسے کہا ہوگا۔۔۔نہیں تو وہ ایسی بات کیوں کرتا۔۔۔


میں: چاچی جی سچ میں میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔۔۔آپ میرا یقین کریں۔۔۔


چاچی: دیکھو سمیر میں تم پر غصہ نہیں کروں گی۔۔۔پر سچ بولو۔۔۔تم نے بلّو سے نہیں کہا تھا کہ، تم نے میری لینی ہے۔۔۔


میں: نہیں چاچی جی سچ میں میں نے نہیں کہا۔۔۔مجھے تو یاد بھی نہیں میں نے کب اسے یہ کہ دیا کہ، میں نے آپکی پھدی لینی ہے۔۔۔


اس وقت میں اتنا گھبرا گیا تھا کہ، مجھے دھیان ہی نہیں رہا کہ، میں نے چاچی سمرا کے سامنے پھدی جیسا لفظ استعمال کر دیا ہے۔۔۔پر جیسے ہی مجھے اس بات کا احساس ہوا تو، میری ایسے پھٹی کہ پوچھو مت۔۔۔مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ، چاچی ابھی مجھے گھر سے دھکے دے کر باہر نکال دیں گی۔۔۔میں سہمے ہوئے چاچی کی طرف دیکھا تو، اس کے ہونٹوں پر مزید مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔۔۔"میں نے کب کہا کہ وہ پھدی کی بات کر رہا تھا۔۔۔۔" چاچی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔اور آہستہ آہستہ میری ران کے اوپر ہاتھ پھیرنے لگیں۔۔۔میرا لن جو کہ پہلے ڈر کی وجہ سے بیٹھ گیا تھا۔۔۔چاچی کے اس طرح ہاتھ پھیرنے سے پھر سے کھڑا ہونے لگا تھا۔۔۔


میں چاچی کی بات سن کر اپنے آپ کو بے حد شرمندہ محسوس کر رہا تھا۔۔۔"سوری چاچی جی۔۔۔پر میں نے سچ میں ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔۔۔۔" میں نے تھوڑا سا ڈرتے ہوئے کہا۔۔۔"اچھا چلو چھوڑو بلّو کو۔۔۔وہ تو ایسے ہی کچھ نہ کچھ بکتا رہتا ہے۔۔۔۔" پھر کمرے میں تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی۔۔۔چاچی بستر پر چڑھ کر لیٹ گئیں۔۔۔"سمیر۔۔۔" چاچی نے لیٹنے کے بعد مجھے آواز لگائی تو، میں مڑ کر اپنے پیچھے لیٹی چاچی کی طرف دیکھا تو، میرا گلا ایک دم سے سوکھ گیا۔۔۔چاچی پیٹھ کے بل بستر پر لیٹی ہوئی تھیں۔۔۔چاچی نے پتلے سے پنک رنگ کے سوٹ میں تھیں۔۔۔انہوں نے نیچے برا نہیں پہنا تھا۔۔۔



جاری ہے ۔۔۔۔

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)