شام کے 5 بج چکے تھے۔۔۔ جب ردا آپی کا بیٹا اٹھ کر رونے لگا۔۔۔ تو وہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئیں۔۔۔ اپی کو جاگتا دیکھ کر میں بھی اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔ آپی میری طرف دیکھ کر مسکرائیں۔۔۔ 'سو لیا؟' میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ اور بستر سے نیچے اتر کر باہر جانے لگا۔۔۔ "سمیر کہاں جا رہے ہو۔۔۔؟"
میں: جی آپی باہر جا رہا کھیلنے۔۔۔
ردا: اچھا جاتے جاتے امی کو کہہ دینا کہ فیڈر میں دودھ ڈال کر اوپر دے آئیں۔۔۔
میں: جی کہہ دوں گا۔۔۔
میں وہاں سے نیچے آنے لگا۔۔۔ جب میں نیچے پہنچا تو، دیکھا کہ سمیعہ چچی کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔۔۔ میں اندر گیا تو، وہاں کوئی نہ تھا۔۔۔ میں نے باہر نکل کر کچن میں دیکھا تو، وہاں بھی کوئی نظر نہ آیا۔۔۔ تب مجھے باہر گیٹ کی طرف جو کمرہ تھا۔۔۔ ادھر سے سمیعہ چچی کی آواز آئی۔۔۔ میں اس کمرے کی طرف گیا۔۔۔ اور جیسے ہی میں اس کمرے کے اندر پہنچا تو، دیکھا سمیعہ چچی اور بلو دونوں صوفے پر ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ بلو نے اپنا ایک بازو سمیعہ چچی کے پیچھے ڈال کر کندھے پر رکھا ہوا تھا۔۔۔ اور اس کا دوسرا ہاتھ چچی کے بائیں کندھے کے اوپر سے بائیں ممے پر تھا۔۔۔ مجھے اچانک اس طرح اندر دیکھ کر دونوں شرمسار ہو گئے۔۔۔ چچی تو ایسے اچھل کر کھڑی ہو گئیں۔۔۔ جیسے ان کی گانڈ پر کسی نے بجلی کے ننگے تاروں کو چھوا دیا ہو۔۔۔
چچی: ارے سمیر پتر تم نیچے کیوں آئے۔۔۔ کچھ چاہیے کیا۔۔۔؟
میں: نہیں وہ آپی کہہ رہی ہیں کہ آپ کو بول دوں کہ فیڈر میں دودھ ڈال کر انہیں دے آئیں۔۔۔
چچی: اچھا میں دے آتی ہوں۔۔۔ تُو یہاں بیٹھ۔۔۔
میں: نہیں چچی میں کھیلنے جا رہا ہوں۔۔۔
میں وہاں سے باہر نکلا ہی ہے کہ، پیچھے بلو کی آواز آئی۔۔۔ "اچھا بھابھی جان میں بھی چلتا ہوں۔۔۔" میں گیٹ کھول کر باہر نکل آیا۔۔۔ اور گراؤنڈ کی طرف جانے لگا۔۔۔ تو پیچھے سے بلو نے مجھے آواز دی۔۔۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو، وہ میری طرف ہی آ رہا تھا۔۔۔ بلو میرے پاس آیا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔۔۔ "کہاں جا رہے ہو بھتیجے صاحب۔۔۔"
میں: گراؤنڈ میں جا رہا ہوں۔۔۔
بلو: اچھا مجھے بھی ادھر ہی جانا تھا۔۔۔
وہ میرے ساتھ چلنے لگا۔۔۔ جیسے ہی ہم گراؤنڈ کے پاس پہنچے تو، بلو نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے روڈ پر حلوائی کی دکان پر لے گیا۔۔۔ "چل آ بھتیجے تُجھے سوہن حلوہ کھلاواتا ہوں۔۔۔"
میں: نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔ میں نے نہیں کھانے۔۔۔
بلو: چل آجا یار۔۔۔ ایک دو پيس کھا لے۔۔۔
میں: نہیں سچ میں چچا جی۔۔۔ میرا کھانے کا من نہیں ہے۔۔۔
بلو: اچھا بھتیجے آج تُو نے جو بھی دیکھا یار دیکھ اس بارے میں کسی سے بات نہیں کرنا۔۔۔ نہیں تو میرے اور بھائی جان کے درمیان جھگڑا ہو جائے گا۔۔۔
میں: نہیں کرتا۔۔۔
بلو: پکّا نا۔۔۔
میں: ہاں نہیں کرتا۔۔۔
بلو: یار تُو نے میرے دماغ سے بہت بڑی ٹینشن نکال دی۔۔۔ اگر تُو تھوڑا بڑا ہوتا۔۔۔ تو تجھے بھی بھابھی جان کی پھدی دلا دیتا۔۔۔ لیکن ابھی تیری عمر بہت کم ہے۔۔۔
میں بلو کی بات پر چُپ رہا۔۔۔ "اچھا دیکھ اگر تُو یہ بات کسی کو نہیں بتائے گا تو، کل میں تجھے شہر سے نیا بیٹ لا دوں گا۔۔۔ لیکن مجھ سے وعدہ کرو کہ، یہ بات تم کسی سے نہیں کہو گے۔۔۔
میں: میں نہیں کرتا۔۔۔ لیکن مجھے بیٹ بھی نہیں چاہیے۔۔۔
بلو: اب تُو میرا اتنا بڑا راز چھپا رہا ہے تو، میرا بھی فرض بنتا ہے نا اپنے رازدار کو کچھ تو تحفہ دوں۔۔۔
میں بلو کی بات سن کر مسکرانے لگا۔۔۔ لیکن بولا کچھ نہ۔۔۔ میں وہاں سے اسکول کی دیوار کی طرف گیا۔۔۔ مجھے دوپہر سے ہی پیشاب لگا تھا۔۔۔ جو سمیعہ چچی کے کمرے کے نظارے کے چکر میں کرنا بھول گیا تھا۔۔۔ اب مجھے بہت تیز پریشر لگا تھا۔۔۔ میں نے جیسے ہی شلوار کا ناڑا کھول کر اپنے لن کو باہر نکالا جو کہ پریشر سے پوری طرح سخت کھڑا تھا۔۔۔ جیسے ہی میں پیشاب کرنے لگا۔۔۔ تو میں نے نوٹ کیا کہ، بلو میرے لن کی طرف بڑے غور سے دیکھ رہا ہے۔۔۔ میں نے پیشاب کیا اور پھر اپنی شلوار کا ناڑا باندھ کر جیسے ہی گراؤنڈ میں جانے لگا۔۔۔ تو بلو میرے پاس آ گیا۔۔۔ "کیا بات ہے بھتیجے ابھی سے اتنا بڑا ہتھیار کیسے کر لیا تُو نے۔۔۔"
میں: چچا جی آپ کس ہتھیار کی بات کر رہے ہیں۔۔۔
بلو: تیری لن کی بات کر رہا ہوں۔۔۔ بہن چود اگر اس عمر میں تیری لن اتنا بڑا ہے تو 3-4 سال بعد تو اور بڑھ کے ہو جانا ہے۔۔۔ تیری تو عیش ہے۔۔۔ (مجھے بلو سے ایسی باتیں سن کر عجیب سا لگ رہا تھا۔۔۔ اس سے پہلے میرے دوستوں کے درمیان میں ایسی بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔ لیکن کہتے ہیں نا۔۔۔ "ضرورت ایجاد کی ماں ہے"۔۔۔ ضرورت اور خواہش ہی ایجادات کی ماں ہوتی ہے۔۔۔ ویسے ہی حال اس وقت میرے ہو چکا تھا۔۔۔ اس لیے میں جھجکاتے اور شرماتے ہوئے بھی بلو سے پوچھنے سے نہ روک سکا۔۔۔)
میں: وہ کیسے۔۔۔
بلو: یار دیکھ تیری لن تیری عمر کے بچوں کے حساب سے کافی بڑی ہے۔۔۔ اور جب کوئی سیکس کی بھوکی عورت ایسے تھگڑے لن کو دیکھ لے تو، وہ جلدی ہی اس شخص پر عاشق ہو جاتی ہے۔۔۔ اور بڑے لن سے اپنی پھدی۔۔۔"مرواتی ہے۔۔۔۔"
میں: چچا ایک بات پوچھوں۔۔۔؟
بلو: ہاں پوچھ بھتیجے۔۔۔
میں: کیا سچ میں میرا ہتھیار تھگڑا ہے۔۔۔۔۔
بلو: اور نہیں تو کیا۔۔۔ میں کیا جھوٹ بول رہا ہوں۔۔۔ میرے جیسے آدمیوں کا لن بھی 5-6 انچ کے بیچ میں ہوتا ہے۔۔۔ تیرا تو ابھی سے 6 انچ لمبا لگ رہا ہے۔۔۔ کبھی ناپا ہے تُو نے۔۔۔
میں: نہیں۔۔۔
بلو: لیکن ہے تیرا 6 انچ کے قریب۔۔۔۔۔ اچھا جا اب تُو کھیل، مجھے بھی ضروری کام یاد آ گیا ہے۔۔۔
میں وہاں سے گراؤنڈ میں چلا گیا۔۔۔ اور وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے لگا۔۔۔ شام کو ابو کے گھر آنے سے پہلے میں وہاں سے فارغ ہو کر گھر آیا۔۔۔ وہ ساری رات میرے دماغ میں بلو کی کہی باتوں اور سمیعہ چچی کے کمرے کا نظارہ گھومتا رہا۔۔۔ اگلے دن صبح تک میرے دماغ میں یہی فلم بیٹھی چکی تھی۔۔۔
اُس رات میں اپنے گزرے ہوئے دنوں کی یادوں میں کھویا کب سو گیا پتہ نہیں چلا۔۔۔ اگلی صبح مجھے باہر سے آواز آئی تو میری آنکھ کھل گئی۔۔۔ میں نے اٹھ کر وقت دیکھا تو صبح کے 5:30 بجے تھے۔۔۔ کمرے میں 0 واٹ کا بلب جل رہا تھا۔۔۔ باہر ابو نجیبہ سے بات کر رہے تھے۔۔۔ شاید وہ اور میری سوتیلی امی کہیں جا رہے تھے۔۔۔ ان کے بیگوں سے میں اندازہ نہ لگا سکا کہ، وہ اتنی صبح سویرے کہاں جا رہے ہیں۔۔۔ میں رضائی کے اندر لیٹا ہوا تھا۔۔۔ پھر تھوڑی دیر بعد مجھے گیٹ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔۔۔ اس کا مطلب تھا کہ میں اور نجیبہ دونوں گھر میں اکیلے تھے۔۔۔ ایسا نہیں تھا کہ، پہلے کبھی ہم گھر پر اکیلے نہیں ہوتے تھے۔۔۔ لیکن پچھلے کچھ دنوں کے واقعات نے میرے سوچنے سمجھنے کا رویہ اور بدل دیا تھا۔۔۔
میں بستر سے نیچے اترا اور باہر آیا۔۔۔ باہر بہت ٹھنڈ تھی۔۔۔ ہلکی ہلکی دھند چھائی ہوئی تھی۔۔۔ برامدے۔ سے ایک لائٹ جل رہی تھی۔۔۔ کچن اور ابو کے کمرے کا دروازہ بند تھا۔۔۔ اگلے والے کمروں کے دروازے بھی بند تھے۔۔۔ نجیبہ اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔۔۔ مجھے پتہ نہیں اس وقت کیا سوجھا۔۔۔ میں نجیبہ کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔ میں نے نجیبہ کے کمرے کے دروازے کے سامنے جا کر دیکھا تو، اندر لائٹ آف تھی۔۔۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو، اندر سے نجیبہ کی آواز آئی۔۔۔ "کون ہے۔۔۔"
میں: میں ہوں سمیر۔۔۔۔۔
پھر خاموشی چھا گئی۔۔۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا تو، نجیبہ سامنے کھڑی تھی۔۔۔ اس نے پیلا رنگ کا پتلا سا سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔ "۔۔۔ کچھ چاہیے۔۔۔" نجیبہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔ "وہ امی اور ابو صبح سویرے کہاں گئے ہیں۔۔۔؟"
نجیبہ: ان کے ایک دوست کے بیٹے کی شادی ہے۔۔۔ وہیں پر گئے ہیں۔۔۔ جہاں جانا تھا۔۔۔ وہ جگہ دور ہے۔۔۔ اس لیے صبح سویرے ہی نکل گئے۔۔۔
میں صرف ٹی شرٹ اور پاجامہ پہنے کھڑا تھا۔۔۔ اور باہر موسم بہت سرد تھا۔۔۔ "میں آپ کے لیے چائے بنا دوں۔۔۔" نجیبہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔ "نہیں تم سو جاؤ۔۔۔ میرے خیال سے تمہاری نیند ابھی پوری نہیں ہوئی ہوگی۔۔۔ ویسے بھی باہر بہت ٹھنڈ ہے۔۔۔" میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا تو، نجیبہ نے سر جھکاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔۔ "ہاں ٹھنڈ تو ہے۔۔۔ آپ اندر آ جائیں۔۔۔"
میں: نہیں تم پریشان ہو جاؤ گی۔۔۔
میں وہاں سے اپنے کمرے میں آ گیا۔۔۔ اور بستر پر چڑھ کر رضائی کے اندر گھس گیا۔۔۔ میری پھر سے ہلکی سی آنکھ لگ گئی۔۔۔ پھر جب آنکھ کھلی تو، کچن سے آواز آ رہی تھی۔۔۔ شاید نجیبہ اٹھ چکی تھی۔۔۔ اور چائے بنا رہی تھی۔۔۔ میں لیٹے لیٹے وقت دیکھا تو، صبح کے 6:15 ہو رہے تھے۔۔۔ اور لائٹ بند تھی۔۔۔ صبح سویرے ہی کٹ لگ چکا تھا۔۔۔ میں بستر سے اترا اور کمرے سے باہر آ کر باتھ روم کی طرف جانے لگا تو دیکھا نجیبہ چائے بنا رہی تھی۔۔۔ میرے قدموں کی آواز سن کر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔ لیکن مجھے جلدی تھی باتھ روم جانے کی، اس لیے میں باتھ روم میں چلا گیا۔۔۔ جہاں فریش ہو کر باہر آیا تو، سیدھا کچن میں چلا گیا۔۔۔ چائے بن چکی تھی۔۔۔ میں نے دیکھا کہ، نجیبہ کے بال کھلے ہوئے تھے۔۔۔ اور گیلے تھے ۔۔۔ شاید اس نے آج صبح سویرے ہی نہا لیا تھا۔۔۔
"چائے بن گئی۔۔۔؟" میں نے اس کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا۔۔۔ "جی۔۔۔" جیسے ہی نجیبہ بولی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ ٹھنڈ کے باعث کانپ رہی تھی۔۔۔ سردی زیادہ تھی۔۔۔ اس لیے میں نے کوئی خاص غور نہ کیا۔۔۔ نجیبہ چائے کپ میں ڈالی اور میں وہاں سے کپ اٹھا کر اپنے کمرے میں آ گیا۔۔۔ اور چائے پینے لگا۔۔۔
چائے پیتے ہوئے میرے دماغ میں آیا کہ، لائٹ تو پتہ نہیں کب سے کٹی ہے۔۔۔ تو پھر کہیں نجیبہ نے صبح سویرے ٹھنڈے پانی سے تو نہیں نہا لیا۔۔۔ جیسے ہی میرے ذہن میں یہ خیال آیا۔۔۔ میں چائے کے کپ کو وہیں رکھا اور نجیبہ کے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔۔ جہاں میں نے کمرے کے دروازے کو ناک کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو، کمرے کا دروازہ کھل گیا۔۔۔ جب میں اندر دیکھنے لگا تو، نجیبہ رضائی میں لیٹی ہوئی تھی۔۔۔ اس کے کمرے کے ونڈوز کے آگے پردے ہٹے ہوئے تھے۔۔۔ جس سے اب باہر کی ہلکی روشنی اندر آ رہی تھی۔۔۔ اس نے میری طرف دیکھا اور کانپتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔ "کچھ چاہیے تھا۔۔۔" اس کی آواز سن کر مجھے اس کی حالت کا اندازہ ہوا۔۔۔
میں اس کے پاس جا کر بستر پر بیٹھا تو، میں نے محسوس کیا کہ وہ بری طرح سے کانپ رہی تھی۔۔۔ "کیا ہوا تمہیں۔۔۔ ایسے کانپ کیوں رہی ہو۔۔۔؟" میں نے اس کے ماتھے پر ہاتھ لگا کر چیک کرتے ہوئے کہا۔۔۔ "کیا ہوا ۔۔۔""کچھ نہیں وہ صبح سویرے نہا لی اس لیے۔۔۔"
میں: تو تمہیں کس نے کہا تھا صبح سویرے نہانے کے لیے اوپر سے لائٹ بھی نہیں ہے۔۔۔ پھر ٹھنڈے پانی سے نہانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ کیونکہ جب میں باتھ روم میں گیا تھا۔۔۔ تو مجھے ٹینکی کے اندر کے پانی کی ٹھنڈک کے بارے میں پتہ تھا۔۔۔ ہمارے پانی کی ٹینکی چھت پر ہے۔۔۔ تو ظاہر سی بات ہے کہ، رات کو باہر سردی میں ہونے کی وجہ سے پانی کتنا ٹھنڈا ہوتا۔۔۔ "مجبوری تھی۔۔۔؟" نجیبہ نے کانپتے ہوئے کہا۔۔۔
میں: ایسے بھی کیا مجبوری تھی۔۔۔ جو صبح سویرے ٹھنڈے پانی سے نہا لیا وہ بھی اتنی سردی میں۔۔۔
نجیبہ: وہ۔۔۔ وہ جب نہانے گئی تھیں۔۔۔ تب لائٹ تھی۔۔۔ گیزر آن کیا۔۔۔ تھوڑا سا پانی گرم ہوا تو نہانا شروع کر دیا۔۔۔ بیچ میں لائٹ چلی گئی۔۔۔ بدن پر صابن لگا ہوا تھا۔۔۔ تو پھر مجبوراً ٹھنڈے پانی سے نہانا پڑا۔۔۔
میں: تمہارا بھی کچھ حال نہیں ہے۔۔۔
میں بات کو بڑی آسانی سے لے رہا تھا۔۔۔ مجھے اس وقت تک نجیبہ کی حالت کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ، اسے کس قدر سردی لگ رہی ہے۔۔۔ اس نے کروٹ بدلی اور میری طرف پیٹھ کر لی۔۔۔ اور اپنے اوپر اوڑھی رضائی کو کس کے پکڑ لی۔۔۔ میں نے رضائی کے اوپر سے جیسے ہی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو، اس کے بدن کو بری طرح کانپتے ہوئے محسوس کر کے میرے ہوش ایک دم سے اڑ گئے۔۔۔ "نجیبہ تمہارا بدن تو بہت زیادہ کانپ رہا ہے۔۔۔" میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ "آپ فکر نہ کریں تھوڑی دیر میں ٹھیک ہو جاؤں گی۔۔۔" میں اس کی بات سن کر چپ ہو گیا۔۔۔ اور وہیں بیٹھا رہا۔۔۔ 5 منٹ گزر چکے تھے۔۔۔ لیکن نجیبہ کا کانپنا کم نہ ہوا۔۔۔ وہ پہلے سے زیادہ کانپنے لگی تھی۔۔۔
میں بہت پریشانی محسوس کر رہا تھا۔۔۔ اس سے پہلے آج تک میں نے کبھی ایسی حالت کا سامنا نہیں کیا تھا۔۔۔ "نجیبہ۔۔۔" میں نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔ "جی۔۔۔" نجیبہ نے بڑی مشکل سے جواب دیا۔۔۔ "سردی بہت زیادہ لگ رہی ہے۔۔۔" اس بار نجیبہ نے تھوڑی دیر رک کر جواب دیا۔۔۔ "جی۔۔۔ آپ فکر نہ کریں۔۔۔ تھوڑی دیر میں ٹھیک ہو جاؤں گی۔۔۔"
میں: ایسے کیسے ٹھیک ہو جاؤں گی۔۔۔ کب سے یہی سن رہا ہوں۔۔۔
اب تو میرے دماغ نے بھی کام کرنا بند کر دیا تھا۔۔۔ مجھے اور کچھ نہ سوجھا پر ردا اپی کے ساتھ بیتائی ہوئی ایک سرد رات یاد آ گئی۔۔۔ جب میں اور ردا آپی گھر کی چھت پر کھلے آسمان کے نیچے سوئے تھے۔۔۔ اس وقت زوروں کی سردی پڑ رہی تھی۔۔۔ میں اور ردا آپی رضائی کے اندر ننگے ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے۔۔۔ اور ٹھنڈ کا نام و نشان نہیں تھا۔۔۔ جیسے ہی وہ بات مجھے یاد آئی۔۔۔ میں نے ایک پل کے لیے کیا صحیح کیا غلط کچھ نہ سوچا۔۔۔ اور ایک طرف سے رضائی اٹھا کر اندر گھس گیا۔۔۔ نجیبہ کی پیٹھ میری طرف تھی۔۔۔ جیسے ہی اسے اس بات کا احساس ہوا تو، وہ ایک دم سے چونک گئی۔۔۔ "یہ۔۔۔ یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔۔" لیکن تب تک میں اس کے پیچھے لیٹ چکا تھا۔۔۔ میرا پورا بدن فرنٹ سائیڈ سے اس کے بیک سائیڈ سے چپکا ہوا تھا۔۔۔
میں نے نجیبہ کی بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، ایک رائٹ بازو اس کی کمر کے اوپر سے گزار کر اس کے پیٹ پر رکھ لیا۔۔۔ اور اسے کس کے اپنے سے چپکا لیا۔۔۔ "یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔۔؟" نجیبہ کی آواز میں اب کانپنے کے ساتھ ساتھ سرگوشی بھی تھی۔۔۔ "کچھ نہیں ایسے تمہیں گرمی ملے گی۔۔۔ مجھے غلط مت سمجھنا۔۔۔ لیکن ابھی میں جو کر رہا ہوں۔۔۔ وہی ٹھیک ہے۔۔۔ مجھ پر بھروسہ ہے نا۔۔۔" میں نے نجیبہ کے بدن سے پیچھے سے اور اپنے ساتھ اور دبا لیا۔۔۔ نجیبہ بولی کچھ نہ لیکن اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ ہم دونوں کے بدن ایک دوسرے سے پوری طرح چپکے ہوئے تھے۔۔۔ کمرے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔۔ تقریباً 6-7 منٹ بعد نجیبہ کا کانپنا کم ہونے لگا۔۔۔
لیکن اب ایک اور نیا مسئلہ ہو چکا تھا ۔۔۔ میرے بدن کی فرنٹ سائیڈ جو کہ نجیبہ کے بیک سے پوری طرح ٹچ ہو رہی تھی۔۔۔ اسے اٹھتی گرمی کے باعث میرا لن جو نجیبہ کی گانڈ پر دبا ہوا تھا۔۔۔ وہ اب دھیرے دھیرے سخت ہونے لگا تھا۔۔۔ مجھے ڈر لگنے لگا تھا کہ، کہیں نجیبہ میرے لن کو اپنی گانڈ پر محسوس نہ کر لے۔ اور کہیں مجھے غلط نہ سمجھ بیٹھے۔۔۔ میں وہاں سے اٹھنے ہی والا تھا کہ، پھر کچھ سوچ کر رک گیا۔۔۔ میں نے من ہی من سوچا کیوں نہ آج اپنی قسمت کو آزما کر دیکھوں۔۔۔ کہ نجیبہ کا کیا ری ایکشن ہوتا ہے۔۔۔
پہلے جہاں میں نجیبہ کے بدن کو گرمی دینے کے باعث اسے چپکا ہوا تھا۔۔۔ اور میرے ذہن میں ڈر بیٹھا ہوا تھا کہ، کہیں نجیبہ کو کچھ ہو نہ جائے۔۔۔ لیکن اب ڈر کی جگہ ہوس نے لے لی تھی۔۔۔ میرا لن جو کہ نجیبہ کی گانڈ کے لائن کے بیچ میں تھا۔۔۔ وہ اب پوری طرح سخت ہو چکا تھا۔۔۔ میرے لن اور نجیبہ کی گانڈ کے بیچ نجیبہ کی پتلی سی شلوار اور میرا پاجامہ ہی تھا۔۔۔ کیونکہ میں اکثر رات کو سونے سے پہلے انڈرویئر اتار دیتا ہوں۔۔۔ اس وقت نجیبہ نہ تو کچھ بول رہی تھی اور نہ ہی کانپ رہی تھی۔۔۔ لیکن جب میرے لن نے اس کی گانڈ سے رگڑ کھاتے ہوئے، جیسے ہی اس کی گانڈ کے لائن میں گھسا تو، اس کے بدن نے ایک تیز جھٹکا کھایا۔۔۔
میں نے اپنی سانسوں کو روک لیا۔۔۔ اور نجیبہ کے ری ایکشن کا انتظار کرنے لگا۔۔۔ لیکن نجیبہ کی طرف سے کوئی ری ایکشن نہیں ہوا۔۔۔ مجھے اپنے لن کا ٹوپا مانو گرم بھٹی میں دھنستا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ میں صاف طور پر محسوس کر پا رہا تھا کہ، نجیبہ بھی مجھ سے چپکتی جا رہی ہے۔۔۔ میرا لن پاجامے کو پھاڑ کر باہر آنے والا ہو گیا تھا۔۔۔ "نجیبہ۔۔۔؟" میں نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔۔۔