سوتیلی ماں اور بہن قسط 2

0

 















میں: نہیں رہنے دو۔۔۔ مجھ سے ٹیبلٹ نہیں کھائی جاتی۔۔۔




نجیبہ ابھی وہیں کھڑی تھی۔۔۔ میں بستر سے اٹھا اور اُٹھ کر جیسے ہی لائٹ آن کی تو، نجیبہ جو کہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔ اس نے اپنے نظر جھکا لیے۔۔۔ تب مجھے احساس ہوا کہ، میں صرف انڈرویئر میں بستر پر لیٹا ہوا تھا۔۔۔ میرا لن جو کہ انڈرویئر میں بڑا سا تمبو بنائے ہوئے تھا۔۔۔ اسکی شکل صاف نظر آ رہی تھی۔۔۔۔ مجھے جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو، میں نے جلدی سے تولیہ اٹھا کر اپنی کمر پر لپیٹ لیا۔۔۔ "سوری وہ میں۔۔۔" اس سے پہلے کہ میں کچھ بول پاتا۔۔۔ نجیبہ بول پڑی۔۔۔ "اِٹس اوکے۔۔۔"




میں: نہیں نجیبہ۔۔۔ پھر بھی مجھے اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے تھا کہ، تم کمرے میں ہو۔۔۔ اور میں کس حالت میں تھا۔۔۔ پلیز مجھے معاف کر دو۔۔۔




نجیبہ: اِٹس اوکے۔۔۔ آپ باہر تو نہیں تھے نا۔۔۔ اپنے ہی کمرے میں تھے۔۔۔ آپ اپنے کمرے میں جیسے چاہیں رہ سکتے ہیں۔۔۔




میں: پھر بھی تمہارے سامنے مجھے ایسی حالت میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔ تمہیں برا لگا ہوگا۔۔۔




نجیبہ: (ابھی بھی سر جھکائے ہوئے کھڑی تھی۔۔۔ اس کے گال لال سیب کی طرح سرخ ہوکر دہک رہے تھے۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان پھیلی ہوئی تھی۔۔۔) نہیں تو مجھے کیوں برا لگے گا۔۔۔




میں: (نجیبہ کے اپنے ساتھ اوپن رویہ دیکھ کر میری بھی ہمت بڑھنے لگی تھی۔۔۔ میں نے بھی اندھیرے میں نشانہ لگایا۔۔۔) اچھا اگر تمہیں برا نہیں لگا تو، پھر سر کیوں جھکا لیا مجھے دیکھ کر۔۔۔ نجیبہ نے ایک بار سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر نظر جھکا لی۔۔۔ اور بغیر کچھ بولے جانے لگی۔۔۔ میں دروازے کے پاس کھڑا تھا۔۔۔ جیسے ہی وہ میرے پاس سے گزرنے لگی تو، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔ یہ پہلی دفعہ تھا جب میں نے نجیبہ کو چھوا تھا۔۔۔ اس سے پہلے میں نے کبھی نجیبہ کو ٹچ تک نہیں کیا تھا۔۔۔ اور جب میں نے اس کا ہاتھ پکڑا تو، اس کا پورا جسم کانپ گیا۔۔۔ جسے میں صاف محسوس کر پا رہا تھا۔۔۔ لیکن اس نے میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ اس نے میری آنکھوں میں جھانکا اور لڑکھڑاتی آواز میں بولی۔۔۔ "جی۔۔۔" اس نے پھر سے نظر جھکا لی۔۔۔ "نجیبہ مجھے تم سے ضروری بات کہنی ہے۔۔۔ اور۔۔۔" میں نے اپنے اندر ہمت جوڑتے ہوئے کہا۔۔۔ "جی کہیے۔۔۔"




میں: جاؤ پہلے چائے پی آؤ۔۔۔ بعد میں بات کرتے ہیں۔۔۔




میں نے نجیبہ کا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔۔ اور اپنی ٹی شرٹ اور ہاف پینٹ اٹھا کر پہننے لگا۔۔۔ نجیبہ باہر جا چکی تھی۔۔۔ میں نے کپڑے پہنے اور چائے پینے لگا۔۔۔ نومبر کا مہینہ شروع ہوا تھا۔۔۔ ہمارے گاؤں کے آس پاس کے علاقے میں بہت سی نہریں بہتی تھیں۔۔۔ اسلیے سردی ابھی سے بڑھ چکی تھی۔۔۔ چائے پینے کے بعد میں نے خالی کپ اٹھایا اور کچن میں چلا گیا۔۔۔ وہاں خالی کپ رکھ کر اوپر چھت پر چلا گیا۔۔۔ اور چھت پر جہاں سے صحن نظر آتا ہے۔۔۔ وہاں دیوار کے پاس کھڑا ہو گیا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد مجھے نجیبہ اپنے کمرے سے باہر نکلتی ہوئی دکھائی دی۔۔۔ جیسے ہی وہ باہر آئی تو، اس کی نظر فوری طور پر اوپر پڑی۔۔۔ اور جب ہماری نظریں ملیں تو، مجھے یاد آیا کہ، میں نے نجیبہ کو بات کرنے کے لیے کمرے میں بلایا تھا۔۔۔




میں سوچ رہا تھا کہ، میں نے نجیبہ کو بلا تو لیا تھا۔۔۔ لیکن اب اس سے بات کیا کروں۔۔۔ کس طرح بات شروع کروں۔۔۔ کیا کہوں۔۔۔ کس طرح الفاظ استعمال کروں۔۔۔ کہ اسے برا بھی نا لگے۔۔۔ ہو سکتا ہے جو میں سوچ رہا ہوں۔۔۔ ایسا کچھ بھی اس کے ذہن میں ہو ہی نا۔۔۔ اور وہ سب میرا وہم ہو۔۔۔ کہیں نجیبہ مجھ سے ناراض نا ہو جائے۔۔۔ ابو تو اس معاملے میں شروع سے بہت سخت رہے ہیں۔۔۔ وہ تو مجھے کبھی نہیں بخشیں گے۔ اگر نجیبہ نے کچھ ابو یا اپنی امی کو بول دیا۔۔۔ میں من ہی من سوچ رہا تھا کہ، دیکھتا ہوں کہ نجیبہ مجھ سے بات کرنے کے لیے اوپر چھت پر آتی ہے۔۔۔ یا نہیں۔۔۔ اگر وہ چھت پر خود آ جائے تو، کم سے کم 10 فیصد چانس تو بنتے ہیں کہ، میں جو سوچ رہا ہوں۔۔۔ وہ ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن اس سے بات کیا کروں گا۔۔۔ بہت سوچنے سمجھنے کے بعد مجھے بالآخر ایک راستہ مل ہی گیا۔۔۔




وہ راستہ بھلے ہی لمبا تھا۔۔۔ لیکن اس راستے پر سفر کرکے مجھے اپنی مراد تک پہنچنے میں مدد ضرور مل سکتی تھی۔۔۔ ابھی میں یہی سب سوچ رہا تھا کہ، مجھے نجیبہ نظر آئی۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ اوپر دیکھتی۔۔۔ میں پیچھے ہٹ گیا۔۔۔ اور چارپائی پر بیٹھ گیا۔۔۔ ہمارے گھر کی چھت پڑوسی کے گھروں سے کوئی 3-4 فٹ اونچی تھی۔۔۔ اور چاروں طرف ابو نے 5-5 فٹ اونچی باونڈری بنائی ہوئی تھی۔۔۔ صرف صحن کی طرف والی باونڈری 4 فٹ کی تھی۔۔۔ کیونکہ ہمارے گھر کے سامنے کھیت تھے۔۔۔ اسلیے کھیتوں سے کسی کو بھی ہماری چھت نظر نہیں آتی تھی۔۔۔ میں چارپائی پر بیٹھا نجیبہ کے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ انتظار کر رہا تھا۔۔۔




اس کے اوپر کی طرف آتے ہوئے قدموں کی آہٹ بھی میں صاف سن پا رہا تھا۔۔۔ اور پھر جیسے ہی وہ اوپر آئی تو، میں اس کا حسن دیکھ کر ایک دم سے دنگ رہ گیا۔۔۔ نجیبہ نے اپنے بالوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا۔۔۔ اب اندھیرا چھانے لگا تھا۔۔۔ لیکن پھر بھی میں اسے صاف دیکھ پا رہا تھا۔۔۔ وہ ابھی بھی اورنج رنگ کی قمیض اور سفید رنگ کی شلوار پہنے ہوئے تھی۔۔۔ وہ میرے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔۔۔ "آپ کو مجھ سے کوئی بات کرنی تھی۔۔۔" اس نے نظر جھکاتے ہوئے کہا۔۔۔ "ہاں بیٹھو۔۔۔" میں نے چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ تو وہ میرے بالکل پاس میں بیٹھ گئی۔۔۔ وہ بھی میری طرح تھوڑی نروس محسوس کر رہی تھی۔۔۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں پر رکھا۔۔۔میں نے ہمت کر کے جیسے ہی اس کے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھا تو، اس نے چونک کر ایک بار میری طرف دیکھا اور پھر سے نظر جھکا لی۔ اس نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو الگ کیا جو تھوڑی دیر پہلے الجھی ہوئی تھیں۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ نجیبہ نے اس لیے اپنے ہاتھوں کو الگ کیا تھا تاکہ میں اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے سکوں۔ میں نے اس کے نرم ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ "آئی ایم ریلی سوری نجیبہ۔۔۔ میں بہت برا انسان ہوں۔۔۔" میں اب نجیبہ کا ردعمل جاننا چاہتا تھا اس لیے خاموش ہو گیا۔ "کیوں۔۔۔ اور آپ کو کس نے کہا کہ آپ برے انسان ہیں۔۔۔"




میں: تم نے۔۔۔




نجیبہ: کیا میں نے۔۔۔؟




میں: ہاں تم نے کہا۔۔۔




نجیبہ: مجھ پر اتنا بڑا الزام تو نہ لگائیں۔۔۔ میں نے کب کہا۔۔۔ (نجیبہ کا چہرہ اتر چکا تھا۔۔۔ وہ اب بھی نظر جھکائے بیٹھی تھی۔۔۔ اگر میں اسے کچھ اور کہہ دیتا۔۔۔ تو شاید وہ رونا شروع کر دیتی۔۔۔)




میں: میرا مطلب ہے کہ تم نے بھلے ہی نہ کہا ہو۔۔۔ لیکن تمہاری اچھائی نے مجھے اس بات کا یقین دے دیا ہے کہ، میں کتنا برا انسان ہوں۔۔۔ اور تم کتنے نیک دل ہو۔۔۔ جو میرے ہر کڑوی بات کو بھلا کر ہمیشہ میرا خیال رکھتی آئی ہو۔۔۔ میں نے تمہیں اور تمہاری امی کو کیا کچھ نہیں کہا۔۔۔ اور تم نے ہر موقع پر میرا ساتھ دیا۔۔۔ جب مجھے کسی اپنے کے سہارے کی ضرورت ہوتی تھی۔۔۔ مجھے یاد ہے۔۔۔ جب میں تم پر غصہ کرتا تھا۔۔۔ تب بھی تم نے مجھ سے ناراضگی نہ دکھائی۔۔۔ تم سچ میں بہت اچھی ہو۔۔۔




میں نے دیکھا کہ نجیبہ بڑے غور سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔ ایسے جیسے اسے یقین نہ ہو رہا ہو کہ، جو وہ سن رہی ہے۔۔۔ وہ سارے الفاظ میں خود بول رہا ہوں۔۔۔ یا کوئی اور۔ "آپ کو کیا ہو گیا۔۔۔ آج آپ ایسی بات کیوں کر رہے ہیں۔۔۔؟" نجیبہ کے چہرے کی رونق اب بھی اڑی ہوئی تھی۔۔۔ "کچھ نہیں۔۔۔ آج جب میں تمہارے سامنے انڈرویئر میں کھڑا تھا۔۔۔ تو مجھے لگا کہ، تم مجھ سے سخت سے ناراض ہو جاؤ گی۔ لیکن جیسے تم نے ری ایکٹ کیا اور معاملے کو سنبھالا۔۔۔ مجھے یقین ہو گیا کہ، میں آج تک تمہارے ساتھ زیادتی کرتا آ رہا ہوں۔۔۔"




نجیبہ: اب بس کریں۔۔۔ میں نہ کبھی آپ سے پہلے ناراض ہوئی تھی۔۔۔ اور نہ آگے کبھی ہونا ہے۔۔۔ اب ایسے سیڈ موڈی میں نہ رہیں۔۔۔ موڈ ٹھیک کر لیجیے۔۔۔




میں: اوکے مس نجیبہ۔۔۔ (میں نے نجیبہ کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا۔۔۔) لیکن میری بات ایک دم سچ ہے۔۔۔ تم سچ میں بہت اچھی ہو۔۔۔ اور۔۔۔۔۔




مجھے احساس ہوا کہ، میں کچھ زیادہ ہی بولنے والا تھا۔۔۔ لیکن اب نجیبہ کو بھی اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا۔ "اور کیا مسٹر سمیر۔۔۔" نجیبہ نے چارپائی سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔ اور میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔ میں بھی چارپائی سے کھڑا ہو گیا۔۔۔ "اور خوبصورت بھی۔۔۔" میری بات سنتے ہی نجیبہ نے شرما کر نظر جھکا لی۔۔۔ وہ بولی تو کچھ نہ۔۔۔ لیکن اس کے ہونٹوں پر آئی ہوئی مسکراہٹ بہت کچھ بیان کر رہی تھی۔۔۔




رات ہو چکی تھی۔۔۔ اب میری سوتیلی امی گھر آ چکی تھیں۔۔۔ میں اپنی سوتیلی ماں نازیہ سے کم ہی بات کرتا تھا۔۔۔ جب تک ضروری کام نہ ہوتا، میں ان سے بات کرنے سے پرہیز کرتا۔۔۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھا پڑھائی کر رہا تھا۔۔۔ کہ نجیبہ مجھے کھانے کے لیے بلانے آئی۔۔۔ تو میں نے اسے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ، مجھے ابھی بھوک نہیں ہے۔۔۔ جب بھوک ہو گی میں خود کچن سے کھانا لے کر کھا لوں گا۔۔۔ نجیبہ واپس چلی گئی۔۔۔ میں پھر سے پڑھائی میں لگ گیا۔۔۔ کل اتوار تھا۔۔۔ اس لیے سو کر اٹھنے کی جلدی نہیں تھی۔۔۔ ابو کھانا کھا کر ایک بار میرے کمرے میں آئے۔۔۔




ابو: تمہاری پڑھائی کیسی چل رہی ہے۔۔۔؟




میں: جی ٹھیک چل رہی ہے۔۔۔




ابو: دیکھو سمیر اس بار تمہارے بورڈ کے امتحان ہیں۔۔۔ اگلے سال تمہارا ایڈمیشن کالج میں ہو گا ۔۔۔ اور میں چاہتا ہوں کہ، تمہارا ایڈمیشن کسی اچھے کالج میں ہو۔۔۔




میں: جی ابو کوشش تو میری بھی یہی ہے۔۔۔




ابو: اچھا یہ بتاؤ کہ 12ویں کے بعد تم نے کرنے کا کیا سوچا ہے۔۔۔




میں: ابو میں سوچ رہا ہوں کہ، میں 12ویں کے بعد سے گورنمنٹ جاب کے لیے ٹرائی کرنا شروع کر دوں۔۔۔ اگر مل گئی تو ٹھیک نہ ملی تو پڑھائی جاری رکھوں گا۔۔۔ اور اگر مل گئی تو، ساتھ میں پرائیویٹ گریجویشن کر لوں گا۔۔۔




ابو: اچھا سوچ رہے ہو۔۔۔ چلو ٹھیک ہے۔۔۔ تم پڑھائی کرو۔۔۔




یہ کہہ کر ابو باہر چلے گئے۔۔۔ ابو اپنے کمرے میں جا چکے تھے۔۔۔ نجیبہ اور اپنی امی کے ساتھ کچن میں برتن وغیرہ صاف کر رہی تھی۔۔۔ قریب آدھے گھنٹے بعد وہ دونوں بھی کام ختم کر کے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔ میں نے اپنی کتابیں بند کیں اور اٹھ کر کچن میں چلا گیا۔۔۔ اپنے لیے کھانا ڈالا اور پانی کی بوتل اور ایک گلاس لے کر اپنے کمرے میں آ گیا۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد میں بستر پر لیٹ گیا۔۔۔ دوپہر کو بھی آج سو گیا تھا۔۔۔ اس لیے نیند کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔۔۔ میں نے ایسے ہی خیالات میں لیٹے ہوئے تھا کہ، مجھے وہ دن یاد آ گئے۔۔۔ جب ابو کے کہنے پر میں نے فاروق چچا کے گھر جانا شروع کیا تھا۔۔۔




مجھے فاروق چچا کے گھر جاتے ہوئے کچھ دن گزر چکے تھے۔۔۔ تب۔۔۔میں ساتویں کلاس میں تھا۔۔۔ نہ سیکس کی کچھ سمجھ تھی۔۔۔ اور نہ عورت اور مرد کے درمیان تعلقات کی۔۔۔ میرے لیے اسکول، میرے دوست، پڑھائی اور کرکٹ ہی میری دنیا تھی۔۔۔ ردا اپی اور سمیعہ چچی دونوں ہی مجھ سے اچھی طرح پیش آتی تھیں۔۔۔ بھلے ہی ہماری قریبی رشتہ داری نہ تھی۔۔۔ لیکن مجھے ان کے گھر پر کبھی اس بات کا احساس نہ ہوا تھا کہ، میرے وہاں آنے سے ان کو کسی تکلیف یا پریشانی کا سامنا ہو رہا ہو۔۔۔ ردا اپی بھی دھیرے دھیرے میری موجودگی سے خوش ہونے لگی تھیں۔۔۔ اب وہ بغیر کسی پریشانی یا شرم کے ہی اپنے بچوں کو میرے سامنے دودھ پلا دیا کرتی تھیں۔۔۔




ایک دن میں ایسے ہی ردا اپی کے کمرے میں بیٹھا ہوا پڑھ رہا تھا۔۔۔ میں ان کے ساتھ ہی بستر پر بیٹھا تھا۔۔۔ ڈبل بیڈ تھا۔۔۔ اس لیے ردا اپی اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ بستر پر کروٹ لے کر لیٹی ہوئی تھیں۔۔۔ اس کی پیٹھ کے پیچھے اس کے دونوں بیٹے سو رہے تھے۔۔۔ اس کا چہرہ میری طرف تھا۔۔۔ اور وہ اپنے سر کو ہاتھ سے سہارا دیے۔۔۔ میرے ورک بک میں دیکھ رہی تھی۔۔۔ تبھی دروازے کی گھنٹی بجی۔۔۔ ہم پہلی منزل پر تھے۔۔۔ جب سمیعہ چچی نیچے گراؤنڈ فلور پر تھیں۔۔۔ گھنٹی کی آواز سن کر ردا اپی بستر سے اتر گئیں۔۔۔ اور گلی والی طرف جا کر نیچے جھانکنے لگیں۔۔۔ وہ تھوڑی دیر وہاں کھڑی رہیں۔۔۔ اور پھر واپس آ گئیں۔۔۔




تقریباً 15 منٹ بعد ردا اپی بستر سے اٹھیں۔۔۔ اور مجھ سے بولیں۔۔۔ "سمیر تم اپنا کام پورا کرو۔۔۔ میں 15 منٹ میں نیچے سے ہو کر آتی ہوں۔۔۔" ردا اپی کے بات سن کر میں نے سر ہلا دیا۔۔۔ وہ اٹھ کر نیچے چلی گئیں۔۔۔ اپی کے دونوں بیٹے سو رہے تھے۔۔۔ میں کچھ دیر تو وہی بیٹھا پڑھتا رہا۔۔۔ پھر مجھے پیشاب آنے لگا تو، میں اٹھ کر باتھ روم جانے لگا۔۔۔ تو میں کمرے سے باہر آیا۔۔۔ اور گلی والی طرف چھت پر باتھ روم بنایا ہوا تھا۔۔۔ جب میں باتھ روم کی طرف جانے لگا۔۔۔ تو چھت کے بیچوں بیچ لگے ہوئے جنگلے کے اوپر سے گزرا۔۔۔ (وہاں سے چھت کھلی چھوڑی گئی تھی۔۔۔ اس پر لوہے کی گرلز سے بنایا ہوا جنگلہ لگا ہوا تھا۔۔۔ تاکہ نیچے روشنی اور تازہ ہوا جا سکے۔۔۔) جب میں اس کے اوپر سے گزرا تو، میری نظر ردا اپی پر پڑی۔۔۔




وہ اس وقت سمیعہ چچی کے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی تھیں۔۔۔ سمیعہ چچی کا کمرے پیچھے کی طرف تھا۔۔۔ ردا اپی جھک کر کھڑی اندر کھڑکی سے اندر جھانک رہی تھیں۔۔۔ مجھے بڑا عجیب سا احساس ہوا کہ، ردا اپی اس طرح کیوں اپنی امی کے کمرے میں جھانک رہی ہیں۔۔۔ اندر ایسا کیا ہے۔۔۔ جو ردا اپی اس طرح چوروں کی طرح کھڑی اندر دیکھ رہی ہیں۔۔۔ اس وقت نہ جانے کیوں مجھے یہ خواہش ہونے لگی کہ، میں دیکھوں کہ، ایسا کیا ہو رہا کمرے کے اندر جو ردا اپی اس طرح چوروں کی طرح اندر جھانک رہی ہیں۔۔۔ تبھی مجھے خیال آیا کہ، جب میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آتا ہوں۔۔۔ وہاں سیڑھیوں پر ایک روشن دان ہے۔۔۔ جو سمیعہ چچی کے کمرے کا ہے۔۔۔




میں بغیر کچھ سوچے سمجھے سیڑھیوں کی طرف گیا۔۔۔ اور جب دو تین سیڑھیاں چڑھ کر اس موڑ پر پہنچا۔۔۔ یہاں سے سیڑھیاں مڑتی تھیں۔۔۔ وہاں روشن دان تھا۔۔۔ اور پھر جیسے ہی میں نے اندر جھانکا تو، مجھے دنیا کا سب سے عجیب نظارہ دکھائی دیا۔۔۔ کیونکہ میں روشن دان سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس لیے مجھے نیچے بستر پر کسی آدمی کی ننگی پیٹھ دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ اور اس آدمی کے کندھے کے تھوڑا سا اوپر سمیعہ چچی کا چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔۔۔




سمیعہ چچی نے اپنی ٹانگوں کو اٹھا کر اس شخص کی کمر پر لپیٹ رکھا تھا۔۔۔ اور وہ شخص پوری رفتار سے اپنی کمر کو ہلائے جا رہا تھا۔۔۔ تیری بہن کو چودوں تیری ماں کی پھدی میں ان جیسی گالیاں میں کئی لڑکوں کو نکلتے ہوئے سن چکا تھا۔۔۔ لیکن جو میرے سامنے ہو رہا تھا۔۔۔ اس وقت نہیں جانتا تھا کہ، اسے چودنا کہتے ہیں۔۔۔ وہ شخص اور سمیعہ چچی دونوں پسینے سے تر بتر تھے۔۔۔ سمیعہ چچی نے اپنے بازوؤں کو اس شخص کی پیٹھ پر کس رکھا تھا۔۔۔ "اوہھھ بلو آج پوری قصر نکال دی۔۔۔ بہت دنوں بعد موقع ملا ہے۔۔۔۔" بلو نام سنتے ہی مجھے پتہ چل چکا تھا کہ وہ شخص اور کوئی نہیں فاروق کا چھوٹا بھائی ہی تھا۔۔۔ جسے گاؤں والے بلو کے نام سے پکارتے تھے۔۔۔ "آہھھ بھابھی زور تو پورا لگا رہا ہوں۔۔۔ لیکن جیسے جیسے تیری عمر بڑھ رہی ہے۔۔۔ سالی تیری پھدی اور گہری اور گرم ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ اوہ دیکھ میرا لن کس طرح پھٹ کر اندر جا رہا ہے۔۔۔" بلو نے اور تیزی سے جھٹکے لگانے شروع کر دیے۔۔۔ ابھی مجھے کچھ کچھ سمجھ آ چکی تھی کہ، اندر کیا چل رہا تھا۔۔۔ لیکن میں اس وقت تک تو ایک بھولا تھا۔۔۔ یہ بات بھی سمجھ آ چکی تھی کہ، وہ دونوں جو بھی کر رہے ہیں۔۔۔ دونوں کو مزہ بہت آ رہا ہے۔۔۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ، کہیں اپی اوپر آنے کے لیے سیڑھیوں کی طرف آتیں تو، اس کی نظر سیدھا مجھ پر پڑتی۔۔۔ میں نے وہاں کھڑے رہنا مناسب نہیں سمجھا۔۔۔ اور وہاں سے اوپر آ گیا۔۔۔ اور بستر پر بیٹھ کر پھر سے کتاب کو پڑھنے لگا۔۔۔




15 منٹ بعد اپی اوپر آئیں۔۔۔ انہوں نے دروازے پر کھڑے ہو کر مجھے دیکھا اور پھر اپنے بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔۔۔ "بچوں میں سے کوئی اٹھا تو نہیں۔۔۔" میں نے نہیں میں سر ہلا دیا۔۔۔ "ٹھیک ہے میں باتھ روم جا کر آتی ہوں۔۔۔" اپی پھر باتھ روم میں چلی گئیں۔۔۔ پھر وہ تھوڑی دیر بعد واپس آئیں تو، ان کے چہرے پر عجیب سا سکون نظر آ رہا تھا۔۔۔ وہ بستر پر لیٹ گئیں۔۔۔ "توں بھی لیٹ جا۔۔۔ بہت پڑھائی کر لی آج۔۔۔" اپی نے بستر پر لیٹتے ہوئے کہا۔۔۔ "پر میرا من نہیں کر رہا تھا کہ میں وہاں لیٹوں۔۔۔ میں بے دلی سے لیٹ گیا۔۔۔ اپی تو لیٹتے ہی سو گئیں۔۔۔" پر میری آنکھوں سے نیند بہت دور تھی... بار بار سمیعہ چچی کے کمرے کا نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا..."۔۔۔۔۔۔






جاری ہے ۔۔۔۔۔



Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)