میرا نام سمیر ہے۔میں اپنے کمرے میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ باہر صحن میں میری سوتیلی بہن نجیبہ چارپائی پر بیٹھی اپنی کتاب پڑھ رہی تھی اور میں بارہویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ نجیبہ پر جوانی اور حسن اس قدر چڑھا تھا کہ پوچھو مت۔ ایک دم گورا رنگ، اس کی ہائٹ پانچ فٹ تین انچ تھی۔ سامنے اورنج کلر کی قمیض اور سفید رنگ کی سویٹر پہنے وہ کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ میں اپنے کمرے میں کرسی پر بیٹھا ہوا اپنی سوتیلی بہن کے جسم کو گھور رہا تھا۔ جی ہاں سوتیلی بہن۔ بات اس وقت کی جب میں نے ہوش سنبھالنا شروع کیا تھا، تب میری زندگی میں بہت خوفناک حادثہ پیش آیا۔ میری امی کی بائیک حادثے میں وفات ہو گئی۔ حالات کے ساتھ ساتھ سب نارمل ہونے لگا۔ ابّو گورنمنٹ بینک میں نوکری کرتے تھے جو پاس ہی کی سٹی میں تھا۔ میں صبح ان کے ساتھ ہی تیار ہو کر اسکول جاتا کیونکہ میرا ایڈمیشن ابّو نے گاؤں کے سرکاری اسکول میں نہ کرواکر سٹی کے پرائیویٹ اسکول میں کروایا تھا۔ اسکول سے چھٹی کے بعد میں سیدھا بینک ہی چلا جاتا تھا اور اس کے بعد شام کو ابّو کے ساتھ ہی گھر واپس آتا تھا۔ زندگی اسی طرح گزر رہی تھی۔ کئی رشتہ دار ابّو کو دوسری شادی کرنے کے لیے کافی عرصے سے زور لگا رہے تھے لیکن ابّو کا کہنا تھا کہ جب تک میں خود کو سنبھالنے لائق نہیں ہو جاتا، وہ دوسری شادی کے بارے میں سوچیں گے بھی نہیں۔ میں تھوڑا بڑا ہو چکا تھا۔ اب میں خود اکیلے اسکول آنے جانے لگا تھا تو رشتہ داروں کے بار بار کہنے پر ابّو نے دوسری شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں اسکول کے بعد بینک نہ جا کر اکیلے گھر آ جانے لگا تھا اور خود ہی اکیلے صبح بس سے اسکول بھی جانے لگا تھا۔ اس سے ابّو کی پریشانی کافی حد تک کم ہو چکی تھی کیونکہ پہلے انہیں بھی میرے ساتھ بینک کے وقت سے پہلے ہی گھر سے نکلنا پڑتا تھا۔ جب میں دسویں جماعت میں ہوا تو ابّو اور ان کے بینک میں ہی کام کرنے والی ایک بیوہ عورت کے درمیان افئیر ہو گیا۔ رشتہ دار بھی ابّو کو دوسری شادی کرنے کے لیے بات بات پر کہتے تھے، اس لیے انہوں نے نازیہ نام کی اس بیوہ سے شادی کر لی۔ نازیہ میری سوتیلی امی، بینک میں اونچے عہدے پر تھیں۔ بالکل خوبصورت عورت تھیں۔ اس وقت اس کی عمر تیس سال تھی جب اس کی اور ابّو کی شادی ہوئی تھی۔ کئی بار تو مجھے ابّو کی قسمت سے بھی جلن ہونے لگتی تھی۔ خیر اب کہانی پر آتے ہیں۔ میں اور نجیبہ گھر میں اکیلے تھے۔ ہمارے گھر میں پیچھے کی طرف دو کمرے تھے۔ ایک طرف کچن تھا۔ کچن اور کمرے آگے سے برآمدے سے ڈھکے ہوئے تھے۔ آگے کھلا صحن تھا اور پھر آگے دو کمرے اور تھے جن میں سے ایک ڈرائنگ روم اور دوسرا کمرے نجیبہ کا تھا۔ گیٹ کے دوسری طرف باتھ روم تھا۔ میں اپنی ہوس بھری نظروں سے نجیبہ کی طرف دیکھ رہا تھا اور نجیبہ بھی بیچ بیچ میں سر اٹھا کر میری طرف دیکھتی اور جب ہم دونوں کی نظریں آپس میں ملتیں تو وہ شرما کر نظریں جھکا لیتی۔ حیرت ہے کہ ابّو کی شادی کو دو سال ہو چکے تھے اور نجیبہ اور نازیہ دونوں شادی کے بعد یہاں رہنے آ گئی تھیں لیکن پہلے ایسا کچھ نہیں ہوا تھا جو پچھلے چند دنوں سے ہو رہا تھا۔ نجیبہ بھی بہانے بہانے سے میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ اس کی نظروں میں بہت کچھ چھپا ہوا تھا لیکن ہمارا رشتہ ایسا تھا کہ میں چاہ کر بھی آگے قدم نہیں بڑھا سکتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس وقت مجھے سمجھ نہیں تھی، سمجھ تو مجھے بہت پہلے آ چکی تھی کہ ایک عورت اور مرد کے درمیان کیسا رشتہ ہوتا ہے اور میں اس کی نظروں کو کچھ حد تک سمجھ بھی پا رہا تھا لیکن پچھلے کچھ دنوں میں ایسا کیا ہو گیا تھا کہ نجیبہ کا مجھے دیکھنے کا نظریہ ہی بدل گیا تھا۔ یہ میری سمجھ سے باہر تھا۔ وہ مجھے پہلے بھائی کہہ کر بلاتی تھی لیکن پچھلے کچھ دنوں سے میں نے اپنے لیے اس کے منہ سے بھائی کا لفظ نہیں سنا تھا۔ وہ جب بھی مجھ سے کچھ پوچھنے آتی تو صرف 'آپ' کہہ کر ہی بات کرتی، مثلاً 'آپ کو کھانا لا دوں؟'، 'آپ چائے پیں گے؟' ایسی ہی بات کر رہی تھی لیکن ایسا کیا ہو گیا تھا جس سے نجیبہ کا رویہ بدل گیا تھا؟ میں اپنے خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ باہر ڈور بیل بجی۔ میں نے دیکھا نجیبہ نے اپنی کتاب چارپائی پر رکھی اور جب وہ چارپائی سے اترنے لگی تو وہ میرے کمرے کی طرف سے اتری۔ حالانکہ وہ دوسری طرف سے بھی اتر سکتی تھی۔ چارپائی سے اترنے کے بعد اس نے اپنی قمیض کے پلے کو نیچے سے پکڑ کر اپنی قمیض کو نیچے کی طرف کھینچا جس سے اس کے ممے اس کی تنگ قمیض میں اور صاف شکل میں نظر آنے لگے۔ وہ ایسے ری ایکٹ کر رہی تھی جیسے اس کی میری طرف دھیان ہی نہ ہو۔ پھر اس نے اپنا دوپٹہ چارپائی سے اٹھایا اور باہر جا کر گیٹ کھولا تو مجھے باہر سے ردا کی آواز آئی۔ اب یہ، ردا کون ہے؟ اس کے بارے میں اور اس کے خاندان کے بارے میں آپ لوگوں کو بتاتا ہوں۔ بات ابّو کی دوسری شادی سے پہلے کی ہے۔ تب میں اسکول سے گھر آتا اور کھانا کھا کر اپنی گلی کے یار دوستوں کے ساتھ سرکاری اسکول کے گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلنے پہنچ جاتا اور جب ابّو کے آنے کا وقت ہوتا تو اس سے تھوڑی دیر پہلے ہی گھر پہنچ جاتا۔ جس کا اثر میری پڑھائی پر ہونے لگا تھا۔ ستمبر میں جب انٹرنل امتحان ہوئے تو میں بری طرح فیل ہو گیا۔حالانکہ میں پڑھائی میں شروع سے ہی تیز تھا لیکن جب یہ آزادی ملی تھی، میں نے اپنی کتابوں کو اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔ جب ابّو نے مارک شیٹ دیکھی تو ابّو مجھ سے سخت ناراض ہوئے، اور غصہ بھی کیا۔ اگلے ہی دن جب میں اسکول جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا تو ابّو نے میرے لیے ایک نیا فرمان جاری کر دیا کہ آج سے میں اسکول سے واپس آنے کے بعد سیدھا ابّو کے دوست فاروق کے گھر چلا جاؤں۔ دراصل ابّو اور فاروق قریبی دوست تھے۔ فاروق کے گھر میں رہنے والی بیوی سمرہ اور فاروق کی بیٹی ردا رہتی تھی۔ ردا کی شادی کو تین سال ہو چکے تھے۔ اس کے دو بچے تھے جو کہ جڑواں تھے۔ ردا کا شوہر خلیج میں نوکری کرتا تھا۔ تقریباً ایک سال پہلے ردا کا شوہر فاروق کے بیٹے کو بھی اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ ردا کی شادی جس گھر میں ہوئی تھی، ان کی فیملی بہت بڑی تھی۔ ردا کے شوہر کے چار بھائی اور تھے۔ اس لیے جب ردا کا بھائی اپنے جیجے کے ساتھ بیرون ملک گیا تو ردا یہاں آ گئیں۔ اس کے سسرالیوں نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ ردا اس وقت ہمارے گاؤں میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ تھیں۔ انہوں نے انگریزی میں بیچلرز کیا ہوا تھا۔ اسی وجہ سے ابّو نے مجھے یہ فرمان سنایا تھا۔ جیسے کسی نے میری آزادی مجھ سے چھین لی ہو۔ لیکن شاید ابّو نہیں جانتے تھے کہ وہ مجھے کس دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ ایسی دلدل جس نے میرے ذہن میں سارے رشتے ناطے ختم کر دیے تھے۔ میں اس دنیا میں صرف ایک ہی رشتے کو سچ ماننے لگا تھا اور وہ تھا مرد اور عورت کا رشتہ۔
سمرہ فاروق کی دوسری بیوی تھیں۔ اس کی پہلی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا۔ جب ردا چھ سال کی ہوئیں تو بڑی مشکلوں کے بعد ردا کی امی دوسری بار حمل سے ہوئیں۔ لیکن حمل میں کچھ پیچیدگیاں ہونے کی وجہ سے نہ تو ردا کی امی بچ سکیں اور نہ ہی بچہ بچ سکا۔ رشتہ داروں کے بار بار کہنے اور دباؤ پر فاروق نے اپنی ہی سالی سمرہ سے شادی کر لی کیونکہ سمرہ کے گھر والے نہیں چاہتے تھے کہ ان کی بچی کی آخری نشانی کو کسی طرح کی مشکلیں پیش آئیں۔ میں سمرہ کو چچی اور فاروق کو چچا کہتا تھا اور ردا کو ردا آپی کہہ کر بلاتا تھا۔ جب میں نے اسکول سے آ کر ان کے گھر جانا شروع کیا تو تب سمرہ چچی پینتیس سال کی ہوں گی۔ ان کی اونچائی پانچ فٹ چار انچ کے قریب تھی۔ سمرہ کی رنگت ایسی تھی جیسے کسی نے دودھ میں زعفران ملا دیا ہو۔ بالکل گورا رنگ، لال سرخ گال، ان کی شخصیت بہت پُرکشش تھی۔ سمرہ کی جو چیز سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنتی تھی، وہ تھی ان کی گول مٹول اور بھرے ہوئے خدوخال۔ جب وہ کبھی گھر سے باہر نکل کر دکان تک جاتی تھیں تو دیکھنے والے حیران رہ جاتے تھے۔ یہی حال ردا کا بھی تھا۔ اس کی عمر اس وقت قریب بائیس سال کے قریب تھی۔ شادی اور بچوں کے بعد اس کے جسم کے خدوخال بھی پختہ ہو چکے تھے۔ ان کی شخصیت دیکھ کر لوگوں کی توجہ ان کی طرف مبذول ہو جاتی تھی۔ اور فاروق چچا اس وقت اڑتالیس سے پچاس کے درمیان کے ہوں گے۔ جب میں نے چچی سمرہ کے گھر جانا شروع کیا تو وہاں میں ایسی دلدل میں پھنسا کہ پھر کبھی باہر نکل نہیں پایا۔ میرے اندر آج جو شیطان ہے، وہ سمرہ چچی اور ردا آپی کی وجہ سے ہی ہے۔ اس دور میں کیا ہوا، کیسے ہوا، وہ بعد میں آپ کے سامنے آ جائے گا۔
فی الحال تو ردا آپی، جسے میں اب صرف ردا کہہ کر بلاتا ہوں جب ہم اکیلے ہوتے ہیں، وہ گھر آ چکی تھیں۔ ردا اور نجیبہ دونوں وہی چارپائی پر بیٹھ گئیں۔ ردا کی نظر جب مجھ پر پڑی تو اس نے اشارے سے مجھے سلام کہا۔ میں نے بھی جواب میں اشارہ کیا اور ساتھ ہی محسوس کیا کہ جب ردا نے سلام کے بعد نجیبہ کی طرف دیکھا تو دونوں کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔ اِس دن سے نجیبہ کے رنگ ڈھنگ بدلے تھے۔ اُس دن بھی ردا گھر پر آئی ہوئی تھیں۔ ابّو اور میری سوتیلی امی شام کو سات بجے سے پہلے گھر نہیں آتے تھے، اسی لیے میں اور نجیبہ دونوں گھر پر اکیلے ہوتے تھے۔ وہ دونوں چارپائی پر بیٹھی آگے باتیں کر رہی تھیں۔ بیچ بیچ میں کبھی ردا تو کبھی نجیبہ میری طرف دیکھتی اور پھر سر نیچے کر کے مسکرانے لگتی۔ مجھے ان دونوں کی باتیں سننی نہیں آ رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد نجیبہ اٹھی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ جب وہ کمرے سے باہر آئیں تو اس نے اپنے کپڑوں پر تولیہ رکھا ہوا تھا۔ "آپی آپ بیٹھیے، میں ابھی نہا کر آتی ہوں۔" یہ کہہ کر نجیبہ باتھ روم میں چلی گئی۔ جیسے ہی نجیبہ باتھ روم میں گئیں، تو ردا چارپائی سے کھڑی ہوئیں۔ اس نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ اور پھر ایک بار باتھ روم کی طرف دیکھا۔ اور پھر وہ کمرے کی طرف آنے لگیں۔ اسے اندر آتا ہوا دیکھ کر میں بھی چوکنا ہو کر اٹھ کھڑا ہوا۔ جیسے ہی ردا میرے قریب آئیں، چونکہ وہ مجھ سے 6 سال بڑی تھیں، میں نے آگے بڑھ کر ردا کا ہاتھ پکڑا اور اسے دروازے کے ساتھ دیوار سے لگا دیا۔ تاکہ اگر نجیبہ باہر آئے تو اس کی نظر سیدھا ہم دونوں پر نہ پڑے۔ جیسے ہی ہم دروازے کے پیچھے ہوئے، ردا نے اپنی باہوں کو میری گردن میں ڈال کر اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں کی طرف بڑھا دیا۔ میں نے بھی ایک پل کی بھی پرواہ کیے بغیر ردا کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا۔ اور اپنی باہوں کو اس کی کمر کے گرد لپیٹ لیا۔ میں نے ردا کے ہونٹوں کو چومتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو اس کے کندھوں پر رکھا، تو ردا پاگلوں کی طرح مجھ سے لپٹ گئی۔
اس نے اپنی کمر کو آگے کی طرف پیش کیا تو، میرا لن اسکی شلوار کے اوپر سے اسکی پھدی پر جا لگا۔ میرے سخت لن کو اپنی پھدی پر محسوس کر کے ردا کا پورا جسم کانپ گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا۔ "سمیر اب دیر نہ کرو۔ تمہارا لن بھی تیار ہے۔ اور میری پھدی پانی چھوڑ رہی ہے۔" یہ کہتے ہوئے ردا نے اپنی شلوار کا ناڑا کھولا اور بیڈ کے کنارے پر بیٹھتے ہوئے، اس نے اپنی شلوار کو اپنے گھٹنوں تک اتار دیا۔ پھر اس نے اپنی ٹانگوں کو گھٹنوں سے موڑ کر اوپر اٹھا لیں۔ تب تک میں بھی اپنی ہاف پینٹ اتار چکا تھا۔ میرا لن ایک دم سخت کھڑا تھا۔ میں نے اپنے لن کو ہاتھ سے پکڑا اور اسکی ٹانگوں کے درمیان آتے ہوئے لن کے ٹوپے کو جیسے ہی اسکی پھدی کے سوراخ پر لگایا، تو ردا نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ "سمیر جلدی کرو۔۔۔ پلیز مجھ سے صبر نہیں ہو رہا۔۔۔"
میں نے ردا کی بات سنتے ہی ایک زوردار جھٹکا مارا جس سے میرا لن ایک ہی بار میں پورا کا پورا ردا کی پھدی کے بیچ میں سما گیا۔ "ہائے ۔۔۔۔۔ جان کڈ دیتی۔۔۔ " ردا نے بیڈ پر بچھی ہوئی بیڈشٹ کو دونوں ہاتھوں سے کس کے پکڑ لیا۔ میں نے بہت تیزی سے لن کو فل سپیڈ سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ اسکی قمیض میں اس کے ممے میرے جھٹکے لگانے کے باعث اوپر نیچے جھول رہے تھے۔ ہم دونوں خاموشی سے چدائی کر رہے تھے، تاکہ ہماری آواز کمرے سے باہر نہ جائے۔ تقریباً 6-7 منٹ بعد ردا کا جسم اکڑنے لگا۔ اس نے نیچے لیٹے ہوئے اپنی گانڈ کو اوپر کی طرف پش کرنا شروع کر دیا۔ اور پھر ایک دم سے مچلتے ہوئے اسکی پھدی نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا، اور ساتھ ہی میرے لن سے بھی پانی نکلنے لگا۔ جیسے ہی میں نے اپنا لن ردا کی پھدی سے باہر نکالا، تو ردا بیڈ سے کھڑی ہو گئی۔ اس نے دروازے سے باہر دیکھتے ہوئے اپنی شلوار کا ناڑا باندھنا شروع کر دیا۔ "کیا بات ہے سمیر ۔۔۔۔ آج کل تم ہماری طرف نہیں آ رہے۔۔۔ " ردا نے شلوار کا ناڑا باندھا اور اپنی قمیض ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔۔۔
میں: ایسے ہی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔۔۔۔۔
ردا: اچھا میں باہر جا کر بیٹھتی ہوں۔۔۔۔ نجیبہ باہر آنے والی ہے۔
ردا کے باہر جانے کے بعد میں صرف انڈرویئر ہی میں بستر پر لیٹ گیا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ مجھے باہر سے ردا اور نجیبہ دونوں کی باتیں کرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں یہ تو نہیں سن پا رہا تھا کہ وہ آپس میں کیا بات کر رہی ہیں۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگ رہا تھا۔۔۔ جیسے ردا اور نجیبہ میرے بارے میں ہی بات کر رہی ہوں گی۔۔۔ جب دونوں کے ہنسنے کی آواز آتی تو میرے دل میں بے چینی سی اٹھتی کہ میں ان کی بات کسی طرح سنوں۔ میں بستر سے اٹھا اور دروازے کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ لیکن وہاں سے بھی کچھ بھی ٹھیک سے سن نہیں پا رہا تھا۔ میں نے تھوڑا سا سر باہر نکال کر چھپ کر دیکھا تو، دونوں ایک دوسرے کی طرف منہ کیے ہوئے بیٹھی تھیں۔۔۔ دونوں کی سائیڈ میری طرف تھی۔۔۔
تبھی میری نظر کچن کے دروازے پر پڑی۔۔۔ جو میرے کمرے کے بالکل ساتھ تھا۔۔۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔۔ مجھے اپنے کمرے سے نکل کر کچن کے اندر جانے میں چند سیکنڈ کا وقت ہی چاہیے تھا۔۔۔ بس مسئلہ یہ تھا کہ، کہیں دونوں میں سے کوئی بھی مجھے کچن کے اندر جاتے ہوئے نہ دیکھ لے۔۔۔ نہیں تو، دونوں مجھے کچن میں جاتے دیکھ کر باتیں بند کر دیتیں۔۔۔ بالآخر میں نے ہمت کر کے باہر کی طرف قدم رکھا۔۔۔ دونوں باتوں میں مصروف تھیں۔۔۔ اور میں نے بڑی تیزی سے بغیر آواز کیے کچن کے اندر چلا گیا۔۔۔ اندر لائٹ آف تھی۔۔۔ کچن میں باہر گیٹ کی طرف ایک ونڈو تھی۔۔۔ جو کھلی ہوئی تھی۔۔۔ ونڈو کے آگے جالی لگی ہوئی تھی۔
میں دھیرے دھیرے بغیر شور کیے ونڈو کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ اب مجھے ان دونوں کی باتیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔۔۔ لیکن جو میں سوچ رہا تھا۔۔۔ دونوں اس کے الٹ بات کر رہی تھیں۔۔۔ ردا نجیبہ سے کہہ رہی تھی اتوار کے دن شہر میں جا کر شاپنگ کرنے کی بات کر رہی تھی۔۔۔ "اپی میں آپ کو پکا نہیں کہہ سکی۔۔۔ امی کو آنے دینا۔۔۔ میں ان سے بات کر کے آگے کو بتا دوں گی۔۔۔ اگر امی ابو راضی ہو گئے تو، پھر آپ کے ساتھ ضرور چلوں گی۔۔۔ مجھے بھی شاپنگ کا بہت شوق ہے۔۔۔"
ردا: اچھا ٹھیک ہے امی سے پوچھ کر بتا دینا۔۔۔ اور اگر وہ نہ مانے تو، تمہیں جو چاہیے مجھے بتا دینا۔۔۔ میں وہاں سے لا دوں گی۔
نجیبہ: جی اپی۔۔۔
میں سوچنے لگا کہ، جو میں دو دنوں سے سوچ رہا تھا۔۔۔ شاید وہ میرے من کا وہم تھا۔۔۔ یہ مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے۔۔۔ جو ہر وقت میرا دماغ صرف سیکس کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔۔۔ مجھے یاد ہے۔۔۔ جب شادی کے بعد نجیبہ اپنی امی کے ساتھ یہاں رہنے آئی تھیں تو، میں اس بات سے کس قدر خفا تھا۔۔۔ میں کیسے سارا دن اپنے ذہن میں اس کی امی اور اس کے لیے نفرت لیے پھرتا رہتا تھا۔۔۔ وہ نجیبہ ہی تھی۔۔۔ جس نے میرے غصے اور نفرت کو سہا۔۔۔ اس کی ہر ایک کے ساتھ گھل مل جانے والی خصوصیت کے سبب ہی۔۔۔ میں اپنے آپ کو اپنی سوتلی بہن اور سوتلی ماں کے ساتھ اس گھر میں ایڈجسٹ کر پا تھا۔۔۔ میں ابھی وہاں سے ہٹ کر واپس اپنے کمرے میں جانے ہی والا تھا کہ، ردا نے کچھ ایسا کہا۔۔۔ جس کے سنتے میں وہیں رک گیا۔۔۔
"نجیبہ۔۔۔ ویسے آج تو نے جو طریقہ اپنایا ہے وہ ہے ایک دم سیٹ۔۔۔ ایسے ہی اپنی اپی کا خیال رکھنا۔۔۔" پھر دونوں ہنسنے لگیں۔۔۔ پھر مجھے نجیبہ کی سرگوشی سے بھری آواز آئی۔۔۔
نجیبہ: اپی آپ سے ایک بات پوچھوں؟
ردا: ہاں پوچھو۔۔۔ تم مجھ سے جو چاہو پوچھ لیا کرو۔۔۔
نجیبہ: اپی آپکو بھائی کے ساتھ وہ سب کرتے ہوئے عجیب نہیں لگتا؟
ردا: کیا عجیب۔۔۔ میں سمجھی نہیں کھل کے بولو نہ کیا پوچھنا چاہتی ہے۔۔۔
نجیبہ: اپی میرا مطلب بھائی آپ سے عمر میں بہت کم ہے۔۔۔ اور آپ ان کے ساتھ وہ سب کچھ کر لیتی ہیں۔۔۔ تو آپ کو عجیب نہیں لگتا ان کے ساتھ۔۔۔
نجیبہ کی بات سن کر ردا ہنستے ہوئے بولی۔۔۔ "عجیب کیوں لگے گا۔۔۔ دیکھ اس میں عمر کا کیا لینا دینا۔۔۔ اس کے پاس وہ گنا ہے جو ایک عورت کو چاہیے ہوتا ہے۔۔۔ اور میرے پاس رس نکالنے والی مشین ہے۔۔۔ تو پھر عجیب کیوں لگے گا۔۔۔" ردا نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے کہا۔۔۔ "توبہ اپی آپ بھی نہ عجیب عجیب مثالیں دیتی ہیں۔۔۔"
ردا: چھوڑ تو نے میرے دی ہوئی مثال پسند نہیں آتی تو، آگے سے سیدھی بات کیا کرو گی۔۔۔ دراصل تیرے سمیر بھائی کا لن ہے ہی اتنا تگڑا کہ، جب پھدی میں جاتا ہے تو عمر شمار سب بھول جاتی ہوں۔۔۔ پھر تو دل کرتا ہے۔۔۔ وہ میری ٹانگیں اٹھا کر اپنا لن میرے پھدی کے اندر باہر کرتا رہے۔۔۔
نجیبہ: چھی۔۔۔۔۔۔ کیسی گندی باتیں کرتی ہیں آپ۔۔۔
ردا: چھوڑ آگے سے ایسی بات نہیں کرتی تجھ سے۔۔۔
ردا چپ ہو گئیں۔ تھوڑی دیر دونوں خاموش رہیں۔۔۔ "اپی ناراض ہو مجھ سے؟" ردا نے دھیرے سے کہا۔۔۔ "نہیں تو میں کیوں ناراض ہونا۔۔۔"
ردا نے نارمل سی ٹون میں کہا۔۔۔ "تو پھر آپ چپ کیوں ہو گئیں؟"
ردا: اب تم ہی کہہ رہی تھی کہ، ایسی باتیں نہ کریں۔۔۔
پھر تھوڑی دیر کے لیے خامشی چھائی رہی۔۔۔ "اپی ایک بات پوچھوں۔۔۔" ردا نے نجیبہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد ردا بولی۔۔۔ "ہاں بول کیا پوچھنا ہے؟"
نجیبہ: اپی آپ کہہ رہی تھیں کہ، بھائی وہ آپکی۔۔۔ (نجیبہ شاید شرما گئی تھی۔۔۔ یا پھر اسکی ہمت نہیں ہو رہی تھی ایسے الفاظ بولنے کے لیے۔۔۔)
ردا: اب بول بھی۔۔۔
نجیبہ: آپ کہہ رہی تھیں کہ، آپکا دل کرتا ہے کہ، بھائی آپکی ٹانگیں اٹھا کر کرتے رہیں۔۔۔ لیکن وہ سب کرنے کے لیے آپکی ٹانگیں کیوں اٹھائیں گے۔۔۔
ردا: (نجیبہ کی بات سن کر ہنستے ہوئے۔۔۔) ہاہاہا پاگل ہے توں بھی میری بھولی نادان بچی۔۔۔ ویسے وہ سب کرتے ہوئے ضروری نہیں ہے کہ، ٹانگیں اٹھی جائیں۔۔۔ پر ٹانگیں اٹھا کر پھدی دینے میں مزا بہت آتا ہے۔۔۔ توں ابھی یہ سب نہیں سمجھے گی۔۔۔ لیکن جب تیری کسی سے یاری لگے گی کی اور تب تیرا یار تیری ٹانگیں اٹھا کر تیری لے گا تو، تجھے میری بات کا یقین ہوگا۔۔۔
نجیبہ: کیا اپی آپ بھی۔۔۔
ردا: (ہنستے ہوئے) ہاہاہا سچ کہہ رہی ہوں۔۔۔ دیکھنا وقت میری بات کی گواہی دے گا۔۔۔ اور تب توں کہہ گی کہ ردا اپی سچ کہتی تھیں۔۔۔ ہائے توبہ میں تو تمہیں یہاں باتوں میں ہی الجھا گئی۔۔۔ بچوں کو امی کے پاس چھوڑ کر آئی تھی۔۔۔ امی تو میری جان ہی نہیں چھوڑیں گی اب۔۔۔ بہت دیر ہو رہی ہے اب میں چلتی ہوں۔۔۔
ردا چار پائی سے اٹھی اور گیٹ کی طرف جانے لگی۔۔۔ نجیبہ بھی گیٹ بند کرنے کے لیے اس کے پیچھے چلی گئی۔۔۔ موقع اچھا تھا۔۔۔ میں کچن سے باہر نکلا اور اپنے کمرے میں آ گیا۔۔۔ اور بستر پر لیٹ گیا۔۔۔ اب کچھ کچھ میرے سمجھ میں آ رہا تھا کہ، نجیبہ کے رویے میں جو بدلاو آیا ہے۔۔۔ وہ کیوں آیا ہے۔۔۔ تو کیا نجیبہ میرے ساتھ وہ سب نہیں نہیں۔۔۔ نجیبہ میرے بارے میں ایسا کیوں سوچے گی۔۔۔ "پھر سب سوچتے ہوئے میری آنکھ لگ گئیں۔
شام کے 5:30 بج چکے تھے۔۔۔ تب میری نیند کھلی۔۔۔ میرے کمرے میں روشنی کم تھی۔۔۔ باہر سے ہلکی روشنی کمرے میں آ رہی تھی۔۔۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو، نجیبہ مجھے پکار رہی تھی۔۔۔ "ہاں بولو کیا بات ہے۔۔۔" میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ جو کہ مجھے ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔ "میں چائے بنانے جا رہی تھی۔۔۔ آپ کے لیے بھی بنا دوں۔۔۔" نجیبہ سر جھکائے کھڑی تھی۔۔۔ "ہاں بنا ہی لو۔۔۔" نجیبہ میری بات سن کر باہر جانے لگی تو، میں نے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھا۔۔۔ مجھے وقت صحیح سے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔ شاید ابھی ابھی سو کر اٹھنے کی وجہ سے۔۔۔ "نجیبہ۔۔۔"
نجیبہ: جی۔۔۔
میں: وقت کیا ہوا۔۔۔؟
نجیبہ: جی 5:30 ہوئے ہیں۔۔۔
میں: اوکے۔۔۔
نجیبہ باہر چلی گئی۔۔۔ پتہ نہیں کیوں پر میرا من اٹھنے کا بالکل بھی نہیں کر رہا تھا۔۔۔ میں ویسے ہی بستر پر لیٹا رہا۔۔۔ 10 منٹ بعد نجیبہ چائے کا کپ لے کر اندر آئی۔۔۔ اس نے میز پر کپ رکھا۔۔۔ "پھر سو گئے کیا۔۔۔۔۔؟" نجیبہ نے دھیرے سے کہا۔۔۔ "نہیں جاگ رہا ہوں۔۔۔"
نجیبہ: آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔۔؟
میں: ہمم ایسے ہی سر میں ہلکا سا درد ہے۔۔۔
نجیبہ: ٹیبلٹ لے لیں چائے کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ میں ابھی ٹیبلٹ لے کر آتی ہوں۔۔۔