آخری قسط
دوسرے ہی دن میں نے ایک سراف کے یہاں سے ایک مریخ فارمولا لے آیا. سب سے چھپا کر رکھا اور ساتھ ہی ایک اچھی ریشم کی ساڑی بھی لے آیا. موقع دیکھ کر ایک دن ہم پاس کے دوسرے شہر میں شاپنگ کا بہانہ بنا کر گئے. ماں نے وہی نئی ساڑی پہنی تھی.
وہاں ایک چھوٹے مندر میں جا کر میں نے پادری سے کہا کہ ہماری شادی کر دے. پجاری کو کچھ غیر نہیں لگا کیونکہ اماں اتنی خوبصورت اور جوان لگ رہی تھی کہ کسی کو یہ یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ میری ماں ہے. ماں شرما کر میرے سامنے کھڑی تھی جب میں نے ہار اس کے گلے میں ڈالا. فر میںنے اپنے نام کا مریخ فارمولا اسے پہنا دیا. ایک اچھے ہوٹل میں کھانا کھا کر ہم گھر آ گئے.رات کو سب سو جانے کے بعد اماں وہی ساڑی پہنے میرے کمرے میں آئی. آج وہ دلہن جیسی شرما رہی تھی. مجھے لپٹ کر بولی. "خوبصورت، آج یہ میرے لیے بڑی سہانی رات ہے، ایسا محبت کر بیٹے کہ مجھے ہمیشہ یاد رہے. آخر آج سے میں تیری بیوی بھی ہوں."
میں نے اس کے طور پر آنکھیں بھر کر دیکھتے ہوئے کہا. "اماں، آج سے میں تمہیں تمہارے نام سے بلانا چاہتا ہوں، کملا. اکیلے میں میں یہی کہوں گا. سب کے سامنے ماں کہوں گا." ماں نے شرم سے سرخ ہوئے اپنے مكھڑے کو ڈلاكر منظوری دے دی.
فر میں ماں کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا. "کملا رانی، آج میں تمہیں اتنا بھوگوگا کہ جیسا ایک شوہر کو سہاگرات میں کرنا چاہیے. آج میں تمہیں اپنے بچے کی ماں بنا کر رہوں گا. تو فکر مت کر، اگلے ماہ تک ہم دوسری جگہ چلے جائیں گے."
امم نے اپنا سر میرے سینے میں چھپاتے ہوئے کہا. "اوہ خوبصورت، ہر بیوی کی یہی چاہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے شوہر سے حاملہ ہو. آج میرا ٹھیک درمیان کا دن ہے. میری کوکھ تیار ہے تیرے بیج کے لیے میرے بادشاہ."
اس رات میں نے اماں کو من بھر کر بھوگا. اس کے کپڑے آہستہ آہستہ نکالے اور اس کے پل پل ہوتے ننگے جسم کو من بھر کر دیکھا اور محبت کیا. پہلے گھنٹے بھر اس کے چوت کے رس کا پان کیا اور فر اس پر چڑھ بیٹھا.
اس رات ماں کو میں نے چار بار چودا. ایک لمحہ بھی اپنا لںڈ اسکی چوت سے باہر نہیں نکالا. سونے میں ہمیں صبح کے تین بج گئے. اتنا ویرے میں نے اس کے پیٹ میں چھوڑا کہ اس کا حاملہ ہونا طے تھا.اس کے بعد میں اسی تاک میں رہتا کہ کب گھر میں کوئی نہ ہو اور میں اماں پر چڑھ جاؤں. ماں بھی ہمیشہ جماع کی شوقین رہتی تھی. پہل ہمیشہ وہی کرتی تھی. وہ اتنی اتیجیت رہتی تھی کہ جب بھی میں اس کا پیٹیکوٹ اتارتا، اس کی چوت کو گیلا پاتا. جب اس نے ایک دن چدتے ہوئے مجھے تھوڑی لجا کر یہ بتایا کہ صرف میری یاد سے ہی اس کی اندام نہانی میں سے پانی ٹپکنے لگتا تھا، مجھے اپنی جوانی پر بڑا فخر محسوس ہوا.
کبھی کبھی ہم ایسے گرما جاتے کہ احتیاط بھی طاق پر رکھ دیتے. ایک دن جب سب نیچے بیٹھ کر گپپے مار رہے تھے، میں نے دیکھا کہ اماں اوپر والے باتھ روم میں گئی. میں بھی چپ چاپ پیچھے ہو لیا اور دروازہ کھول کر اندر چلا گیا. ماں سٹكني لگانا بھول گئی تھی. میں جب اندر گیا تو وہ برتن پر بیٹھ کر موت رہی تھی. مجھے دیکھ کر اس کی کالی آنکھیں حیرت سے فیل گئیں.
اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی میں نے اسے اٹھایا، گھما کر اسے جھکنے کو کہا اور ساڑی و پیٹیکوٹ اوپر کرکے پیچھے سے اسکی چوت میں لںڈ ڈال دیا. "بیٹے کوئی آ جائے گا" وہ کہتی رہ گئی پر میں نے اس کی ایک نہ سنی اور ویسے ہی پیچھے سے اسے چودنے لگا. پانچ منٹ میں میں ہی جھڑ گیا پر وہ اتنے میٹھے پانچ منٹ تھے کہ گھنٹے بھر کے جماع کے برابر تھے. میرے طاقتور دھکوں سے اس کا جھکا جسم ہل جاتا اور اس کا لٹکتا مگلسوتر پینڈلم جیسا ہلنے لگتا. جھڑ کر میں نے اس کے پیٹیکوٹ ہی ویرے ساف کیا اور ہم باہر آ گئے. ماں پیٹیکوٹ تبدیل کرنا چاہتا تھا پر میں نے انکار کر دیا. دن بھر مجھے اس خیال سے بہت اشتعال ہوئی کہ ماں کے پیٹیکوٹ پر میرا ویرے لگا ہے اور اس کی چوت سے بھی میرا ویرے ٹپک رہا ہے.ہمارا جماع اسی طرح چلتا رہا. ایک بار دو دن تک ہمیں میتھن کا موقع نہیں ملا تو اس رات ہوس سے پریشان ہو کر آخر میں ماں اور باپو کے کمرے میں دھیرے سے گیا. باپو نشے میں دھت سو رہے تھے اور ماں بھی وہیں بازو میں سو رہی تھی.
سوتے وقت اس کی ساڑی اس وكشستھل سے ہٹ گئی تھی اور اس کے اعلی درجے اروجوں کا پورا ابھار دکھ رہا تھا. سانس کے ساتھ وہ اوپر نیچے ہو رہے تھے. میں تو گویا محبت اور چاہت سے پاگل ہو گیا. ماں کو نیند میں سے اٹھایا اور جب وہ گھبرا کر اٹھی تو اسے خاموش رہنے کا اشارہ کر کے اپنے کمرے میں آنے کو کہہ کر میں واپس آ گیا.
دو منت بعد ہی وہ میرے کمرے میں تھی. میں نے اس کے کپڑے اتارنے لگا اور وہ بیچاری تنگ ہو کر مجھے ڈاٹنے لگی. "خوبصورت، میں جانتی ہوں کہ میں تمہاری بیوی ہوں اور جب بھی تم کال، آنا میرا فرض ہے، پر ایسی خطرے مت اٹھا بیٹے، کسی نے دیکھ لیا تو گڑبڑ ہو جائے گا."
میں نے اپنے منہ سے اس کا منہ بند کر دیا اور ساڑی اتارنا چھوڑ صرف اسے اوپر کر کے اس کے سامنے بیٹھ کر اسکی چوت چوسنے لگا. لمحہ بھر میں اس کا غصہ اتر گیا اور وہ میرے سر کو اپنی رانوں میں جکڑ کر كراهتے ہوئے اپنی یون میں پیوست ہوئی میری جیب سے لطف اٹھانے لگی. اس کے بعد میں نے اسے بستر پر لٹا کر اسے چود ڈالا.
من بھر کر چدنے کے بعد ماں جب اپنے کمرے میں واپس جا رہی تھی تو بہت خوش تھی. مجھے بولی. "خوبصورت، جب بھی تو چاہے، ایسے ہی بلا لیا کر، میں آ جاؤں گی."
اگلی رات کو تو ماں کھلے عام اپنا تکیہ لے کر میرے کمرے میں آ گئی. میں نے پوچھا تو ہنستے ہوئے اس نے بتایا "سندر، تیرے باپو کو میں نے آج بتا دیا کہ ان کی شراب کی بدبو کی وجہ سے مجھے نیند نہیں آتی اس لئے آج سے میں تمہارے کمرے میں سویا کروں گی. انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے. اس لئے میرے بادشاہ، میرے سرخ، آج سے میں کھلے عام تیرے پاس سو سکتی ہوں. "
میں نے اسے بھینچ کر اسپر چبنو کی برسات کرتے اے کہا. "سچ اماں؟ آج سے تو فر ہم بالکل شوہر بیوی جیسے ایک ساتھ سو سکیں گے." اس رات کے میتھن میں کچھ اور ہی مدھرتا تھی کیونکہ ماں کو اٹھ کر واپس جانے کی ضرورت نہیں تھی اور دماغ بھر کر آپس میں جھیلنے کے بعد ہم ایک دوسرے کی باںہوں میں ہی سو گئے. اب صبح اٹھ کر میں ماں کو چود لیتا تھا اور پھر ہی وہ اٹھ کر نیچے جاتی تھی.
کچھ ہی دن بعد ایک رات جماع کے بعد جب ماں میری باںہوں میں لپٹی پڑی تھی تب اس نے شرماتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ حاملہ ہے. میں خوشی سے اچھل پڑا. آج ماں کا روپ کچھ اور ہی تھا. شرم سے گلابی ہوئے چہرے پر ایک نكھار سا آ گیا تھا.
مجھے خوشی کے ساتھ کچھ فکر ہی ہوئی. دور کہیں جا کر گھر بسانا اب ضروری تھا. ساتھ ہی باپو اور بھائی بہن کے عمل کا بھی انتظام کرنا تھا.شاید کامدیو کی ہی مجھ مہربانی ہو گی. ایک یہ کہ اچانک باپو ایک کیس جیت گئے جو تیس سال سے چل رہا تھا. اتنی بڑی پراپرٹي آخر ہمارے نام ہو گئی. آدھی بیچ کر میں نے بینک میں رکھ دی کہ صرف سود ہی گھر آرام سے چلتا. ساتھ ہی گھر کی دیکھ بھال کو ایک بیوہ پھوپھی کو بلا لیا. اس طرف سے اب میں مطمئن تھا.
دوسرے یہ کہ مجھے اچانک آسام میں دور پر ایک کام ملی. میں نے جھٹ سے اپنا اور ماں کا ٹکٹ نکالا اور جانے کی تاریخ طے کر لی. ماں نے بھی سب کو بتا دیا کہ وہ نہیں سہ سکتی کہ اس کا بڑا بیٹا اتنی دور جا کر اکیلا رہے. یہاں تو پھوپھی تھی کہیں سب کی دیکھ بھال کرنے کے لیے. اس سب کے درمیان ماں کا روپ دن بہ دن نكھر رہا تھا. خاص کر اس روح سے اس کے پیٹ میں اسی کے بیٹے کا بیج پل رہا ہے، ماں بہت بھاو وبھور تھی
ختم شد
