طلاق یافتہ لڑکی
قسط نمبر 2
میں نے جھٹکے سے جیسے ہی سر اٹھایا دیکھا تو کنڈیکٹر اسی جوان جوڑے کے پاس کھڑا تھا اوئے یہ میری بیوی ہے تم ہمیں تماشا بنا رہے ہو جوان آدمی نے غصے سے کہا اور اس کو گالی دیکر اس کے ساتھ ہاتھا پائی پر اتر آیا لوگوں نے اٹھ کر بیچ بچاو کرایا اور ان کے درمیان صلح صفائی کرائی اور معاملہ رفع دفع کردیا ہم دونوں ایک دوسرے میں اتنے مگن تھے کہ ہمیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب بس رکی کیونکہ دوتین سواریاں اتر رہی تھیں باجی بھی یکدم سے اٹھ کر سیدھی بیٹھ گئی تھی سٹاپ دیکھ کر پتہ چلا کہ ہماری منزل قریب آگئی تھی خیر تھوڑے سے سفر کے بعد ہم اپنے منزل پر خیریت سے پہنچ گئے راستے میں میں نے باجی کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کی لیکن باجی ہوں ہاں کر کے خاموش ہوجاتی شائد شرما رہی تھی گھر پہنچ کر گھنٹی بجائی تھوڑی دیر کے بعد فیصل لالا کی آواز آئی کون میں نے کہا لالاجی دروازہ کھولیں لالا کے ساتھ دعاسلام کر کے ہم دونوں اندر آگئے اور سیدھے امی کے کمرے میں گئے امی ہمارے انتظار میں جاگ رہی تھی میں نے آگے بڑھ کر لائیٹ جلائی ہمیں دیکھ کر امی بیڈ سے نیچے اتر آئی باجی آگے بڑھ کر امی کے سینے سے لگ گئی بیٹا خیریت سے پہنچ گئے ہو امی نے باجی کا ماتھا چوم کر بھرائے ہوئے لہجے میں پوچھا ہاں امی باجی نے رندھے لہجے میں کہا میں نے دیکھا باجی کے آنکھوں میں آنسو تھے نہ میری بچی مت رو میں اب ان لوگوں کو دیکھ لوں گی آخر ان لوگوں نے ہمیں سمجھ کیا رکھا ہے امی نے باجی کے آنکھوں میں آنسو دیکھ کر غصے سے کہا یہ جو تیرا بھائی ہے نا اس کو تو میں نے اب تک روکا ہوا تھا نہیں تو یہ ان کو اب تک سیدھا کر چکا ہوتا امی نے میری طرف اشارہ کر کے کہا امی وہ سیدھا ہونے والا آدمی نہیں ہے اس لیے میں باجی کو ہمیشہ کےلیے لے آیا ہوں کیونکہ باجی کا مزید وہاں رہنا ناممکن ہوچکا ہے باجی اب دوبارہ وہاں کبھی نہیں جائے گی میں نے کہا لیکن بیٹا اس کا کوئی حل تو نکالنا پڑے گانا امی نے کہا میں نے کہا اس کا اور کوئی حل نہیں سوائے اس کے کہ باجی کو اس کمینے سے چھڑا لیں امی کیا آپ مجھے دوبارہ اس جہنم میں جھونکنا چاہتی ہیں بھائی ٹھیک کہہ رہا ہے میں اب مزید وہاں نہیں رہ سکتی باجی نے کہا ہماری باتوں کی وجہ سے مائرہ بھی جاگ گئی اور اٹھ کے باجی کے گلے لگ گئی اور باجی سے گلےشکوے کرنے لگی اس دوران لالا بھی اندر آکے صوفے پر بیٹھ گئے امی باجی تھکی ہوئی ہیں باقی باتیں صبح کریں گے اب آپ لوگ سوجائیں کہہ کر میں جانے لگا تو امی نے کہا بیٹا کھانا تو کھا لو اور مائرہ سے کھانا گرم کرنے کو کہا نہیں امی ہم نے آنٹی کے گھر کھانا کھالیا تھا باجی نے کہا آنٹی؟ امی نے سوالیا لہجے میں پوچھا وہی آنٹی جس کا ذکر میں فون پر اکثر کرتی رہتی تھی باجی نے جواب دیا میں وہاں سے نکل کر اپنے کمرے میں آگیا بیڈ پر لیٹ کر آج کے واقعات پر سوچنے لگا میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ باجی کے ساتھ میرا اس طرح کا تعلق بن جائے گا زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی نے میرا لن پکڑا تھا اپنے لن پر باجی کے ہاتھ کا لمس محسوس کر کے لن انگڑائی لے کے اٹھنے لگا میں نے سر جھٹک کر سوچ کارخ دوسری طرف کر نے کی کوشش کی تو ذہن کے پردے پر فائزہ کی شبیہ ابھر آئی اور اس کے ساتھ گزرے لمحات کی فلم سی چلنے لگی جس سے میرا لن اور سخت ہوگیا بڑی مشکل سے میں نے خود کو مٹھ مارنے سے باز رکھا کیونکہ مٹھ لگانے کے لیے مجھے گھنٹہ بھر کی مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے اور مزہ بھی کچھ خاص نہیں آتا کیونکہ میں جلدی فارغ نہیں ہوتا البتہ کوئی اور مٹھ لگا کر فارغ کردے تو وہ الگ بات ہے میں نے بلوغت سے لے کر اب تک تین بار مٹھ ماری ہے جب میں نے دوستوں کے بلیو فلمیں دیکھیں اس وقت سے میں مرد عورت کے تعلق کو اچھی طرح جان گیا ہوں کنواری لڑکی کی چودائی کی مووی بھی دیکھی جس سے مجھے پتہ لگ گیا کہ کنوارہ پن کیسا ہوتا ہے کنواری لڑکی کی چوت کےلب جب کھولیں تو تھوڑا سا اندر انگلی کے موٹائی کے برابر سوراخ ہوتا اسی کو پردہ بکارت کہتے ہیں بات کہیں سے کہیں نکل گئی تو میں نے اپنا دھیان باجی کے موجودہ مسئلے کی طرف مبذول کیا کہ کس طرح ابو کے ساتھ بات کرنی ہے اس طرح سوچتے سوچتے نجانے کب نیند کی گہری وادی میں اترتا چلا گیا اچانک کسی نے مجھے جھنجوڑا اٹھیے بھائی جان میں کب سے آوزیں دے رہی ہوں مائرہ کی آواز میرے کانوں میں پڑی مائرہ جانی سونے بھی دو نا ابھی تو میری آنکھ لگی ہے میں نے بڑبڑاتے ہوئے لہجے میں کہا جناب دس بج چکے ہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ ابھی آنکھ لگی ہے مائرہ نے کہا میں نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں دیکھا تو مائرہ میرے بیڈ کے نزدیک کھڑی تھی میری نظر سیدھی اس کے سینے پر پڑی ٹینس کے بال کی طرح اس کے ممے تنےہوئے تھے اس وقت وہ بغیر دوپٹے کے تھی مائرہ جانی میرے آنے تک تم کتنی بڑی ہو گئی ہو میں نے اس کے مموں کی طرف دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا اس نے میری نظروں کی تپش اپنے مموں پر محسوس کی تب ہی وہ شرماتے ہوئے بولی بھائی جان تم بھی نا اور مڑ کر بھاگنے کے انداز میں جانے لگی اف کیا نظارہ تھا اس کی گانڈ کی پہاڑیاں اچھل رہی تھیں دروازے پر پہنچ کر مڑی اور بولی جلدی سے فریش ہوجاو ابو کا فون آرہا ہے اور مسکراتی ہوئی چلی گئی میں نے شرمندگی محسوس کی کہ مائرہ کیا سوچ رہی ہوگی میرے بارے میں میں نہا دھو کر فریش ہو کے باہر نکل آیا برآمدے میں ایک چارپائی پر امی بیٹھی ہاتھ سے کچھ کپڑا سلائی کر نے میں مصروف تھی دوسری چارپائی پر مائرہ بیٹھی امی کے ساتھ کچھ بات کررہی تھی میں جاکے تیسری چارپائی پر بیٹھ گیا سامنے کچن میں بھابھی اور سائرہ کام کرہی تھیں اور ساتھ میں باتیں بھی کیے جارہی تھیں چارپائیاں یو شکل میں رکھی ہوئی تھیں اور ایک بڑی میز درمیان میں رکھی تھی اب کی بار مائرہ نے دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا آو بیٹا نیند پوری ہو گئی امی نے پوچھا ہاں امی کافی آرام کرلیا ہے اتنے میں بھابھی کچن سے ناشتہ ٹرے میں رکھ کر لے آئی بھابھی نے مجھے سلام کیا اور خیر خیریت پوچھی بیٹا ناشتہ کرلو تمھارے ابو کا فون آنے والا ہے امی نے کہا میں نے کہا آپ کے ساتھ بات ہوئی ابو کی تو امی نے ہاں میں سر ہلادیا اور کہا کہ سائرہ کے ساتھ بھی بات کرچکے ہیں اور ساری صورت حال کے بارے میں پوچھ تاچھ کرچکے ہیں میں نے امی سے پوچھا باجی نے ابو کو کچھ بتایا ہے امی نے کہا ہاں لیکن اس نے کہا کہ بھائی مجھے وہاں سے لے آئے ہیں اب وہ تم سے بات کریں گے میں نے ناشتہ کیا یہ مائرہ آج سکول نہیں گئی میں نے امی سے پوچھا تو امی نے کہا آج اس نے اپنی باجی کے آنے کی خوشی میں چھٹی کی ہے کہ اتنے میں موبائل بجنے لگا میں نے موبائل اٹھا کے اوکے کیا سلام دعا کے بعد میں ابو کے ساتھ بات کرنے لگا میں نے ابوکو سب صورت حال بتادی اور کہا کہ ابو باجی کا ان کے ساتھ مزید گزارا ناممکن ہے اور ان حالات میں باجی کو وہاں دوبارہ بھیجنا باجی کے ساتھ ظلم ہوگا میرے خیال میں باجی کو اس حرامزادے سے چھڑا لینا ہی باجی کے ساتھ نیکی ہوگی کیونکہ مجھے آنٹی نے باجی کے حالات تفصیل سے بتادیے تھے کہ اگر ہم نے باجی کو دوبارہ زبردستی بھیجنے کی کوشش کی تو ہمیں پھر پچھتانے کا موقع بھی نہیں ملے گا باجی اس وقت ذہنی مریض بن گئی ہیں اور بھی بہت سے دلائل دیے تب ابو نے کہا ٹھیک ہے تم نے درست فیصلہ کیا کہ اس کو وہاں سے لے آئے اب باقی معاملات کو سنبھال لو ذرا اپنی امی کو فون دینا میں نے امی کو موبائل دیا اس دوران باجی آکر میرے ساتھ چارپائی بیٹھ گئی تھی میں نے دیکھا باجی کی آنکھیں میری باتیں سن کے بھر آئیں تھیں میں نے اس کے گال پر ہاتھ رکھ کے اپنے کاندھے پر اس کا سر ٹکا دیا اور سرگوشی میں کہا فکر مت کر میں آپ کی ڈھال ہوں اور باجی نے ہولے سے سر ہلادیا مائرہ اور بھابھی ہمیں دیکھ کر مسکرائیں اس دوران امی نے ٹھیک ہے لوگ تو باتیں کریں گے اب کسی کے منہ پر ہاتھ تو نہہں رکھ سکتے کہہ کر فون بند کردیا امی کا چہرہ بجھ گیا تھا میں نے امی کو تسلی دی کہ کرنےدو لوگوں کو باتیں ان کا تو کام ہی باتیں بنانا ہے ہم نے خود اپنا اچھا برا سوچنا ہے نہ کہ لوگوں نے قسمت میں ہوا تو اس سے اچھی جگہ ملے گی میری جان سے پیاری باجی کو میں نے باجی کے گال پر تھپکی دی امی نے کہا ہاں بیٹا تم نے صحیح کہا پھر میں نے سب کے سامنے باجی کو ماتھے پر بوسا دیا تاکہ وہ سمجھیں کہ بہن بھائی کا پیار ہے میں نے بھابھی سے کہا منا کدھر ہے اس نے کہا ابھی اس کو سلایا ہے میں اٹھ کے اپنے کمرے میں آگیا اور بیڈ پر لیٹ گیا تھوڑی دیر بعد امی کی آواز آئی مائرہ سے کہہ رہی تھی بیٹا میں سائرہ کے ساتھ تمھاری خالہ کے گھر جارہی ہوں ان کی طبیعت پچھلے دنوں خراب تھی سائرہ سے مل کے خوش ہوجائیں گی نہیں امی آپ مائرہ کے ساتھ چلی جائیں میں پھر کبھی جاکر مل آوں گی ابھی وہ میرے حالات پوچھنے بیٹھ جائے گی امی نے کہا ٹھیک ہے تم آرام کرلو میں جلدی واپس آجاوں گی تھوڑی دیر بعد باجی میرے کمرے آئی میں اسے دیکھ کے اٹھ کے بیٹھ گیا وہ آکر میرے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئی اور میری طرف دیکھ کر مسکرائی اور مسکرا کر کہنے لگی آئی لو یو تم نے آج مجھے جیت لیا ہےاور میرے گلے میں بانہیں ڈال کر مجھے ہونٹوں پر کس کرنے لگی میں نے بھی اس کو مظبوطی سے پکڑا اور اس کے ہونٹ چوسنے لگا وہ بڑی شدت سے مجھے کس کرہی تھی کس کرتے کرتے میں بیڈ سے اتر کر کھڑا ہوگیا اور اس کو بھی اٹھا کے کھڑا کیا اب میں نے دونوں ہاتھ اس کے کمر میں ڈال کر اپنی طرف جھٹکا دےکے بھینچ لیا جس سے میرا لن اس کے چوت سے ٹکرایا اور اس کے ممے میرے سینے میں چھبنے لگے اس کو اور مستی چڑھ گئی اور چوت سے میرے لن پر گھسے مارنے لگی میں تو مزے سے پاگل ہونے لگا میں نے اس کو بیڈ پر گرایا اور میں اس کے اوپر لیٹنے لگا کہ اس نے مجھے دھکا دیکر دوسری طرف گرایا اور سرگوشی میں مسکرا کر بولی تھوڑا صبر سے کام لو میری جان ابھی بھابھی باہر کام کررہی ہے ایسا نہ ہو کہ سب کچھ چوپٹ ہوجائے اور اٹھ کے کھڑی ہوگئی میں نے بھی ہلکی آواز میں کہا مجھ سے صبر نہیں ہورہا میری حالت دیکھ کر ہنس پڑی پھر معنی خیز انداز میں سرگوشی کی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے مجھے دیکھو میں ڈیڑھ سال سے صبر کررہی تھی مجھے اندازے سے زیادہ میٹھا پھل مل گیا اب تم بھی صبر کرو تمھیں بھی زیادہ میٹھا پھل ملے گا اور مجھے حیران چھوڑ کر باہر نکل گئی میں اس کی معنی خیز بات پر غور کرنے لگا لیکن کچھ سمجھ نہ آیا واقعی باجی کی بات صحیح تھی کیونکہ باجی جیسے ہی باہر نکلی بھابھی کی آواز آئی میں تمہاری طرف آرہی تھی پھر وہ دونوں باتیں کرنے لگیں اور امی بھی جلدی واپس آگئیں میں دل ہی دل میں باجی کی حاضر دماغی کی داد دینے لگا کیونکہ باجی کے ساتھ ٹچ ہوتے ہی میرے دماغ کا فیوز تو اڑ گیا تھا میں باہر دوستوں سے ملنے چلا گیا دوپہر کو واپس گھر آگیا کھانا کھا کے لیٹ گیا عصر کے وقت مائرہ نے آکر جگایا میں نے دیکھا کہ مائرہ نے جان بوجھ کر دوپٹہ سینے ڈھلکا دیا جیسے جھکتے وقت دوپٹہ کھل جاتاہے کیونکہ وہ تھوڑا سا جھک گئی تھی اور سینے کے ابھار پورے آب وتاب کے جلوہ افروز تھے اٹھیے نا بھائی جان وہ بڑے لاڈ سے بولی باہر چائے پر تمھارا سب انتظار کررہے ہیں اور مجھ پر اپنے بدن کی بجلی گرا کر مٹک مٹک کر باہر چلی گئی نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظر اس کے گانڈ پر گئی اور مجھے مدہوش کرگئی جاتے جاتے اس نے مڑ کر دیکھا میں نے گھبرا کر نظریں اس کی گانڈ سے ہٹائیں وہ مسکرا چلی گئی کسی نے سچ کہا ہے لڑکی کو پٹانے کےلیے ذرا سی تعریف کی ضرورت ہوتی ہے اور تھوڑی سی توجہ کی بس لڑکی فورا" پٹ جاتی ہے میں نے مائرہ کی تعریف تو نہیں کی تھی البتہ تھوڑی سی توجہ دی وہ پٹنے کو تیار ہوگئی میرے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بج گئی باجی تو پھر بھی میچور تھی خود کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ مجھےبھی سنبھال سکتی تھی لیکن مائرہ اس کے آگےمیرے ذہن نے سوچنا چھوڑ دیا میرا مائرہ کے ساتھ ایسا ویسا کرنے کا قطعا" کوئی خیال نہیں تھا لیکن یہ نظریں اس کی ایسی حرکت پر اس کا طواف کرنےلگتیں میں نے اس کو سرزنش کرنے کا فیصلہ کرلیا میں جلدی سے اٹھ کے واش روم میں ہاتھ منہ دھو کر باہر آیا برآمدے میں سب بیٹھے تھے خلاف توقع لالا بھی آج ڈیوٹی سے جلدی گھر آگئے تھے بیٹھ کے چائے پی اس کے بعد سب ادھر ادھر ہوگئے امی اپنے کمرے میں چلی گئی صرف باجی میرے ساتھ بیٹھی رہ گئی کیونکہ اس کی گود میں منا بیٹھا تھا میں باجی کے ساتھ ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ہوگیا میں نے منے کو باجی کی گود سے اٹھایا اٹھاتے ہوئے میں نے اس کے ممے پر چٹکی بھری وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی میں منے کو پیار کرنے لگا تب باجی نے دھیمی آواز میں کہا کوئی پلان بنا کہ نہیں کہ کیسے موقع نکالنا ہے میں نے کہا ہاں بنایا ہے آج شام سے اس پر عملدرآمد شروع کروں گا وہ کیا باجی نے دلچسپی سے پوچھا میں نے کہا یہ سرپرائز میں آج شام دوں گا باجی مسکرانے لگی اور کہنے لگی میں بھی تمہیں سرپرائز دوں گی جب ہم دونوں کو اطمینان سے ملنے کا موقع ملے گا اچھا میں نے بھی مسکرا کر کہا اور اس سے موبائل مانگا اور کہا کہ آنٹی سے بات کر کے آپ کا معاملہ سلجھادوں باجی نے کہا اس میں بیلنس نہیں ہے میں نے کہا کوئی بات نہیں میں ڈلوا دوں گا اور موبائل لے کے باہر آیا دکان سے کارڈ لوڈ کیا آنٹی کا نمبر ملایا رابطہ قائم ہوتے ہی میری عزیز از جان فائزہ کی آواز کانوں میں پڑی تھوڑی دیر گلےشکوے کرنے کے بعد میں نے کہا میری جان ذرا آنٹی سے بات کرانا آنٹی کو میں نے سب صورتحال بتادی کہ میں نےامی ابو کو قائل کرلیا کہ باجی کو چھڑا لینا ہی بہتر ہوگا آنٹی خوش ہوگئی کہنے لگی یہ تو نہیں بتایا کہ اس کو طلاق مل چکی ہے میں نے کہا نہیں اس طرح بتانے سے امی ابو شاک ملتا پہلے میں نے ان کو مینٹلی اس بات کے لیے تیار کیا تو آنٹی نے مجھے شاباش دی پھر میں نے آنٹی سے کہا کہ ان سے تحریری طلاق نامہ لینے کے لیے میں کل آرہا ہوں لیکن آنٹی نے مجھے منع کردیا کہ تمھارے آنے کی ضرورت نہیں میں اپنے بھائی سے کہوں گی وہ لے آئے گا میں نے آنٹی کا شکریہ ادا کیا تو آنٹی نے پیار بھرے لہجے ڈانٹا کہ شکریے کی کوئی ضرورت نہیں اور سائرہ سے بات کرانے کے لیے کہا میں اس دوران چلتےچلتے گھر پہنچ گیا میں نے باجی کو آواز دی وہ امی کے کمرے سے باہر آئی آنٹی کا فون ہے میں نے اس کو موبائل پکڑایا اور گھر سے نکل بازار چلا گیا اور وہاں لڈو گیم کے بڑے سائز کا کارڈ خرید کر گھر آگیا اور سب سے چھپا کر اپنے کمرے میں آگیا جو کہ کسی زمانے میں ہم سب بہن بھائیوں کا تھا جب ابو چھٹی پر گھر آتے تو امی ابو کے ساتھ ساتھ والے کمرے میں شفٹ ہوجاتی پھر ابو نے ساتھ میں دوسرا پورشن بنوایا تو لالا کی شادی اسی میں ہوئی پھر جب باجی کی شادی ہوئی تو میں اور مائرہ کمرے میں اکیلے رہ گئے لیکن جیسے ہی ابو چھٹی ختم ہونے پر واپس سعودیہ لوٹ گئے امی مائرہ کو اپنے ساتھ سلانے لگی اور اب باجی کی پہلی رات امی کے کمرے میں گزری اس لیے باجی کو اپنے کمرے میں لےآنے کے لیے میرے ذہن میں یہ آئیدیا آیا رات کا کھانا ہم سب نے امی کے کمرے میں کھایا کھانے کے بعد لالا تو اٹھ کے اپنے کمرے میں چلا گیا میں نے باجی کی طرف دیکھا اور آنکھ مار کے بلند آواز سے کہا آپ سب لوگوں کے لیے میں ایک سرپرائز لے کے آیا ہوں جو کہ میرے کمرے میں ہے جس نے دیکھنا ہے وہ آجائے امی سن کے مسکرائی اور کہنے لگی میں بھی دیکھوں میں نے کہا نہیں وہ آپ کے کام کی چیز نہیں ہے بھابھی سمیت سب میرے ساتھ اٹھ کے کمرے میں آگئے میرے کمرے میں بلکہ سب کمروں میں کارپٹ بچھا ہوا ہے میں نے ذرا ان کا تجسس بڑھانے کے لیے کہا بوجھو تو جانے تو بھابھی بےاختیار کہنے لگی توبہ اب بتا بھی دو میں نے جھٹ سے اپنے بیڈ کے میٹریس کے نیچے سے لڈو کھینچ کر باہر نکالی سب کے منہ سے نکلا واو اور مائرہ کہنے لگی واہ بڑا عرصہ ہوگیا ہے لڈو کھیلے ہوئے بھابھی نے برا سا منہ بنا کے کہا یہ سرپرائز ہے اس کو تو ہم بچپن سے کھیلتے آئے ہیں لیکن باجی نے مٹھی بند کرکے انگوٹھا اوپر کرکے اور ہاتھ کو جھٹکا دے کے خوشی سے کہا ویلڈن بھائی یہ واقعی سرپرائز ہے اور میری طرف دیکھ کے معنی خیز انداز مسکرادی وہ میرا پلان سمجھ گئی خیر ہم لڈو کھیلنے بیٹھ گئے مائرہ نے بھابھی کو جبکہ باجی نے مجھے اپنا ساتھی چن لیا امی بھی یہ دیکھمے کے لیے ہمارے کمرے میں آکر بیڈ پر بیٹھ گئی کہ یہ لوگ کیا کررہے ہیں پہلا راونڈ ہم نے جیت لیا دوسرا راونڈ بھابھی اور مائرہ نے جیتا کھیلنے کے دوران ہمارے درمیان خوب نوک جھونک چلتی رہی سب نے بہت انجوائے کیا تب امی نے اٹھتے ہوئے کہا چلو بچو رات کافی ہوگئی ہے سوجاو میں نے گھڑی دیکھی رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے مائرہ اور بھابھی تو نکل گئیں لیکن باجی بیٹھی رہی امی نے کہا چلو سائرہ بیٹی سونا نہیں ہے کیا امی آپ جائیں میں بھائی کے ساتھ ایک اور گیم کھیل کے آتی ہوں امی چلی گئی میں نے اٹھ کے دروازہ بند کیا اور آکے باجی کے سامنے بیٹھ گیا باجی نے آگے جھک کر مجھے ہونٹوں پر کس کیا اور خوشی سے مسکرا کر دھیمی آواز کہنے لگی آئی لو یو میں تمھارا پلان اچھی طرح سمجھ گئی ہوں۔
میں نے لڈو کو ایک طرف سرکایا اورکھسک کر باجی کےسامنے بیٹھ گیا اور اس کی رانوں پر ہاتھ پھیرنے لگا اور کہا کیسے تو باجی نے ہاتھ بڑھا کر میرا لن پکڑا اور سہلانے لگی اور مجھے ایک اور کس دے کر کہنے لگی کہ اس طرح میں روز گیم کے بہانے دیر تک بیٹھوں گی تو کسی کو شک نہیں ہوگا تو میں نےایک ہاتھ سے اس کے ممے دبانے لگا اس کے منہ ہلکی سی سسکاری نکل گئی پھر میں نے کہا میری جان میرا پلان تو اس سے بھی گہرا ہے باجی نے اپنی بڑی بڑی خوبصورت انکھیں پھیلائیں اور حیرت سے پوچھا کیسے میں نے اس دفعہ باجی کی چوت پر ہاتھ لگایا وہ تھوڑی کانپ سی گئی اور اس کے منہ سے آہ نکل گئی تب میں نے کہا کہ کافی دن اس طرح کرنے کے بعد جب امی کو پتہ چل جائے گا کہ ہم لوگ رات کو دیر تک لڈو کھیلتے رہتے ہیں تو کسی ایک رات کو تم یہیں سوجانا امی جب پوچھیں گی تو امی سے کہنا کہ رات دیر ہوگئی تھی تو میں یہیں سو گئی اسی طرح کچھ دن گزرنے کے بعد یہیں سونا شروع کردو اور پھر ہمارے پاس موقع ہی موقع ہوگا میں نے تفصیل سے پورا پلان باجی کو سمجھادیا باجی نے جزبات سے اختیار ہو کر بیٹھے بیٹھے مجھے گلے سے لگا لیا واہ کیا شانار پلان ہے میں دل و جان سے اس پر عمل کروں گی تھوڑی دیر اور ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنے کے بعد میں نے باجی سے کہا اب تم جاو امی تمھارے انتظار میں جاگ رہی ہونگی آہستہ آہستہ جب امی کا اعتماد بن جائے گا تو پھر موجاں کریں گے باجی نے اثبات میں سر ہلا دیا ہم دونوں کھڑے ہوگئے میں باجی کے ساتھ دروازے تک آیا باجی کے دروازہ کھولنے سے پہلے میں ایک بار پھر اس کے ساتھ لپٹ گیا باجی بھی شائد یہی چاہتی تھی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں سختی سے جکڑ لیا اور ایسے انداز میں کسنگ کرنے لگی جیسے پھر کبھی موقع نہیں ملے گا اس سے مجھے باجی کی سیکس سے محرومی کا احساس ہو گیا میں نے آہستگی سے باجی کو اپنے سے الگ کیا اور اس کے گال چوم کر کہا باجی مجھے آپ کی محرومی کا احساس ہو گیا ہے بس تھوڑا سا صبر کریں مجھے تو اس وقت کہہ رہی تھی کہ صبر کرو اب خود سے صبر نہیں ہورہا باجی نے کہا میں ڈیڑھ سال سے صبر کررہی ہوں لیکن اب ضبط کا بندھن ٹوٹتا جارہا ہے میں نے کہا اتنا صبر کرلیا ہے اب تو چند دن کی بات ہے میں تمھاری ڈیڑھ سال کی محرومی کا ازالہ کردوں گا بس اب جاو ایسا نہ ہو کہ امی آجائیں بابجی مجھے حسرت سے دیکھتی ہوئی چلی گئی مجھے باجی پر اس وقت بہت ترس آیا اور اس کی دیوانگی دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہے جو باجی اس قدر اندر سے شکستہ ہے میں بیڈ پر لیٹ کر باجی کے بارے میں سوچنے لگا اس وقت باجی کے لیے میرے دل میں میں ہمدردی کا ایک سمندر موجزن تھا میرا بس چلتا تو میں باجی کو لیکر ایسی جگہ جاتا جہاں ہم دونوں کے سوا اور کوئی نہ ہوتا اور میں باجی کو دن رات پیار دیتا کہ وہ اپنے گزرے سالوں کی محرومی کو بھول جاتی اسی طرح سوچتے ہوئے میری آنکھ لگ گئی چونکہ میں سحر خیز ہوں اسلیے صبح میں جلدی اٹھتا ہوں واش روم میں ہاتھ منہ دھو کے باہر نکل آیا موسم خاصا سرد تھا ابھی تک سورج نہیں نکلا تھا کچن میں بھابھی ناشتہ بنارہی تھی کیونکہ لالا کا ڈیوٹی پر جانے کا وقت ہوگیا تھا اس وقت صبح کےساڑھے چھ بج رہے تھے بھابھی نے مجھے آواز دی آجاو ناشتہ تیار ہے میں کچن میں گیا لالا کچن میں بچھے چٹائی پربیٹھے تھے ہم دونوں بھائیوں نے ناشتہ کیا جو کہ ہمارا روز کا معمول تھا تھوڑی دیر بعد بھابی نے مائرہ کو اٹھایا کہ اس کے سکول جانے کا ٹائم نزدیک تھا آج خلاف معمول مائرہ ایک دفعہ جگانے سے اٹھ گئی بھابھی دو تین دفعہ جگاتی تب وہ اٹھتی میں کچن میں تھا لالا اٹھ کے ڈیوٹی پر جانے کے لیے تیار ہونے اپنے کمرے میں چلا گیا تب مائرہ اندر آئی اس نے دوپٹہ نہیں کیا تھا میری نظر بےاختیار اس کے مموں پر جاٹکی اور باوجود کوشش کے میں ان سے نظر ہٹا نہیں پایا وہ میری طرف دیکھ کے مسکرائی میں خجل سا ہوگیا میں نے کہا مائرہ جانی اب سردی بڑھ رہی ہے چادر اوڑھا کرو نہیں تو بیمار ہوجاو گی کوئی بات نہیں بھائی میرا علاج بھی پھر تم نے ہی کرنا ہے کیوں بھابھی مائرہ نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر معنی خیز انداز میں مسکرا کر کہا اور جملے کے آخر میں بھابھی کی طرف چہرہ موڑا بھابھی نے مائرہ کو ڈانٹ پلائی بھائی ٹھیک کہہ رہا ہے چلو ناشتہ کرو وہ میرے سامنے چٹائی پر بیٹھ گئی وہ نوالہ بنانے کے لیے جھکی تو میری نظر خودبخود اس کے مموں پر گئی اس کے کھلے گلے والی قمیص سے اس کے مموں کے گولائی سے شروع ہونے والی لکیر نظر آرہی تھی اس نے نوالہ بناتے بناتے میری طرف مسکرا کر دیکھا میں یکدم سے گڑبڑا گیا اور اٹھ کھڑا ہوا بیٹھو نا بھائی کھڑے کیوں ہوگئے ہو مائرہ نے کہا اس کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ ناچ رہی تھی نہیں تم ناشتہ کرو میں ذرا واک کے لیے باہر جاتا ہوں کہہ کر میں وہاں سے نکل آیا جاتے جاتے میرے کانوں میں بھابھی کی آواز پڑی وہ مائرہ کو ڈانٹ رہی تھی بھائی کے ساتھ کوئی ایسے بی ہیو کرتا ہے تم اب جوان ہوگئی ہو بھائیوں کے سامنے پردے میں رہا کرو روز دوپٹہ اوڑھ کے ناشتہ کر تی ہو آج کیا ہوگیا ہے تمہیں میں نے دل ہی دل میں بھابھی کو شاباش دی کہ جو کام میں نے کرنا تھا وہ بھابھی نے زیادہ اچھے طریقے سے کردیا میں گھر سے روز کے معمول کی طرح کھیتوں کی طرف نکل گیا گھنٹے ڈیڑھ کے بعد گھر آیا دیکھا تو کچن میں باجی برتن دھو رہی تھی میں سیدھا کچن میں گیا باجی نے ہلکی سی سمائل دی میں نے پوچھا امی کہاں ہے اور یہ بھابھی بھی نظر نہیں آرہی امی پڑوس میں گئی ہیں اور بھابھی کے سر میں درد ہے وہ آرام کررہی ہے اپنے کمرے میں باجی نے کہا پھر پوچھا تم کہا رہ گئے تھے میں نے دیکھا باجی کی آنکھیں سرخ تھیں باجی نے بانہیں کھول کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کسنگ کرنے لگی میں نے اپنی زبان باجی کے منہ میں ڈالدی باجی میری زبان چوسنے لگی تھوڑی دیر کے بعد میں نے اس کے ہونٹ چھوڑ کر اس کے گالوں پر بوسے دینے لگا میں نے اس کے کان کے پاس سرگوشی کی رات کو سوئی نہیں ہو کیا بے چینی اتنی شدید تھی کہ نیند نہیں آئی باجی نےکہا میں نے کہا کیوں تو باجی نے کہا کیونکہ رات تم نے مجھے سلگا کر چھوڑ جو دیا تھا میں نے کہا سوری باجی مجبوری تھی نہیں تو ایسا ظلم میں تمھارے ساتھ کیسے کر سکتا ہوں باجی نےکہا اس لیے میں جلدی امی کے ساتھ ہی اٹھ گئی تھی کہ اگر موقع ملا تو کچھ سکون مل جائے گا اس لیے میں نے تم سے پوچھا کہ کہاں چلا گیا تھا اتنا اچھا موقع ہاتھ آگیا تھا اور تم غائب تھے میں نے کہا سوری باجی آئندہ خیال رکھوں گا اور اس کے مموں کو پکڑ کر دبانے لگا باجی کے منہ سے آہ کی آواز نکل گئی باجی نےکہا کھڑکی پر نظر رکھنا ایسا نہ کہ کوئی آجائے میں نے باجی کو کھڑکی کے سامنے کیا اور مظبوطی سے پکڑ کر اپنی طرف جھٹکا دےکے بھینچ لیا اور اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگا باجی نے ایک ہاتھ سے لن پکڑ کر سہلانا شروع کیا تھوڑی دیر کے بعد باجی نے کہا مجھے اپنا لن دکھاو اور خود ہی ناڑہ کھول دیا اور موڑھے پر بیٹھ کر لن کو نہایت غور سے دیکھنے اور چھو کر لن کی موٹائی لمبائی محسوس کرنے لگی میرے لن کی لمبائی سات اعشاریہ ایک انچ ہےاور موٹائی دو انچ ہے اپنے لن ہر ننگے ہاتھ کا لمس محسوس کر کے میں تو آسمانوں میں اڑنے لگا میں کھڑکی کے پار دیکھنے لگا اس پر مظبوط جالی دار گرل لگی ہوئی ہے امی کے کمرے کا دروازہ کچن کے دروازے کے ساتھ ہے اگر امی کے کمرے سے کوئی کچن میں آتا تو ہمیں خبر نہیں سکتی تھی لیکن ہمیں پتہ تھا کہ امی کے کمرے میں کوئی نہیں ہے میرے کمرے کا دروازہ اور پرلی طرف بھابھی کا پورشن یہاں سے صاف نظر آتا ہے اور کھڑکی میں لائٹ گریں شیشہ لگا ہوا ہے جس کی وجہ باہر سے کسی کو اندر کا منظر نظر نہیں آتا ہے تھوڑی دیر کے بعد میں نے باجی کو کھڑا کیا اور اس کی قمیص اٹھانے لگا کہ باجی نے خود ہی قمیص اٹھائی نیچے باجی نے اور کچھ نہیں پہنا ہوا تھا میں دونوں ہاتھ اس کے مموں پر پھیرنے لگا اور دبانے لگا باجی کے منہ سے لذت امیز سسکاریاں نکلنے لگیں میں اس کے مموں کو چومنے لگا اور اس کے نپل چوسنے لگا میں نے اس کی ٹانگ اٹھا کر اپنے کولہے پر رکھی اور دوسرا ہاتھ اس کے کمر پر رکھ کر اپنی طرف جھٹکا دیا میرا لن اس کی چوت سے ٹکرایا اور باجی نے میرے لن پر گھسے مارنے شروع کیے باجی کا قد میرے جتنا ہے شائد ایک آدھ انچ کا فرق ہوگا باجی دیوانوں کی طرح میرے لن سے چوت رگڑ رہی تھی میں نے اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی البتہ دل ہی دل میں تمنا کر رہا تھا کہ کوئی آ نہ جائے تاکہ باجی کی بے چینی دور ہوجائے ہم نے کپڑے اتارنے کا رسک نہیں لیا کونکہ جب تک ہم سنبھلتے آنے والا ہمارے سر پر پہنچ جاتا باجی کی چوت کے لب تھوڑے کھل گئے تھے اوراس کی شلوار کاکپڑا گیلا ہوکے چوت کے لبوں کے اندر چلا گیاتھاکونکہ لن کی ٹوپی دراڑ میں گھستی ہوئی محسوس ہوتی رہی شائد دانہ شہوت کو لن سے رگڑ رہی تھی تب ہی باجی اور تیزی کے ساتھ گھسے مارنے لگی میں سمجھ گیا کہ وہ اپنے منزل پر پہنچنے والی ہے جبکہ میں اپنے کلائمکس سے ہنوز دور تھا میرا لن باجی کی چوت سے نکلنے والے پانی سے مکمل طور پر بھیگ چکا تھا باجی کی سانس تیز ہوگئی باجی مجھے اور کس کے مظبوطی سے اپنے ساتھ بھینچنے لگی باجی کی آنکھیں بند تھیں اس کے منہ سے تواتر کے ساتھ آہ اوہ کی آوازیں نکلنے لگی کافی دیر تک باجی گھسے مارتی رہی جبکہ میں اس کے مموں کے نپل چوستا رہا باجی نے آخری گھسہ مارکر مجھے اور سختی سے اپنی بانہوں میں جکڑلیا اور اس نے اپنے ناخن میری کمر میں گاڑ دیے اور اس کی ٹانگیں تھوڑی کانپ گئیں اس کے منہ سے ایک طویل سانس نکل گیا فارغ ہوتے وقت اس نے اپنی سانس روک لی تھی باجی کی چوت سےلاوا بہنے لگا اورمیرے لن کوبھگونے لگاجیسے میرے لن پر کسی نےگرم چائے انڈیل دی ہو اور باجی کی منی کی تیز بو کچن میں پھیل گئی کافی دیر تک وہ مجھے اسی طرح جکڑ کر ہولے ہولے چوت کو لن کے ساتھ رگڑتی رہی جب وہ بلکل پرسکون ہو گئی تب میں اسے اپنے سے آہستگی سے الگ کیا اس کی ٹانگوں سے جان نکل گئی تھی کیونکہ الگ ہوتے ہوئے اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں میں نے اس کو موڑھے پر بٹھا دیا اور اس کے گال پر پپی دیکر کہا کچھ تسلی ہوئی باجی نے مسکرا کر کہا کچھ کچھ میں نے کہا بس اب چند دن کی بات ہے میں تمھاری مکمل تسلی کرا دوں گا باجی نے اس بات میں سر ہلا دیا میں نے کہا باجی آپ جاکر تھوڑا آرام کرلو اور اس کو سہارہ دیکر کھڑا کیا باجی مجھ سے لپٹ گئی اور کان میں کہا آئی لو یو میں نے کہا آئی لو یو ٹو اور مڑ کر جانے کےلیے قدم اٹھایا میں نے کہاباجی تم نے اپنی منی کی بو محسوس کی تو اس نے کہا ہاں میں نے کہا اگر بھابھی کچن میں آئی تو اس کو محسوس نہیں ہوگی؟ باجی یہ سن کے پریشان ہوگئی اوہ اس طرف تو میرا دھیان ہی نہیں گیا باجی واقعی میں پریشان ہوگئی تب مجھے تسلی ہوئی کہ باجی لاپروا نہیں ہے میں نے کہا باجی آپ پریشان نہ ہوں میں جو ہوں آپکی پریشانیاں دور کرنے کے لیے پھر میں نے ماچس اٹھائی اور یکے بعد دیگرے پانچ چھ تیلیاں جلائیں بو غائب ہوگئی میں نے کہا باجی آپ بھی یہ ٹوٹکہ نوٹ کرلو کسی بھی قسم کی بو مٹانے کے لیے ابھی ہم یہ بات کر رہے تھے کہ بھابھی کچن کی طرف اتی دکھائی دی میں نے باجی سے کہا بھابھی آرہی ہے تو باجی برتن دھونے لگی میں اس موڑھے پر بیٹھ گیا جو باجی کی منی سے گیلا ہوچکا تھا اور شلوار کے کپڑے سے وہ جگہ صاف کرنے لگا جہاں بیٹھتے وقت باجی کی چوت سے تھوڑی منی بہہ گئی تھی بھابھی اندر آئی اور آتے ہی ناک کو سکوڑا مجھے تو جیسے سانپ سونگھ گیا یقینا" اس نے منی کی بو محسوس کرلی تھی وہ باہر سے آئی جبکہ ہم کافی دیر سے اندر تھے شائد ہلکی بو ہمیں محسوس نہیں ہورہی تھی اس وقت دس بج رہے تھے اور تقریبا" ڈیڑھ گھنٹے سے ہم مصروف تھے وہ عورت تھی اور مجھ سے زیادہ کسی دوسری لڑکی کی منی کی بو محسوس کرسکتی تھی۔