بیتے لمحے قسط 02

0














جیسے ہی ہم کینٹین سے اٹھنھ لگے تو یاسر نے مجھے کہا کہ علی پلیز خود پہ قابو رکھنا اور ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے کوئی معاملہ بگڑ جائے ۔ میں نے نا سمجھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا مطلب ہے ؟ تو اس نے کہا دیکھو اب تمہاری امی بھی کلاس لیں گی اور کلاس کے دوران کوئی لڑکا انہیں دیکھ رہا ہوا تو اسے نارمل لینا پہلے کی طرح جیسے تمہیں علم ہی نہیں ہے پلیز خود پہ کنٹرول کرنا۔ یاسر کی بات مجھے سمجھ آ گئی اور ہم کلاس کی طرف بڑھ گئے۔ اگلی کلاس اور ٹیچر کی تھی اس کے بعد پھر جب امی کلاس میں آئیں تو ہم سب نے کھڑے ہو کہ ان کو ویلکم کیا اور پہلی بار میں نے ان کی طرف ایک ٹیچر کی طرح دیکھا۔ اس سے پہلے تو وہ صرف امی ہی تھیں ان میں عورت کبھی دیکھی ہی نہ تھی نا کبھی ایسی سوچ بنی تھی۔ باقی ٹیچرز کو ہم بھی تاڑتے تھے اور آپس میں ہلکی پھلکی گپ بھی ہو جاتی تھی اور کسی نظارے کو دیکھ کہ اپنی للی کو تنہائی میں سہلا بھی لیتے تھے لیکن انی کے بارے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیض میں ایک پیاری سی آنٹی نما ٹیچر کمرے میں داخل ہوئی ہیں جن کا دوپٹہ ان کے گلے میں ہے ان کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ اور کشش ہے اور آنکھوں میں چمک ہے جیسے آنکھیں مسکرا رہی ہوں ۔ گورے گورے پھولے ہوئے شہد سے رنگ کے گال اور سرخ ہونٹ جو کہ اوپر نیچے ایک جتنے موٹے اور شاندار شیپ کے، کالے بالوں کی ایک لٹ ان کے چہرے پہ آئی ہوئی تھی جس کو وہ اپنے خوبصورت مخروطی ہاتھوں سے کان کے پیچھے کر رہی تھیں لیکن وہ کمبخت بار بار چہرہ چومنے کو آگے بھاگ آتی تھی ۔ لمبی سفید گردن اور گردن کے نیچے دو بڑے بڑے گول غبارہ نما ممے جن کی اٹھان ان کو نمایاں کر رہی تھی اور ان کی بلندی بتا رہی تھی کہ یہاں پہنچنا آسان نہیں ہے اور ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ نیچے سڈول سا پیٹ اور گول گول گدرائی ہوئی رانیں۔ میں انہماک سے انہیں دیکھ رہا تھا کہ یاسر نے مجھے ہلکا سا ہلایا تو میں شرمندہ سا ہو کر اس کی طرف مڑا۔ یاسر نے سرگوشی کی کہ پلیز نارمل رہو اس طرح ری ایکٹ کرو گے تو انہیں بھی شک ہو جائے گا۔ یاسر کی بات سنتے ہی میں بھی سیدھا ہوا اور پڑھائی کی طرف متوجہ ہو گیا ۔ امی نے بھی ہمیں پڑھانا شروع کر دیا۔ میں اور یاسر اگلے بینچ پہ سائیڈ دیوار کے ساتھ بیٹھے تھے اور پڑھاتے پڑھاتے امی جب بورڈ کی طرف مڑیں تو پیچھے کا نظارہ دیکھ کہ ایک لمحے کے لیے میرا بھی منہ کھل گیا ۔ امی نے ایک پاوں پہ وزن ڈالا ہوا تھا جس سے ان کا وزن کی سائیڈ والا گانڈ کا بھاری بھر کم حصہ نیچے تھے اور دوسرا حصہ اوپر تھا لکھتے لکھتے جیسے ہی انہوں نے وزن دوسری ٹانگ پہ منتقل کیا تو کولہوں نے اسی طرح اوپر نیچے ہو کر اپنی جگہ تبدیل کی ۔ لیکن جگہ تبدیل ہوتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے کے بجائے اور دور ہوئے اور اپنی درمیان وسیع اور عریض وادی کے روبے کو بھی نمایاں کیا۔ یہ منظر دیکھ کہ میں نے فورا عمیر اور یوسف کی طرف دیکھا تو ان کی نظر بھی امی پہ تھی اور پھر میں نے غیر محسوس انداز میں دیکھا تو کلاس کا ہر لڑکا اسی نظارے میں ڈوبا ہوا تھا البتہ لڑکیاں شائد یہ نہیں دیکھ رہی تھیں ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ امی اس وقت جو کچھ پڑھا رہی ہیں وہ کلاس کا کوئی بھی لڑکا نہیں سمجھ رہا اور اس کی طرف کسی کی بھی توجہ نہیں ہے ۔


انسانی زہہن بھی ایک مشین کی طرح ہے اس کو جو بات بری لگے وہی سب سے زیادہ سوچتا ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ جو بات بری لگے اس کو نظر انداز کر دو لیکن بچپن میں سیکھنے کے مراحل میں یہ ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے میں بھی ان چیزوں پہ زیادہ سوچا کرتی تھی )۔ کہانی کی طرف بڑھتے ہیں تو میری نظر امی کے جسم کا احاطہ کر رہی تھی یا میں نگاہوں سے ان کا ایکسرے کر رہا تھا بلکہ کلاس کے شائد سبھی لڑکے توجہ سے ان کو دیکھ رہے تھے اور وہ ہم سب سے بے نیاز پڑھانے میں لگی ہوئی تھیں ۔ کیونکہ میں نے پہلی بار ان کو ایک عورت سمجھ کہ دیکھا تھا اس سے پہلے تو وہ صرف امی تھیں جو شائد پلاسٹک کی یا پتھر کی مورت کی طرح مقدس تھیں جن کے بارے غلط سوچنا تک حرام تھا لیکن بات جاننے کی ضد مجھے یہاں تک لے آئی تھی کہ میں ان کو ایک عورت سمجھ کہ دیکھ رہا تھا اور مجھے اصلی شرمندگی تب ہوئی کہ جب میری ننی منی للی جو اس وقت شائد ان کی انگلی سے کچھ ہی بڑی ہوئی ہو گی جھٹکا کھا کہ کھڑی ہو گئی اور اس کا اکڑاو اپنے انڈر وئیر میں محسوس ہوا تو میں نے ہل کہ خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں میری نظر یاسر پہ پڑی جو کہ نارمل لگنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ نارمل نہیں تھا۔ میں نے پھر عمیر اور یوسف کی طرف دیکھا تو وہ سب سے بے خبر بس امی پہ فوکس کیے ہوئے تھے۔ میں ساری کلاس کا جائزہ لیتا گیا ہر لڑکا تقریبا یہی کر رہا تھا سوائے دو لڑکوں کے جو کسی دیہات سے آئے ہوئے تھے اور ابھی ہمارے ساتھ اتنے فری نہیں تھے۔ امی نے کیا پڑھایا کچھ علم نہیں تھا پھر وہ کاپیاں چیک کرنے ہر ڈیسک کے پاس آتی گئیں اور ہوم ورک چیک کرنے لگیں وہ ہمارے ڈیسک کے پاس پہنچی اور جھک کہ کاپی چیک کرنے لگیں تو میری نظر ان کے گلے میں اندر گئی اور پھر وہیں کی ہو کہ رہ گئی۔ سفید رنگ کے گول مٹول بڑے بڑے تھن جن میں ایک پہ تل تھا نیلے ہی رنگ کی برا میں تقریبا آدھے ننگے نظر آ رہے تھے وہ کاپی چیک کرتے ہوئے ڈیسک پہ جھکی ہوئی تھیں کہ یوسف نے ان سے پانی پینے کا پوچھا اور ان کے پیچھے سے گزرتا ہوا باہر نکل گیا ۔ جیسے ہی اس نے پانی کا پوچھا تو میں نے بھی ان سے نظر ہٹا لی تھی۔ میری اور یاسر کی کاپی چیک کر کہ وہ پچھلی لائن میں چلی گئیں یاسر نے مجھے سرگوشی کی ایک بات بتاوں؟ میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے میرے کان کے قریب ہوتے ہوئے کہا یہ ٹیچر کو پیچھے سے چھو کہ گزرا ہے اور واپسی پہ بھی ایسا کرے گا ایک کلاس میں عمیر کرتا ہے دوسرے پیریڈ میں یوسف کرتا ہے ابھی دیکھنا۔ مجھے یاسر کی بات پہ زرا یقین نہ آیا کیونکہ میرا تو یہ ماننا تھا کہ ایسی کوئی حرکت ہوئی تو امی اسے تھپڑ ماریں گی لیکن مین چپ رہا اور دیکھنے لگا کہ کب وہ واپس آتا ہے ۔ ایک دو منٹ میں ہی وہ واپس آیا تو میں نے پیچھے مڑ کہ دیکھا کہ امی کھڑی تھیں جیسے ہی اس نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو امی اسے اجازت دیتے ہوئے جھک گئین اور کاپی چیک کرنے لگیں ان کے جھکنے سے ان کی موٹی گانڈ ابھر کر واضح ہو گئی اور یوسف جب ان کے پیچھے سے گزرا تو میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ہاتھ ایک سائیڈ پہ رکھا اور چلتے چلتے درمیان سے گزارتا ہوا پیچھے لے گیا ان کی موٹی گانڈ اس ٹکراو سے تھر تھرا اٹھی لیکن انہوں نے اس پہ کوئی ری ایکشن نہ دیا اور نہ ہی مڑ کہ یوسف کی طرف دیکھا۔ مجھے یہ بات بہت بری تو لگی لیکن اس سے بھی برا مجھے امی کا چپ رہنا لگا۔ میں نے یاسر کی طرف دیکھا تو وہ بھی اپنی للی ایڈجسٹ کر رئا تھا مجھے دیکھتے ہی بوکھلا کہ اس نے وہاں سے ہاتھ ہٹا لیے۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)