شانی

0

 












شانی نے چودا۔

اس وقت میری عمر 42 سال کی ہے اور یہ کہانی آج سے تین سال پہلے شروع ہوئی۔ میں شادی شدہ اور ایک بچی کی ماں ہوں میرے میاں دبئی جاب کرتے تھے اور سال میں بیس دن کی چھٹی پر گھر آتے تھے زندگی اچھی گزر رہی تھی اور میں اپنے گھر میں خوش تھی اگرچہ تنہائی کاٹتی تھی مگر اب میں س اکلاپے کی عادی ہو گئی تھی۔ کبھی کبھار جسم کی خواہش پوری کرنے لئے انگشت زنی کر کے سکون حاصل کر لیتی تھی اگرچہ مجھے آس پڑوس اور خاندان کے مردوں کی طرف سے ناجائز تعلقات کی آفریں بھی ملیں۔ مگرمجھے ایسی باتوں سے کوئی سروکار نہ تھا اور نہ ہی میں اپنے شوہر سے بے وفائی کرنا چاہتی تھی کیوں کہ مجے اپنے شوہر سے بے حد محبت تھی اور ایسے ہی انہیں مجھ سے پھر میری زندگی میں شانی آیا شانی میری کزن کا بیٹا تھا۔ شانی میری گود میں کھیلا اور بڑا ہوا تھا پچیس سال کا کڑیل جوان،چھ فٹ قد ،اور مردانہ وجاہت کا نمونہ تھا۔ شانی میری آنکھوں کے سامنے ہی جوان ہؤا تھا۔میری بہت عزت اور احترام کرتا تھا۔اور میں بھی اسے خالہ بھانجے کی محبت سے دیکھتی تھی۔اگرچہ وہ میرا سگا بھانجا نہیں تھا، مگر میرے سمیت پورے خاندان کا لاڈلا بچہ ہے ہوا یوں کہ اسے ہمارے گھر کے پاس ہی جاب مل گئ اور وہ شہر میں رہائش کی تلاش میں ہمارے گھر آیا۔اتفاق سے میرے میاں بھی آے ہوئے تھے اور انھیں میرے اکیلے رہنے کی وجہ سے میری مشکلات کا اندازہ تھا ویسے ہمارے لیے شانی بچہ ہی تھا لہذا انہوں نے اصرار کیا کہ وہ ہمارے گھر ہی رہائش اختیار کر لے۔اس سے مجھے کمپنی بھی مل جائے گی اور شانی کو بھی آسانی ہو جائے گی۔ اس طرح شانی ہمارے گھر میں رہنے لگ گیا۔ کچھ ہی دنوں میں میرے میاں واپس چلے گئے۔ اور میں اپنی روٹین میں مگن ہو گئی مگر اس دفعہ حالات بدل چکے تھے اب شانی ا گیا تھا اس کے آنے سے بوریت نے رخت سفر باندھ لیا تھا وہ زندگی سے بھرپور اور ہر وقت خوش رہنے والا لڑکا تھا اور شانی اتنی جلد میری فیملی کا حصہ بن گیا۔اب روزانہ میں شانی کے آنے کا انتظار کرتی،اس کے آنے پر ہم شام کا کھانے کھاتےپھر ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھنے وہ میری بیٹی کے ساتھ کوئی کھیل کھیلتا یا اسے کہانیاں سناتا اورپھرہم اپنے اپنے کمروں میں سو جاتے۔ ،اسے میری پانچ سالہ بیٹی بہت پسند تھی ہر وقت اسی کو لاڈ پیار کرتا، اس کے لیے تحائف اور چاکلیٹ وغیرہ لاتا۔ وہ مجھے ہمیشہ آنٹی کہہ کے پکارتا اور میں اسے شانی بیٹا۔ اس کے آنے سے مجھے بڑی مدد مل گی اب چھوٹے موٹے کاموں کے لئے مجھے باہر نکلنے کی ضرورت ختم ہوگئی تھی میرا ہر کام وہ خود ہی کردیا کرتا۔اور گھر میں ایک مرد کی موجودگی میں بہت محفوظ محسوس کرنے لگی۔ اور مجھے بھی اس سے آنس و پیار ہو گیا تھا۔ سوموار سے جمعے تک ہمارے گھر رہتا اور جمعے کی رات کو اپنے قصبے میں ماں باپ کے پاس چھٹی گزار کر سیدھا سوموار کو آفس پہنچ جاتا۔۔ تین ماہ بعد پھر گرمیاں سٹارٹ ہو گئیں ہمارے گھر میں ایک ہی اے سی تھا جو میرے بیڈروم میں لگا تھا،جب گرمی کی شدت بڑھی تو میں نے اسے اپنے بیڈروم میں سونے کا کہہ دیا۔ کیونکہ دل میں کسی بھی قسم کا غلط خیال نہیں تھا۔۔ اب وہ روزانہ میرے بیڈ پر سونے لگا۔ مگر سونے سے پہلےوہ روزانہ موبائل پر اکثر چیٹ کرتا تھا۔ مگر میں نظر انداز کر کے سو جاتی۔ پھر ایک دن پوچھا توشرما کر بولا خالہ گرل فرینڈ بنای ہے۔کوی ثانیہ نام کی اسکے آفس میں کام کرتی تھی نوجوان اور خوپصورت لڑکی تھی مجھے سن کر تھوڑی حیرانی ہوئی۔کہ بچہ تو بڑا ہو گیا ہے۔ مگر ہلکا سا جلن کا بھی احساس ہوا کہ بیڈ پر ساتھ سوتی عورت کو چھوڑ کر کسی اور عورت میں دلچسپی لے رہا ہے ،کیونکہ میں اس کے سامنے کپڑوں کی خاص فکر نہ کرتی تھی کبھی گلا ڈھانپنے کی کوشش نہیں کی تھی مجھے کھلے گلے کی قمیض پہننا پسند تھا جس میں بغیر ڈوپٹے کے چھاتیاں آدھی ننگی نظر آتیں تھیں۔اور شانی کے سامنے میں نے دوپٹے کا کبھی تکلف کیا ہی نہیں تھا۔ بہرحال اب مجھے اس کی گرل فرینڈ سے جیلیسی محسوس ہونے لگ گئی۔ کیوں کہ جب سے اس نے گرل فرنڈ بنای تھی تب سے اس کی روٹین بدل گئی تھی اب ہم پر اپنی توجہ کم کردی تھی اور ہر وقت اپنی گرل فرینڈ سے باتوں میں یا چیٹ میں مصروف رہتا تھا ایک دن ڈرائنگ روم میں سے گزری تو فون پر اپنی گرل فرینڈ سے چیٹ میں اتنا مگن تھا کہ اسے پتہ بھی نہ چلا کہ میں بیڈروم سے باہر آ گئی ہوں۔ وہ سکرین پر نظریں ٹکائے بیٹھا تھا اور اس کی نیکر میں ایک بڑا ابھار نظر آ رہا تھا شاید اس کی گرل فرینڈ نے کؤی نیوڈ بھیجی تھی جس سے اس کا عضو نے جان پکڑی تھی غور سے دیکھا تو پورے لنڈ کی شیپ واضح ہو رہی تھی اور لنڈ کی لمبائی اور موٹائی دیکھ کر میرا جسم سلگنے لگا۔کیوںکہ مرد کے ساتھ کی پیاس تو پہلے سے موجود تھی۔ یہ نظارہ مجھ سے مزید برداشت نہ ہوا۔ اور مجھے باتھ روم میں جا کر چوت میں انگشت زنی کرنی پڑی۔ مگر اس سے جسم کی آگ اس طرح ٹھنڈی نہ ہوئی۔ جیسے پہلے ہوتی تھی کیونکہ دماغ میں شانی کا موٹا ڈنڈا چھایا تھا۔ اگر میں اس کے لنڈ کو ننگا دیکھ لیتی تو شاید ذہن پراتنا گہرا اثر نہ ہوتا ،جتنا اس کی نیکر ] میں چھپے ہتھیار نے کیا تھا۔ایک جستجو اور تمنا سی جسم میں جاگ گئی تھی اب شانی کو دیکھنے کی میری نگاہ کا زاویہ بدل چکا تھااب میں اسے پیاسی اور ہوسناک نظروں سے دیکھنے لگی۔اور اس کے سامنے اپنے جسم کی نمائش کرنے لگی کبھی آدھ ننگی چھاتیاں دکھائی تو کبھی سوتے ہوے اس ڈھنگ سے سونے کا ناٹک کرتی کہ میرے جسم کے خدو خال اس پر اچھے سے واضح ہوں۔مگر وہ پتہ نہیں کس چکنی مٹی کا بنا تھا کہ اس پر میرے لطف وکرم کی بارش کا کؤی اثر نہ ٹھا۔اس کی نگاہوں میں میرے لیے وہی احترام اور عزت تھی جو ایک بیٹے کی ماں کے لیئے۔مگر میں نے اسے اپنے دل کے تخت پر بٹھا لیا تھا اور خیالوں میں اس کے ساتھ کتنی ہی سہاگ راتیں منا چکی تھی۔ حالانکہ میں جانتی تھی کہ اس کا ساتھ ایسا ہونا نا ممکن ہے کیونکہ اسکی اور میری عمر میں بہت فرق ہےاور پھر بیچ میں عزت و


اپنا سر صوفے کی پشت سے لگا دیں آنکھیں بند کرلی ۔اوراسکی لپلپاتی ہوئی زبان اپنے نپلوں پر محسوس کرنے لگی۔ اسکی زبان کبھی نپل کو چاٹتی تو کبھی گول گول گھومتی ہوئی نپل کے چکر لگاتی۔ بیچ بیچ میں وہ پورےمنہ میں چھاتی کو بھرنے کی کوشش کوتا۔ جو کہ سعی لا حا صل ہوتی۔ مگر اس کی یہ حرکت چھاتی سے کرنٹ کی لہر پیدا کرتی جس سے جسم جھنجھنا جاتا۔ وہ دیوانوں کی طرح ایک چھاتی سے دوسری کی طرف منہ مار رہا تھا۔ جیسے سمجھ نہ آ رہی کونسا زیادہ میٹھی ہے۔ اس کے ساتھ اس کے ہاتھوں نے نیچے جاکر ٹراؤزر کے اندر گستاخیاں شروع کر دیں۔ اسکی انگلیاں چوت کی لبوں کا ستار بجانے لگیں۔ جوت کے لبوں کے درمیان گہرائیاں ناپنے لگیں اور چوت کے دہانے سے نکلنے والی چکنائی کو اوپر نیچے پھیلانے لگیں۔ چوت کی لیس سے تر انگلیاں جب بظر(دانے) کو چھوتیں تو لطف کی لہریں دماغ کو سن کرکے رکھ دیتں۔ منہ اور انگلیوں کی کارستانیاں مجھے خوب خوار کر چکیں تھیں۔ میری چوت میں سرسراہٹ سی ہونے لگ گئی تھی ۔اسے اب سخت لنڈ کی ضرورت تھی جو چوت کی خارش مٹا سکے۔ اور میں نے اسے اپنا ٹراؤزر اتارنے کا حکم دیا۔ جسکی اس نے فوراً تعمیل کی۔ عورت کا حکم لنڈ ڈالنے سے پہلے ہی کا ہے۔اسکے بعد مرد ہی کی چلتی یے۔ اب میں ننگ دھڑنگ صوفے پر بیٹھی تھی۔ اس نے بھی ماحول کے بھانپتے ہوئے اپنی شرٹ اور ٹراؤزر اتار ڈالی۔اور قدرتی لباس میں آ گیا۔ میں مبہوت اس کے بالوں سے بھرے چوڑے چکلے سینے کو ستایشی نگاہوں سے دیکھنے لگی ۔ سینے سے نیچے ہموار پیٹ میں سکس پیکس نے چوت میں گدگدی پیدا کردی۔ اور پھر اسکی مضبوط رانوں کے اتصال پر شاندار لنڈ جوبن دکھا رہا تھا اسکا لنڈ شیش ناگ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ مزید کؤی دیر کیے بغیر وہ میری ٹانگیں اٹھا کر درمیان میں آ گیا اور میری چوت کی لمبائی پراپنے لنڈ کے ٹوپے کو پھیرنے لگا۔ چوت کی چکنائی اور لوڑے کی مزی سے لنڈ کا سپارا چمکنے لگا تو اس نے پھدی کو لنڈ سے چھیڑتے چھیڑتے چوت کے داخلی دروازے کا رخ کیا۔ ابھی اس نے ڈالنے کے لئے دباؤ ڈالا ہی تھا کہ میں نے اسے روکا۔ وہ رکا اور میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ میں اٹھی اور بولی۔ انسانوں کی طرح پہلے کر چکے ہیں اب کتوں کی طرح سیکس کرتے ہیں۔ اس بات سے مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی میں نے آٹھ کر اسے ایک ٹایٹ جپھی ڈالی ، اور اسکے لںڈ کو ہاتھ میں سہلانے لگی جو پتھر کا لگ رہا تھا چھوٹا سا بوسہ لے کر میں صوفے پر سجدہ کی پوزیشن میں آ گئی۔ میرے گھٹے صوفے کے کنارے پر اور میرا منہ صوفےکی گدی میں دھنسا ہوا بے صبری سے اس کی چال کا انتظار کر رہی تھیں ۔ میرے گول چوتڑ ہوا میں بلند تھے ۔ چوت کے پھولے ہوے ہونٹ دعوت مبارزت و مباشرت دے رہے تھے۔ وہ کچھ دیر میری ہپس کا نظارہ کرتا رہا،میری مور کے پنکھوں کی طرح پھیلی ہوئی گانڈ کو نگاہوں سے سراہا اور بولا۔ خالہ" اس گانڈ کو سوچ کر بہت مٹھیں ماریں ہیں۔سوچا بھی نہ تھا کہ کبھی اس کے ایسے دیدار ہوں گے۔ شانی نے مزید دیر نہ کرتے ہوے میری ہپس کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے اپنے ہتھیار کو مورچے پر رکھ دیا۔ اور ہلکے سے دباو ڈالا۔ لنڈ کا ٹوپا پرچ کرتے ہوے گیلی چوت میں داخل ہو گیا۔ پچھلی چدائی میں خارج ہونے والی منی ابھی بھی پھدی میں موجود تھی کچھ حالیہ شہوت سے خارج ہونے والی چکنائی وغیرہ نے مل کر چوت کو نرم ملائم کر دیا تھا۔ اس لیئے لنڈ آسانی سے پورا اندر گھس بیٹھا۔ شانی نے پہلے تو آرام سے سٹروک لگاے۔ارام سے آنر باہر کرتا رہا اور لنڈ بڑے آرام سے پھدی میں مٹر گشت کرتا رہا۔ اگرچہ کہ پھدی کی گرپ لنڈ پر مو جود تھی مگر اتنی سخت نہیں تھی کہ چودائی میں دشواری ہوتی۔ کچھ دیر بعد مجھے کمفرٹیبل کرنے کے بعد اس نے سپیڈ بڑھا دی۔ اور اک طوفان بدتمیزی شروع کر دیا۔ لنڈ کو پورا نکال کر چوت پر رکھتا۔ اور شدت سے جھٹکا مارتا۔جس سے لنڈ ایک سیکنڈ سے بھی کم میں بچے دانی تک پہنچ جاتا۔ پھر اسی رفتار میں چند جھٹکے مار کر رک کر نکال کر پھدی کے لبوں پر پھیرتا۔ اسی دوران کسی بھی لمحے پھدی کے لبوں کو سہلاتے سہلاتے کب حملہ کردیتا کہ میں تڑپ کر رہ جاتی۔ میں جھکی ہوئی اسکے ظلم پر آہ آہ کر رہی تھی۔ میرا سر صوفے سے ٹکرا رہا تھا۔ مگر اس کے طوفانی جھٹکوں میں تیزی آتی جارہے تھی۔ اور لنڈ اندر باہر کسی پسٹن کی طرح حرکت کر رہا رھا۔ وہ آزادنہ اپنے لنڈ سے میری چوت کا کباڑا کر رہا تھا۔ سیدھے سٹروک لگاتے لگاتے رکا اور اپنا دائیں پاؤں صوفے پر رکھ دی۔ اور لنڈ اندر گھسیڑ کرضربیں لگانے لگا۔ اس سے چوت کی بائیں دیوار پر ضربیں لگنے لگیں پھر دائیں کی بجائے بائیں پاؤں رکھ کر چوت کی دائیں دیواروں کو چھیلا۔ پھر صوفے پر میرے پیچھے چڑھ گیا اور صوفے پر کھڑا ہو کر نیچے جھک کر لنڈ کوچوت میں ڈال دیااور دونوں ہاتھ صوفے کی پشت پر جما دیئے اس انداز سے لنڈ پورے کا پورا داخل ہو گیا۔اور زور آوری شروع کر دی جس سے چوت کے اگلے حصے پر ضرب لگی جہاں جی سپاٹ ہوتا ہے۔ جس سے میں مزے سے کپکپا نے لگی اور فارغ ہوگئی مگر اس نے اپنے جھٹکوں میں کمی نہ آنے دی۔ کچھ دیر ایسے چودنے کے بعد صوفے سے نیچے اتر ایا۔ مجھے کھڑا کر کے ہلکا سا رکوع کی حالت میں ڈال دیا۔ اور جھٹکوں کی بارش کردی۔میں ان جھٹکوں سے لڑکھڑا کر آگے گرنے لگی تو اپنے ہاتھوں سے میرے دونوں شانے تھام لیے۔ وہ میرے پیچھے کھڑا مجھے دونوں شانوں سے تھامے مجھے چود رہا تھا۔ اس حالت کی چودائی میں لنڈ کی ضربیں سیدھی جی سپاٹ پر پڑ رہی تھیں ۔ اور ہر ضرب پر میں کپکپا رہی تھی۔ میری نازک حالت پر اسے زرا ترس نہیں ،آیا بلکہ میری آہ آہ سے اور وحشی ہو جاتا۔ لیکن پھر تھوڑا سا رک کبھی گردن پر پیار بھی کرتا۔لیکن جھٹکوں میں رحم نہنے چوت کو پھر منی سے بھر دیا میں سکھ کا سانس لے کر صوفے پر جا گری۔ اور اپنی سانسیں بحال کرنے لگی۔ ۔ مجھ بہت سکون ملا ۔میں آج بھی بہت مس کرتی ہو اسے ۔۔


The end

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)