میں نے اس کے ہونٹ چوستے ہوئے اس کی ناک پکڑ کہ ہلائی
اور کہا جانی اب یہ سب تم سے ہی کروں گا کہ میری جان تم ہی تو ہو نا۔ ساتھ میں
ہلکے ہلکے دھکے لگا رہا تھا اور لن کو ادھے سے زیادہ اس کی پھدی میں اندر باہر کیے
جا رہا تھا، سیکس ہم تقریباً روز ہی کرتے تھے لیکن اس طرح کی گفتگو ہمارے درمیان
پہلی بار ہو رہی تھی اور اس گفتگو نے میرے مزے اور لطف کو دوبالا کر دیا تھا، بہن
کی سوچ کا ایک افسوس اب کہیں پیچھے رہ گیا تھا اور اس بات چیت نے ہمیں جہاں فری کر
دیا تھا وہاں مجھے بہت مزہ بھی آ رہا تھا۔ حنا کے منہ سے بھی ہلکی ہلکی سسکیاں نکل
رہی تھیں، میں نے اس امید میں اسے دھکے زور سے لگائے تھے کہ وہ مجھے بہن کی گالی
دے گی مگر اس کے منہ سے امی امی نکلا تھا۔ میں اب بات کو مزید آگے بڑھانا چاہتا
تھا، میں نے پھر اسی امید پہ ایک اور جھٹکا مارا، اس بار اس نے آآہ آآہ کیا اور
ٹانگیں اپنی پیٹ سے لگا لیں، مطلب اس کے گھٹنے اس کے پیٹ سے جا لگے اور اس نے اپنا
منہ سختی سے بند کر لیا۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور ایک لمحے کے لیے رک کہ پوچھا
جانی کیا ہوا۔۔ اس نے مصنوعی غصے سے کہا تمہاری ماں کی پھدی ہوئی ہے کہاں ہے آرام
سے کرو مگر گدھے جیسا لن میری نازک پھدی میں اتنے زور سے مارتے ہو، اس کی گالی سن
کہ مجھے بہت عجیب لگا، میں نے بھی ایک اور جھٹکا مارا اور ہنستے ہوئے اس سے کہا اب
تمہاری ماں کی پھدی تو نہیں مار سکتا جانی تیری ہی ماروں گا نا، ذرا برداشت کر اور
اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی جھٹکوں کی مشین چلا دی، اس نے بھی اپنے بازو
میرے گردن میں ڈال کہ نچلا حصہ اوپر اٹھا کر میرا ساتھ دینا شروع کر دیا، اب دو
جوان جسم ایک دوسرے کو جکڑ چکے تھے، اگلے ایک منٹ کے اندر اس کے جسم میں اکڑ پیدا
ہو چکی تھی اور اس نے میرے جسم کو دبوچا ہوا تھا، میں بھی اس کے جسم کو دبوچے اسے
چومتے جھٹکے لگا رہا تھا کہ اس کے منہ سے مجھے چومتے بے معنی سسکیاں اور آوازیں
نکلنے لگیں اور اس جا جسم ایک دم اکڑا اور وہ زور سے بولی اففف، بہن چود، میں گئی۔
اس کے بہن چود کہنے سے میری آنکھوں کے سامنے ایک دم ملائکہ کا مسکراتا ہوا چہرہ
اور موٹی سی بنڈ آنکھوں کے سامنے گھومی اور میرے لن سے منی کی پچکاریاں نکلنے لگیں
اور حنا کی پھدی کو بھرنے لگیں لیکن میری آنکھوں کے سامنے ملائکہ کی موٹی بنڈ پہ
گرنے لگیں اور میری آنکھیں بند ہوتی گئیں اور میں حنا کی پھدی میں فارغ ہوتے ہی اس
کے اوپر گرتا گیا۔
صبح جب آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ ماہم (حنا کا اصل
نام ماہم ہے، گھر میں پیار سے حنا کہتے تھے) واش روم میں نہا رہی تھی، میں بھی
اٹھا اور اس کے ساتھ شرارتیں کرتے ہوئے نہایا، ہاتھ منہ دھویا اور وہ کچن کی طرف
چل پڑی۔ (اگر میں ان سب باتوں کی تفصیل لکھوں گی تو کہانی بور اور غیر متعلقہ
باتوں میں الجھ جائے گی اس لیے صرف وہی واقعات لکھے جائیں گے جو ایک بھائی کو بہن
کی طرف لے گئے) میں بھی تھوڑی دیر بعد اٹھ کہ نیچے گیا، ناشتہ کیا اور دفتر کی طرف
نکل گیا۔ دفتر میں کام کرتے وقت کا پتہ ہی نہ چلا اور پھر دفتر سے چھٹی کر کہ میں
دو بجے نکلا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ میں نے گیٹ کھولا اور اندر داخل ہو گیا،
ہر گھر کے گیٹ میں اب یہ ہوتا ہے کہ چھوٹا گیٹ باہر سے کھول کہ اندر آ سکتے ہیں،
بہت گھروں کے گیٹس میں یہ ایک عرصہ تک سسٹم رہا ہے۔ میں گیٹ ہمیشہ آہستہ آواز میں
کھولتا تھا کہ گھر کے باقی لوگ ڈسٹرب نہ ہوں کیونکہ امی ابو بھی دوپہر کو آرام
کرتے تھے اور یہ روز مرہ کی روٹین تھی۔ میں نے آہستگی سے گیٹ کھولا اور گھر میں
داخل ہوا اور گیٹ کو بند کر کہ گھر کی اندرونی طرف بڑھا۔ میرا ارادہ یہی تھا کہ
خاموشی سے اوپر جاتا ہوں، جتنی دیر میں نہاؤں گا ماہم کھانا بنا لے گی یا گرم کر
لے گی اور یہی سوچتا میں لاونج سے گزر رہا تھا، امی ابو کے کمرے کی طرف دیکھا تو
دروازہ بند تھا جبکہ ملائکہ کے کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا جو کہ معمول
کی بات تھی۔ میں ملائکہ کے کمرے کے باہر سے گزر رہا تھا کہ اندر کسی چیز کے گرنے
کی ہلکی سی آواز آئی اور میرے بڑھتے قدم رک گئے۔ پہلے میں نے سوچا کہ چھوڑو جو بھی
گرا ہے میں نہیں دیکھتا، پھر خیال آیا کہ ایک نظر دیکھ لو، کوئی ایسی چیز نہ گری
ہو جس سے کوئی نقصان کا خطرہ ہو، یہ سوچ زہہن میں آتے ہی میں ملائکہ کے کمرے کی طرف
بڑھا اور نیم وا دروازے کو کھول کہ اندر دیکھا، میرا ارادہ تھا کہ زور سے باووو کی
آواز نکالوں گا اور اسے ڈراؤں گا، اس لیے دروازہ کھولتے ہی میں نے سانس روک کر
باووو کی آواز نکالنے کا منہ بنایا لیکن دروازہ کھلتے ہی جو منظر سامنے تھا میرا
منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میں نے شاید یہ منظر پہلے بھی کئی بار دیکھا تھا لیکن اس
میں مجھے تب کچھ عجیب یا نیا نہیں لگا تھا، لیکن کیونکہ اب سوچ بدل چکی تھی تو یہ
نظارہ بھی مجھے بہت اثر انگیز لگا۔ سامنے پلنگ پہ ملائکہ کروٹ لیے لیٹی تھی اور اس
نے ہلکے پیلے رنگ کی قمیض اور سفید رنگ کی کاٹن کی ٹراوزر نما شلوار پہن رکھی تھی
اور اس کے پاس پلنگ کے قریب ایک کتاب پڑی ہوئی تھی، شاید وہ کتاب گرنے کی آواز
مجھے آئی تھی۔ اس کی قمیض کا پچھلا دامن کروٹ لینے کی وجہ سے اس کی وسیع و عریض
گانڈ سے ہٹ چکا تھا اور سفید رنگ کی شلوار میں قید موٹی تازی گانڈ الگ ہی جوبن
دکھا رہی تھی۔ میرا منہ جو باوو کی آواز نکالنے کے لیے کھلا تھا کھلا ہی رہ گیا،
مجھے ایک سکتہ سا ہو گیا کہ جو نظارہ تھا شاید میری آنکھیں اس کی تاب نہ لا سکتی
تھیں، اس کے جسم کی اس ادا نے میرے ہوش اڑا دیے تھے۔ میرا لن اپنی ہی بہن کی گانڈ
دیکھ کر جھٹکے کھا رہا تھا اور میرے خود کو لاکھ روکنے کوسنے کے باوجود بھی میری
نظر وہاں سے نہیں ہٹ رہی تھی، نظروں کی اس کمینگی کے بعد میں خود کو کوستے ہوئے
کمرے میں داخل ہوا اور کتاب کو نیچے سے اٹھانے لگا، میں نے جھک کہ کتاب اٹھائی اور
اوپر اٹھتے ہوئے میری نظر ایک بار پھر سوئی ہوئی بہن کے جسم پہ پڑی، اس بار کیونکہ
میں زیادہ قریب سے دیکھ رہا تھا تو مجھے احساس ہوا کہ اس کی شلوار کافی نیچے تک
باندھی ہوئی ہے کیونکہ شلوار کے نیفے سے گانڈ کی درمیانی گلی جدھر سے شروع ہو رہی
تھی وہ جگہ واضح تھی، یہ نظر پڑھتے ہی میرے لن نے ایک جھٹکا کھایا اور میں وہیں
بیٹھتا چلا گیا، میرا گلا خشک ہو گیا اور سانس جیسے گلے میں اٹک گئی اور آنکھیں
بہن کی کمر اور گانڈ سے جیسے چپک گئیں۔ میں ٹکٹکی باندھے ملائکہ کی گانڈ کو دیکھنے
لگ گیا کہ اس کی گانڈ کدھر سے شروع ہو رہی ہے اور اس کی بناوٹ کیا ہے، شلوار اتنی
باریک تھی کہ جہاں سے ٹائیٹ تھی وہاں سے جسم کا گورا رنگ چھلک رہا تھا، میں دنیا
سے بے خبر بہن کے جسم کو دیکھے جا رہا تھا کہ اچانک میری نظر کمرے کے کھلے دروازے
پہ پڑی، میں تیزی سے اٹھا اور دروازے کی طرف بڑھا کہ کھلے دروازے سے اگر کوئی مجھے
دیکھ لے گا تو کیا سوچے گا، میں اٹھ کر دروازے کے پاس پہنچا تو ایک انجانی طاقت نے
مجھے پھر پیچھے مڑنے پہ مجبور کیا اور میں نے پیچھے مڑ کہ دیکھا تو میری بہن اسی
طرح بے خبر سو رہی تھی، میرے ضمیر نے مجھے بہت ملامت کرنا شروع کر دی کہ یہ کیا
کمینگی کر رہے ہو، گھر میں کوئی دیکھ لے تو کیا سوچے گا، اگر وہ جاگ جائے تو پھر
اسے کیا منہ دکھاو گے، ابھی پہلی بات بھی پرانی نہیں ہوئی، وہ یہی سوچے گی کہ تم
نے جان کہ ہاتھ مارے تھے، اس سوچ کے آتے ہی میں اس کے کمرے کے دروازے سے باہر نکلا
اور اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا، اپنے کمرے کا دروازہ میں نے آہستگی سے کھولا
تو دیکھا ماہم بھی بے سدھ سو رہی ہے، میں نے بغیر کچھ سوچے کمرے کا دروازہ بند کر
دیا اور وہی کمینی سوچ میرے زہہن میں ایک بار پھر اتر آئی کہ ماہم بھی سو رہی ہے،
امی ابو بھی کمرے میں ہیں تو کیوں نا ذرا سا ملائکہ کو اور دیکھ لیا جائے۔ تھوڑا
سا اس کا جلوہ دیکھ لینے میں کیا حرج ہے ۔۔ اس سوچ کے ساتھ ہی میں واپس مڑا لیکن
ضمیر صاحب بھی بڑے فرض شناس تھے فورا بولے ارے کمینے تیری سگی چھوٹی بہن ہے اس کو
دیکھنے چلا ہے، کچھ تو غیرت کر لے۔ لیکن دوسری سوچ بھی بڑی بھاری تھی، فورا سے
پہلے جواب آ گیا، اچھا گانڈ دیکھنے سے کیا فرق پڑ جائے گا، میں نے کون سا کچھ کرنا
ہے بہن کے ساتھ صرف گانڈ ہی دیکھنی ہے ذرا پاس بیٹھ کر، پھر بھی یہ بہت غلط بات
ہے، ضمیر نے ایک بار پھر ٹوکا، لیکن ہوس غالب رہی اور میں سیڑھیاں اتر کر نیچے آ
گیا، اپنے ہی گھر میں چوروں کی طرح گھومنا بہت عجیب لگ رہا تھا، میرا چہرہ جل رہا
تھا اور ہاتھ پاوں کانپ رہے تھے، میں نے کھڑا ہو کہ ذرا خود کو نارمل کیا اور کچن
کی طرف بڑھ گیا، کچن میں جا کہ ایک گلاس پانی پیا، اس دوران بھی میرے دل و دماغ
میں کشمکش جاری رہی لیکن آخری فتح ہوس کی ہوئی اور ایک بھائی ایک رشتے بہن کی گانڈ
کی پہاڑیوں کے پیچھے اوجھل ہو گیا اور بہن کی گانڈ کی کشش بھائی کو اس کے کمرے کے
دروازے تک لے آئی۔ میں بھی تب تک خود کو یہ سمجھا چکا تھا کہ بس تھوڑی دیر دیکھنا
ہے اور کچھ بھی نہیں بس دیکھ کہ مڑ جانا ہے، میں نے ایک گہری سانس لی اور اس کے
کمرے میں داخل ہو کہ دروازہ بند کر دیا، کمرے کی کھڑکی کے سامنے سے پردے ہٹے ہوئے
تھے جس کی وجہ سے کمرے میں تاریکی نہ تھی۔(جاری ہے)