میری پیاری بہن (قسط 3)

0

 


اس نے جب مجھے یوں کھوئے ہوئے دیکھا تو میری آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی اور بولی اوئے جناب کدھر گم ہو گئے ہو؟؟ میں نے ہڑ بڑا کر اسے دیکھا اور کہا مجھے لگا تھا میں جنت میں کسی حور کے سامنے کھڑا ہوں اس لیے گم صم ہو گیا تھا۔ ساتھ ہی میں نے پانی کی بوتل اسے پکڑا ئی وہ کھلکھلا کہ ہنس پڑی اور پانی کی بوتل ایسے ہی لے کر منہ سے لگا لی اور بوتل کے ساتھ ہی پانی پینے لگی۔ پانی پی کہ اس نے مجھے بوتل واپس تھمائی اور میں نے اسے دکھاتے ہوئے وہی بوتل اپنے منہ سے لگا لی اور پانی پینے لگا۔ میں پانی پی رہا تھا کہ اس نے بوتل کے نچلے حصے پہ مکا مارا جس سے بوتل میرے منہ سے نکل گئی اور کچھ پانی میرے اوپر گرا، وہ کھلکھلا کہ ہنس پڑی اور بولی آپ پہلی فرصت میں کسی آنکھوں والے ڈاکٹر کے پاس جانا ویسے جانا تو پاگلوں والے ڈاکٹر کے پاس بھی بنتا ہے آپ کا۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں اور مجھے پہلی بار لگا میری بہن کتنا مکمل مسکراتی ہے۔ پاگلوں والے ڈاکٹر کے پاس کیوں جاؤں اوئے منحوس لڑکی؟؟ میں نے مصنوعی غصے سے اس کی طرف دیکھا تو وہ ہنستی ہوئی میرے پاس سے گزر کہ کچن کے دروازے کی طرف بڑھ گئی اور کچن کے دروازے پہ رک کہ اس نے باہر کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف مڑی اور اپنے اوپر والے ہونٹ سے نیچے والا ہونٹ دبا کر بولی۔ وہ اس لیے جناب کہ کوئی ہوش مند بندہ بہن کے ہپس پہ مکا نہیں مارتا ہوتا، یہ کام پاگلوں کے ہی ہو سکتے ہیں۔ یہ کہہ کہ اس نے مجھے زبان نکال کہ منہ چڑھایا اور میرا جواب سنے بغیر ہی باہر بھاگ گئی، میں کچن میں ہی اس کی بات پہ حیران کھڑا رہ گیا کہ یہ چھوٹی مجھے کیا کہہ گئی ہے، خیر میں نے پانی کی بوتل بھر کہ فریج میں رکھی اور باہر چلا گیا اور امی ابو کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد حنا اور ملائکہ بھی آ گئیں اور ہم سب مل کر باتیں کرنے لگے۔ پھر وہ دونوں اٹھ کر کچن میں کھانا پکانے لگ گئیں اور میں امی ابو کے پاس بیٹھ گیا۔ میں محلے میں بہت ہی کم نکلتا تھا کیونکہ میری عمر کے لڑکے محلے میں بہت کم تھے، بہت سے لڑکے بیرون ملک نوکری کے لیے جا چکے تھے جو یہاں پہ تھے وہ بھی اپنے کام دھندے میں مصروف ہوتے تھے تو میں گھر سے کم ہی نکلتا تھا۔ امی ابو کے ساتھ باتوں میں مجھے ملائکہ کے ساتھ ہوئی وہ باتیں بھول گئیں اور میں کچھ حد تک نارمل ہو گیا۔ کھانا لگا، ہم نے کھانا کھایا اور لڑکیوں نے برتن سمیٹے اور پھر ہم مطلب میں اور حنا اٹھ کر اوپر چل دیے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے حنا کو پیچھے سے جپھی ڈال لی اور وہ بھی فوراً میری طرف مڑی اور میرے گلے لگ گئی لیکن اس کے گلے لگتے ہی مجھے پہلا جو احساس ہوا اس سے مجھے پسینہ بھی آ گیا، اس کے گلے لگتے ہی مجھے یہ محسوس ہوا کہ ارے اس کے ممیز تو فرحی سے بھی چھوٹے ہیں۔ ادھر حنا میری اندرونی کشمکش سے بے خبر میرے دل سے لگ چکی تھی اور اس نے میرے ہونٹ چوسنے شروع کر دیئے لیکن اس طرف میری حالت عجیب ہو چکی تھی، میرے بازو اس کی کمر کے گرد تھے لیکن میرے ہاتھ میں جو لمس تھا وہ حنا کے جسم کا نہ تھا، مجھے یوں لگ رہا تھا میرے بازوؤں میں میری بہن ملائکہ ہے اور وہ میرے گلے لگی ہوئی ہے جبکہ حقیقت کچھ اور تھی۔ میرے اندر کچھ عجیب سی قوت تھی مجھے جو یہ احساس دلا رہی تھی، میرے ہاتھ میں، میری انگلیوں پہ جہاں جہاں ملائکہ کا جسم لگا تھا میرا جسم اسی کو دوبارہ محسوس کر رہا تھا، حنا مائنس ہو چکی تھی اور ملائکہ حواس پہ پوری طرح سوار ہو رہی تھی، حنا پوری گرم جوشی سے مجھے چومے جا رہی تھی، وہ میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چوسے اور وہاں سے میرے گال تک پہنچتی، پھر اس نے ہونٹ چوستے چوستے مجھے دبوچ لیا اور میں بھی بے تابی سے اسے چومنے لگا اور میرے ہاتھ اس کی جسم کے کمزور نشیب و فراز میں الجھتے گئے۔ اور وقتی طور پہ میں ملائکہ کو بھولتے ہوئے اپنی بیوی کے جسم میں کھو گیا اور اسے پیار کرنے لگا۔ میں اس کے ہونٹ چوستے، اس کے گال تک پہنچا اور پھر دونوں ہاتھوں میں اس کے بتیس سائز کے گول مٹول ممیز پکڑ لیے، اس کا ایک ممہ میری مٹھی میں پورا آ جاتا تھا کیونکہ اس کے ممیز زیادہ بڑے نہیں تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم مکمل ننگے ہو چکے تھے اور وہ بالکل ننگی میرے نیچے لیٹی ہوئی تھی۔ میں نے جیسے ہی اس کی ٹانگوں کو اوپر کیا تو اس نے اپنا ایک ہونٹ دوسرے ہونٹ کے نیچے دبا کہ سسکی بھری، اس کے اس طرح کرنے سے مجھے فوراً ملائکہ کا یہ انداز یاد آ گیا اور ایک بار پھر مجھے حنا کے بجائے اپنے نیچے ملائکہ محسوس ہوئی۔ میں نے اپنے لن کو اس کی پھدی کے پتلے ہونٹوں پہ رگڑا تو حنا نے سسکتے ہوئے اپنی پھدی کو اوپر اٹھا دیا۔ میں نے لن کو پھدی کے سوراخ پہ رکھا اور حنا کے چہرے کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا خیال ہے پھر جانی۔۔ اس نے شرماتے ہوئے کہا جو آپ کا دل کرے اور آنکھیں بند کر لیں، میں نے لن کو پھدی کے سوراخ پہ دبایا تو لن کی نوک پھدی کے سوراخ میں اتری جو کہ اندر سے گیلی ہو چکی تھی، جیسے میں نے لن پہ اپنا دباؤ بڑھایا تو حنا کے چہرے پہ ہلکی تکلیف کے آثار پیدا ہوئے اور اس نے ہونٹ بھینچ لیے، اس کے اس طرح ہونٹ بھینچنے سے مجھے ایک بار پھر ملائکہ کی یاد آئی اور ایک دم مجھے بہت جوش سا آیا جس کے تحت میں نے ایک زور کا دھکا مارا جس سے میرا لن تقریباً آدھا حنا کی پھدی میں گھس گیا۔ حنا کے منہ سے ایک تیز سسکی نکلی اور اس کے چہرے پہ درد کے آثار پیدا ہوئے اور ساتھ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا اوئی "بہن چود" یہ گالی سنتے ہی مجھے بہت عجیب سا لگا، اس سے قبل ہم نے ایسے گالم گلوچ کبھی نہیں کی تھی لیکن حنا کے اس طرح کہنے پہ مجھے بہت عجیب لگا اور مزے کی شدت ایک دم بہت بڑھ گئی، میں نے اس کے ہونٹ اپنے ہونٹ میں بھرے اور اس کی ٹانگوں کو تھوڑا اور اوپر کیا اور لن کو تھوڑا پیچھے نکال کہ ایک اور زور کا جھٹکا دیا، اس بار میرا لن آدھے سے زیادہ حنا کی پھدی میں گیا اور وہ نیچے سے مچل اٹھی اور مجھے سینے پہ مکے مارنے لگی، میں نے اس کے ہونٹ چھوڑے تو وہ بہت تیز تیز سانس لینے لگی، جیسے بہت دور سے دوڑتی آئی ہو۔ اب بتاؤ مجھے گالی دو گی بدتمیز عورت۔۔ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا جو درد کے مارے بھیگ چکی تھیں۔ یہ سوال پوچھتے میرا بھی دل کر رہا تھا وہ جواب ہاں میں دے لے لیکن ظاہر ہے اس کو یہ تو نہیں بتایا جا سکتا تھا کہ مجھے گالی پسند آئی ہے۔ اس نے تیز سانسوں میں تھوڑا مسکراتے ہوئے کہا تو اتنے زور سے جھٹکا کیوں مارا تھا، پھر آرام سے نہیں کر سکتے تھے۔ ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ میں نے آدھے لن کو اس کی پھدی سے باہر کھینچا لیکن باہر نہ نکالا اور پھر ایک زوردار دھکا لگا دیا، اس بار پورا لن اس کی پھدی کی پھسلن کی وجہ سے اس کی پھدی میں اترا اور ساتھ اس کی دبی دبی چیخ نکلی اور اس چیخ کے ختم ہوتے ہی وہ پھر بولی اففف بہن چود، بہن چود، آرام سے کرو نا یہ کیا کر رہے ہو، اس کے منہ سے گالی نکلتے ہی مجھے بہت عجیب سا لگا اور مجھے یوں محسوس ہوا مزے کی ایک لہر میری کمر کے نچلے حصے سے نکلی ہے اور پورے جسم میں سرایت کر گئی ہے، میرا پورا لن اپنی بیوی کی تنگ پھدی میں گھس چکا تھا جو کہ پہلی بار تو نہ تھی لیکن اب ایک رشتے کی سوچ نے اس احساس کو بہت الگ کر دیا تھا، ایک انوکھا احساس جس کے لیے لفظ کوئی نہیں تھے، ضمیر اور دل کی کشمکش الگ تھی لیکن جسم کو ملنے والا مزہ اور تھا۔ اپنی بیوی میں اپنی ہی بہن کو محسوس کرنے کا ایک اور سا مزہ جس میں ندامت بھی تھی اور شرمندگی بھی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور منہ اوپر کر کے اس کے ہونٹ چوسنے لگ گیا، اس کی ٹانگیں اوپر اٹھی ہوئی تھیں اور میں اس کی ٹانگوں کے درمیان تھا۔ اس کے سسکتے وجود پہ میرے ہونٹ چوسنے کا مثبت اثر ہوا اور وہ جواباً مجھے چومنے لگ گئی۔ میں نے اس کے چہرے کو ہاتھوں میں بھرا اور اس کو چومنے لگا۔ اپنے اندر ایک طرح کی شرمندگی مجھے بھی تھی کہ میں یہ کیا سوچ رہا ہوں، انتہائی گھٹیا سوچ مجھ میں جانے کیوں آ رہی ہے لیکن پھدی کی جکڑ مجھے مزے اور سرور میں ڈبو رہی تھی۔ میں نے اس کے چہرے کو چومتے ہوئے لن کو آہستہ آہستہ آگے پیچھے کرنا شروع کیا تو اس کے جسم نے بھی ایک دم میرا ساتھ دینا شروع کر دیا، میں نے دیکھا تو حنا کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں اور اس نے نیچے والے ہونٹ کو اوپر والے ہونٹ سے دبایا ہوا تھا۔ میں نے تھوڑا اوپر ہوتے ہوئے اس کے ممے پکڑ کہ نچلز کو مسلنا شروع کر دیا اور اس کے چہرے کو ہونٹوں کو چوستے بھی گیا اور اس سے پوچھا میری جانی۔۔ حنا نے اسی طرح جھٹکے لیتے ہوئے بند آنکھوں کے ساتھ ہلکی سی ہوں کی، میں نے اس سے پھر پوچھا اب مزہ آ رہا ہے نا جانی کو؟؟ ساتھ میں نے ہلکے ردھم میں جھٹکے لگانا جاری رکھے اور اس کو چومتے ہوئے اس کے ممے دباتا گیا۔ اس کے چہرے پہ ایک شرمیلی سی مسکراہٹ آئی اور اس نے اپنے بازو میرے گلے میں ڈال کہ ایک لمحے کے لیے آنکھیں کھولیں اور میرے ہونٹ چومتے ہوئے بولی تو ایسے کرو گے تو مزہ ہی آئے گا نا پہلے تو بالکل جانوروں کی طرح کیا تھا۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور مصنوعی سنجیدگی طاری کرتے ہوئے کہا اوئے تم نے کس کس جانور کا لیا ہوا ہے کہ تمہیں یہ جانوروں کی طرح لگا ہے۔ اس کے چہرے پہ مسکراہٹ اور غصہ دونوں بیک وقت آئے اور اسی طرح سسکتے ہوئے بولی ہاں یہ گدھے جتنا بڑا لن ہے، بہن چود، جیسے گدھے لن نکالے پھرتے ہیں اسی طرح لمبا اور موٹا ہے میری نازک سی پھدی کی ستیاناس نکال دیتا ہے، ابھی اس کی بات جاری تھی کہ میں نے ایک اور زوردار جھٹکا لگایا اور لن کو پورا باہر کھینچ کہ زور سے دوبارہ گھسایا، میں چاہتا تھا مجھے وہ پھر گالی دے۔ لیکن اب کی بار اس کے منہ سے سسکی کے ساتھ افففف، امی ئی ئی ئی نکلا اور اس نے مجھے ٹانگوں میں دبا لیا۔ میں نے اس کے منہ سے یہ نکلتے ہی اپنے چہرے پہ سنجیدگی طاری کر لی اور اسے چومتے ہوئے کہا جانی اوئے۔۔ اس نے نیچے سے سسکتے ہوئے اون اون کی اور بند آنکھیں رکھتے ہوئے مجھے کمر پہ مکے مارنے لگی، مجھ کو بھی ہنسی آ گئی، میرا لن اس کی بھیگی ہوئی پھدی کے انتہائی اندر تھا، میں نے لن کو باہر کھینچ کر ایک اور دھکا مارا، حنا کے منہ سے ایک بار پھر افففف، امی ئی ئی ئی جی نکلا۔ اب کی بار میں نے مسکراتے ہوئے کہا جانی، یہاں خود ہی صبر کرو، امی اس وقت تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکیں گی۔ حنا نے میرے نیچے سسکتے سسکتے کہا گندے، منحوس، بے شرم انسان، کچھ تو شرم کریں، ذرا، اس کو پسینہ آ چکا تھا، اس کے بال اس کے چہرے کے گرد پھیل چکے تھے، میں نے ایک ہاتھ سے اس کے چہرے سے بال ہٹائے اور ہلکے دھکے لگانا شروع کر دیے اور ساتھ ہی اسے کہا جانی اب تم نے ہی امی امی لگا رکھا ہے، میں تمہیں یہی بتا رہا کہ یہاں تم نے خود ہی صبر کرنا ہے ان کا دور تو چلا گیا اب۔ یہ کہتے ہوئے میں ساتھ ساتھ اس کے ممے مسلتا گیا اور اس کے چہرے پہ بھی مسکراہٹ اور لطف کا انداز بنتا گیا لیکن مصنوعی غصے سے بولی بہت بد تمیز ہو آپ، کچھ بھی بولتے جاتے ہو، گدھے جیسے لن سے میری ستیاناس بھی کر رہے ہو، ساتھ بد تمیزیاں بھی کرتے ہو ۔۔(جاری ہے)

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)