میری پیاری بہن (قسط 2)

0

 

میں ان کے پیچھے کچن کے دروازے میں کھڑا بغور ان کی گانڈ کا مقابلہ کر رہا تھا کہ اچانک ملائکہ پیچھے ہٹی اور اس نے کچن کے کاؤنٹر کے نیچے بنے دراز کو جھک کر کھولا اور اس میں سے کچھ نکالنے لگی۔ اس کے اس طرح جھکنے سے اس کی گانڈ پیچھے سے باہر نکلی آئی اور مجھے اس کی درمیانی گلی کا علاقہ واضح طور پہ محسوس ہوا۔ وہ شاید دس سیکنڈ یا اس سے بھی کم وقت جھکی لیکن میری نظر جیسے اس پہ چپک سی گئی اور وہ جب اوپر ہوئی تو اس کی قمیض اور شلوار دونوں اس کے Hips کے درمیان دھنس گئیں۔ اور کچن کے دروازے پہ کھڑے ہی میں نے اس شلوار کے کپڑے کی قسمت پہ رشک کیا۔ میرے دل میں اچانک یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کاش میں اس شلوار کا کپڑا ہوتا، ہر وقت اپنی بہن کے جسم کو محسوس تو کرتا۔ جتنی شدت سے مجھے یہ خواہش آئی تھی اتنی ہی شدت سے مجھے شرمندگی نے گھیر لیا کہ کمینے انسان کچھ بھی سوچنے لگ جاتے ہو، کچھ تو شرم کرو، بہن ہے وہ تمہاری۔ اس سے پہلے کہ ضمیر صاحب میری اور چھترول کرتے کہ پیچھے مڑ کر دیکھتی حنا کی نظر مجھ پہ پڑ گئی اور وہ ہنستے ہوئے حنا سے بولی لو جی امی کا پیغام آ گیا۔ ملائکہ نے بھی مڑ کر میری طرف دیکھا اور جیسے ہی ہماری آنکھیں ملیں اس کی آنکھوں میں مجھے شرم اور ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ نظر آئی اور وہ دوسری طرف مڑتے ہوئے بولی امی کو بتائیں بس چائے پہنچنے والی ہے۔ میں نے بھی کہا امی تو کہہ رہی ہیں اتنی دیر میں تو میں پائے بھی پکا لیتی تھی جتنی دیر ان لڑکیوں نے چائے پہ لگا دی ہے، میں جا کے بتاتا ہوں ابھی کہ کہتی ہیں بیس منٹ اور ہیں۔ میری بات ختم ہوتے ہی ملائکہ فوراً پیچھے مڑی اور بولی کوئی ضرورت نہیں ہے ماسی فتنہ بننے کی، یہیں رکو اور ہمارے ساتھ ہی چائے لے کہ جانا۔ اس کے یوں کہنے پہ حنا اور میں مسکرا پڑے اور سچی بات یہی تھی کہ اس کی گانڈ میں پھنسی قمیض دیکھنے کا میرا بھی دل کر رہا تھا اور بار بار میری نظر اس پہ پڑ رہی تھی۔ ملائکہ نے پھر حنا سے کہا بھابھی آپ کپ لگا دیں، ٹرے میں چائے ابل نہ جائے، میں چائے دیکھ لیتی ہوں اور یہ کہتے ہوئے اس نے میری طرف مڑ کر بھی دیکھا جس کی مجھے بالکل توقع نہ تھی اور میں مزے سے ٹکٹکی باندھے اس کی گانڈ کے نظارے میں گم تھا۔ ملائکہ نے میری طرف دیکھا اور مجھے اپنی گانڈ کی طرف دیکھتے محسوس کر کے اس نے ایک عجیب سی نظر مجھ پہ ڈالی جس میں ہزاروں شکوے اور شکایت تھی۔ آنکھوں کی زبان دنیا کی آسان ترین زبان بھی ہے اور مشکل ترین بھی کہ اگر احساسات ملتے ہوں تو یہ زبان بہت ہی آسان ہے، احساس اور محبت نہ ہو تو یہ زبان سب سے مشکل بن جاتی ہے۔ اپنی یہ بہن کہ جو مجھے شاید اپنی جان کے برابر ہی عزیز تھی، جس سے بے انتہا پیار بھی تھا، میں اس کی نگاہ کا شکوہ ایک دم سمجھ گیا کہ اسے یوں میرا اس کا جسم دیکھنا اچھا نہیں لگا۔ اب بچی تو وہ بھی نہیں رہی تھی اور نہ میں بچہ تھا، بس ایک حادثے نے مجھے میرے مقام سے گرا دیا تھا اور افسوس یہ تھا کہ میں سنبھلنے کے بجائے مزید گرتا ہی جا رہا تھا، شاید میری بہن کی سفید گول مٹول گانڈ جس کی اٹھان برفیلے پہاڑیوں کے جیسی تھی اور جس کی گہرائی بھی ناقابل بیان کہ جس گہرائی میں گرنے والے ہمیشہ اسی گہرائی میں رہنا چاہیں۔۔۔ لیکن اس کا جسم جتنا بھی حسین ہو معاشرتی، مذہبی، اخلاقی طور پہ میرا اس پہ کوئی حق نہ تھا اور یہی ہمیں پڑھایا، سمجھایا بھی گیا تھا کہ تم اس پھل کے مالی اور رکھوالے تو ضرور ہو لیکن یہ کھانا کسی اور کے نصیب میں ہے اور بالکل اسی طرح وہ بھی جانتی تھی کہ مالی جتنا بھی توجہ دے، جتنا بھی پیار کرے، یہ پھل، یہ پہاڑیاں، یہ گہرائیاں اس کی نہیں ہیں، چھونا تو درکنار، یہ انہیں دیکھنے کا بھی حقدار نہیں تو اسی لیے معاشرتی سچائی کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا یہ عمل اپنی جگہ درست تھا، وہیں مجھے بھی یہ عمل ذلت کی گہرائی میں گراتا گیا اور مجھے اپنا آپ بہت برا اور کم ظرف محسوس ہوا، میں کچن کے دروازے میں ہی کھڑا تھا لیکن مجھ پہ جیسے گھڑوں پانی پڑ چکا تھا۔ میں اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ اچانک ملائکہ کی مسکراتی آواز میرے کانوں میں پڑی، میں نے بوکھلا کر دیکھا تو وہ میرے سامنے کھڑی تھی۔ مجھے یوں اپنی طرف دیکھتے ہوئے وہ بولی اگر آپ کا ارادہ یہیں بت بن کے کھڑے ہونے کا نہیں تو چلیں چائے تیار ہو چکی ہے۔ میں نے اس کے ہنستے چہرے اور اس کے پیچھے کھڑی حنا کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکرا رہی تھی، میں ایک دم کورنش بجا لانے والے انداز میں جھکا اور اسے فرشی سلام کرتے ہوئے بولا ملکہ عالیہ کا اقبال بلند ہو، خادم استقبال کے لیے تیار ہے۔ میرے یہ کہنے پہ حنا بھی مسکرائی، اس کے ہاتھ میں بھی ٹرے تھی اور مسکراتے ہوئے بولی آپ بہن بھائی یہاں شاہی انداز بناتے رہو، میں تو جا رہی ہوں چائے لے کر اور ہمارے پاس سے گزرتی گئی۔ ملائکہ نے اچٹتی ہوئی نظر مجھ پہ ڈالی اور وہ بھی حنا کے پیچھے چل پڑی، میں بھی ان دونوں کے پیچھے چل پڑا لیکن ایک دو قدم اٹھاتے ہی میری نظر ایک بار پھر بھٹک گئی اور سیدھی بہن کی تازہ رس بھری جوان مٹکتی ہوئی گانڈ کی اچھل کود میں کھو گئی جو اس کے ہر قدم کے ساتھ اچھل کے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ میں نے ایک بار پھر اپنی نظر کو اپنے دل کو کوسا، لیکن بہت کوشش کے باوجود بھی اپنی نظر کو وہاں سے نہ ہٹا سکا اور چلتے چلتے لاؤنج میں پہنچ گئے، وہاں امی ابو کی موجودگی کے پیش نظر میں نے آنکھیں جھکا لیں اور شریف بچہ بن کے بیٹھ گیا لیکن دل میں چور گھس چکا تھا، اس سے چھٹکارا کیسے ممکن تھا۔ میں نے جیسے ہی اپنے سامنے پڑی پیالی کو اٹھا کہ منہ سے لگایا تو اور ایک گھونٹ بھرا تو مجھے یوں لگا جیسے میں نے نمک اور مرچ سے بھری کوئی چیز پی لی ہو، میں سمجھ تو گیا کہ یہ شرارت کی گئی ہے کیونکہ باقی سب نارمل انداز میں چائے پی رہے تھے، میں نے ایک نظر سب کو دیکھا تو سبھی نارمل تھے لیکن اس دشمن جاں کے چہرے پہ دبی دبی مسکراہٹ تھی، میں سمجھ گیا کہ یہ شرارت اسی کی ہے۔ میں نے سوچا کہ بول دوں لیکن پھر کچھ سوچ کہ چپ ہو گیا اور نمک اور مرچ سے بھری چائے پینے لگا جو کہ آسان کام تو نہ تھا لیکن میں باقیوں کی طرح نارمل رہتے ہوئے چائے کے گھونٹ بھرنے لگا۔ اس دوران ہم لوگ باتیں بھی کرتے رہے، باقی سب کی چائے تقریباً ختم ہو رہی تھی جبکہ میں مشکل سے آدھا کپ پی پایا تھا، لیکن میں نے ایک دو بار ملائکہ کی طرف دیکھا جس کے چہرے پہ اب بے چینی کے تاثرات تھے اور مجھے چائے پیتا دیکھ کے وہ بار بار پہلو بدل رہی تھی لیکن میں نارمل انداز میں گھونٹ بھر رہا تھا۔ جیسے ہی ابو نے کپ نیچے چھوڑا، ملائکہ تیزی سے اٹھی اور میرے آگے سے آدھا کپ فوراً اٹھا لیا اور تھوڑا چہرے پہ جبری مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی ارے بھائی آپ نے بھی جلدی چائے ختم کر لی جب کہ ابھی آدھا کپ باقی تھا، وہ ٹرے میں باقی کپ اس طرح رکھ رہی تھی کہ میرا آدھا کپ کسی کو نظر نہ آئے۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں کے کونوں میں پانی جھلملا رہا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ میرے چپ رہنے سے اب خود پہ ناراض ہو رہی ہے اور تبھی اس نے مجھ سے آدھا کپ پکڑ لیا۔ ملائکہ کپ سمیٹ رہی تھی تو امی نے حنا سے کہا بیٹی تم میرے اور ان کے کپڑے استری کر دو اور ملائکہ تم برتن دھو کہ رکھ دو شاباش۔ فرحی تو برتن سمیٹ کر کچن کی طرف چلی گئی اور حنا کپڑے استری کرنے چلی گئی اور میں امی ابو کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگ گیا۔ دل تو میرا چاہ رہا تھا کہ جا کر فرحی کو دیکھوں لیکن میں وہاں سے نہ اٹھا۔ ہمیں باتیں کرتے کوئی پانچ منٹ گزرے تھے کہ امی نے مجھ سے کہا جاؤ فریج سے میری دوائی تو نکال لاؤ آج دن میں مجھے کھانا یاد ہی نہیں رہا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ابو نے ذرا سخت لہجے میں امی سے کہا بیگم تم کم از کم اپنا خیال تو رکھا کرو، گھر بچیوں نے سنبھالا ہوا ہے ماشااللہ سے اور تم اپنی صحت کا خیال خود کیا کرو۔ میں چپکے سے اٹھا اور کچن کی طرف چل دیا، کچن کے دروازے میں پہنچا تو ملائکہ برتن دھو رہی تھی، اس نے قدموں کی چاپ سے مڑ کر مجھے دیکھا تو اس کی آنکھیں جھلملائی ہوئی تھیں، وہ پھر برتن دھونے لگ گئی۔ میں نے کچھ بولے بغیر فریج کھول کہ امی کی دوائی اور پانی نکالا اور واپس چل دیا۔ امی کو دوائی دی اور پانی بھی دیا، انہوں نے دوائی کھا کہ مجھے دوائی اور گلاس پکڑایا اور میں وہ لے کر کچن کی طرف چل دیا، کچن کے قریب پہنچا تو ملائکہ کچن سے باہر نکل رہی تھی، مجھے دیکھتے ہی واپس پیچھے ہٹ گئی، میں جونہی کچن میں داخل ہوا اس نے ہاتھ بڑھا کہ مجھ سے گلاس اور دوائی لے لی اور گلاس کو سنک میں رکھ کہ فریج میں دوائی رکھنے لگی۔ جیسے ہی وہ فریج میں دوائی رکھنے کے لیے جھکی، میری نظر ایک بار پھر اس کی گانڈ کے درمیان پڑی اور میں وہاں کھڑا ہو کہ اسے دیکھنے لگ گیا۔ اس نے فریج کا دروازہ بند کیا اور میری طرف مڑ کہ مسکراتے ہوئے بولی کیا ایک بار مرچوں کی دھونی سے فرق نہیں پڑا جناب کو اور باز بالکل نہیں آئے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے لیکن میں نے ظاہر نہ ہونے دیا اور چہرے پہ مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا ارے گڑیا یہ تو مرچیں تھیں، تم زہر بھی پلا دو تو قسم سے ایسے ہی خوشی سے پی جاؤں۔ میری بات پوری ہوتے ہی وہ بجلی کی تیزی سے آگے ہوئی اور مجھے تھپڑ مارنے کی کوشش کی، اس کی آنکھوں میں ایک دم آنسو بھر آئے اور روئانسی آواز میں مجھے مارنے کو لپکی۔ وہ جیسے ہی میرے قریب ہوئی اور اس نے بازو مجھے مارنے کے لیے اوپر اٹھایا، میں نے وہی بازو پکڑ کہ اسے اپنے طرف کھینچ لیا اور وہ اپنے ہی زور میں میرے سینے سے آ لگی۔ جیسے ہی وہ میرے سینے سے لگی تو اس کی نرم اور موٹے تازے ممیز بھی میرے سینے سے لگے اور میں نے ایک بازو اس کی کمر کے گرد سے لپیٹا کہ اس کو اپنے ساتھ جوڑ لیا۔ ہم بہن بھائی آپس میں بہت فری تھے اور عید پہ کسی خوشی کے موقع پہ گلے مل لینا یہ عام سی بات تھی اور اس سے کبھی کوئی گندہ خیال ذہن میں نہیں آیا تھا۔ ملائکہ کے لیے تو میرے ساتھ گلے ملنا شاید نارمل بات تھی اس لیے وہ بلا جھجک میرے گلے لگ گئی، اس سے پہلے بھی ہم کئی بار گلے لگ جاتے تھے، اس میں کوئی بڑی بات تو نہ تھی بلکہ ہزاروں لاکھوں بہن بھائی صورتحال کے ساتھ گلے ملتے رہتے ہیں لیکن اس بار وہ نہیں جانتی تھی کہ میرے اندر کچھ اور ہے یا شاید جانتی بھی تھی لیکن اگنور کر رہی تھی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے گلے سے لگائے ہی اس کے نرم مموں کی نرمی اور شیپ اپنی چھاتی پہ محسوس کی اور اس کی کمر کے گرد بازو لپیٹے اس کے جسم کی نرمی کو اپنے اندر تک محسوس کیا لیکن میں ساتھ اپنے یہ جذبات اسے بھی محسوس نہیں ہونے دینا چاہتا تھا، اس لیے میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور پیار سے کہا کیا بات ہے ملائکہ اتنی جذباتی کیوں ہو رہی ہو، اس نے روتی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور میرے سینے پہ ہلکا سا مکا مارتے ہوئے بولی بدتمیز، ایک تو مرچوں والی چائے بھی پی لی اور اب فضول باتیں بھی کرتے ہو، بہت برے ہو آپ۔ میں نے دوسرا بازو بھی اس کی کمر کے گرد کس لیا اور غیر محسوس انداز میں ہاتھ تھوڑا نیچے کر لیے جس سے میرا ہاتھ اس کی گانڈ جدھر سے شروع ہوتی تھی مطلب کمر کے نچلے حصے تک پہنچ گیا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا پاگل خود سوچو نا امی کے سامنے میں بولتا تو تمہیں کتنی ڈانٹ پڑ جاتی امی ابو سے اور حنا بھی تھی تو مجھے اچھا نہیں لگا کہ امی ابو سے تمہیں ڈانٹ پڑواؤں، ذرا سا نمک مرچ ہی تو پینا تھا، وہ بھی تم نے آدھا ہی پینے دیا، میں نے بات سنجیدہ انداز میں شروع کی اور آہستہ آہستہ بات کو مذاق کے انداز میں لے گیا، اس کو بھی اندازہ ہو گیا، اس نے اپنا آپ تھوڑا مجھ سے اور پیچھے کیا تو میں نے بھی ہاتھ ڈھیلے کر دیے لیکن بازو کا حلقہ نہ توڑا، اس سے میرے ہاتھ اس کی گانڈ پہ تھوڑا اور نیچے کھسک گئے، اس کی آنکھوں سے آنسو اس کے گالوں پہ آ چکے تھے۔ میں نے پھر کہا کہ دیکھو میں نے کسی کو نہیں بتایا اب تم ایسے منہ بناؤ گی تو سب کو پتہ چل جائے گا کچھ بات ہے پھر سب کو کیا وضاحتیں دو گی، چلو اچھے بچوں کی طرح منہ دھو لو۔ اس نے میری طرف روتی ہوئی آنکھوں سے پھر ہنستے ہوئے دیکھا اور میرے سینے پہ ایک اور مکا مارا، جواب کے طور پہ میں نے بھی بازو کا حلقہ کھولا اور دائیں ہاتھ کا مکا بنا کہ وہیں پیچھے سے اس کی گانڈ پہ ہلکا سا مکا دے مارا اور کہا جلدی منہ دھو لو اس سے پہلے کہ کوئی کچن میں آ جائے، اس نے پلکیں اٹھا کہ میری طرف دیکھا اور ہلکی آواز میں بولی بدتمیز انسان۔ میں نے مسکراتے ہوئے اس کو چھوڑ دیا اور وہ کچن میں لگے واش بیسن کی طرف ہوئی تو مجھے فوراً خیال آیا کہ یہ واش بیسن کے آگے کھڑی ہو گی اور پھر جھکے گی، تو واش بیسن کے پاس پڑے فریج پہ میری نظر پڑی، وہ اس دوران دوسری طرف مڑ چکی تھی، میں تیزی سے فریج کی طرف بڑھا اور اس کا دروازہ کھولنے لگا لیکن میں نے دروازہ نہ کھولا، وہ لیکن میں نے دروازہ نہ کھولا، وہ جیسے ہی وہ منہ دھونے لگی تو منہ دھونے کے لیے وہ تھوڑی آگے کو جھکی ہوئی تھی جس سے اس کی گانڈ تھوڑی سی پیچھے کو باہر نکلی جس کے انتظار میں میں فریج کا دروازہ پکڑے کھڑا تھا اور میری توقع کے بالکل مطابق اس کی گانڈ تھوڑا پیچھے ہوئی تو میری ٹانگ اس کی گانڈ سے ٹکرائی جو اسے محسوس ہوا اور وہ منہ دھوتے دھوتے آگے ہو گئی، میرا اندازہ تھا شاید وہ آگے نہیں ہو گی لیکن جیسے ہی وہ آگے ہوئی میں نے فریج سے ہانی کی بوتل نکال لی۔ وہ بھی منہ دھو کہ واپس مڑی تو چاند چہرہ جیسے کھلا کھلا نظر آیا، اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں اور بالوں کی ایک آوارہ ماتھے پہ بھیگی ہوئی لٹ۔۔۔گورے گورے گال اور نرم نرم ہونٹ، میں تو اپنی بہن کو دیکھ کر مبہوت ہو گیا، میں نے اسے پہلی بار ایک لڑکی سمجھ کہ دیکھا تھا تو مجھے یوں لگا کہ جیسے کوئی حور میرے سامنے کھڑی ہو، میں اس کی حسن کی گہرائی میں ڈوب سا گیا۔(جاری ہے)

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)