میں نے زندگی میں آنے والے لمحات کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ زندگی اپنے اچھے برے رنگوں کے ساتھ گزرتی جاتی ہے، ہر دن اگلے دن کو جنم دیتا ہے اور ہر کہانی اگلی کہانی کو جنم دیتی ہے۔ ہمارے ارد گرد ہزاروں لاکھوں چہرے ہیں، ہر چہرے کے پیچھے ایک کہانی چھپی ہے اور ہم ہر وہی کہانی پسند کرتے ہیں جس سے ہمارا خمیر گندھا ہو، جس میں ہمیں دلچسپی ہو۔ ایسے ہی ایک کردار سے میں آپ کو اس کہانی میں ملانے جا رہی ہوں اور جس پر بیتی ہے وہی جانتا ہے حقیقت کیا ہے، ہر کسی کی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ تو چلتے ہیں کہانی کی طرف۔
میرا نام ناصر ہے اور میرا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے۔ امی ابو دونوں سرکاری ملازم ہیں اور ہم تین بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ مجھ سے بڑی دو بہنیں نصرت اور فائزہ، پھر میں اور میری بعد میں ملائکہ جو سب سے چھوٹی ہے۔
بڑی دو بہنوں کی شادی ہو چکی اور میری بھی، وہ اپنے اپنے گھر کی ہو چکی ہیں، گھر میں امی ابو، میں، میری بیوی اور ملائکہ ہوتے ہیں۔ یہ کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کی زندگی ایک سادہ زندگی تھی جس میں کوئی بھی غلطی شامل نہ تھی۔ اسکول سے کالج، یونیورسٹی اور پھر شادی، سارا کچھ ایک دم ہی ہو گیا، میں نے بھی زندگی میں کبھی کسی خرابی کی طرف بڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ تعلیم کے سولہ سال گزرنے کے بعد میری فوراً سے نوکری بھی لگ گئی، اس کے لیے میرے ابو کی بھرپور کوشش رہی اور میری نوکری لگتے ہی میری شادی کرا دی گئی جیسا کہ زیادہ تر گھروں میں یہی ہوا کرتا ہے۔ میری جب شادی ہوئی جب میری عمر تقریباً تیئس سال تھی اور میری بیوی یعنی حنا کی عمر اٹھارہ سال تھی اور میری بہن ملائکہ کی عمر سولہ سال تھی۔ میری بیوی ایک معصوم اور سادہ طبیعت کی ہے اور ملائکہ اتنی ہی شرارتی اور نٹ کھٹ سی، تو اس کے باوجود ان دونوں میں گہری دوستی ہو گئی اور زندگی اپنی تمام تر خوشیوں کے ساتھ گزرنے لگی۔ ایک دن میں تقریباً دو بجے گھر میں داخل ہوا تو گرمی کا موسم تھا اور شاید مئی کا مہینہ تھا، میں جیسے ہی گھر داخل ہوا تو گھر میں خاموشی تھی، میں نے یہی سوچا کہ سب سو چکے ہوں گے تو اپنے کمرے کی طرف بڑھتا گیا۔ ہمارا گھر دو منزلہ ہے، دو بیڈ روم، ڈرائنگ روم، کچن اور لاؤنج نیچے جبکہ تین بیڈ روم اوپر اور ہر کمرے کے ساتھ الگ باتھ روم بھی ہیں۔ میں اور حنا اوپر کے پورشن میں رہتے تھے، امی ابو نیچے ایک روم میں اور دوسرے میں ملائکہ ہوتی تھی۔ تو میں لاؤنج سے گزرا تو مجھے کچن میں کچھ آواز آئی جیسے کسی نے برتن اٹھا کر رکھے ہوں، میں دبے قدموں کچن کی طرف بڑھا، میرا ارادہ تھا کہ جو بھی کچن میں ہو گی اسے ڈراؤں گا۔ ملائکہ اور حنا تقریباً ایک جیسی ہی تھیں، تب تک میں نے ان پر اتنا غور نہیں کیا تھا، بیوی کا تو ظاہر ہے سارا جسم دیکھ چکا تھا مگر بہن کیسی دکھتی ہے یہ کبھی سوچا تک نہ تھا کہ عام طور پہ ایسی سوچ کو گندگی اور غلاظت ہی سمجھا جاتا ہے اور ایسا ہی ہے۔ میں جب کچن کے دروازے میں پہنچا تو مجھے لگا کہ حنا برتن دھو رہی ہے اور اس کی پشت میری طرف ہے، اس نے وہی کپڑے پہنے ہوئے تھے جو وہ ایک دن قبل پہنے ہوئی تھی لیکن رات کی گرم جوشی کے بعد صبح اس نے کپڑے بدل لیے تھے اور پرانے کپڑوں میں اسے دیکھ کر مجھے یہی خیال آیا کہ اس نے یہی دوبارہ کیوں پہنے ہوں گے۔ میں دبے قدموں آگے ہوا اور ہاتھ کو تیزی سے اس کے Hips کے درمیان گھسا دیا۔ میں نے یہی سمجھا تھا کہ حنا ہی ہو گی اور میرا ہاتھ لگنے سے وہ پیچھے مڑے گی تو اسے بازوؤں میں بھر لوں گا لیکن جیسے ہی میرا ہاتھ Hips کے درمیان لگا مجھے لمحے کے ہزارویں حصے میں یہ علم ہو گیا کہ یہ کم از کم حنا نہیں ہے۔ ادھر میرا ہاتھ اپنے Hips میں لگتا محسوس کر کے جیسے ہی اس کے منہ سے اوئی کی آواز نکلی اور وہ بجلی کی تیزی سے پیچھے مڑی تو میں تو جیسے کاٹو تو لہو نہیں، ایک دم ساکت، حیران اور پریشان ہو گیا اور وہ بھی، کیونکہ وہ ملائکہ تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اس کا چہرہ بھی سرخ ہو گیا اور آنکھیں نیچے جھک گئیں، مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی، ہکلاتے ہوئے میرے منہ سے یہی نکلا، سس سوری، یہ کپڑے تو حنا کے تھے۔ ہم دونوں بہن بھائی کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی اور ملائکہ کے بھی ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ ہم دونوں خاموش کھڑے تھے کہ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ بات کیا کی جائے۔ ملائکہ زمین کی طرف دیکھ رہی تھی اور ہلکے ہلکے کانپ رہی تھی، میں بھی پوری طرح بوکھلا چکا تھا، میں نے پھر کہا سوری ملائکہ، مجھے لگا کہ حنا ہے کہ کپڑے اس کے تھے، میں نے اس کی طرف دیکھا لیکن ملائکہ نے آنکھیں زمین پہ رکھتے ہی جواب دیا، کوئی بات نہیں بھیا، لیکن آپ یہ غور کر لو کہ ہم میں بہت فرق ہے، یہ غلطی پھر نہ ہو جائے۔ میں ملائکہ کی بات سن کر بہت شرمندہ ہوا اور اسے سوری کہتا ہوا تیزی سے کچن سے باہر نکل گیا۔ میں اسی طرح بوکھلایا ہوا اوپر کمرے کی طرف بھاگا کہ جیسے بھوت دیکھ لیا ہو، کمرے میں جیسے ہی داخل ہوا تو حنا سو رہی تھی، اسے سوتا دیکھ کے میں نے بھی سکون کا سانس لیا اور جوتے اتار کے جلدی سے باتھ میں گھس گیا۔ باتھ میں گھستے ہی میں نے اپنے ہاتھ کو دیکھا جسے میں نے انجانے میں اپنی ہی بہن کی گانڈ کے لمس سے آشنا کروا دیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے اپنے ہاتھ کی انگلیاں شکریہ کہتی نظر آئیں لیکن اگلے ہی لمحے ضمیر صاحب نے میری چھترول شروع کر دی کہ بے غیرت انسان، کچھ تو سوچتے ہوئے بھی سوچو کیا گندی بات سوچ رہے ہو، حرامی اور میں نے بوکھلا کر ہاتھ کمر کے پیچھے کر لیا اور پھر خود ہی اپنی اس حرکت پہ بے بسی سے ہنس پڑا۔ میری زندگی میں ایسا کچھ کبھی کسی غیر سے بھی نہیں ہوا تھا جو میری ہی حماقت سے سگی بہن کے ساتھ ہو گیا اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ملائکہ نے حنا کے کپڑے پہنے ہوں گے کیونکہ سب سے چھوٹی اور سب کی لاڈلی تھی اور اس کی الماری تو کپڑوں سے بھری ہوئی تھی اس لیے مجھے سو فیصد یقین تھا کہ یہ حنا ہی ہو گی، عام طور پہ دوپہر کے کام وہی کرتی تھی۔ میں نے باتھ میں نہانا شروع کر دیا اور ایک بار پھر غیر ارادی طور پہ میری نظر میرے ہاتھ پہ پڑی تو اس بار مجھے اپنا لن جھٹکا لیتا ہوا محسوس ہوا جس نے ایک بار پھر مجھے پریشان کر دیا۔ میں اس لمحہ بہ لمحہ بدلتی حالت سے ایک دم بہت پریشان ہو گیا، میرا دل مجھے سمجھا رہا تھا کہ جو ہوا سو ہوا اسے اب بھولنے کی کوشش کرو اور ضمیر بھی مجھے ڈانٹ رہا تھا کہ جو غلطی ہوئی وہ بس ایک غلطی تھی اور دوبارہ ایسا سوچنا بھی مت، لیکن کوئی ایک اور قوت تھی جو مجھے سمجھا رہی تھی، دیکھو میاں کتنی نرم بنڈ ہے، ایسی نرم بنڈ تو تمہاری بیوی کی بھی نہیں ہے، دیکھو تم نے ہاتھ لگایا تو کیسے مکھن کے جیسی نرم اور ملائم تھی، کاش کہ چھونے کے لمحات کو ذرا اور طویل کرتے۔ اس قوت کے ساتھ پھر ضمیر میاں مجھے سمجھاتے کہ بچے جو ہو گیا بہت غلط تھا لیکن ایک غلطی تھی، اسے دوبارہ نہیں دہرانا، دہرائے گا تو ذلیل ہو جائے گا۔ لیکن ساتھ وہ قوت بھی میری برداشت کا برابر امتحان لے رہی تھی کہ کاش تم اسے پیچھے سے جپھی ڈالتے اور اپنا لن اس بنڈ میں گھساتے تو لن کو بھی اس غلطی کا مزہ مل جاتا، یعنی ایک حرکت نے میری سوچ کا سارا انداز بدل دیا تھا۔ خود سے لڑتے لڑتے نہایا اور بستر پہ آ کر گر گیا، حنا بھی بدستور سو رہی تھی، انہی سوچوں میں تڑپتے جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا۔ میری جب آنکھ کھلی تو میری بیوی میرے اوپر جھکی ہوئی مسکرا رہی تھی، اس نے مجھے آنکھیں کھولتے دیکھا تو مسکراتے ہوئے میرے ناک کو اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے پکڑتے ہوئے بولی میرا سوہنا جاگ گیا اور میرے جواب کا انتظار کرنے سے پہلے ہی میرے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ لگا دیئے۔ میں نے بھی مسکراتے ہوئے اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر لیے اور انہیں چوسنے لگا۔ وہ بیڈ کے کونے پہ بیٹھی تھی اور میرے اوپر گری ہوئی تھی، اس کی گانڈ میرے لن کے پاس تھی اور ممیز میرے سینے پہ تھے لیکن پاؤں زمین کی طرف لٹکے ہوئے تھے۔ میں نے اس کے ہونٹوں کو چوستے ہوئے ایک ہاتھ سے اس کی کمر کو سہلانا شروع کر دیا۔ ہونٹ چوستے چوستے میں نے کمر کو سہلانا جاری رکھا اور ہاتھ آہستہ آہستہ نیچے کرتا گیا اور اس کے Hips کے اوپر ہاتھ رکھا، جیسے ہی میرا ہاتھ اس کی گانڈ تک پہنچا میرے ذہن میں ایک دم ملائکہ کی گانڈ کا لمس جاگا اور میرے جسم کو ایک جھٹکا لگا، میری آنکھیں ایک دم کھل گئیں اور میں نے دیکھا کہ حنا آنکھیں بند کیے میرے ہونٹ چوسنے میں مشغول ہے۔ ایک لمحے میں ہی ضمیر نے مجھے ملامت کی اور میں نے اپنی توجہ حنا کی طرف کرتے ہوئے اس کے ہونٹ چوسنا شروع کر دیے لیکن میرے ہاتھ کو بار بار یوں ہی لگتا جیسے کہ وہ ملائکہ کی گانڈ کے درمیان پھر رہے ہوں۔ حنا کی گانڈ پہ ہاتھ پھیرتے مجھے احساس ہوا کہ یہ گانڈ میری بہن کی گانڈ کی نسبت چھوٹی ہے اور اس پہ گوشت بھی نہیں، میں اپنے ذہن کو اس سوچ سے ہٹاتا لیکن اگلے ہی لمحے پھر یہ سوچ میرے ذہن میں چھا جاتی۔ حنا اس سب سے بے خبر میرے ہونٹ چوسے جا رہی تھی، اس نے پہلے میرے نچلے ہونٹ کو چوسا، پھر اوپر والے ہونٹ کو اور پھر ایک گہری سی سانس لے کر میرے ہونٹ چھوڑ دیئے اور مسکراتے ہوئے مجھے دیکھنے لگی اور بولی۔ جناب آئے اور آ کے سو گئے اور مجھے بتایا تک نہیں، ایک دم ساری بات میرے ذہن میں آ گئی کہ دن میں کیا ہوا تھا اور میں تھوڑا پریشان ہو گیا۔ وہ اسی طرح میرے اوپر جھکی ہوئی مسکرا رہی تھی، مجھ سے اور کوئی جواب نہ بن پڑا تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بس ذرا کچھ طبیعت ٹھیک نہیں تھی، سر درد تھا تو بس آ کے سو گیا کہ تم بھی سو رہی تھیں اور باقی سب بھی۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ اپنے ماتھے پہ ہلکا سا مارا اور مسکراتے ہوئے بولی، چلیں اٹھیں اب ادھر آپ کی بہن صاحبہ کے سر میں درد، ادھر جناب کے سر میں درد اور آپ کی اماں نے شور ڈال رکھا ہے کہ دونوں کو جگا کے لاؤ چائے سب مل کے پیئیں، یہ ایک نارمل بات تھی عام حالات میں لیکن کیونکہ میرے اندر چور تھا اس لیے ملائکہ کے سر میں درد کا سن کے میں اندر سے گھبرا گیا اور ہڑ بڑا کے اوپر اٹھنے کی کوشش کی لیکن کیونکہ میرے اوپر حنا تھی اس لیے مکمل اوپر نہ ہو سکا، میں نے بوکھلاہٹ میں پوچھا ملائکہ کو کیا ہوا؟ میرے اس طرح بوکھلانے سے حنا کھلکھلا کے ہنس پڑی اور میرے سر کے نیچے سے بازو گزارتے ہوئے مجھے اوپر اٹھانے لگی، میں نے بھی اس کا ساتھ دیا اور اٹھ بیٹھا کہ میری ٹانگیں بیڈ پہ لمبی تھیں اور وہ میرے گلے میں بازو ڈالے اپنی ٹانگیں نیچے لٹکائے میری طرف مڑی، میرے گلے سے لگی ہوئی تھی۔ حنا نے مسکراتے ہوئے کہا، اسے کچھ نہیں ہوا، بس یہی سر درد کا کہہ رہی تھی اور یوں چھوٹی چھوٹی بات پہ پریشان نہ ہوا کریں جانو اور مجھے کس کے گلے سے لگا لیا۔ میں نے بھی جواباً اسے جپھی ڈال لی اور دل میں سوچا جس وجہ سے پریشان ہوں تمہیں پتہ چلے تو تمہارے بھی ہوش اڑ جائیں گے۔ میں نے نارمل ہونے کے لیے اس کے گال کو چوما اور اس سے پہلے کہ مزید آگے بڑھتا وہ اچھل کے پیچھے ہو گئی اور ہنستے ہوئے بولی چلیں اب جلدی سے ہاتھ منہ دھو کے نیچے پہنچیں، میں ملائکہ کو لے کر جاتی ہوں، میں نے بھی ہنستے ہوئے اس کی طرف بازو کھولے اور اسے بازوؤں میں آنے کا اشارہ کیا لیکن اس نے منہ سے زبان نکال کے مجھے چڑھایا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ میں بھی جلدی سے بیڈ سے اٹھا اور ہاتھ منہ دھو کر نیچے اتر گیا جہاں امی لاؤنج میں بیٹھی ہوئی سبزی چھیل رہی تھیں، میں نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور پوچھا کیا حال ہے اب طبیعت کیسی ہے، ان کی نظر میں ماؤں جیسی ازلی فکر تھی۔ میں ہنستے ہوئے ان کے پاس پہنچا اور انہیں کہا ارے امی جی اب میں بالکل ٹھیک ہوں، دھوپ میں ذرا سا سر درد ہو گیا تھا۔ امی نے مجھے دلاسہ دیا اور موسم کو برا بھلا کہنے لگیں اور پھر بولیں جاؤ فریج میں تمہارے لیے شربت رکھا ہے وہ نکال کے پی لو اور ان نکمیوں سے بھی بولو کہ چائے لائیں، میں امی کے پاس سے مڑا اور کچن کی طرف جانے لگا اتنے میں سامنے سے ابو بھی آتے دکھائی دیئے۔ میں نے ان کو سلام کیا اور کچن کی طرف بڑھ گیا، کچن کے دروازے پہ پہنچا تو دونوں دوسری طرف مڑی چائے بنا رہی تھیں اور آپس میں باتیں کر رہی تھیں، میری نظر پڑی تو دونوں کی کمر میری طرف تھی، میری نظر فوراً پھسلتی ہوئی ان دونوں کی گانڈ کا موازنہ کرنے لگی اور یہ دیکھتے ہی مجھے بہت عجیب لگا کہ حنا کی نسبت ملائکہ کی گانڈ موٹی تھی حالانکہ وہ عمر میں حنا سے چھوٹی تھی لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ دو چھوٹے سائز کے تربوز کسی نے کاٹ کے پتلی کمر پہ لگا دیئے ہیں، اس کی نسبت حنا کی گانڈ چھوٹی تھی اور لمبوترے شکل میں تھی۔(جاری ہے)