بہن چود کتی بڑی شریف بن رہی تھی تیری ماں حرامزادی ۔۔ پروین آنٹی نے امی کی طرف دیکھ کر مجھے دیکھتے ہوئے کہا اور اپنی چادر اتار کہ سائیڈ پہ پھینک دی۔ میں نے جلدی سے ان کے قریب ہوتے ہوئے ان سے سرگوشی میں کہا او آہستہ بولیں امی جاگ جائیں گی ۔وہ بولیں فکر مت کرو اس پہ پورا محلہ بھی چڑھا دو تو یہ نہیں جاگے گی لسی میں شراب ملی ہوئی تھی۔ میں نے کہا آنٹی ایسا کیوں کیا آپ نے امی کو شراب کیوں پلوا دی مجھے یہ بات بہت بری لگی تھی اور میں نے آنٹی سے سخت لہجے میں یہ بات کی ۔ آنٹی نے میری طرف حیرت اور غصے سے دیکھا اور کہا ماں چود حرامی میں یہ سب تیرے لیے کر رہی ہوں اور تو مجھ پہ ہی غصہ کر رہا ہے ۔ مجھے آنٹی پہ پہلے ہی غصہ تھا جو وہ امی جو گالیاں دے رہی تھیں اور امی کو شراب پلانے والی بات تو مجھے اور بھی بہت بری لگی کہ انہوں نے کسی اور کے ساتھ مل کہ امی کو شراب پلا دی ہے۔میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن آپ بول کس طرح رہی ہین کیونکہ میں گھر میں لاڈلہ بھی تھا اور اس طرح کی بات مجھ سے کسی نے نا کی تھی اور شراب والی بات نے مجھے اور تپا دیا دیا یہ ایک بچے کی چاہت تھی جو اپنی فطری کشش کی وجہ سے ماں کے وجود میں دلچسپی تو رکھتا تھا لیکن ماں کی تزلیل بھی اسے برداشت نہ تھی۔ یہ انسانی فطرت بھی عجیب ہے کہ کچھ لمحے قبل ماں کے جسم کی طلب اب بدل چکی تھی اور مجھے کلثوم آنٹی ایک ڈائن کی طرح لگ رہی تھیں جو امی کا خون چوسنے کو تیار کھڑی ہو ۔ میں نے ان کی بات سن کہ کہا یہ آپ کس طرح بات کر رہی ہو اور امی کو گالیاں کیوں نکال رہی ہو یہ کون سا طریقہ ہے؟؟ میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس بات پہ وہ اور تپ گئین اور غصیلے لہجے میں بولیں ارے او گشتی کے بچے تو مجھے تمیز سکھائے گا اب اپنی ماں کی پھدی پہ لن کھڑا کرنے والے کنجر تیری اتنی اوقات کہ مجھ سے یوں بات کرے۔ مجھے ایک لمحے کے لیے ان کی بات سے ڈر بھی لگا کہ اگر یہ کسی سے یہ بات کر دیں تو میں تو پھنس جاؤں گا اور میں ایک لمحے کے لیے ڈر گیا اور اگلے لمحے میرے زہہن میں خیال آیا کہ اگر کسی نے پوچھا تو میں یہ کہہ دوں گا یہ مجھ سے تجوری کا پوچھ رہی تھیں میں نے نہیں بتایا تو مجھ پہ غصہ کرنے لگ گئیں ۔ یہ بات سوچتے ہی میں نے ان کی طرف تھوڑا غصے سے دیکھا اور کہا آپ یہ گھٹیا انداز میں بات مت کرو اپنا بدلہ لینا چاہتی ہو اور مجھے احمق بنا رہی ہو ساتھ ہماری تزلیل بھی کر رہی ہو میں نے آپ سے دوستی زلیل ہونے کے لیے تو نہیں کی تھی ۔ آپ ایک گندی عورت ہو مجھے تھوڑا ان کے بات کرنے سے غصہ تھا تو میں یہ سب بول گیا کلثوم أنٹی آگے بڑھی اور میرے پاس پہنچ کر مجھے ایک زوردار تھپڑ دے مارا اور دانت کچکچاتے ہوئے بولی رہے نا رنڈی کے بچے تم اور میرے سر کے بال پکڑ کر مجھے زور سے جھٹکا دیا اور ایک اور تھپڑ مار کہ بولی تم حرامزادے اس عزت اور مزے کے لائق تھے ہی نہیں ۔ اور مجھے زوردار دھکا دیا جس سے میں امی کے اوپر جا گرا ۔ کلثوم آنٹی نے ایک قہر اور نفرت بھری نگاہ مجھ پہ ڈالی اور اپنی چادر اٹھاتے ہوئے نفرت انگیز انداز میں بولی اب ساری عمر مٹھ لگاتے رہنا اس کنجری نے تم پہ تھوکنا بھی نہیں ہے ورنہ آج تمہیں جو مزہ کرواتی تم بھی سمجھ جاتے کہ مزہ کیا ہوتا ہے لیکن تم اس قابل نہیں تھے۔ میں کیونکہ آنٹی سے بہت چھوٹا تھا مجھے بہت غصہ تو تھا لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس لیے وہاں فرش پہ پڑے پڑے ہی میں نے اس کی طرف دیکھتےہوئے کہا دفع ہو جاو اپنی کتی شکل لیکر میرے گھر سے تم دوستی کے لائق نہیں تھیں میں ہی غلط تھا اس لیے تم دفع ہو جاو ، کلثوم آنٹی نے میری طرف غصے سے دیکھا اور بولی ماں کی پھدی میں وڑ میری طرف سے کتے کے بچے اور اٹھ کر باہر کی طرف چل پڑی۔ وہ جیسے ہی دروازے سے باہر نکلی میں دوڑ کہ باہر گیا اور دروازہ بند کر کے جلدی سے اندر آ گیا اور اندر داخل ہوتے ہی مجھے ایک جھٹکا سا لگا اور اندر کا منظر دیکھ کر مجھے بے اختیار چکر آ گئے ۔ امی اٹھ کہ بیٹھی ہوئی تھیں اور انہوں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھاما ہوا تھا۔ انہوں نے میری طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے انہوں نے میری طرف دیکھا اور مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا میری تو جیسے جان نکل گئی میں سمجھ گیا کہ امی سب جان گئی ہیں اور آنے والے لمحات کا تصور ہی جان لیوا تھا میری حالت تو یوں ہو گئی تھی کہ میں تھر تھر کانپنے لگا ۔ میں کانپتے ہوئے امی کے سامنے کھڑا ہوا تو انہوں نے مجھے فرش پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود فرش کی طرف
جھکائے دیکھتی رہیں میں بھی ان کے سامنے چپ چاپ بیٹھ کر فرش کو دیکھنے لگ گیا۔ کمرے میں ایک گھمبیر خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ کچھ دیر اسی چپ کے بعد امی نے خاموشی کو توڑا اور اسی طرح سر جھکائے بولنا شروع ہوئیں مین کچھ تو سمجھ گئی ہوں کہ معاملہ کیا ہے لیکن ایک بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میری تربیت میں کہاں کمی رہی جو تم مجھ سے بات کرنے کے بجائے اس کلموہی کے قریب ہوئے؟؟ مجھے ساری بات شروع سے بتاو اور کوئی جھوٹ مت بولنا سچ بولو گے تو تمہاری جان بچ جائے گی ورنہ مجھے ستر فیصد بات تو پتہ چل ہی چکی ہے امی نے سر نیچے جھکایا ہوا تھا لیکن ان کی آواز میں بہت سختی تھی میں نے ان کی طرف ڈرتے ڈرتے ایک نظر ڈالی اور پھر شروع سے آخر تک تمام بات ان کو بتا دی جس میں سکول میں ان کو یاسر والی بات پتہ چلنے سے لیکر کلثوم آنٹی تک بتانے والی ہر بات شامل تھی لیکن کلثوم آنٹی کی چودائی والی بات میں گول کر گیا امی اس دوران ناخن سے فرش پہ لکیریں لگا کر کھرچتی رہیں اور میری بات سنتی رہیں میری ساری کہانی سنانے کے دوران انہوں نے ایک بار بھی میری طرف نہ دیکھا اور نا کوئی تبصرہ کیا بس چپ چاپ میرے سے ساری بات سنتی رہیں ۔ میں جب بول کہ چپ ہوا تو انہوں نے میری طرف دیکھا اور میرے چہرے پہ انگلیوں کے شائد نشان تھے جس کو انہوں نے انگلیوں کی پوروں سے سہلایا میں نے ڈرتے ڈرتے ان کی طرف دیکھا لیکن ان کا چہرہ سپاٹ تھا مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے انہوں نے مجھے کہا علی جو بات بھی آج ادھر ہوئی ہے وہ سمجھو کہ یہیں دفن ہو گئی تم کسی سے اس بات کا زکر مت کرنا اور بالکل چپ ہو جاو میں اپنی طرف سے معاملات کو ہینڈل کر لوں گی۔ میں ڈرتے ڈرتے امی کی طرف دیکھ رہا تھا مجھے تو لگ رہا تھا بہت مار پڑے گی لیکن امی کچھ کھوئی کھوئی کسی اور ہی سوچ میں گم تھیں میں انی کے پاس بیٹھا ان کو دیکھتا رہا کہ اب وہ کیا کہتی ہیں لیکن وہ چپ بیٹھے کچھ سوچتی رہیں کافی دیر اسی طرح گزر گئی میں بھی ان کے سامنے بیٹھا رہا اب ان کو بلانے کی یا ان سے بات کرنے کی ہمت مجھے بھی نہ تھی میں ابھی تک صورتحال سے اچھی طرح واقف ہی نا ہو سکا تھا کہ ہوا کیا ہے ۔ کلثوم آنٹی کا اتنے یقین سے کہنا کہ وہ بے ہوش ہوں گی اور پھر اتنا تزلیل بھرا رویہ رکھنا اور ایسی باتیں کرنا اور پھر اٹھ کر چلی جانا اور امی کا تمام واقعہ سے واقف ہو جانا، یہ سب باتیں مجھے کنفیوز کر رہی تھیں اور میں نے بھی سب امی کو بتا دیا تھا۔ کچھ دیر بعد پھر امی نے ایک گہری سانس لی اور میری طرف دیکھا تو میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے کہا امی مجھے معاف کر دیں مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ امی نے میری آنکھوں میں کھوجتی آنکھوں سے دیکھا اور کچھ دیر میری آنکھوں میں دیکھتی رہیں ہھر بولیں تمہاری یہ پہلی غلطی ہے بیٹا اور غلطی بھی بہت بڑی ہے کوئی بھی بات ہو تمہیں یہ بات مجھے بتانا چاہیے تھی کسی اور کو نہیں ۔ ٹھیک ہے تمہاری عمر میں ایسا ہوتا ہے لیکن تم مجھے بتاتے تو میں تمہیں اچھے طریقے سے سمجھا دیتی کہ ایسا ممکن نہیں اور ہم اس کا بہتر حل نکالتے۔ وہ بول رہی تھیں اور میں ان کی طرف دیکھ رہا تھا وہ پھر بولیں ۔ دیکھو تم نے کلثوم کو موقع دیا تو وہ کس طرح کی باتیں کر رہی تھی اور اس نے تمہیں تھپڑ بھی مارا اور سوالیہ نظر سے میری طرف دیکھا اور بولیں یہ فرق ہے ماں کا اور باہر کے لوگوں کا اور یہ تمہیں پتہ چل گیا ہو گا کہ میں تمہاری بڑی غلطی بھی معاف کر رہی ہوں اور اس نے تمہیں مارا ہے۔ میں ان کی باتیں سن رہا تھا اور بولنے کو کچھ نہیں تھا تو وہ پھر بولیں اس کا تو میں اچھا بندوبست کروں گی لیکن تم اب ایسی کوئی بھی بات کوئی بھی بندہ کرے سکول میں یا کہیں بھی تو مجھے بتاؤ گے اور کسی سے کسی بات کا زکر نہیں کرو گے۔ میں نے ان سے اس بات کا وعدہ کر لیا اور کہا ٹھیک ہے امی اب ایسا ہی ہو گا میرے چہرے پہ شرمندگی کے تاثرات تھے امی نے آگے ہو کہ میرے ماتھے پہ پیار دیا اور کہا جاو اب زرا سو جاو اور یہ بات اب بھول جاو کہ ایسا کچھ ہوا تھا۔ میں امی کی بات سن کر کمرے کی طرف چلا گیا اور سوچتے سوچتے سو گیا ۔ شام میں آنکھ کھلی پھر اس کے بعد روٹین کے معاملات چلتے رہےصبح جب ہم سکول کے لیے تیار ہوئے تو میں نے دیکھا کہ امی نے ایک بڑی سی چادر سے اپنا جسم چھپانے کی کوشش کی ہے میں نے ان کی طرف حیرانی سے دیکھا اور پوچھا امی یہ کیا اتنی بڑی چادر کیوں رکھ لی ہے آپ نے؟؟ تو وہ زرا سا ہنس کہ بولیں اب چھپاوں نہیں تو تم گندے بچوں کی نظر سے کیسے بچوں گی میں ان کی بات پہ شرمندہ سا ہو گیا اور پھر ہم سکول چلے گئے سکول میں بھی جا کہ مجھے حیرت ہوئی کہ جب امی نے ہماری کلاس کو پڑھانا چھوڑ کر چھوٹی کلاس کو پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ پھر اسی روٹین میں کئی دن گزر گئے ایک دن ہم سکول سے لوٹ رہے تھے جب اپنی گلی میں داخل ہوئے تو کافی رش اور پولیس کی دو گاڑیاں بھی کھڑی تھیں ہم رش سے نکل کہ آگے آئے تو امی نے محلے کی ایک عورت سے پوچھا کیا ہوا ہے تو اس نے بتایا کہ کلثوم اپنے گھر میں کسی مرد کے ساتھ پکڑے گئی ہے اور اس کے گھر سے کوئی چرس افیون وغیرہ بھی برامد ہوئی ہے ۔ امی نے میری طرف دیکھا تو ایک لمحے میں مجھے ان کے چہرے پہ خوشی کے تاثرات نظر آئے اور پھر وہ نارمل ہو گئیں اور ہم لوگ گھر کی طرف بڑھ گئے
