بس ڈرامہ ہی کرتے رہنا اور کچھ نا سوچنا کبھی یہ دماغ سوچنے کے لیے ہوتا ہے نا کبھی اسے استعمال بھی کیا کرو امی نے مجھے زرا تیز لہجے میں کہا۔ کیا سوچا کروں آپ ہی بتا دو نا مجھے میں نے بھی ہلکی ٹون میں کہا۔ امی نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور بولیں اپنا اور بندر کا مقابلہ تو کر رہے ہو کہ میں نے بندر کو کچھ نہیں کہا لیکن یہ بھی غور کرو کہ کیوں کچھ نہیں کہا ۔ میں نے نا سمجھنے والے انداز میں ان کی طرف دیکھا تو امی نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا بندر نے مجھ سے کوئی اجازت نہیں لی تھی اور میری طرف دیکھ کر نظر جھکا لی۔ اب یہ صورتحال بہت عجیب تھی میں سوچ میں پڑ گیا کہ امی کیا کہنا چاہتی ہیں کیا میں ان سے نا پوچھا کروں؟؟ کیا مجھے سب کرنے کی اجازت دے رہی ہیں لیکن یہ وہ سوال تھے جن کا جواب میرے پاس نہیں تھا اور نا ہی میں امی سے پوچھ سکتا تھا اپنی تمام تر فرینکنس کے باوجود امی سے یہ بات پوچھنی آسان نا تھی ہلکی پھلکی چھیڑ خانی تو ہو بھی جاتی تھی اور مزاق بھی مگر اس حد تک کیا میں جا سکتا ہوں یہ مجھے یقین نہیں تھا ۔ میں نے امی کی گرف دیکھا اور سر جھکا کہ چلنے لگا امی بھی ہلکی سی مسکرا کہ چلنے لگیں اور ہماری درمیان ایک چپ سی چھا گئی۔ کچھ دیر چلنے کے بعد امی بولیں یہ بندر والی بات کسی کو نا بتانا بس اپنے تک رکھنا میں نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا ۔تھوڑا ہی آگے جا کہ دیکھا تو ابو لوگ بھی کھڑے تھے اور چھوٹی بہن کو الٹیاں ہو رہی تھیں ہم جلدی سے ان کے پاس پہنچے اور امی اس کے پاس بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر میں جب اس کی طبعیت سنبھلی تو ابو نے ہوٹل چلنے کا کہا کہ سب ہوٹل چلتے ہیں تو امی نے انہیں منع کر دیا اور کہا کہ نہیں آپ بچوں کے ساتھ انجوائے کرو میں اس کو ہوٹل لے جاتی ہوں لیکن ابو امی کو اکیلے بھیجنے پہ راضی نہ ہوئے تو میں نے کہا ابو میں بھی ہوٹل چلا جاتا ہوں امی کے ساتھ اور امی کی طرف دیکھا۔ ابو یہ بات سن کہ چپ ہوئے تو امی نے بھی ان کو کہا کہ آپ انجوائے کرو میں اور علی چلے جاتے ہیں اس کی طبعیت سنبھلی تو پھر نکل آئیں گے ۔ اس بات پہ ابو نے اتفاق کر لیا اور ہم واپس ہوٹل کی طرف لوٹ آئے ۔ ہوٹل تک پہنچتے پہنچتے چھوٹی سو چکی تھی ہم باری باری اسے اٹھا کر ہوٹل کے کمرے میں پہنچ گئے ہم نے کمرے کی چابی لی اور کمرے میں داخل ہو کہ میں نے دروازہ بند کر دیا اور امی چھوٹی کو بیڈ پہ لیٹا کر اس کے ساتھ بیڈ پہ لیٹ گئیں
امی چھوٹی کے ساتھ بیڈ پہ لیٹ گئیں اور میں جوتے اتار کر کمرے میں سنگل صوفے پہ بیٹھ گیا ہمارے درمیان ایک چپ سی چھائی ہوئی تھی مین نے امی کی طرف دیکھا تو ان کا لباس بے ترتیب ہو رہا تھا اور وہ چپ لیٹی ہوئی تھیں میں بھی تھوڑی دیر چپ رہا اور پھر اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کی طرف چلا گیا اور پردہ ہٹا کر باہر دیکھنے لگ گیا۔ ہوٹل ایک پہاڑی پہ بنا ہوا تھا اور کھڑکی کھولتے ہی ایک حسین منظر سامنے تھا اونچی اونچی پہاڑیاں درختوں اور سبزے سے ڈھکی ہوئی تھیں اور نیلے نیلے آسمان پہ ہلکے ہلکے بادل تیر رہے تھے اور انتہائی تازہ تازہ مہکی ہوا چل رہی تھی ۔ میں نے اس تازہ ہوا کو اپنے منہ پہ محسوس کیا اور گہری سانس لینے لگا۔ اسی دوران مجھے پیچھے کمرے میں ہلکی سی آواز آئی تو میں نے دیکھا کہ امی اٹھ کر باتھ کی طرف جا رہی ہیں اور ان کی قمیض ان کے بھاری چوتڑوں میں پھنسی ہوئی ہے میں نےجب دیکھا تو وہ باتھ کے دروازے سے اندر ہو رہی تھیں اور باتھ میں داخل ہوتے انہوں نے دروازے کو پیچھے دھکیل دیا لیکن انہوں نے دروازے کو کنڈی نا لگائی ۔ انہوں نے شائد یہی سوچا ہو گا میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوں لیکن میں نے دیکھا کہ جب انہوں نے دروازہ نہیں بند کیا تو میرے زہہن میں شرارت آ گئی ۔ میں دبے قدموں سے باتھ کی طرف بڑھا اور اس سے پہلے ایک نظر سوتی ہوئی چھوٹی بہن کو دیکھا اور پھر قدم بڑھاتا باتھ کی طرف بڑھتا گیا اور باتھ کے دروازے کو ہلکا سا پش کیا اور دروازہ نے آواز کھلتا گیا ۔ دروازے کے بالکل قریب ٹوائلٹ سیٹ تھی اور امی اس پہ بیٹھی خود کو دھو رہی تھیں ان کی پشت میری طرف تھی اور ان کی شلوار نیچے تھی اور قمیض بھی چوتڑوں سے بہت اوپر تھی اور وہ پاوں کے بل بیٹھی ہوئی تھیں ان کا منہ دوسری طرف تھا میں نے دروازہ بغیر کوئی آہٹ پیدا کیے بہت احتیاط سے کھولا تھا اور چپکے سے ان کو دیکھا لیکن میری نظر پڑتے ہی وہ میری طرف دیکھے بغیر بولیں سچ ہی کہا تھا کسی سائنسدان نے کہ انسان پہلے بندر تھا اور بندر سے انسان بنا لیکن تم انسان سے اب بندر والی حرکت کر رہے ہو بدتمیز اور یہ بھول گئے کہ میں تمہاری ماں ہوں ۔ میں یہی سمجھ رہا تھا کہ ان کو میرے دیکھنے کا علم نہیں ہو گا لیکن اس بات نے میرا زہہن فورا بدلا دیا اور میں نے دیکھا کہ ان کی بات میں غصہ نہیں ہے تو میرا بھی ڈر ختم ہو گیا۔ میں نے بھی وہیں کھڑے کھڑے ان کے ننگے بدن کو دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے کوئی افسوس نہیں ہے نا ہی شرم ہے جس چیز کو دیکھ کر جانور نا صبر کر سکیں تو میں کیسے کروں۔ امی نے اوپر اٹھتے ہوئے کہا یہی تو فرق ہوتا ہے ایک انسان اور جانور میں کہ انسان خود کو قابو میں رکھے اور وہ اوپر اٹھیں اور پھر نیچے جھک کہ اپنی شلوار کو اوپر کرنے لگیں اور انہوں نے اپنی گانڈ ساری میری طرف موڑ کر ہاتھ نیچے شلوار کی طرف کئیے تو ان کی گول موٹی گانڈ ان کے جھکنے سے اس طرح کھلی کہ گانڈ کے سوراخ کے ساتھ مجھے ان کی پھدی کا بھی اچھے سے دیدار ہو گیا ۔ امی نے جب شلوار اوپر کرنے میں تاخیر کی تو میں کچھ سمجھتے کچھ نا سمجھتے ہوئے اندر داخل ہو گیا امی نے میرے قدموں کی چاپ سن کر میری طرف مڑ کہ دیکھا تو ان کے چہرے پہ شرم کے تاثرات تھے لیکن یہ بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ شلوار پوری اوپر کیوں نہیں کر رہی ہیں انہوں نے شلوار ایسے اوپر کر کہ چھوڑ دی تھی کہ ان کی گانڈ کی ادھ ننگی پہاڑیاں نظر آ رہی تھیں وہ میری طرف مڑیں تو ان کے سینے پہ میری نظر پڑی جو کہ ادھے سے زیادہ گلے سے باہر جھانک رہے تھے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئین اور میری کنپٹیاں سلگنے لگیں امی نے میری طرف دیکھا اور بولیں مجھ میں اور کلثوم میں فرق ہے اور ہمارا کوئی رشتہ بھی ہے یہ بات ہم دونوں اگر یاد رکھیں تو فائدے کی ہے لیکن یہ بات کرتے ہوئے ان کے چہرے پہ کوئی غصہ نہیں تھا۔ کلثوم آنٹی کے حوالہ سے مجھے ایک دم شرمندگی سی محسوس ہوئی اور میری آنکھیں ایک لمحے کو جھک گئیں اور مجھے تھوڑی چپ سی لگ گئی۔ میں نے کچھ پلان تو کیا ہوا نہیں تھا بس وقت کے ساتھ ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا اسے گزار رہا تھا ہم باتھ میں اتنے قریب کھڑے تھے کہ مجھے امی کی بدن کی مہک محسوس ہو رہی تھی۔ امی نے پھر بات شروع کی اور بولیں ۔ دیکھ علی میں جانتی ہوں تم جوان ہو چکے ہو اور یہ بھی سمجھتی ہوں کہ جوانی کے بہت تقاضے ہوتے ہیں لیکن ہم پہ بھی کچھ زمہ داریاں ہوتی ہیں میں تمہاری ابھی شادی کرا سکتی ہوں جہاں تم چاہو گے وہیں پہ لیکن اس کے لیے تمہیں خود پہ قابو رکھنا ہو گا اوراب تم بچے تو ہو نہیں کہ یہ باتیں نا سمجھ سکو میں ایک دوست بن کہ تمہارا ساتھ تو دے سکتی ہوں لیکن ہم کچھ حدود کے پابند بھی تو ہیں جہاں ہمیں اس رشتے کی لاج رکھنی ہے میں سر جھکائے ان کی باتیں سن رہا تھا اور میرے دل میں جو امیدوں کے چراغ تھے ایک ایک کر کہ بجھتے جا رہے تھے کبھی مجھے لگتا تھا امی مجھے اپنا آپ سونپ دیں گی اور اگلے ہی لمحے وہ مجھ سے ہزاروں میل دور ہو جاتیں تھیں۔ زبانی کلامی یہ باتیں سوچنا تو بہت آسان ہوتا ہے لیکن کسی خونی رشتے سے جسمانی تعلق بنا لینا ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے جس کے لیے تو سالوں گزر جاتے ہیں ۔ میں نے امی کی طرف دیکھا تو شائد میرے چہرے پہ لکھی ہوئی مجبوری واضح نظر آ رہی تھی میں نے ایک طرح ٹوٹے دل سے ان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ عجیب سی مسکراہٹ تھی امی واش بیسن کی طرف مڑیں اور جھک کر منہ دھونے لگیں ۔ میں نے ایک نظر امی کے پیچھے سے جھانک کر امی کا چہرہ شیشے میں دیکھا تو وہ منہ پہ صابن لگا رہی تھیں ان کی قمیض چوتڑوں سے ہٹی ہوئی اور چوتڑ بھی ادھے ننگے تھے اور میں اب ان کے پیچھے کھڑا تھا ۔ میں نے جب دیکھا کہ امی منہ پہ صابن لگا رہی ہیں تو میں فورا پاوں کے بل امی کے پیچھے نیچے بیٹھا اور ان کی شلوار کو پکڑ کر ان کے گھٹنوں تک اتار دیا اور ان کے بھاری چوتڑ سائیڈوں سے پکڑ کر اپنا منہ ان پہ رگڑنا شروع کر دیا۔ جیسے ہی میں نے ان کی شلوار اتاری ان کے منہ سے بے ساختہ ہلکی سی چیخ نکلی اور بولیں اوئے بدتمیز ابھی اتنا کچھ سمجھایا تھا مگر تمہیں کوئی اثر نہیں ہے لیکن یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا آپ مجھ سے چھڑانے کی کوئی کوشش نہ کی اور ہاتھ آگے واش بیسن پہ رکھ کہ جھک گئین میں نے اپنا منہ ان کے چوتڑوں کے ساتھ رگڑتے ہوئے کہا بس امی جتنی دیر آپ منہ دھو رہی ہیں اتنی دیر دیکھنے دو پلیز ۔۔ میری سانس اکھڑ چکی تھی اور جزبات کی شدت سے میں ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔ انہوں نے کچھ بولے بغیر اپنا منہ دھونا شروع کر دیا میں نے اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹانگوں کے درمیاں سے گزارتےہوئے ان کی پھدی کے موٹے ہونٹوں پہ رکھ دیا اور وہاں رگڑنے لگا جو کہ گیلی ہوئی تھی امی کے جسم کو ایک جھٹکا لگا مگر وہ کچھ نا بولیں اور اپنا منہ دھونے میں مصروف رہیں میں نے بھی نیچے سے ہاتھ گھسا کہ ان کی پھدی کو ہاتھ سے مسلنے کے عمل کو تیز کر دیا اور ان کی موٹی گوری گانڈ کو چومتا اور دانتوں سے ہلکا ہلکا کاٹنے لگ گیا
