آگے کیا کرنا ہے امی؟ میں نے خوش ہوتے ہوئے امی کی طرف دیکھا اور ندیدوں کی طرح ان کو تکنے لگا ۔ آگے یہ کرنا ہے کہ اب تمہیں بچا کہ رکھنا ہے کہ کلثوم جیسی کوئی ڈائن تمہارا خون نا پی جائے امی نے مسکراتے ہوئے کہا اور ایک ہاتھ میرے سر سے گزارتے ہوئے میری گردن پہ رکھ دیا میں نے ان کے بھاری جسم سے خود کو جوڑتے ہوئے ان میں پیوست کر لیا اور کہا آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی اور کچھ نہیں کہہ سکتی امی کوئی ڈائن میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ وہ ہلکی سی ہنسیں تو ان کے جسم کی لرزش مجھے اپنے سارے وجود پہ محسوس ہوئی اور وہ بولیں شکر ہے کہ مجھے وقت پہ پتہ چل گیا ورنہ تو حالات بڑے خراب ہو رہے تھے میرا بچہ مجھے ہی ننگا کروانے کے چکر میں تھا ۔ میں امی کی یہ بات سن کہ شرمندہ ہوا اور میری گرفت ان سے ڈھیلی ہو گئی ۔ انہوں نے بھی مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگیں چلو اب میں کپڑے تبدیل کر لوں میں نے امی کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی اب مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کروں۔ امی نے ایک بھرپور نظر مجھ پہ ڈالی اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑیں میں نے بھیایک لمحے کو سوچا اور پھر امی کے پیچھے ان کے کمرے کی طرف چل پڑا باقی بہن بھائی لاوئنج میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ میں امی کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا تو امی بھی الماری سے کپڑے نکالنے لگیں میں ان کے پیچھے کھڑا ہو گیا امی نے کپڑے نکال کہ میری طرف دیکھا اور سوالیہ نظروں سے بولیں اوئے بدتمیز کیا بات ہے ؟؟ میں نے جب دیکھا امی غصے میں نہیں ہیں تو میں نے دل بڑا کر کہ کہا وہ میں فری ہینڈ کا مطلب پوچھنے آیا تھا ۔ امی نے سر کو جھٹک کر زیر لب کہا چل بدتمیز نا ہو تو اور اپنی قمیض کے دامن اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑے اور اوپر کرنے لگیں لیکن اوپر کرتے کرتے رک گئیں اور میری طرف دیکھنے لگیں اور پھر بولیں ویسے یہ بہت بدتمیزی والی بات ہو جائے گی چلو بھاگو یہاں سے ۔ میں جو خوش ہو رہا تھا ایک دم میرا چہرہ اداس ہو گیا کیونکہ سارے ارمانوں پہ پانی پڑ چکا تھا میں مرے ہوئے قدموں سے اٹھا اور باہر نکلنے لگا میں دروازے سے باہر نکل ہی رہا تھا کہ امی کی آواز آئی علی۔ میں پیچھے مڑا اور دیکھا کہ امی دوسری طرف مڑی ہوئی ہیں اور ان کی قمیض اتری ہوئی ہے البتہ نچلے جسم پہ شلوار تھی میں نے امی کی گوری چکنی کمر کو دیکھا تو مجھے بہت انوکھا سا احساس ہوا بہت الگ کہ جس کےلیے کوئی الفاظ نہیں تھے۔ میں نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جی امی؟؟ امی کی آواز تھوڑی بھاری لگی انہوں نے پیچھے دیکھے بغیر مجھے کہا علی یہ برا کے ہک کھول دو اور اپنے ہاتھ سے ان کی کمر پہ لگی برا کی طرف اشارہ کیا ۔ میں تھوڑا کنفیوز ہو چکا تھا کہ امی یہ کیا کہہ رہی ہیں کیونکہ اس سے پہلے تو ہمارے درمیان ایسا کچھ نہیں ہوا تھا اور نا ہی مجھے یہ توقع تھی مین حیران سا ان کے پیچھے پہنچا اور ان کی گوری سفید کمر کو دیکھا اور کمر سے نیچے ان کے بھاری چوتڑوں پہ بھی نظر ڈالی۔ میں نے ان کی برا کے ہک کو پکڑنا چاہا تو میرا ہاتھ ان کی ننگی کمر سے ہلکا سا مس ہوا تو میرے جسم میں بجلی کی ایک لہر دوڑ گئی میں ان کے قریب ہوتے ان کی گردن کے اوپر سے ان کے ادھ ننگے مموں کو دیکھنے لگا اور برا کے ہکس کو مخالف سمت میں کھینچا جس سے ان کی برا ایک جھٹکے سے کھل گئی۔ امی سامنے کی طرف دیکھ رہی تھیں اور ان کے موٹے ممے ان کی سانس کے ساتھ ساتھ اوپر نیچے ہو رہے تھے۔ برا کے ہکس کھلتے ہی ان کی برا ڈھیلی ہوئی اور ان کے ممے آدھے سے زیادہ ننگے ہو گئے اور گورے گورے گول مموں کے اوپر براون رنگ کے نپلز پہ میری نظر پڑی تو مجھے ایک عجیب اور میٹھا سا احساس ہوا۔ امی نے برا کے اترتے ایک گہری سانس لی اور نظریں ترچھی کر کہ مجھے دیکھا اور برا کو سامنے بیڈ پہ چھوڑتے ہوئے قمیض کو اٹھانے کے لیے جھک گئیں۔ میں امی کے پیچھے کھڑا تھا تو ان کے جھکنے سے ان کی موٹی گداز گانڈ میری ٹانگوں کے ساتھ ٹکرائی اور میری للی اپنی ناتوانی کے باوجود ان کی گانڈ کے درمیان زور سے رگڑنے ہوئی جتنی اس میں ہمت تھی اور للی تقریبا ساری ان کی گانڈ کی گولائیوں کے درمیاں غائب ہو گئی۔ امی نے اسی طرح جھکے ہوئے اپنی گانڈ کی گولائیوں کو بھینچا تو میری ساری للی کو ان کی گانڈ کی نرمی اور گرمی محسوس ہوئیلیکن اپنے اناڑی پن کی وجہ سے میں کوئی بھی مزید حرکت نا کر سکا ۔
امی نے قمیض اٹھائی اور بازووں میں لیکر اسے پہننے لگیں تو میں ان کے پیچھے سے سائیڈ سے ہو کر ان کے ممے دیکھنے کی کوشش کرنے لگا جو ان کے بازو کے نیچے سے سائیڈ سے نظر آ رہے تھے مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا لیکن امی کے چپ ہونے کی وجہ سے ایک ہمت بھی مل رہی تھی کہ وہ کچھ بھی نہیں کہہ رہی ہیں انہوں نے جب قمیض پہننی شروع کی تو وہ سیدھی کھڑی ہو گئیں اور میری للی ان کی گانڈ سے باہر نکل گئی اور میں ان کے پیچھے ہی کھڑا تھا۔ امی نے قمیض پہنی لیکن اس کا دامن پیچھے سے مکمل نیچے نہ کیا اور ان کی کمر کا کچھ حصہ ننگا رہ گیا کمرے میں بالکل خاموشی تھی صرف امی کے کپڑے بدلنے کی سرسراہٹ کمرے میں گونج رہی تھی یا پھر امی کی سانسیں مجھے محسوس ہو رہی تھیں۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھائے اور پیچھے سے امی کی کمر کو پکڑا ان کے جسم کو ہلکا سا جھٹکا لگا اور انہوں نے اپنی شلوار کو سائیڈوں سے پکڑ کہ نیچے کیا اور جھک کہ شلوار اتارنے لگیں ۔۔۔ افففف امی کے اس طرح جھک کہ ننگا ہونے کا تو میں نے کبھی سوچا تک نا تھا ان کی بھاری سفید گول گانڈ ایک دم ایک جھٹکے سے اچھل کر سامنے آئی اور گانڈ کی سفید گہری پہاڑیوں کے درمیان (. ) شیپ کا گہرے براون رنگ کا سوراخ اور اس کے بالکل نیچے موٹے گہرے گلابی ہونٹوں والی پھدی جس پہ ہلکے ہلکے بال نمایاں تھے سامنے نظر آئی ۔ میں تو اس قاتلانا نظارے کی تاب نا لاتے ہوئے ایک طرح سے کومے کی حالت میں جا چکا تھا امی اسی طرح جھکی ہوئی آگے ہوئیں اور شلوار اٹھا کر پہننے لگیں اور میں پیچھے ہونق بنا ہوا ان کو دیکھتا رہا ۔ امی نے شلوار پہنی اور قمیض کا دامن کھینچ کر سیدھا کیا اور میری طرف دیکھ کہ بولیں چل ڈرپوک کہیں کا۔ اور اپنے بالوں کو ٹھیک کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکلتی گئیں اور مجھے سمجھ ہی نہ آ رہی تھی میرے ساتھ یہ سب ہوا کیا ہے۔ امی کچن کی طرف چل پڑیں اور میں بھی کچھ لمحے سوچنے کے بعد ان کی طرف چل پڑا اور کچن میں انہیں کام کرتا دیکھنے لگ گیا
قسط 12
میں امی کے پاس کچن میں چلا گیا اور جا کر ان سے باتیں کرنے لگا پھر ہم نے کھانا کھایا اور اس کے بعد عام روٹین چلتی رہی ۔ اس واقعہ کے بعد میری اور امی کی دوستی ہو گئی ہم کھل کہ بات کرنے لگے امی بھی مجھ سے مختلف باتیں شئیر کر لیتیں اور ہمارے درمیان ہنسی مزاق بھی چلتا رہتا ۔ کچھ دن بعد ہی مجھے پتہ چلا کہ ہم یہ گھر بیچ کر کسی اور جگہ منتقل ہو رہے ہیں اور ایسا ہی ہوا کہ امی ابو نے گھر تبدیل کر لیا اور اس طرح ہمارا محلہ بدل گیا اور نئے محلے میں امی مجھے زیادہ باہر نہیں گھومنے دیتی تھیں اسی طرح وقت گزرتا گیا اور ہمارے پیپر آ گئے امی اسی طرح چادر لیکر جاتی تھیں اور بڑی کلاسسز کو نہیں پڑھاتی تھیں میرے پیپرز کے بعد امی نے میرا سکول تبدیل کروا دیا اور ہم سب ایک نئے سکول میں داخل ہو گئے اس طرح میرے وہ کلاس فیلو بھی بدل گئے ۔ اب ہم ایک نئے ماحول میں تھے اسی طرح عام روٹین میں امی سے ہنسی مزاق میں سال اور گزر گیا اب میری للی بھی بڑی ہو کہ لن کی شکل اختیار کر چکی تھی اور اس کی سائیڈوں پہ ہلکے ہلکے بال بھی نمودار ہو چکے تھے اور مجھے دو تین بار اختلام بھی ہو چکا تھا اور سکول فیلوز سے بہت کچھ ہنسی مزاق میں پتہ بھی چل چکا تھا ۔ امی کے جسم سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ بھی چلتی رہتی تھی لیکن ایک حد ہمارے درمیان قائم تھی ایک پردہ درمیان میں حائل تھا۔ پھر کرتے کرتے گرمیوں میں ہمارا پروگرام مری جانے کا بن گیا اور ہم سب اپنی گاڑی میں مری روانہ ہو گئے ۔ ہمارا ارادہ وہاں تین دن رہنے کا تھا۔ ایک لمبے سفر کے بعد ہم لوگ مری پہنچے اور وہاں ایک ہوٹل میں قیام کیا ۔ تھکاوٹ کی وجہ سے پہلے دن تو ہم پہنچتے ہی مشکل سے کھانا کھا کہ لیٹ گئے اور آرام کیا۔ صبح جب ہم جاگے تو ایک حسین منظر ہماری نگاہوں کے سامنے تھا سر سبز پہاڑ اور آسمان کو چھوتے ہوئے درخت اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ایک عجیب سماں باندھ رہی تھی۔ امی ابو بھی بہت خوش تھے اور ہم بچے بھی سب بہت خوش تھے۔ ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد ہم لوگ پیدل ہی پہاڑوں میں گھومنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔ ہمارے ہوٹل کے قریب سے ہی ایک واکنگ ٹریک جنگل کی طرف بنا ہوا تھا جو اوپر پہاڑی کی طرف جا رہا تھا ہم نے اس ٹریک پہ چلنا شروع کر دیا اور سب اس ماحول سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ باقی بہن بھائی ابو کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ہوئے چلتے جا رہے تھے جبکہ امی کی رفتار بھاری ہونے کی وجہ سے کچھ کم تھی اور میں ان سے آگے مگر ان کے قریب قریب چل رہا تھا۔ وہاں ٹریک کے ارد گرد جو چیز ہمیں حیران کر رہی تھی وہ بندروں کی موجودگی تھی جہاں بندر درختوں پہ اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔ ابو لوگ ہم سے آگے آگے چل رہے تھے ہم نے پاس پانی اور دیگر سامان بھی رکھا ہوا تھا اور ہم پہاڑی پہ چڑھ رہے تھے امی بھی میرے ساتھ ماحول درختوں کی باتیں کرتی اوپر چڑھی جا رہی تھیں ان کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے ابو لوگ ہم سے کافی آگے نکل چکے تھے۔ ہم اوپر جنگل میں ایک جگہ پہنچے تو امی کچھ بے چین نظر آنے لگیں میں تھوڑی دیر تو چپ رہا لیکن پھر ان سے پوچھاکہ کیا ہوا ہے کیوں پریشان ہیں تو امی کے چہرے پہ مسکراہٹ نمودار ہوئی اور بولیں ایویں شودا نا بنا کرو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے اور میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے میرے بازو پہ ہلکا سا مکا مارا اور پھر خود بولیں یار مجھے سُوسُو آیا ہے یہی سوچ رہی تھی کہ کدھر کروں یہاں تو ٹائلٹ مشکل ہی ہو اس جنگل میں۔ میں ان کی بات پہ ہنس پڑا اور کہا ارے امی یہ پورا جنگل ہی ٹائلٹ سمجھ لیں یہاں کون ہے اور رک کر پیچھے کی طرف دیکھا تو واکنگ ٹریک بالکل ویران تھا اسی طرح میں نے پھر اوپر نظر دواڑائی اور پھر دائیں بائیں دیکھا تو صرف پرندوں اور ان کی چہکار کے سوا کوئی انسان نظر نا آیا ۔ امی نے بھی میری نظر کے تعاقب میں نظریں دوڑائی اور کہا ہاں کہتے تو تم ٹھیک ہو یہاں تو کوئی نہیں ہے ۔
یہاں کوئی نہیں ہے آپ ادھر سائیڈ پہ کر لیں میں یہاں کھڑا ہو جاتا ہوں میں نے امی کو تجویز پیش کی انہوں نے ایک بار پھر چاروں طرف دیکھا اور مطمئن ہو کر سائیڈ کی طرف چل پڑیں اور میں نے ان سے پشت کر لی اور دوسری طرف دیکھنے لگ گیا جدھر وہ گئی تھیں میں نے اس طرف اپنی کمر کر لی تا کہ ان پہ نظر نا پڑے۔ ابھی انہیں گئے ایک یا دو منٹ ہی ہوئے تھے کہ مجھے امی کی تیز چیخ سنائی دی ان کی چیخ سنتے ہی میں بجلی کی تیزی سے مڑا اور امی کی طرف دیکھا تو دوسری طرف ایک عجیب منظر تھا ایک موٹا تازہ بڑے قد کا بندر امی کے پیچھے تھا اور امی جھک کہ پاؤں سے شلوار اوپر کرنے کی
کوشش کر رہی تھیں اور بندر ان کے پیچھے لگا ہوا دھکے مار رہا تھا جیسے انہیں چود رہا ہو امی چیختے ہوئے شلوار اوپرکرنے کی کوشش کر رہی تھیں میں یہ منظر دیکھ کر ان کی طرف دوڑا اور بندر کو مارنے کے لیے کوئی چیز بھی ساتھ ڈھونڈنے لگا اور ساتھ شش شش کرتا ہوا ان کی طرف بھاگا۔ بندر نے مجھے اپنی طرف بھاگتے دیکھا تو امی کے پیچھے سے ہٹ گیا اور مجھے دیکھ کر دانت نکالتا ہوا ایک طرف اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑے بھاگ گیا۔ میں جلدی سے امی کے قریب پہنچا جو بندر سے جان چھوٹنے کے بعد اپنی شلوار اوپر کر رہی تھیں اور ایک بات پھر بہت مدت بعد مجھے امی کے جسم کا دیدار حاصل ہوا موٹی تازی سفید گانڈ دن کے اجالے میں اپنی بھرپور آب وتاب کے ساتھ چمک رہی تھی اور ان کے حصوں کے درمیان گئرے براون رنگ کی کھلی سی موری خود میں گزرے ہوئے لن کی داستان سنا رہی تھی اور سامنے ہی میری جائے پیدائش کہ جس کے ہونٹ بھی شدت استعمال سے موٹے ہو چکے تھے لیکن کچش کی بات یہ تھی کہ ان پہ کوئی بال نہیں تھا۔ میں نے ایک طویل نظر ان کے جسم پہ ڈالی جس وقت تک نظارہ سامنے تھا پھر امی نے جلدی سے شلوار اوپر کر لی ان کے بال بکھر چکے تھے انہوں نے میری طرف دیکھا اور شرمندہ ہوتے ہوئے اپنا حلیہ درست کرنے لگ گئیں اور بولیں پتہ نہیں یہ جنگلی کدھر سے آ گیا تھا افففف یہ کتنا گندہ جانور ہے۔ میں اس صورتحال پہ پہلے بوکھلایا ہوا تھا لیکن جب دیکھا کہ امی شرمندہ ہیں تو مجھے بھی ہمت مل گئی میں نے بھی امی کی طرف دیکھا اور کہا قصور جانور کا نہیں ہے اور اتنی بات کر کہ چپ ہو گیا۔ امی نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولیں تو؟؟ میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ساری غلطی آپ کے حسن کی ہے آپ کی خوبصورتی کی ہے کہ انسان تو فدا ہوتے ہیں جانور بھی نہیں رہ سکتے۔ بدتمیز انسان چپ کرتے ہو یا لگاؤں ایک امی نے مصنوعی غصے سے میری طرف آنکھیں نکالیں تو میں نے دل پہ ہاتھ رکھ کہ کہا اے خدا یہ بھی کیا انصاف ہے کہ بندر تو حسن کے نظارے سے جسم کی نرمی سے فیضیاب ہو کہ بھی بچ نکلا اور یہاں تعریف پہ بھی مار پڑنے والی ہے ۔ امی اس بات پہ پھر ہنس پڑیں اور بولیں بدتمیزی مت کرو تم بیوقوف اب ماروں گی لیکن ان کے غصے میں کوئی اصلیت نہ تھی بلکہ وہ بناوٹی غصہ کر رہی تھیں ہم نے پھر آگے کی طرف چلنا شروع کر دیا اور امی میرے آگے چلنے لگیں میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا پیچھے چلتے چلتے میری نظر جب ان کی کمر اور چوتڑوں پہ پڑی تو واپس پلٹنا جیسے بھول ہی گئی درمیانی سی کمر کے نیچے اچانک انتہائی پھیلی ہوئی چوڑی گانڈ اور اس کے موٹے الگ الگ حصے ان کے پہاڑی پہ چڑھنے کی وجہ سے باہر کو ابھرے ہوئے تھے بلکہ الگ الگ نظر بھی آ رہے تھے۔ میری نظر میں ابھی کچھ لمحے پہلے کا منظر یوں واضح ہوا کہ مجھے لگنے لگا کہ امی نے شلوار ہی نہیں پہنی ہوئی ہے ۔ میں اس نظارے میں ڈوبا ہوا ان کے پیچھے چلنے لگا اور میری نگاہ مسلسل انہی پہ تھی امی نے شاہد چلتے ہوئے کوئی بات کی لیکن میں جس نظارے میں کھویا ہوا تھا وہ میرے لیے سب سے اہم تھا اور اس سے ہٹ کر مجھے کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تھا مجھے دنیا کی سبھی رنگینیاں امی کے وجود سے لگ رہی تھیں اور میں جسم کی کشش میں کھویا ہوا تھا۔ امی چلتے چلتے رکیں اور فورا پیچھے ہی مڑیں ان کے اس طرح پیچھے مڑنے سے میں ان کو دیکھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گیا امی نے میری طرف دیکھا اور ماتھے پہ بل ڈالتے ہوئے بولیں اوہے مار کھانی ہے کیا مجھ سے؟؟ میں نے امی کی طرف دیکھا اور کہا اگر میری اوقات بندر سے بھی گئی گزری ہے تو بیشک مار لیں ۔ بدتمیز انسان کچھ شرم کرو کیوں خود کو بندر سے ملا رہے ہو امی نے اسی لہجے میں کہا۔ بندر تو مجھ سے اچھا ہے وہ اتنا کچھ کر بھی گیا مجھے دیکھنے پہ بھی ڈانٹ پڑ رہی ہے میں نے چہرے پہ مظلومیت طاری کرتے ہوئے کہا دیکھیں نا میری آنکھوں کے سامنے وہ کیا کچھ کر گیا اور اسے کچھ نہیں کہا جب کہ میں تو صرف ایک نظر دیکھتے ہی مجرم بن جاتا ہوں ۔۔ ہائے یہ کتنا ظلم ہے میرے ساتھ میں نے ڈرامہ کرنا شروع کر دیا
