گھر میں داخل ہوتے ہی امی نے اپنی چادر اتار پھینکی اور دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کر کے یاہو کا ایک نعرہ لگایا ان کی خوشی دیدنی تھی انہوں نے باقی بچوں کو کہا کہ جاو بچو کپڑے تبدیل کرو سب اور پھر میری طرف متوجہ ہوئی جو ان کے چادر سے بے نیاز جسم کو دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے مجھ پہ ایک نظر ڈالی اور میرے ہاتھ پکڑ کر مجھے گھول گھول گھومنے لگ گئیں اور پاؤں کے بل اچھلتی بھی جا رہی تھیں میں نے دیکھا تو ان کے چہرے پہ بہت خوشی تھی وہ اسی طرح ناچتے ناچتے بولیں بڑی آئی تھی کتی مجھے خراب کرنے اب اسے پتہ چلے گا کہ کیا ہوتا ہے مجھے کچھ معاملے کی سمجھ آ گئی کہ وہ کلثوم آنٹی کے پکڑے جانے سے خوش ہیں لیکن اس وقت میرے سامنے امتحان ان کے اچھلنے سے ان کے خربوز نما ممے تھے جو ہر قدم کے ساتھ ان سے زیادہ اچھل کر اپنی موجودگی اور نرمی کا احساس دلا رہے تھے جیسے ہی ایک دو بار میں نے ان کو دیکھ کر امی کی طرف دیکھا تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھیں اور پھر انہوں نے وہ سوال کیا جو مجھے کبھی خواب میں بھی نہیں آیا تھا۔ وہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولیں علی کتنی بار کلثوم سے لڑائی پہ افسوس ہوا ہے کیونکہ اس لڑائی سے تمہارا مجھے ننگا دیکھنے کا خواب تو ادھورا رہ گیا تھا۔ مجھے سوال کی توقع تو نا تھی لیکن جواب میرے پاس تو میرے دل کی آواز تھی ۔ میں نے کہا امی ایک بار بھی افسوس نہیں ہوا کوئی آپ کے بارے میں بکواس کرے تو مجھے کیسے اچھا لگ سکتا ہے میں اتنا بھی نہیں سن سکتا تھا جو انہوں نے کہا مجھے افسوس اس کا ہے کہ میری وجہ سے ان کو اس بکواس کا موقع ملا۔ امی نے میرا چہرہ اوپر کیا اور میری آنکھوں میں دیکھ کر کہا سچ کہہ رہے ہو ؟؟ میں نے بھی ان کی آنکھ میں دیکھ کر کہا امی سو فیصد سچ کہہ رہا ہوں امی نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور میری کمر کو سہلانے لگیں میرا چہرہ ان کے مموں سے زرا اوپر ان کی گردن کے پاس جا لگا اور مجھے ان کے جسم کی مہک اپنی ناک کے راستے روح تک اترتی محسوس ہوئی ان کے نرم جسم کی نرمی مجھے انگ انگ تک سرشار کر گئی اور ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں مجھے اپنی للی میں تناو محسوس ہوا ۔ جیسے ہی میری للی امی کی ٹانگ سے ٹکری انہوں نے اپنی ٹانگ پیچھے کر لی میں بھی سنبھل گیا اور دل ہی دل میں خود کو کوسا اور اپنا نچلا بدن ان سے الگ کر لیا لیکن اوپر میں ان کے سینے پہ منہ رکھے ان سے جڑا رہا ان کے دونوں بازو میرے گرد لپٹے ہوئے تھے میں نے منہ اوپر کر کہ ان کے چہرے پہ دیکھا جہاں مسکراہٹ اور خوشی کے تاثرات تھے میں نے جب منہ نیچے کیا تو میرئ نظر ان کے کھلے گلے سے ان کے مموں پہ پڑی تو مجھے جیسے سکتہ ہو گیا بھاری بھاری سفید ممے اور ان کو پنک کلر کی برا نے ہلکا سا چھپایا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود ممے آدھے سے زیادہ ننگے تھے اور مجھے واضح نظر آ رہے تھے۔ میں نے ایک گہری سانس خارج کی تو میری بدقسمتی کہ وہ سانس سیدھا ان کے مموں سے ٹکرائی ۔ میرے اناڑی پن کی وجہ سے میری گرم سانس ان کو جیسے ہی چھاتی پہ محسوس ہوئی تو وہ اچھل کہ پیچھے ہوئیں اور مجھے چھوڑ دیا اور پیچھے ہٹتے ہی اپنے گریبان میں جھانکا اور پھر شرمندہ سی زیر لب ہنسی میں بولیں بدتمیز نہ ہو تو ۔۔ اس کلموہی نے زیادہ ہی آوارہ کر دیا تھا تمہیں اچھا ہوا دفع ہوئی کنجری عورت۔ میں نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا نا جی مجھے انہوں نے کوئی آوارہ نہیں کیا تھا میں تو بس ۔۔ اب میں بے ساختگی میں یہ کہنے لگا تھا کہ مین آپ کو دیکھ کر خراب ہوا مگر پھر آدھی بات کر کہ لگا کہ امی اس پہ ناراض ہوں گھ تو میں چل کر کہ بات سوچنے لگا کہ اب کیا بات کروں؟ میرے اس طرح چپ ہونے پہ امی نے دونوں ہاتھوں سے ایک تالی بجائی اور پھر پیٹ پہ ہاتھ رکھ کہ ہنسنے لگ گئیں اور بولیں ہاں ہاں بولو نا رک کیوں گئے اس نے خراب نہیں کیا تو کس نے کیا ہے ؟؟ وہ ہنستے ہنستے دوہری ہوئیں اور میری نظر ایک بار پھر ان کے مموں پہ پڑی جو ان کے جھکنے سے واضح نظر آ رہے تھے ۔ وہ نیچے جھکی جھکی ایک دم اوپر ہوئیں اور میری نگاہ میں دیکھتے ہوئے اپنے گریبان کو دیکھا اور پھر مجھ سے بولیں باز آ جاو لڑکے میں تمہیں پیار سے سمجھا رہی ہوں میں ان کی بات سے شرمندہ تو ہوا مگر جب میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے پہ غصہ نہیں ہے تو میرا بھی خوف ختم ہو گیا میں نے کہا میں تو آپ سے بہت دور کھڑا ہوں میں نے تو کچھ نہیں کیا امی ۔ امی نے پھر اسی لہجے میں کہا ہاں یہ سامنے میرا باپ کھڑا مجھے تاڑ رہا ہے پھر ۔ میں شرمندہ ہو گیا تو وہ اور ہنسنے لگیں اور بولیں چلو اس خوشی کے موقع پہ آج تمہیں فری ہینڈ ہے میری طرف سے اور ہنس کہ سیدھی کھڑی ہو گئیں اور مجھے دیکھنے لگیں اب میری بلا جانے فری ہینڈ کس معاملے میں ہے تو میں سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگ گیا امی کے چہرے پہ شرارتی مسکراہٹ تھی مجھے یوں دیکھتے ہوئے دیکھ کر ایک بار پھر ہنس پڑیں اور بولیں بندہ وہی کام کیا کرے جو عمر کی مناسبت سے ہوں اپنے سے بڑے کام کرو گے تو ایسے ہی سوچتے رہ جاو گے ۔ اب مجھے یہ تو لگا کہ وہ مجھے چھونے سے دیکھنے سے نہیں روکیں گی لیکن یہ بھی کنفرم نہیں ہو رہا تھا کہ وہ یہی کہہ رہی ہیں یا کچھ اور کہہ رہی ہیں تو میں نے ایک جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا اور بازو کھول کہ امی سے لپٹ گیا ۔ میں نے سوچا تھا کہ اگر امی نے ڈانٹا یا روکا تو پیچھے ہٹ جاؤں گا ورنہ نہیں ہٹوں گا اور یہ سوچتے ہی میں ان سے چپک گیا اور اپنے بازو میں ان کو بھرنے کی کوشش کی لیکن ان کا بھاری وجود ظاہر ہے مجھ سے اس طرح کدھر سنبھالا جا سکتا تھا۔ میں نے جیسے ہی امی کو اپنے بازو میں پکڑا تو وہ زیر لب بولیں اففف بدتمیز بچے اتنا بھی فری ہینڈ نہیں دیا ہے مت۔ میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں سراپا شفقت اور محبت تھی اور ناراضگی کا کوئی شائبہ تک نا تھا میں یہ دیکھ کر شیر ہو گیا اور ان کے گال کو چوم لیا ان کا گال چومنے کے لیے مجھے اپنے پاؤن پہ کھڑا ہونا پڑا مگر وہ گال تھا یا جیسے مکھن اور شہد سے بنی ہوئی کوئی کریم ۔۔ میں نے ان کے گال کو چوم کہ ان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ وہی بہترین مسکراہٹ تھی اب میرا ڈر کسی حد تک ختم ہو چکا تھا اور ان کا رویہ دیکھتے ہوئے مجھے بھی حوصلہ مل رہا تھا ۔ میں نے ایک بار پھر ان کے نرم گال کو چوما اور ہاتھ ان کی کمر کے نچلے حصہ پہ لگا دئیے اور گانڈ کے اوپری حصے کو ہلکا سا دبایا اور ان کی گردن پہ ایک پیار کر دیا۔ میں بغیر کچھ بولے یہ سب کر رہا تھا اور وہ چپ چاپ میرے آگے کھڑی تھیں اور ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔ میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا امی مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں نا اب ۔امی نے ایک بھرپور نظر مجھ پہ ڈالی اور بولیں ناراض جو ہوتا ہے وہ اتنے قریب کبھی نہیں جاتا اور بس جو ہو گیا وہ ہو گیا اب آگے کیا کرنا ہے یہ اہم ہے
