انمول رشتہ قسط 01

0

 







میں جنوبی ہندوستان میں ستر کی دہائی میں پیدا ہوا. میرے والد مل میں کام کرنے والے ایک براہ راست سادھے آدمی تھے. ان میں بس ایک خرابی تھی، وہ بہت شراب پیتے تھے. اکثر رات کو بیہوشی کی حالت میں ان کو اٹھا کر بستر پر لٹانا پڑتا تھا. پر ماں کے تئیں ان کا رویہ بہت اچھا تھا اور ماں بھی انہیں بہت چاہتی تھی اور ان کا احترام کرتی تھی.میں نے بہت پہلے ماں پر ہمیشہ چھائی اداسی محسوس کر لی تھی پر بچپن میں اس کی اداسی کی وجہ سے میں نہیں جان پایا تھا. میں ماں کی ہمیشہ مدد کرتا تھا. سچ بات تو یہ ہے کہ ماں مجھے بہت اچھی لگتی تھی اور اس لئے میں ہمیشہ اس کے پاس رہنے کی کوشش کرتا تھا. ماں کو میرا بہت بنیاد تھا اور اس کا دل بہلانے کے لیے میں اس سے ہمیشہ طرح طرح کی گپپے لڑایا کرتا تھا. اسے بھی یہ اچھا لگتا تھا کیونکہ اس کی اداسی اور بوریت اس سے کافی کم ہو جاتی تھی.میرے والد صبح جلدی گھر سے نکل جاتے تھے اور دیر رات لوٹتے. فر پینا شروع کرتے اور ڈھیر ہو جاتے. ان کی شادی اب صرف برائے نام کو رہ گئی تھی، ایسا لگتا تھا. بس کام اور شراب میں ہی ان کی زندگی گزر رہی تھی اور ماں کی باقی ضروریات کو وہ نظرانداز کرنے لگے تھے. دونوں ابھی بھی باتیں کرتے ہیں، ہنستی پر ان کی زندگی میں اب محبت کے لیے جیسے کوئی مقام نہیں تھا.

میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم کام کرتا تھا. اس سے کچھ اور آمدنی ہو جاتی تھی. پر یار دوستوں میں اٹھنے بیٹھنے کا مجھے وقت ہی نہیں ملتا تھا، محبت وار تو دور رہا. جب سب سو جاتے تھے تو میں اور ماں کچن میں ٹیبل کے پاس بیٹھ کر گپپے لڑاتے. ماں کو یہ بہت اچھا لگتا تھا. اسے اب بس میرا ہی سہارا تھا اور اکثر وہ مجھے پیار سے باںہوں میں بھر لیتی اور کہتی کہ میں اس کی زندگی کا چراغ ہوں.بچپن سے میں کافی سمجھدار تھا اور دوسروں سے پہلے ہی جوان ہو گیا تھا. سولہ سال کا ہونے پر میں دھیرے دھیرے ماں کو دوسری نظروں سے دیکھنے لگا. بالغ میں داخل کے ساتھ ہی میں یہ جان گیا تھا کہ ماں بہت کشش اور منشیات ناری تھی. اس کے طویل گھنے بال اس کی کمر تک آتے تھے. اور تین بچے ہونے کے باوجود اس کا جسم بڑا کسا ہوا اور جوان عورتوں سا تھا. اپنی بڑی کالی آنکھوں سے جب وہ مجھے دیکھتی تو میرا دل دھڑکنے لگتا تھا.ہم ہر موضوع پر بات کرتے. یہاں تک کہ انفرادی باتیں بھی ایک دوسرے کو بتاتے. میں اسے اپنی عزیز ابینےتریوں کے بارے میں بتاتا. وہ شادی کے پہلے کے آپ کی زندگی کے بارے میں بات کرتی. وہ کبھی میرے والد کے خلاف نہیں بولتا کیونکہ شادی سے اسے کافی مدھر چیزیں بھی ملی تھیں جیسے کہ اس کے بچے.ماں کے تئیں بڑھتے توجہ کی وجہ سے میں اب اسی انتظار میں رہتا کہ کس طرح اسے خوش کروں تاکہ وہ مجھے باںہوں میں بھر کر لاڑ دلار کرے اور پیار سے چومے. جب وہ ایسا کرتی تو اس کے اعلی درجے سینوں کا دباؤ میری چھاتی پر محسوس کرتے ہوئے مجھے ایک عجیب گدگدی ہونے لگتی تھی. میں اس نے پہنی ہوئی ساڑی کی اور اس کی خوبصورتی کی تعریف کرتا جس سے وہ کئی بار شرما کر لال ہو جاتی. کام سے واپس آتے وقت میں نے اس کے لیے اکثر چاکلیٹ اور فولو کی وےي لے آتا. ہر اتوار کو میں نے اسے سنیما اور فر ہوٹل لے جاتا.


سنیما دیکھتے ہوئے اکثر میں بڑے معصوم انداز میں اس سے چپک کر بیٹھ جاتا اور اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیتا. جب اس نے کبھی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا تو ہمت کر کے میں اکثر اپناہاتھ اس کے کندھے پر رکھ کر اسے پاس کھیںچ لیتا اور وہ بھی میرے کندھے پر اپنا سر رکھ کر پکچر دیکھتی. اب وہ ہمیشہ اتوار کی راہ دیکھتی. خود ہی اپنی پسند کی پکچر بھی منتخب کر لیتی.پکچر کے بعد اکثر ہم ایک باغ میں گپپے مارتے ہوئے بیٹھ جاتے. ایک دوسرے سے مذاق کرتے اور كھلكھلاتے. ایک دن ماں بولی. "خوبصورت اب تو بڑا ہو گیا ہے، جلد ہی شادی کے قابل ہو جائے گا. تیرے لئے اب ایک لڑکی تلاش کرنا شروع کرتی ہوں."

میں نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے فوری طور جواب دیا. "اماں، مجھے شادی وادی نہیں کرنی، میں تو بس آپ کے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہوں." میری بات سن کر وہ حیرت حیران ہو گئی اور اپنا ہاتھ کھینچ کر سهسا چپ ہو گئی.

"کیا ہوا اماں؟ میں نے کچھ غلط کہا؟" میں نے گھبرا کر پوچھا.


وہ چپ رہی اور کچھ دیر بعد روكھے سورو میں بولی. "چلو، گھر چلتے ہیں، بہت دیر ہو گئی ہے."

میں نے من ہی من اپنے آپ کو ایسا کہنے کے لیے كوسا پر اب جب بات نکل ہی چکی تھی تو ہمت کرکے آگے کی بات بھی میں نے کہہ ڈالی. "اماں تمہیں برا لگا تو معاف کرو. پر سچ تو یہی ہے کہ میں تمہیں بہت پیار کرتا ہوں. تمہاری خوشی کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں."

کافی دیر ماں چپ رہی اور پھر اداسی کے لہجے میں بولی. "غلطی میری ہے بیٹے. یہ سب پہلے ہی مجھے بند کر دینا تھا. لگتا ہے کہ اکیلیپن کے احساس سے بچنے کیلئے میں نے تجھے زیادہ چھوٹ دے دی اس لئے تیرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں."


میں بولا. "غلط ہو یا صحیح، میں تو یہی جانتا ہوں کہ تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو."


وہ تھوڑا ناراض ہو کر بولی. "پاگلپن کی باتیں مت کرو. سچ تو یہ ہے کہ تو میرا بیٹا ہے، میری کوکھ سے جنما ہے."


میں نے ادیر ہوکر کہا. "اماں، جو ہوا سو ہوا، پر مجھ ناراض مت ہو. میں اپنا پیار نہیں دبا سکتا. تم بھی ٹھنڈے دماغ سے سوچو اور پھر بولو."


ماں بہت دیر چپ رہی اور پھر رونے لگی. میرا بھی دل بھر آیا اور میں نے اسے تسلی دینے کو کھینچ کر اپنی باںہوں میں بھر لیا. وہ چھوٹ کر بولی. "چلو، رات بہت ہو گئی ہے، اب گھر چلتے ہیں."


اس کے بعد ہمارا گھومنے جانا بند ہو گیا. میرے بہت اصرار کرنے پر بھی وہ میرے ساتھ نہیں آتی تھی اور کہتی تھی کہ میں کسی اپنی عمر کی لڑکی کے ساتھ پکچر دیکھنے جاؤں. مجھ وہ اب بھی دور رہتی تھی اور بولتی کم تھی. پر جیسے میرے دل میں ہلچل تھی ویسی ہی اس کی بھی دل میں ہوتی مجھے صاف نظر آتی تھی.


ایک دو ماہ ایسے ہی گزر گئے. اس درمیان میرا ایک چھوٹا بذنےس تھا، وہ کافی کامیاب ہوا اور میں پیسہ کمانے لگا. ایک کار بھی خرید لی. ماں مجھ سے دور ہی رہتی تھی. میرے والد نے بھی ایک بار اس سے پوچھا کہ اب وہ کیوں میرے ساتھ باہر نہیں جاتی تو وہ ٹال گئی. ایک بار اس نے ان سے کہا کہ وہ کیوں نہیں اسے گھمانے لے جاتے تو کام زیادہ ہونے کا بہانہ کر کے وہ مکر گئے. شراب پینا ان کا ویسے ہی چالو تھا. اس دن ان میں خوب جھگڑا ہوا اور آخر ماں روتے ہوئے اپنے کمرے میں گئی اور دھاڑ سے دروازہ لگا لیا.دوسرے دن بدھ کو جب میرے بھائی بہن باہر گئے تھے، میں نے ایک بار پھر ہمت کرکے اسے اتوار کو پکچر چلنے کو کہا تو وہ خاموشی مان گئی. میری خوشی کا ٹھکانا نہ رہا اور میں اس سے لپٹ گیا. اس نے بھی میرے سینے پر سر ٹکاکر آنکھیں بند کر لیں. میں نے اسے کس کر باںہوں میں بھر لیا.یہ بڑا مدھر لمحہ تھا. ہمارا تعلق گہرا ہونے کا اور مکمل بدل جانے کا یہ نشان تھا. میں نے پیار سے اس کی پیٹھ اور کندھے پر ہاتھ فےرے اور آہستہ سے اس کے کولہوں کو سہلایا. وہ کچھ نہ بولی اور مجھ اور کس کر لپٹ گی. میں نے اس کی ٹھڈڈي پکڑ کر اس کا سر اٹھایا اور اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا. "اماں، میں تجھے بہت پیار کرتا ہوں، جو بھی ہو، میں تجھے اکیلا نہیں رہنے دوں گا."

فر جھک کر میں نے اس کے گال اور آنکھیں چومي اور جرات کر کے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیے. ماں بالکل نہیں مشغول ہوئی بلکہ میرے بوسہ کا میٹھا پرتساد اس نے مجھے دیا. میری ماں کا وہ پہلا بوسہ میرے لیے امرت سے زیادہ میٹھا تھا.


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)