سوتیلی ماں اور بہن قسط ۔۔۔9

0

 












​...چاچی کے ساتھ پھر سے کھڑا ہو گیا... "چاچی! بے شرم تو مجھے بول ہی چکی ہو... اس لیے سوچا کہ تھوڑی بے شرمی کر بھی دیکھ لوں... بے شرم ہونے کا بھی الگ ہی مزہ ہے... اور ویسے بھی اس وقت یہاں ہم دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے..."

​میں نے پھر سے چاچی کے قمیض کے پلو کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر چاچی کے چوتڑ پر رکھ دیا... اور اس بار دبانے کے بجائے آہستہ آہستہ سہلانے لگا... "سمیر! پاگل مت بنو، کوئی آ گیا تو..."

​میں: "چاچی! اتنی بارش میں کون آئے گا یہاں پر... تم بس مزے لو..." میں نے آہستہ آہستہ چاچی کے چوتڑ کو سہلاتے ہوئے کہا... "پھر بھی سمیر! یہ سب ٹھیک نہیں ہے... تم بہت چھوٹے ہو... ہم دونوں کی عمر میں بہت فرق ہے..." چاچی نے تھوڑا سا ہلتے ہوئے کہا... اور اپنا ایک ہاتھ پیچھے لے جا کر میرا ہاتھ پکڑ کر ہٹانے لگیں... پر میں نے بھی اپنا ہاتھ چاچی کے چوتڑ سے نہیں ہٹایا اور آہستہ آہستہ سہلاتا ہوا بولا... "دل ہے جو جوان، عمر کا کیا رکھا ہے..." تبھی میری نظر اُس کتے کتی پر پڑی... جس کو ہم نے تھوڑی دیر پہلے دیکھا تھا... دونوں بھاگتے ہوئے آ رہے تھے... "وہ دیکھو چاچی! دونوں تو بارش میں مزے لُوٹ بھی آئے..." میری بات سن کر چاچی منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگیں... "اور ہم انسان ہو کر بھی گھٹ گھٹ کر جیتے ہیں..."

​صبا چاچی: "لیکن سمیر! مجھے ان سب کاموں سے بہت ڈر لگتا ہے..."

​میں: "ڈر، کس بات کا ڈر؟"

​صبا چاچی: "بدنامی کا ڈر... تمہیں نہیں پتا، پہلے ہی گاؤں والے میرے بارے میں کیا کیا باتیں کرتے ہیں... اور کہیں فیاض کو کچھ پتا چل گیا تو، میں تو اُسے منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہوں گی..."

​میں: "آپ فکر نہ کریں... میرے ہوتے ہوئے آپ کی طرف کوئی انگلی بھی نہیں اُٹھے گا... یہ میں وعدہ کرتا ہوں... ہم دونوں کے بیچ جو بھی ہوا ہے اور جو ہو گا... وہ سارے راز میرے دل میں دفن رہیں گے..."

​میں نے اب اپنے ہاتھ کو تھوڑی سختی سے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا... صبا چاچی بھی آہستہ آہستہ گرم ہونے لگی تھیں... اُن کی سانسیں اب تیز چل رہی تھیں... "پھر بھی سمیر! اگر کوئی اِدھر سے گزرا تو..."

​میں: "چاچی! اتنی بارش میں یہاں کون آئے گا... آپ بے فکر ہو جائیں..."

​میں نے چاچی کا ہاتھ پکڑا اور درخت کے پیچھے لے گیا... صبا چاچی بھی بنا کسی جَد و جَہد کے میرے ساتھ درخت کے تنے کے پیچھے آ گئیں... صاف ظاہر ہو گیا تھا کہ، چاچی بھی گرم ہو چکی تھیں... میں نے صبا چاچی کو اپنی بانہوں میں کستے ہوئے اپنے سے لگا لیا... "آہہہہ! کیا نرم احساس تھا... چاچی کے بڑے بڑے ممے میرے سینے میں دب گئے... اور اگلے ہی لمحے میں نے چاچی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنا شروع کر دیا... شروعات میں چاچی نے ایک دو بار اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سے الگ کر کے نا کرتے ہوئے کہا کہ کوئی آ نہ جائے..." لیکن پھر اطمینان سے اپنے ہونٹوں کو ڈھیلا چھوڑ کر مجھ سے چسوانے لگیں...

​صبا چاچی کے ہونٹوں کو چوستے ہوئے میں نے اپنے ہاتھوں کو کمر سے کھسکا کر نیچے لے جانا شروع کر دیا... اور پھر قمیض کے پلو کو اٹھاتے ہوئے چاچی کی پاجامی کے اوپر سے اُن کی چوتڑ کو دونوں ہاتھوں میں لے کر دبانا شروع کر دیا... مجھے چاچی کے جسم کا کانپنا صاف محسوس ہو رہا تھا... چاچی اب پوری طرح مست ہو چکی تھیں... اُنہوں نے بھی اپنی دونوں بانہوں کو اٹھا کر میری بانہوں کے اوپر سے نکال کر پیٹھ پر کس لیا تھا... اب میں پورے جوش کے ساتھ چاچی کی موٹی گول مٹول چوتڑ کو دبا رہا تھا، سہلا رہا تھا... اور جب میں چاچی کی چوتڑ کے دونوں حصوں کو الگ کر کے دباتا تو، چاچی نیچے سے اپنی پھدی میرے لن پر رگڑ دیتیں... ہم قریب ایسے ہی 5 منٹ تک ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوستے رہے... بارش کا شور بند ہوا تو، چاچی نے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سے الگ کیا...

​صبا چاچی: "سمیر! اب بس بھی کریں... بارش بند ہو گئی ہے... اِدھر کوئی بھی آ سکتا ہے اب... ویسے بھی اندھیرا ہو رہا ہے... اب ہمیں چلنا چاہیے..."

​مجھے بھی چاچی کی بات ٹھیک لگی... نجیبہ گھر پر اکیلے تھی... میں چاچی سے الگ ہوا، ہم دونوں درخت کے پیچھے سے نکل کر باہر آئے اور بائیک پر بیٹھ کر دوسرے گاؤں کی طرف چل پڑے... راستے میں اب گڑھوں میں پانی بھر گیا تھا... ہم کسی طرح وہاں پہنچے جہاں پر صبا چاچی نے سلائی کے لیے کپڑے دیے تھے... چاچی اندر گئیں... اور تھوڑی دیر بعد ایک شاپر لے کر باہر آ گئیں... اور بائیک کے پیچھے بیٹھتے ہوئے بولی... "اب مین روڈ کی طرف سے چلنا..."

​میں: "جی..."

​اس کے بعد ہم مین روڈ کی طرف نکل گئے... راستے میں ایک چھوٹا سا اڈہ تھا... وہاں پر ایک ہوٹل کھلا دیکھا تو، یاد آیا کہ، شاید نجیبہ نے بھی میری وجہ سے کھانا نہ کھایا ہو تو، میں نے ہوٹل کے سامنے بائیک روک دی...

​صبا چاچی: "کیا سمیر! یہاں بائیک کیوں روک دی؟"

​میں: "وہ گھر پر ابو اور اُن کی بیوی نہیں ہے... اس لیے ہوٹل سے کھانا گھر لے جاؤں گا..."

​صبا چاچی: "پاگل ہو کیا... آج میرے گھر پر کھا لینا..."

​میں: "کھا تو لوں گا... لیکن نجیبہ گھر پر اکیلے ہے... اُس نے بھی نہیں کھایا ہو گا... آپ دو منٹ رُکو... میں کھانا پیک کروا لیتا ہوں..."

​میں جلدی سے بائیک سے نیچے اُترا... اور ہوٹل سے کھانا پیک کروا کر پیسے دیے... اور کھانے والا لفافہ بھی صبا چاچی کو پکڑا دیا... قریب 10 منٹ بعد ہم اپنے گاؤں پہنچے... ہم اس بار مین روڈ سے آئے تھے... اس لیے ہمارا گھر پہلے آنا تھا... میں نے گھر کے باہر رکا ... تو صبا نیچے اُتر گئیں... میں نے بائیک سے نیچے اُتر کر صبا چاچی سے کھانا پکڑایا اور ڈور بیل بجائی... تھوڑی دیر بعد نجیبہ نے گیٹ کھولا... میں نے اُس کی طرف کھانے کا پیکٹ بڑھا دیا...

​میں: "یہ لو ہوٹل سے کھانا لایا ہوں... کھا لینا... اور ہاں میں صبا چاچی کے گھر جا رہا ہوں انھیں چھوڑنے... وہیں سے کھانا کھا کر آؤں گا... تم کھا ضرور لینا... باقی بات رات کو کریں گے..."

​میں نے ایک بار پیچھے دیکھا تو صبا گلی میں کھڑی کسی عورت سے اشارے سے کچھ بات کر رہی تھیں... اُن کا دھیان ہماری طرف نہیں تھا... میں نے نجیبہ کے گال پر ہاتھ رکھا اور پیار سے سہلاتے ہوئے کہا... "تمہیں میری قسم ہے کھانا ضرور کھا لینا... میں فیاض کے گھر سے کھانا کھا کر آؤں گا..." میرے اِس طرح نجیبہ کے گال پر ہاتھ پھیرنے سے نجیبہ کا چہرہ کِھل اُٹھا... اُس نے "ہاں" میں سر ہلایا اور میں واپس آ کر بائیک سٹارٹ کر کے بائیک پر بیٹھ گیا... صبا پیچھے بیٹھی تو ہم اُن کے گھر کی طرف چل پڑے...


​میں اور صبا چاچی اُن کے گھر پہنچے تو، صبا چاچی نے بائیک سے نیچے اُتر کر گیٹ کھولا اور میں نے بائیک اندر کر دی... جیسے ہی میں نے بائیک سے اُتر کر سٹینڈ لگانا شروع کیا تو، میری نظر کمرے کے باہر بیٹھے، فیاض کے دادا دادی پر پڑی... میں نے دیکھا کہ، فیاض کے دادا جی اب عمر کے حساب سے کافی بوڑھے ہو چکے تھے... اُن کے کندھے جھکے ہوئے تھے... اور کافی کمزور بھی لگ رہے تھے... اُن سے دعا سلام کرنے کے بعد میں صبا چاچی کے ساتھ اوپر آ گیا... اوپر چار کمرے، ایک ہال اور کچن تھا... سبھی کمروں میں اٹیچڈ باتھ روم تھے...

​میں سیدھا فیاض کے کمرے میں چلا گیا... فیاض بیڈ پر لیٹا ہوا تھا... "اور فیاض بھائی! کیسے ہو... اب طبیعت کیسی ہے تمہاری..." میں نے فیاض کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا... "یار دوا لی ہے... تھوڑی دیر بعد فرق پڑ جائے گا... اچھا یار! تم لوگ راستے میں بھیگے تو نہیں... بڑی تیز بارش شروع ہو گئی تھی..."

​میں: "نہیں، ہم ایک دکان پر رُک گئے تھے..."

​فیاض: "چلو اچھا کیا... یار میرا ایک کام ہی کر دو..."

​میں: "ہاں بولو کیا کام ہے..."

​فیاض: "یار جا کر امی سے کہہ دو... میرے لیے رات کے کھانے میں کچھ ہلکا سا بنا دیں..."

​میں: "ٹھیک ہے، کہہ دیتا ہوں..."

​میں وہاں سے نکل کر باہر آیا تو، مجھے کچن سے کچھ آواز آئی... تو میں کچن کی طرف چلا گیا... اندر صبا چاچی اُن ہی کپڑوں میں کھانا بنا رہی تھیں... "وہ فیاض کہہ رہا ہے کہ، اُس کے لیے رات کے کھانے میں کچھ ہلکا سا بنا دیں..." میں نے صبا چاچی کے پاس جاتے ہوئے کہا... اور اپنا ہاتھ صبا چاچی کی کمر پر رکھ دیا... صبا چاچی نے ایک بار میری طرف دیکھا اور آہستہ سے بولی... "فیاض کیا کر رہا ہے؟"

​میں: "بیڈ پر لیٹا ہوا ہے... بخار ہے اُسے..."

​صبا چاچی: "اُس کے لیے کھچڑی رکھی ہے..." (صبا چاچی نے کُکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا...) "اور تم کیا کھاؤ گے؟"

​میں: "جو بھی آپ بنا لیں..."

​میں نے صبا چاچی کی کمر کو آہستہ آہستہ سہلاتے ہوئے کہا... "اچھا، تم جا کر فیاض کے پاس بیٹھو... میں تھوڑی دیر میں کھانا تیار کر کے لاتی ہوں... نیچے میرے ساس سسر بھی بھوکے ہوں گے..." میں نے صبا چاچی کی کمر پر ہاتھ پھیرتے، اپنا ہاتھ نیچے لے گیا... اور اُن کے چوتڑ کے گوشت کو اپنے ہاتھ میں لے کر مسل دیا... صبا چاچی کے جسم کو جھٹکا سا لگا اور اُنہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا... "کیوں آگ لگا رہے ہو... تم تو کھانا کھا کر چلے جاؤ گے... پھر ساری رات میں تنگ ہوتی پھروں گی..."

​میں: "میرے ہوتے ہوئے تنگ ہونے کی کیا ضرورت ہے..." (میں نے صبا چاچی کو آنکھ مارتے ہوئے کہا...)

​تو صبا چاچی مسکرانے لگیں... "اب جاؤ بھی کہیں فیاض اٹھ کر اِدھر نہ آ جائے..." صبا چاچی نے میرا ہاتھ اپنی گانڈ سے ہٹاتے ہوئے کہا... تو میں بنا کچھ بولے باہر آ گیا... اور فیاض کے کمرے میں چلا گیا... فیاض سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا... قریب 15 منٹ بعد صبا چاچی فیاض کے لیے کھانا لے آئیں... اور ساتھ میں پانی کی بوتل اور گلاس بھی... صبا چاچی نے فیاض کو بیڈ پر ہی کھانا دے دیا... اور باہر جاتے ہوئے بولی... "سمیر بیٹا! تم تھوڑی دیر رُکو، پہلے میں امی ابو کو کھانا دے آؤں... پھر تمہارے لیے بھی کھانا لا دیتی ہوں..."

​میں: "جی..."

​قریب 15 منٹ بعد صبا چاچی میرے لیے بھی کھانا لے آئیں... میں نے کھانا کھایا اور ہاتھ دھو کر فیاض کے پاس آیا اور بولا... "اچھا یار! اب میں چلتا ہوں... کل ملوں گا تم سے..."

​فیاض: "اچھا ٹھیک ہے..."

​میں جیسے ہی باہر آیا تو، دیکھا کہ صبا چاچی کچن کے دروازے پر کھڑی تھیں... صبا چاچی اپنے کپڑے بدل چکی تھیں... اُنہوں نے اُس وقت پیلا رنگ کا پتلا سا شلوار قمیض پہنا ہوا تھا... اور اوپر چادر اوڑھ رکھی تھی... "جا رہے ہو؟" صبا چاچی نے مجھ سے پوچھا تو میں نے "ہاں" میں سر ہلا دیا... "چلو میں نیچے گیٹ بند کر آتی ہوں..." صبا چاچی نے فیاض کے کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا... جس کا دروازہ سردی کی وجہ سے بند تھا... صبا چاچی میرے آگے چلنے لگیں... جیسے ہی ہم آدھی سیڑھیاں اُترے تو میں نے صبا چاچی کو پیچھے سے گلے لگا لیا... میں نے اپنی بانہوں کو اُن کی بغلوں سے گزارتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو آگے لا کر اُن کے موٹے موٹے 40 سائز کے مموں کو پکڑ کر دبانا شروع کر دیا... "سییییی سمیر... رُک جاؤ نا..." صبا چاچی نے سسکتے ہوئے کہا...

​میں: "رُک تو جاتا چاچی جان... اگر نجیبہ گھر پر اکیلے نہ ہوتی..."

​صبا چاچی: "ہائے! کل آئے گا تو..."

​میں: "کل کیا چاچی جان... اب تو روز آنا جانا ہو گا..."

​صبا چاچی نے میرے ہاتھ اپنے مموں سے ہٹائے اور ایک دم سے میری طرف گھوم گئیں... اب ہم دونوں کے چہرے ایک دوسرے کی طرف تھے... سیڑھیوں پر مزید اندھیرا تھا... اور جہاں ہم کھڑے تھے... وہاں سیڑھیاں موڑ لیتی تھیں... مطلب صاف تھا کہ، نہ تو اوپر سے ہمیں کوئی بنا نیچے اُترے دیکھ سکتا تھا... اور نہ ہی نیچے سے کوئی بنا اوپر چڑھے... گھومتے ہی صبا چاچی نے میرا ایک ہاتھ پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اپنی الاسٹک والی شلوار کو کھولتے ہوئے میرا ہاتھ اندر ڈال کر اپنی پھدی پر رکھ دیا... جیسے ہی میرا ہاتھ صبا چاچی کی پھدی پر لگا تو، صبا چاچی سسکتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئیں... "دیکھ سمیر! تیری صبا چاچی کی پھدی میں کتنی آگ لگی ہے... . دیکھ کتنا پانی چھوڑ رہی ہے..." صبا چاچی نے پاگلوں کی طرح میرے گالوں اور گردن کو چومنا شروع کر دیا...

​میں نے آہستہ آہستہ صبا چاچی کی پھدی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پھدی کو دبانا شروع کر دیا... جس سے صبا چاچی کا جسم ایسے جھٹکے کھانے لگا... جیسے انھیں کرنٹ لگ گیا ہو... جیسے ہی میری انگلیوں نے صبا چاچی کی پھدی کے ہونٹوں پر دباؤ ڈالا تو، میری چاروں انگلیاں صبا چاچی کی پھدی کے پانی سے سَن گئیں... "آہہہہ چاچی! تیری پھدی تو سچ میں پانی چھوڑ رہی ہے..." میں نے صبا چاچی کی پھدی کو اور زور زور سے دبانا شروع کر دیا... صبا چاچی نے سسکتے ہوئے میرے لن کو پینٹ کے اوپر سے سہلانا شروع کر دیا...

​تبھی اوپر سے فیاض نے صبا کو پکارا... تو ہم دونوں جلدی سے ایک دوسرے سے الگ ہو گئے... "گیٹ بند کر کے آ رہی ہوں فیاض بیٹا..." صبا چاچی نے وہیں سے چلاتے ہوئے کہا... اور ہم دونوں نیچے آ گئے... میں گیٹ کھول کر باہر آیا تو، صبا چاچی نے گیٹ پر کھڑے ہوتے ہوئے کہا... "کل ضرور اِدھر کا چکر لگانا..."

​میں: "جی چاچی..."

​میں وہاں سے اپنے گھر کے طرف چل پڑا... رات کے 8 بج چکے تھے... اور باہر بارش کے بعد بے پناہ سردی ہو چکی تھی... آج میں من ہی من بہت خوش تھا... ہوتا بھی کیوں نہ، مجھے اپنے گاؤں کی سب سے امیر عورت جو مل گئی تھی... سارے راستے میں یہی سوچتا رہا کہ، وہ وقت کیسا ہو گا... جب میں صبا چاچی کی پھدی کی گرمی کو اپنے لن سے نکالوں گا... وہ منظر کیسا ہو گا... یہی سب سوچتے ہوئے میں کب اپنے گھر پہنچ گیا پتا نہیں چلا... میں نے ڈور بیل بجائی تو تھوڑی دیر بعد نجیبہ نے اندر سے آہستہ سے کہا... "کون ہے..."

​میں: "میں ہوں سمیر..."

​نجیبہ نے گیٹ کھولا تو میں اندر آ چلا گیا... نجیبہ نے گیٹ لاک کیا... اور جیسے ہی میری طرف مُڑی تو میں نے اُس سے کھانے کا پوچھا... "تم نے کھانا تو کھا لیا تھا نا؟" میری بات سن کر نجیبہ نے "ہاں" میں سر ہلا دیا... ایک بار پھر سے بارش ہونے کے آثار بن رہے تھے... میں اپنے کمرے کی طرف جانے لگا تو نجیبہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا... میں نے اُس کی طرف پلٹ کر سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تو، اُس نے اپنے گلابی ہونٹوں پر مسکان لاتے ہوئے مجھ سے کہا... "شکریہ..."

​میں: "شکریہ پر کس لیے؟"

​نجیبہ: "آپ نے میرے لیے کھانا جو بھیجا..."

​میں: "اب اس میں شکریہ بولنے والی کیا بات ہے..."

​نجیبہ: "آپ اوپر سے جتنا چاہے غصہ نکالتے ہیں... لیکن میں جانتی ہوں کہ، آپ کو میری بہت پروا ہے..."

​نجیبہ نے ابھی بھی میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا... میں مُڑ کر پھر سے اپنے کمرے میں جانے لگا تو، نجیبہ نے میرا ہاتھ نہ چھوڑا... میں نے پھر سے اُس کی طرف دیکھا، اس بار اُس نے اپنا سر کو جھکا لیا... "کیا ہوا کچھ اور کہنا ہے؟" میں نے دیکھا کہ نجیبہ کی سانسیں تیز چل رہی تھیں... اُس کے گال سرخ ہو رہے تھے... پھر نجیبہ نے اچانک وہ کیا جس کے بارے میں میں نے سوچا بھی نہ تھا... نجیبہ ایک دم سے مجھ سے لپٹ گئیں... اُس نے اپنی دونوں بانہوں کو میری بغلوں سے گزارتے ہوئے پیچھے لے جا کر میری پیٹھ پر کس لیا... "اُفففففف! میں تو مرتے مرتے بچا... کیا نرم احساس تھا... نجیبہ کے 30 سائز کے ممے میرے سینے میں دھنس گئے...

​نجیبہ کو بھی اس بات کا احساس ضرور ہو گا... لیکن اُس نے اپنے مموں کو میرے سینے سے دور کرنے کی کوشش نہ کی... بے خودی میں میرے ہاتھ خود بخود نجیبہ کے کندھوں سے ہوتے ہوئے اُس کی پیٹھ پر آ گئے... میں نجیبہ کے مموں کو اپنے سینے پر رگڑ کھاتا محسوس کر کے پگھلتا جا رہا تھا... "نجیبہ! یہ سب کیا ہے... کیا کر رہی ہو تم..." میں نے نجیبہ کے کندھوں کو پکڑا اور پیچھے ہٹانے کی کوشش کی... لیکن جیسے ہی میں نے اُس کو پیچھے دھکیلنا چاہا... اُس نے اپنی بانہوں کو میری پیٹھ پر اور کس لیا... "مجھے برداشت نہیں ہوتا... جب آپ مجھ سے ناراض ہوتے ہو... میں آپ کو ناراض نہیں دیکھ سکتی..."

​نجیبہ نے کانپتی آواز میں کہا... "نجیبہ! مجھے لگتا ہے تمہیں عشق ہو گیا ہے..." میری بات سنتے ہی نجیبہ نے مجھے اپنی ...بانہوں میں اور کس لیا... "ہاں، میں تم سے پیار کرتی ہوں... میں سچ میں تم سے پیار کرتی ہوں..."

نجیبہ نے شرٹ کے اوپر سے ہی میرے سینے کو چومتے ہوئے کہا... اُس کی آواز اور لال سُرخ چہرے کو دیکھ کر صاف پتا لگایا جا سکتا تھا کہ، نجیبہ کی حالت اُس وقت کیسی ہو گئی تھی... "پلیز سمیر! مجھ سے پیار کریں... پلیز محبت کریں... پلیز..." اُس نے میری شرٹ کے اوپر کھُلے ہوئے حصے پر چومنا شروع کر دیا... میں تو اُس کے ہونٹوں کی گرماہٹ کو اپنی گردن کے قریب محسوس کر کے پاگل ہی ہو گیا... میں نے نجیبہ کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اپنے چہرے کے سامنے کیا تو دیکھا اُس کا چہرہ ایک دم لال سُرخ ہو چکا تھا...

میں: "نجیبہ..." (میں نے سرگوشی سے بھری آواز میں کہا...)

نجیبہ: "جی..."

میں: "نجیبہ! تمہارے ہونٹ بہت خوبصورت ہیں... تمہارے ان گُلاب کی پَنکھڑیوں جیسے ہونٹوں کو دیکھ کر میں بہک رہا ہوں..."

نجیبہ: "یہ سب آپ کے لیے ہے..."

میں نے اپنے ہونٹوں کو نجیبہ کے ہونٹوں کی طرف بڑھانا شروع کر دیا... اور پھر جیسے ہی میرے ہونٹ نجیبہ کے ہونٹوں سے ٹچ ہوئے، تو نجیبہ کا پورا بدن تھرتھرا گیا... اور اگلے ہی پل میں نے نجیبہ کے تھرتھراتے جسم کو اپنی بانہوں میں کس کر اُس کے ہونٹوں کا رَس پینا شروع کر دیا... میں ایک دم پاگل ہو چکا تھا... اور اُس کے نرم اور رسیلے ہونٹوں کو زبردست طریقے سے چوسنا شروع کر دیا تھا... نجیبہ کی طرف سے کسی بھی طرح کی کوئی جَد و جَہد نہ تھی... پر اُس کا جسم مستی میں بُری طرح کانپ رہا تھا... میں بھی بُری طرح بہک گیا تھا... میں نے نجیبہ کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹوں کو الگ کیا تو میں نے اُس کے چہرے کی اور دیکھا... اُس کا گورا چہرہ ایسا ہو گیا تھا... مانو کسی نے اُس کے گالوں کو بے دردی سے رگڑ دیا ہو... میں نے دیکھا کہ، نجیبہ کے نیچے والے ہونٹ کے پاس لال رنگ کا نشان بن گیا تھا...

جو کہ شاید میرے چوسنے سے بنا تھا... اُس کی آنکھیں ابھی بھی بند تھیں... ہونٹ کانپ رہے تھے... سانسیں اُکھڑی ہوئی تھیں... مانو میرے اگلے قدم کا انتظار کر رہی ہو... میں نے تھوڑا سا جُھک کر نجیبہ کو اپنی بانہوں میں اُٹھا لیا... اُس نے بھی شرما کر کے اپنا چہرہ میرے سینے میں چھپا لیا... اور میں اُسے اپنی بانہوں میں اُٹھائے ہوئے اُس کے کمرے میں لے آیا... کمرے میں جانے کے بعد میں نے اُسے بیڈ پر لِٹا دیا... اور ایک بار پھر سے غور سے اُس کے چہرے کو دیکھا... جو مستی اور خُماری میں دہک رہا تھا... اُس نے اپنی آنکھوں کو ہلکا سا کھول کر میری طرف دیکھا... اور پھر مسکراتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر لیں... "سمیر! ایسے نہ دیکھیں..."

نجیبہ نے شرم کر کے اپنا چہرہ دوسری طرف گھما لیا... مجھے اُس کی ہر ادا بڑی پسند آ رہی تھی... میں نے نجیبہ کے اوپر جُھکنا شروع کیا... اور جیسے ہی میں پھر سے اُس کے ہونٹوں کو چومنے والا تھا کہ، باہر ڈور بیل بجی... ہم دونوں ایک دم سے گھبرا گئے... میں سیدھا کھڑا ہوا تو، نجیبہ بھی پھرتی سے کھڑی ہوئی اور اپنا دوپٹا اُٹھا کر اپنے سر پر رکھ کر ڈھک لیا... "اس وقت کون آ گیا؟" میں نے گھبراتے ہوئے کہا... اور باہر جا کر آواز دی... "کون ہے؟" "میں ہوں بیٹا، گیٹ کھولو..." یہ ابو کی آواز تھی... ایک بار تو میرے پاؤں ایسے کانپ گئے... جیسے کہ ابو نے ہمیں دیکھ لیا ہو... میں نے ڈرتے ڈرتے گیٹ کھولا تو، دیکھا کہ ابو بائیک پر بیٹھے ہوئے تھے... اور جبکہ نجیبہ کی امی یعنی کہ میری سوتیلی ماں گیٹ کے پاس کھڑی تھیں... ابو نے بائیک اندر کی اور ساتھ میں نازیہ بھی اندر آ گئیں... میں نے گیٹ بند کرتے ہوئے پوچھا... "ابو! آپ تو کل صبح آنے والے تھے نا..."

ابو: "ہاں، آنا تو کل ہی تھا... لیکن تمہاری امی کو تم دونوں کی بڑی فکر ہو رہی تھی... اس لیے چلے آئے..."

میں ڈرتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا... میں نے کمرے کے دروازے پر پلٹ کر دیکھا تو، نازیہ باتھ روم سے نکل کر نجیبہ کے کمرے کی طرف جا رہی تھیں... میں نے اپنے کمرے میں آ کر 0 وولٹ کا بلب آن کیا اور بیڈ پر لیٹ گیا...


میں اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا... لیکن نیند کا نام و نشان نہیں تھا... وہ ساری رات آنکھوں آنکھوں میں کٹ گئی... اگلی صبح بڑی دیر سے اُٹھا... 8 بج چکے تھے... ابو نے کمرے میں آ کر آواز دی تو اُٹھا... میں اُٹھ کر باہر آیا اور باتھ روم میں تازہ ہونے چلا گیا... تازہ ہو کر جب باہر آیا تو، دیکھا نجیبہ اپنی سکول کی ورزی پہنے تیار تھی... اور برآمدے میں بیٹھ کر ناشتہ کر رہی تھی... میں بھی کھانے کی میز پر چلا گیا... تھوڑی دیر بعد نازیہ نے میرے لیے بھی ناشتہ لگا دیا... پھر ہم سب نے ناشتہ کیا تو، نازیہ نجیبہ سے بولی... "نجیبہ! آج تم ہمارے ساتھ ہی بائیک پر چلو... ہم تمہیں بائیک پر سکول چھوڑ دیں گے..."

میں نے اُس کی طرف دھیان نہ دیا... ناشتے کے بعد نازیہ، نجیبہ اور ابو جانے لگے تو، ابو نے مجھے بھی تیار ہو کر کالج جانے کو کہا تو، میں نے "ہاں" میں سر ہلا دیا... وہ لوگ جیسے ہی گھر سے نکلے تو، میں خوشی سے اُچھل پڑا... کیونکہ اب میں گھر پر اکیلا تھا... اور میں جلد سے جلد تیار ہو کر صبا چاچی کے گھر جانا چاہتا تھا... آدھے گھنٹے بعد میں کپڑے بدل کر اور گھر کو تالا لگا کر صبا چاچی کے گھر کی طرف چل پڑا...

میں سارے راستے میں یہی منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ، آج صبا چاچی کی پھدی مار مار کے اُن کی تسلی کر دینی ہے... کہ بعد میں وہ خود پھدی کھول کھول کر میرے آگے پیچھے گھومے... راستے میں میں سوچ رہا تھا کہ صبا چاچی کے کیسے کیسے لوں گا... چاچی کو کوڈی (گھوڑی بنا کر لینے میں کتنا مزہ آئے گا...) یہی سب سوچتے سوچتے میں پتا نہیں کب صبا چاچی کے گھر کے گلی میں پہنچ گیا... لیکن جب میں صبا چاچی کے گھر کے پاس پہنچا تو، میری ساری خوشی اور جنون ایک پل میں اُتر گیا... کیونکہ بلّو چچا وہیں پیپل کے پیڑ کے نیچے بیٹھا صبا چاچی کے گھر کے چوبارے کی طرف جھانک رہا تھا... وہاں پر صبا چاچی تو نہیں تھیں... شاید وہ ابھی بھی آس لگائے بیٹھا تھا کہ، صبا چاچی کی اُس کے ساتھ سیٹنگ ہو جائے گی...

خیر میں آگے بڑھا... بلّو سے دعا سلام کے بعد میں صبا چاچی کے گھر کے باہر پہنچا اور ڈور بیل بجائی... تھوڑی دیر بعد گیٹ کھلا تو دیکھا صبا چاچی کھڑی تھیں... اُنہوں نے مجھے جلدی سے اندر آنے کا اشارہ کیا... اور میں جیسے ہی اندر گیا تو، صبا چاچی نے گیٹ کی کنڈی لگا دی... اور آہستہ سے بولی... "وہ کنجر بلّو ابھی بھی باہر بیٹھا ہے کیا؟" میں نے "ہاں" میں سر ہلا کر مسکرانا شروع کر دیا... "اب کیا کریں... یہ کنجر تو، وہاں سے ہلنے کا نام ہی نہیں لیتا..." صبا چاچی نے سرگوشی میں کہا... "فیاض اور دادا دادی چلے گئے کیا؟"

صبا چاچی: "ہاں، وہ تو چلے گئے ہیں... پر اس کا کیا کرنا ہے... اُس نے تمہیں اندر آتے دیکھا ہو گا نا..."

میں: "ہاں، دیکھا تو ہے... پھر..."

صبا چاچی: "اگر تم زیادہ دیر یہاں ٹھہرے تو کہیں شک نہ کرے... ایسا کرو تم باہر جاؤ... اور تھوڑی دیر بعد اِدھر کا چکر لگا کر دیکھنا... اگر وہ چلا گیا ہو تو، پھر یہاں آ جانا..."

میں: "اچھا ٹھیک ہے..."

صبا چاچی: "سنو..."

میں: "جی..."

صبا چاچی: "جاتے ہوئے اُس کے پاس رُک کر جانا... اور اگر میرے بارے میں کچھ پوچھے تو کہہ دینا کہ، صبا چاچی کو بخار ہے... اس لیے فیاض کالج نہیں جا رہا ہے..."

میں: "جی ٹھیک ہے..."

میں باہر آیا اور پیپل کے پیڑ کے نیچے بیٹھے بلّو کے پاس چلا گیا... "اور بھتیجے! کیا ہوا فیاض آج کالج نہیں جا رہا کیا؟"

میں: "ہاں، آج نہیں جا رہا وہ... آج صبا چاچی کو بخار ہے... اس لیے گھر پر رُکا ہے وہ..."

بلّو: "اوہ اچھا! میں سوچ رہا تھا کہ، آج صبا باہر چوبارے پر کیوں نہیں آ رہی... مطلب آج یہاں بیٹھ کر وقت خراب نہیں کرنا چاہیے..."

میں: "ہاں، صحیح ہے..." (میں نے ہنستے ہوئے کہا... اور سڑک کی طرف چل پڑا... میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو، بلّو چچا بھی کھڑا ہو کر اپنا رُخ سمرا چاچی کے گھر کی طرف کر چکا تھا... میں تھوڑا آگے تک گیا... اور پھر جب دیکھا کہ، بلّو گلی میں مُڑ گیا ہے تو، میں جلدی سے واپس پلٹا اور صبا چاچی کے گھر کی طرف چل پڑا... میں نے صبا چاچی کے گھر کے باہر پہنچ کر جیسے گیٹ کو ہلکا سا دھکا دیا... گیٹ اُسی وقت کھُل گیا... سامنے صبا چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھیں... وہ مجھے دیکھ کر جلدی سے کھڑی ہوئیں اور گیٹ کے پاس آئیں...


"وہ کنجر چلا گیا کیا؟" صبا چاچی نے باہر جھانکتے ہوئے کہا... "ہاں، وہ چلا گیا ہے..." صبا چاچی نے میرا جواب سنتے ہی گیٹ کی کنڈی لگا دی... اور میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی... "تمہیں کسی نے اندر آتے ہوئے دیکھا تو نہیں؟" میں نے "نہیں" میں سر ہلا دیا... "چلو اوپر آ جاؤ..." صبا چاچی میرے آگے چلنے لگیں... میں نے بھی صبا چاچی کے پیچھے اوپر جانے لگا...

میں: "فیاض اور اُس کے دادا دادی کب نکلے؟"

صبا چاچی: "وہ تو صبح 6 بجے ہی نکل گئے تھے... باہر سے ڈرائیور بُلایا تھا..."

میں: "کب واپس آنا ہے اُنہوں نے؟"

صبا چاچی: "پرسوں صبح تک..."

ہم اوپر پہنچ گئے... صبا مجھے اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے گئیں... جیسے ہی میں صبا کے ساتھ اندر پہنچا تو پتا چلا کہ، اندر کمرے کا ہیٹر آن ہے... اور کمرے کا درجہ حرارت کافی گرم تھا... مطلب صاف تھا کہ، صبا آج پورے موڈ میں تیاری کر کے بیٹھی تھیں...

صبا چاچی: "تم بیٹھو میں ابھی آتی ہوں..."

صبا چاچی باہر چلی گئیں... میں وہیں بیڈ پر بیٹھ گیا... اندر سردی کا نام و نشان نہیں تھا... میں من ہی من سوچ رہا تھا کہ، آج صبا کو پوری ننگی کر کے پھدی مارنی ہے... میرا لن تو پہلے سے پینٹ میں پوری طرح سخت ہو چکا تھا... جو جھٹکے پر جھٹکے کھا رہا تھا... تھوڑی دیر بعد صبا چاچی اندر آ گئیں... اُن کے ہاتھ میں ایک خوانچہ تھا... جس پر ایک بڑا سا سٹیل کا گلاس رکھا ہوا تھا... صبا چاچی میرے پاس آئیں اور مجھے گلاس اُٹھانے کو کہا... جیسے ہی میں نے گلاس اُٹھایا تو، دیکھا کہ اُس میں دودھ تھا... "یہ کیا ہے... اس کی کیا ضرورت تھی؟" میں نے صبا چاچی کی اور دیکھتے ہوئے کہا...

صبا چاچی: "پی لو، خاص تمہارے لیے خشک میوہ ڈال کر بنایا ہے..."

میں نے گلاس اُٹھایا اور من ہی من میں سوچنے لگا کہ، یہ تو مجھ سے بھی زیادہ اُتاولی ہو رہی ہیں... صبا چاچی نے خوانچہ کو میز پر رکھ دیا... اور خود ایک کونے میں پڑے ہوئے فون کے پاس گئیں... اور فون اُٹھا کر کال کرنے لگیں... نمبر ڈائل کرنے کے بعد صبا چاچی نے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھا... جس میں اب 10 بج رہے تھے... تھوڑی دیر بعد صبا چاچی ایک دم سے بولیں... "ہیلو! کیسے ہیں بھائی جان؟" صبا چاچی نے ایک بار میری طرف دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے بات کرنے لگیں... "جی، میں بھی ٹھیک ہوں... فیاض اور اُس کے دادا دادی خیریت سے پہنچ گئے ہیں نا وہاں پر..."

میں وہیں بیٹھا اُن کی باتیں سُن رہا تھا... شاید صبا چاچی پکا کر لینا چاہتی تھیں کہ، فیاض اور اُس کے دادا دادی کہیں بیچ راستے سے مُڑ کر واپس نہ آ جائیں... تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد صبا چاچی نے فون رکھ دیا... میں بھی دودھ ختم کر چکا تھا... صبا چاچی نے میرے ہاتھ سے خالی گلاس لیا اور میز پر خوانچے پر رکھ دیا... جب صبا چاچی گلاس رکھنے کے لیے جُھکیں تو، اُن کی موٹی گول سی چوتڑ پیچھے کی جانب باہر کو نکل آئی... سامنے کا نظارہ دیکھ مجھ سے رہا نہ گیا... میں فورا بیڈ سے کھڑے ہوتے ہوئے صبا چاچی کی کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر پینٹ میں تنے ہوئے اپنے لن کو چاچی کے چوتڑ پر دبا دیا... میری اس حرکت سے صبا چاچی نہ تو چونکیں اور نہ ہی اُنہوں نے اپنے آپ کو مجھ سے الگ کرنے کی کوشش کی... میرا پوری طرح سخت لن جو کہ پوری طرح ہارڈ ہو کر کھڑا تھا... چاچی کے چوتڑ کی لائن میں رگڑ کھا رہا تھا... چاچی جب سیدھی ہونے لگیں تو، میں نے اپنا ایک ہاتھ چاچی کے کندھے پر رکھ کر اُنھیں نیچے دبا دیا...

چاچی میز پر اپنے ہاتھ رکھ کر جُھک گئیں... جس سے اُن کی چوتڑ پیچھے سے اور باہر کی طرف نکل آئی... "بڑی خرمستیاں کر رہا ہے..." صبا چاچی نے پیچھے کی طرف چہرہ گھما کر میری طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولی... "کیوں چاچی! تمہیں پسند نہیں یہ سب؟" میں نے چاچی کی کمر سے ہاتھ ہٹا کر چاچی کے موٹی موٹی چوتڑ کے دونوں حصوں کو پکڑ کر مسلتے ہوئے کہا...

صبا چاچی: "آہہہہ سیییی سمیر! تیری انہی خرمستیوں نے تو مجھے لُوٹ لیا ہے... نہیں تو پہلے بلّو نے نمبر لگا جانا تھا..."

میں: "تو کیا تم بھی اُسے پسند کرتی تھیں؟"

صبا چاچی: "دفع کرو اُسے... یہ کون سی باتوں میں لگ گئے ہو..."

صبا چاچی میری طرف گھوم گئیں... اب ہم دونوں ایک دوسرے کے سامنے تھے... جیسے ہی صبا چاچی میری طرف گھومیں تو صبا چاچی نے اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جا کر پینٹ کے اوپر سے میرے لن کو پکڑ کر دبانا شروع کر دیا... "لگتا ہے اسے باہر سے ہی تیار کر کے لائے ہو..." میں صبا چاچی کی بات سن کر مسکرانے لگا... اور اپنے دونوں ہاتھ اُس کی پیٹھ کے پیچھے لے جاتے ہوئے، اُس کی موٹی سخت چوتڑ پر رکھ کر دبانے لگا... "باہر سے تیار نہیں آیا یہ... یہ تو تمہاری اس موٹی چوتڑ کو دیکھ کر تیار ہو گیا ہے چاچی جان..." میں نے اپنے ہاتھوں میں صبا چاچی کے موٹی سی چوتڑ کے دونوں حصوں کو لے کر دباتے ہوئے کہا... تو صبا چاچی نے میرے لن کو چھوڑ کر میری پینٹ کی زِپ کھول دی... پھر اُس نے زِپ کے اندر ہاتھ ڈال کر میرے لن کو باہر نکالا اور اپنی مُٹھی میں لے کر ناپتے ہوئے بولی...

"ہائے سمیر! تیرا تو بڑا موٹا ہے..." صبا چاچی نے میرے لن کو ہاتھ میں لے کر ایسے ہلانا شروع کر دیا... جیسے وہ لن کی مُٹھ مار رہی ہو... "تمہیں پسند آیا چاچی جان؟" میں نے صبا چاچی کی گانڈ سے ہاتھ ہٹا کر چاچی کے مموں پر رکھ کر دبانا شروع کر دیا... "پہلے اسے ٹھیک سے دیکھنے تو دو... پھر بتاتی ہوں..." صبا چاچی ایک دم سے میز پر بیٹھ گئیں... اُس نے میری پینٹ کو کھول کر گھٹنوں تک سرکا دیا... میرے 8 انچ لمبے اور 3 انچ موٹے لن کو دیکھ کر صبا چاچی کی آنکھوں میں چمک آ گئی... "ہائے سمیر! تمہارا لن تو بڑا لمبا ہے..." اب لن کا سُرخ ٹوپا اُس کی آنکھوں کے سامنے تھا... جسے وہ کھا جانے والی نظروں سے گھورے جا رہی تھیں... میں نے اپنی جیکٹ اُتار کر میز پر رکھ دی... اور پھر اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا اور ساتھ ہی اپنے کمر کو آگے کی طرف دھکا دیا تو، میرے لن کا ٹوپا صبا چاچی کے ہونٹوں پر ٹچ ہو گیا... صبا چاچی نے فورا اپنا چہرہ پیچھے کر لیا... "ہا ہا! بڑے گندے ہو تم تو..." صبا چاچی نے ہنستے ہوئے کہا...

میں: "کیوں؟ کبھی کسی کا لن منہ میں نہیں لیا؟"

صبا چاچی: "نہیں... میں ایسے گندے کام نہیں کرتی..."

میں: "پلیز چاچی! ایک بار اسے منہ میں لے کر چوسو نا..." میں نے اپنے لن کو اور آگے کی طرف دھکا دیتے ہوئے کہا... اور اپنی شرٹ اُتار کر میز پر رکھ دی... اب میں مکمل ننگا ہو چکا تھا... "ہائے سمیر! مجھ سے یہ سب نہیں ہو گا..." صبا چاچی نے اپنا چہرہ دوسری طرف گھماتے ہوئے کہا..."

میں: "پلیز صبا چاچی! ایک بار... آج کل تو سب لوگ ایسے پیار کرتے ہیں... پلیز..."

میں نے منّت بھرے لہجے میں کہا تو، صبا چاچی مُٹھی میں پکڑے میرے لن کے ٹوپے کو گھورتے ہوئے دیکھنے لگیں... پھر صبا چاچی نے اپنے ہونٹوں کو میرے لن کے ٹوپے پر ٹچ کروا کر دو تین بار چوما اور پھر اپنے ہاتھ سے اپنے ہونٹوں کو صاف کرتے ہوئے بولی... "بس! اب خوش؟" پھر صبا چاچی کھڑی ہو گئیں... میں نے صبا چاچی کے قمیض کو پکڑ کر اوپر کرنا شروع کر دیا... جیسے ہی قمیض اُن کے گلے تک اوپر ہوئی تو، مجھے کالے رنگ کی برا میں اُن کے ممے کَسے ہوئے نظر آئے... جنھیں دیکھ میں بہت زیادہ پُر جوش ہو گیا... اور اگلے ہی پل میں نے صبا چاچی کی برا کو پکڑ کر اوپر کھینچ دیا... جیسے ہی میں نے برا اوپر کی، صبا چاچی کے 40 سائز کے ممے اُچھل کر باہر آ گئے... میں نے صبا چاچی کے مموں کو ہاتھ میں پکڑ لیا اور صبا چاچی کے چہرے کو پاگلوں کی طرح چومتے ہوئے اُن کے ممے دبانے شروع کر دیے... "اوہہہہ سمیر! اور زور سے دباؤ میرے مموں کو..." صبا چاچی مستی میں سسکتے ہوئے بڑبڑائیں... تو میں نے صبا چاچی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر چوستے ہوئے چاچی کے مموں کے موٹے نِپَل کو انگلیوں میں لے کر دبانا شروع کر دیا... نیچے میرا لن صبا چاچی کی ناف پر دبا ہوا تھا... صبا چاچی بھی پوری طرح گرم ہو چکی تھیں... اور کھُل کر میرا ساتھ دے رہی تھیں... صبا چاچی نے اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جا کر میرے لن کو پکڑ لیا اور اپنی ٹانگوں کے درمیان لے جا کر اپنی ٹانگوں کو آپس میں جوڑ لیا... "اُففف!" میرے لن کو زبردست جھٹکا لگا... صبا چاچی نے نیچے پینٹی نہیں پہنی ہوئی تھی... اور میں اُن کی پھدی کی گرمی کو مزید اپنے لن کے ٹوپے پر محسوس کر رہا تھا... میں نے اُس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹوں کو ہٹایا اور تھوڑا سا جُھک کر صبا چاچی کے دائیں مَمے کو پکڑ کر دباتے ہوئے اُس کے نِپَل کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا...

جیسے ہی میں نے صبا چاچی کے نِپَل کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کیا... صبا چاچی نے سسکتے ہوئے اپنا ایک ہاتھ میرے سر کے پیچھے رکھ کر میرے چہرے کو اپنے مَمے پر دبانا شروع کر دیا... "اوہہہہہ سمیر! ہاں چُوس میرے مموں کو اور زور سے چُوس... ان کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا... کوئی بھی ان کو پیار نہیں کرتا... چُوس اور زور سے کھینچ کھینچ کر چُوس سمیر! کھا جا میرے مموں کو..."

صبا چاچی اب پوری طرح گرم ہو چکی تھیں... اُن کی آنکھیں مزے میں بند تھیں... میں نے اُن کے مَمے کو چوستے ہوئے اُن کی شلوار کا نالہ کھولنا شروع کر دیا... اور جیسے ہی صبا چاچی کی شلوار اُن کی کمر پر ڈھیلی ہوئی تو، اُن کی شلوار سَرکتے ہوئے نیچے اُن کے پاؤں میں جا گری... جسے صبا چاچی نے اِکّے دُکّے کر کے اپنی ٹانگوں کو اوپر اُٹھا کر اپنے پاؤں سے نکال دیا... میری پینٹ بھی میرے پاؤں میں اَٹکی ہوئی تھی... جسے میں نے بھی پاؤں سے نکال کر ایک طرف کر دیا... میں نے صبا چاچی کے دائیں مَمہ کو اپنے منہ سے باہر نکالا اور بائیں مَمہ کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا... صبا چاچی نے پھر سے میرے سر کو اپنی بانہوں میں لیتے ہوئے اپنے مَمہ پر دبا دیا...

میں نے صبا چاچی کے مَمہ کو چوستے ہوئے، آہستہ آہستہ بیڈ کے پاس لے گیا... اور صبا چاچی کو بیڈ پر لِٹاتے ہوئے خود بھی اُس کے اوپر چڑھ کر لیٹ گیا... میں پاگلوں کی طرح کبھی صبا چاچی کے ایک مَمہ کو چوستا تو، کبھی دوسرے کو... صبا چاچی مدہوش ہو کر اپنا سر اِدھر اُدھر ہلا رہی تھیں... اُن کے ہاتھوں کی انگلیاں تیزی سے میرے بالوں میں گھوم رہی تھیں... اور اُن کی مستی بھری سسکاریاں پورے کمرے کو سر پر اُٹھائے ہوئے تھیں... میں نے قریب 5 منٹ تک صبا چاچی کے دونوں مموں کو چوس چوس کر لال کر دیا... پھر میں نے صبا چاچی کے مَمہ کو منہ سے باہر نکالا...

اور اُن کی گوری پیٹ پر زبان پھیرتا پھیرتا اُن کی ناف کو چومتا چاٹتا میرا سفر پھدی کے علاقہ غیر میں آ کر ختم ہو گیا... میرے اس طرح نیچے ہونے سے صبا چاچی نے اپنی ٹانگیں بند کر لیں... پر جیسے ہی میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے صبا چاچی کے ٹانگوں پر تھوڑا سا زور لگایا تو، صبا چاچی نے خود ہی اپنی دونوں ٹانگیں پوری کھول لیں... میں نے آج پہلی دفعہ صبا چاچی کی گوری موٹی نرم و نازک پھدی کے درشن کیے تو میرے ہوش اُڑ گئے... گُلابی گُلابی ہونٹوں والی شیو کی ہوئی پھدی، اُس پر اُن کا نکلا ہوا پانی پھدی کے ہونٹوں پر چمک رہا تھا... میں نے اپنی انگلیوں کی مدد سے پھدی کے ہونٹ کھولے تو مجھے بالکل ایسا لگا جیسے اُس کی پھدی کے اندر کوئی سیلاب اُمنڈ رہا ہو... مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے فورا اپنی زبان پھدی کے اوپر رکھ دی... میری زبان پھدی پر جیسے ہی پڑی صبا چاچی ایسے ہِلیں جیسے بیڈ میں بجلی آ گیا ہو اور بجلی نے صبا چاچی کو اوپر کی طرف اُچھالا ہو... اور صبا چاچی کے منہ سے نکلا... "اوہہہہ... سمیر ہائے! یہ کیا کر رہا ہے... آہہہہہہ... اوہہہہہ..." اور صبا چاچی کا ہاتھ فورا میرے سر پر آ گیا اور میرے بالوں کو جکڑ لیا...

میں نے پھدی کو مناسب طریقے سے اب چاٹنا شروع کر دیا... کبھی اُس کے ہونٹ چوستا اور کبھی اپنی زبان کی نوک پھدی کے اندر گُھسا دیتا... صبا چاچی کی پھدی سے پانی ایسے نکل رہا تھا جیسے بارش کے دنوں میں چھت پر لگے پَرنالے سے پانی نیچے گلی میں گرتا ہے... پھدی کی نمکین بوندیں میرے منہ کو بھگوتی جا رہی تھیں... میں پھدی پر بار بار ایسے جھپٹ رہا تھا جیسے بھوکا کتا ہڈی پر... میرا جوش اور جنون اپنی حدوں کو چھو رہا تھا... صبا چاچی کے منہ سے اب عجیب عجیب آوازیں نکل رہی تھیں... اتنے میں صبا چاچی کی آوازیں تیز ہو گئیں... صبا چاچی کے منہ سے تڑپتی ہوئی آواز نکلی... "اوہہہہ سمیر! ہائے میری پھدی... گئی... آہہہہہ... گئی..." صبا چاچی نے اپنی پوری باڈی اکڑا لی تھی... پوری طرح سخت ہو گئی تھی صبا چاچی کی جسم... میں سمجھ گیا کہ صبا چاچی فارغ ہو رہی ہیں...

میں جیسے جیسے اُن کی آوازیں سُن رہا تھا اور غضب سے پھدی چاٹتا جا رہا تھا... اتنے میں صبا چاچی فارغ ہونے لگیں... اُن کی چوتڑ اوپر کی جانب کئی بار اُچھلی اور پھر وہ پُر سکون ہو کر لیٹ گئیں... اور اُن کا جسم ڈھیلا پڑنا شروع ہو گیا... اُنہوں نے خود ہی میرا سر پکڑا اور اوپر کو کھینچا... میں دوبارہ اُن کے اوپر آ کر لیٹ گیا اور اُنہوں نے میرے ہونٹوں کو چوما اور آنکھیں کھول دیں... اور بولیں... "ہائے سمیر! میری تو جان ہی نکل گئی..." میرا لن اُن کی پھدی کے بالکل اوپر تھا اور دوبارہ اُسے پھدی کے اوپر رگڑ رہا تھا اپنے کمر ہلا ہلا کر... کوئی دو منٹ ہم ایسے ہی طریقے میں رہے پھر میں نے اپنا بازو نیچے کو کیا اور تھوڑا سا اوپر کو اُٹھا اور اپنا لن پکڑ کر صبا چاچی کی پھدی کے دہانے کے اوپر فِٹ کیا... میری نظریں صبا چاچی کی طرف تھیں... وہ بھی مجھے دیکھ رہی تھیں... "جلدی کرو، اپنی صبا کی پھدی میں اپنا موٹا لن ڈال دو... اب اور برداشت نہیں ہوتا..." میں نے صبا چاچی کی آنکھوں میں دیکھا اور بولا... "صبا... ڈال دوں؟"

صبا چاچی مسکرائیں... اور آنکھیں بند کر لیں... میں نے اپنا لن تو پہلے ہی صبا چاچی کی پھدی کے اوپر فِٹ کیا ہوا تھا... ایک شاندار جھٹکا دیا اور "دھاپ" کی آواز کے ساتھ میرا لن صبا چاچی کی چکنی پھدی کو چیرتا ہوا اندر داخل ہو گیا... صبا چاچی کا منہ کھُل گیا... "ہائے سمیر! جان نکال دی تو نے تو... آج معلوم ہو رہا ہے کہ، کسی مرد کے نیچے لیٹی ہوں... ہاں، پھاڑ دے میری پھدی... ایسے جھٹکوں کو ترستے ترستے میں نے اپنی ساری جوانی نکال دی..." اُنہوں نے میری کمر کے گِرد اپنے ہاتھ لپٹا لیے اور میری کمر پر پھیرنے لگیں... میں نے اپنے جھٹکے شروع کر دیے... پھدی کی پھسلن اور میرا لگایا ہوا چاٹ، مجھے اب صبا چاچی کو چودنے میں بہت مدد دے رہا تھا... میرا لن بہت آرام اور سکون سے پھدی کی ساری حدیں پھلانگ کر آخر تک جاتا اور پھر واپس آ جاتا پھر پورا گھس جاتا... میں نے جھٹکوں کے دوران اب صبا چاچی کی ٹانگیں اُٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ لی تھیں اور خود تھوڑا آگے کو صبا چاچی کے اوپر جُھک گیا تھا...

اب کی بار صبا چاچی کے منہ سے ہلکی ہلکی چیخیں نکلنے لگیں... "آہہہہ... آہہہہ... اُوئی... آہہہہ..." میں ان چیخوں کے تَرنگ کے ساتھ ساتھ جھٹکے مار رہا تھا... صبا چاچی بھی اپنی بڑی سی چوتڑ اوپر کو اُٹھا کر میرا لن اپنی پھدی کی گہرائیوں میں لے کر مزے لے رہی تھیں... میرے جھٹکے اتنے زبردست تھے کہ، پورا کا پورا بیڈ چُوں چُوں کی آواز کرنے لگا تھا... صبا چاچی کے موٹے موٹے ممے بُری طرح اوپر نیچے ہو رہے تھے... جن کو دیکھ مجھ سے رہا نہ گیا... میں نے اپنے جھٹکوں کی رفتار بڑھاتے ہوئے اُس کے دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں میں دبوچ لیا... اور پوری رفتار سے پھدی میں اپنا لن اندر باہر کرتے ہوئے اُس کے مموں کو زور زور سے مسلنے لگا...

صبا چاچی کے گورے گورے مموں پر کچھ ہی پلوں میں میری انگلیوں کے نشان چھپ گئے تھے... لیکن صبا چاچی نے ایک بار بھی مجھے درد کی شکایت نہ کی... "اوہہہہ سمیر! بڑا مزہ آ رہا ہے... آج پتا چل رہا ہے کہ، میں نے آج تک کیا کیا چھوڑ دیا ہے..." صبا چاچی نے سسکتے ہوئے کہا... تو میں نے ماحول کو اور گرم کرنے کے لیے کچھ گندی الفاظ استعمال کرنی شروع کر دی... "ہاں چاچی! تم نے بہت کچھ چھوڑ دیا ہے... اگر تم مجھے پہلے اس بات کا کوئی اشارہ دے دیتیں کہ تیری پھدی میں اتنی آگ لگی ہے... تو میں نے تیری پھدی کو روز اپنے لن کا پانی پلا دیتا..." میں نے اب اپنے لن کو ٹوپے تک باہر نکال نکال کر صبا چاچی کے پھدی میں گُھسانا شروع کر دیا تھا... "ہائے سیییی سچ سمیر! مجھے نہیں پتا تھا کہ، تیرا لن مجھے اتنا مزہ دے گا... نہیں تو، میں نے خود تم سے چُدوا لینا تھا..."

میں: "کوئی بات نہیں چاچی جان... آج کے بعد تمہیں لن کے لیے ترسنا نہیں پڑے گا..."

صبا چاچی: "سچ سمیر؟ اوہہہہ میں بھی تمہیں کبھی منع نہیں کروں گی... جب بھی تیرا دل کرے پروگرام بنا لیا کرنا..."

میں: "وہ تو بنا ہی لیا کروں گا... اگلی بار تمہاری گانڈ کا سوراخ بھی تو کھولنا ہے..."

میں نے اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جا کر صبا چاچی کی گانڈ کے سوراخ پر انگلی سے رگڑنے لگا... جیسے ہی میں نے اپنی انگلی اُن کی گانڈ کے سوراخ پر دبائی تو، وہ پاگلوں کی طرح مچل اُٹھیں... "سیییییی اوہہہہ سمیر! نہیں، گانڈ نہیں... تیرا لن تو میری گانڈ زخمی کر دے گا... ویسے بھی میں نے کبھی وہاں نہیں لیا... اور تیرا ہے بھی تو موٹا..." "چُپ کر سالی! اب تو مجھے منع کرے گی؟" میں نے ایسے کَس کَس کے جھٹکے مارے کہ، صبا چاچی کا منہ پوری طرح کھُل گیا... "تیری تو گانڈ پھاڑ کر ہی مروں گا..."

صبا چاچی میرے منہ سے گندی باتیں سُن کر پوری طرح گرم ہو چکی تھیں... شاید اُسے بھی میری باتوں سے مزہ آ رہا تھا... وہ اب پوری رفتار سے اپنی گانڈ کو اوپر اُچھال رہی تھیں... اُس کا جسم پھر سے اکڑنے لگا تھا... "اوہہہہ سمیر! ہائے میری پھدی تو پھر سے پانی نکالنے والی ہے... اوہہہہہ آہہہہہہ اوہہہہہ سییییی سمیر..." صبا چاچی کی سسکاریں مجھے پاگل کر رہی تھیں... "ہاں چھوڑ سالی! نکال دے اپنی پھدی کا پانی میرے لن پر نکال... بہن چود! مجھے گانڈ مارنے سے روکے گی تو... تیرا سسر بھی مجھے نہیں روک سکتا... تیری گانڈ مارنے سے... اُس کے سامنے کوڈی کر کے تیری گانڈ ماروں گا..."

صبا چاچی: "مار لینا... جو کرنا ہے کر لینا... میں تمہیں نہیں روکنا... تم چاہے جو مرضی کرو میرے ساتھ آہہہہ اوہہہہہ ہائے سمیر..."

صبا چاچی کا بدن پوری طرح اکڑ چکا تھا... میں نے کچھ اور زور دار شاٹ مارے تو، صبا چاچی کی پھدی سے پانی کا سیلاب بہہ نکلا... صبا چاچی نے اپنی ٹانگوں کو اُٹھا کر میری کمر پر کس لیا... اُس کے بازو پہلے سے ہی میری پیٹھ پر کَسے ہوئے تھے... "اوہہہہ اوہہہہ اوہہہہ سمیر... مجھے یقین نہیں ہو رہا... تیرے لن نے تو ہائے... اتنی جلدی میری پھدی کے دو بار پانی بھی نکال دیا..."

میں نے صبا چاچی کی پھدی سے اپنے لن کو باہر نکالا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا... "چاچی گھوڑی بنو..." میں نے سیدھے بیٹھتے ہوئے کہا... تو صبا چاچی نے میری طرح اپنی شہوت سے بھری آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا... "سمیر! مجھے چاچی تو نہ بلاؤ..." صبا چاچی نے شرماتے ہوئے کہا... "اچھا، نہیں بلاتا... صبا! چلو گھوڑی بن جاؤ..." صبا چاچی نے پھر میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور بولی... "ایسے نہیں... جیسے پہلے مجھے گالی دے کر بُلا رہے تھے..." "اُٹھ سالی گشتی! چل کوڈی ہو جا، دماغ نہ خراب کر..." صبا چاچی خاموشی سے اُٹھیں اور الٹی ہو کر گھوڑی بن گئیں...

اُفف... آہہہہ... کیا نظارہ تھا... ایک موٹی تازی گوری چِٹی بھاری بھاری سی گانڈ، اُس پر اُس کا سخت اور گُلابی سوراخ، اُس کے نیچے اُن کی گُلابی پھدی کے ہونٹ جو آدھے کھُلے تھے میرے سامنے تھے... میں نے صبا چاچی کی منی اور اُن کی پھدی سے نکلنے والے پانی سے لتھڑے ہوئے اپنے لن کو ایک دو ہاتھ مارے... اور لن کو پورا سیدھا رکھ کر صبا چاچی کے چوتڑوں کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا... اپنی انگلیاں صبا چاچی کی گانڈ اور پھر پھدی کے سوراخ پر پھیریں اور اپنے لن کی موٹی اور گول مٹول ٹوپی اُن کی پھدی کے منہ کے اوپر رکھ کر لن کو چھوڑ دیا... اور خود اپنے دونوں ہاتھ اُن کے چوتڑوں کے بائیں دائیں رکھ کر اُن کے چوتڑوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا... اور پھر ایک دم آگے کو جھٹکا دیا... "شَر... آہہہہ... پپ" کی آواز کے ساتھ میرا پورے کا پورا لن پھدی کے اندر چلا گیا... صبا چاچی نے ایک سیکسی اور گرم قسم کی آہ بھری اور اپنا منہ نیچے بیڈ کی طرف کر کے چودنے کا پورا مزہ لینے لگیں... میں اب اس پوزیشن میں زیادہ آرام دہ طریقے سے چود رہا تھا... میں نے اپنی انگلی اپنے منہ میں ڈال کر گیلی کی اور اُسے صبا چاچی کی گانڈ کے سوراخ کے اوپر رکھ کر سوراخ کو رگڑنے لگا... کبھی کبھی انگلی کا اگلا حصہ گانڈ کے اندر گھساتا... صبا چاچی پوری مدہوش تھیں... میں نے دوسرے ہاتھ سے صبا چاچی کے کھُلے ہوئے بالوں کو پکڑا اور پیچھے کی طرف کھینچا تو صبا چاچی کی گردن اوپر کو اُٹھ گئی... "اوہہہہ آہہہہہ سمیر..." صبا چاچی نے درد سے بھری آواز میں کہا... میں نے تیزی سے اپنے لن کو پیچھے سے صبا چاچی کی پھدی کے اندر باہر کرتے ہوئے صبا چاچی کو ڈریسنگ ٹیبل کی طرف دیکھنے کو کہا... جس میں ہم دونوں کا عکس صاف نظر آ رہا تھا... اور مجھے صبا چاچی کے نیچے لٹکے ہوئے ممے جو میرے دھکے لگانے کی وجہ سے ہِل رہے تھے صاف نظر آ رہے تھے... وہ اس وقت لذت کی بلندیوں کو چھو رہی تھیں... میں صبا چاچی کے ننگے جسم کو دیکھ دیکھ کر ویسے ہی پاگل ہوتا جا رہا تھا... میں صبا چاچی کے بالوں کو پکڑ کر کھینچے ہوئے ایسے جھٹکے مار رہا تھا... جیسے کسی گھوڑی کی سواری کر رہا ہوں... صبا چاچی بھی اس منظر کو آئینے میں صاف دیکھ پا رہی تھیں... صبا چاچی کے پورے ننگے جسم کو دیکھنے کا جو مزہ تھا وہ تو چودنے میں بھی نہیں تھا... سخت سردی میں بھی میرے پسینے نکل رہے تھے... میرا لن ہارڈ سے ہارڈ تر ہوتا جا رہا تھا اُس پر شادی شدہ پھدی کی پھسلن...

میرا ہر جھٹکے کے ساتھ لن پھدی میں ایسے گُھستا جیسے پانی والی موٹر چلائیں تو اُس کا پِسٹَن آگے پیچھے تیزی کے ساتھ حرکت کرتا ہے... میرے کمر پورے بند تھے اور میں اپنی پوری قوت کے ساتھ گھَسّے مار رہا تھا... میں نے لن باہر نکالا اور اُسے پکڑ کر صبا چاچی کی پھدی کے ہونٹوں کے اوپر ایسے مارا جیسے چھڑی مارتے ہیں... صبا چاچی نے ایک زور کی سِسکی نکالی... میں نے لن کو رگڑا پھدی کی بیرونی جگہ پر اور پھر اُسے سوراخ کے اوپر رکھ کر اندر گُھسا دیا... اور پھر سے شروع ہو گیا... "چل سالی گشتی! اپنی گانڈ ہلا... بہن چود! بڑی چربی چڑھی ہے اِدھر ... اب کی بار میں نے دیکھا کہ میرے ہر جھٹکے کے ساتھ صبا چاچی بھی میرا پورا پورا ساتھ دے رہی ہیں... جیسے ہی میرا لن باہر نکلتا صبا چاچی اپنی گانڈ پیچھے کو دبا دیتیں اور میرا لن پیچھے آتے ہوئے بھی پھدی کے اندر ہی رہتا... مجھے اور زیادہ مزہ آنے لگا... میں صبا چاچی کو چود رہا تھا اور صبا چاچی مجھے چود رہی تھیں... تقریباً تیس منٹ ہو چلے تھے مجھے صبا چاچی کی چدائی کرتے کرتے... میرا پورا جسم پسینے میں نہا چکا تھا... میری سانسیں تیز ہو چکی تھیں، مجھے ایسا لگنے لگا کہ جیسے میرے اندر سے آگ کا ایک دریا نکل رہا ہے جو لن کے راستے باہر نکلے گا اور سب کچھ بہا کر لے جائے گا...

میں نے اپنے کمر پوری طرح سے بند کر لیے اور اپنے جھٹکے اور تیز کر دیے... اب اُن میں میرا پورا زور بھی شامل تھا... صبا چاچی کو بھی محسوس ہو گیا کہ میں چھوٹنے والا ہوں... وہ ایک دم چیخنے لگیں... "سمیر اوہہہہ! ٹھنڈی کر دے اپنی گشتی کی پھدی کو اپنے لن کے پانی سے... پوری ملائی اندر نکال دے... اوہہہہہ! نکال دے میری پھدی میں اپنا پانی..." ساتھ ہی صبا چاچی بھی تیسری بار جھڑنے کو تیار ہو چکی تھیں... اس بار جیسے ہی میرے لن نے صبا چاچی کی پھدی کو اپنے پانی سے سرشار کیا تو، صبا چاچی کی پھدی بھی پگھل اُٹھی... ہم دونوں کے بدن کچھ دیر تک بُری طرح جھٹکے کھاتے رہے... اور پھر صبا چاچی آگے کو لُڑھک گئیں... میرا لن صبا چاچی کی پھدی سے باہر آ گیا... میں بھی بہت تھک چکا تھا... میں صبا چاچی کے بغل میں ہی لیٹ گیا...

میں تھک کر بیڈ پر صبا چاچی کی بغل میں لیٹا ہوا تھا... اور صبا چاچی بھی اپنی اُکھڑی ہوئی سانسوں کو درست کرنے کی کوشش کر رہی تھیں... تھوڑی دیر بعد صبا چاچی میری طرف کروٹ لے کر لیٹ گئیں... اُس نے اپنے ایک ہاتھ سے میرے سینے کو سہلاتے ہوئے کہا... "سمیر! تو نے تو آج سواد دِلا دیا... مجھے یقین نہیں تھا کہ، تم اتنی زبردست طریقے سے چود سکتے ہو... کیا کھاتے ہو تم..." صبا چاچی کا ہاتھ میرے سینے سے ہوتے ہوئے نیچے میرے لن کی طرف بڑھ رہا تھا... "ایک بات پوچھوں سمیر؟" صبا چاچی نے میرے ڈھیلے لن کو ہاتھ میں لے کر پوچھا...

میں: "ہاں، پوچھو..."

صبا چاچی: "آج تک کتنی لڑکیوں کی لے چکے ہو؟" (صبا چاچی نے ہنستے ہوئے کہا...)

میں: "کسی کی بھی نہیں لی..."

صبا چاچی: "جھوٹ مت بولو... سچ سچ بتاؤ..."

میں: "سچ میں میں نے کسی لڑکی کی نہیں لی... ہاں، ویسے کئی عورتوں کو چود چکا ہوں..."

صبا چاچی: "اچھا، بتاؤ کس کس کی لی ہے آج تک؟"

میں: "وہ میں نہیں بتا سکتا..."

صبا چاچی: "اچھا ٹھیک ہے... ویسے کوئی ایسی بھی ہے... جسے تم سچے دل سے..."



Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)