ماں بہن۔۔ قسط 4
روچی منہ کھولے کرب اور حیرت سے مجھے سن رہی تھی۔ اس کا ایک ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا اور دوسرا ہاتھ اس نے منہ پر رکھ لیا۔ شاید میری گپ سن کر توبہ توبہ کر رہی تھی یا پھر حیران تھی۔ روچی کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے میں نے آخری ڈائلاگ دے مارا۔ آئندہ کے بعد پلیز مجھے اپنی شکل نہ دکھانا۔ اور میں تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔ اب مجھے نہیں پتا روچی کتنی دیر میرے کمرے میں رہی یا کیا سوچتی رہی۔ میں گیراج میں گیا اپنا 125 نکالا اور تیزی سے گھر سے نکل گیا۔۔۔۔۔۔ میری ہوائیں اڑ رہیں تھیں۔ میرے کان بند ہو چکے تھے۔ یہ 5 منٹ کے اندر اندر کیا ہو گیا۔ میں غیر ارادی طور پر اپنے کھیتوں کی طرف بائیک بھگا رہا تھا۔ یہ سب سوچتے سوچتے میری آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے۔ میں نے آج اپنی دیوی کو تھپڑ دے مارا۔ اور وہی دائیں ہاتھ زور سے بائیک کے ہینڈل پہ دے مارا۔ کچھ دیر بعد میں کھیتوں میں پہنچ گیا۔ ہم نے یہ کھیت ٹھیکے پر دے رکھے ہیں۔ ایک تو کیش میں پیسے مل جاتے ہیں دوسرا تازہ اناج اور تیسرا جس نے ٹھیکے پر لے رکھے ہیں اس نے بھینسیں اور گائے وغیرہ بھی رکھی ہیں۔ چنانچہ تازہ دودھ بھی مل جاتا ہے۔ میں جھونپڑے نما ڈیرے کی طرف چل پڑا۔ صبح کا وقت تھا اور ٹھنڈ بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اور کامی صاحب بغیر کسی جیکٹ کے ہواؤں سے باتیں کرتے ہوئے آئے تھے۔ میں نے بائیک ایک طرف کھڑی کی۔ اور نیچے زمین پر ہی بیٹھ گیا۔ اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا اور سوچنے لگا کہ یار یہ کیا ہو گیا۔ میں نے ایسا کیوں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا سر چکرا رہا تھا۔ اور میں سمجھ رہا تھا شاید صدمے کی وجہ سے ہے۔ لیکن میرے سر کو ٹھنڈی ہوا لگ گئی تھی شاید۔ جو مجھے بعد میں پتا چلا۔ خیر اٹھ کر ڈیرے پر آیا تو ٹھیکے دار کی بیوی زبیدہ دور سے مجھے دیکھتے ہوئے چلی آرہی تھی۔ میرے پاس آکر سلام کیا اور ایک چارپائی بچھا دی۔ اور اندر سے پانی لینے چلی گئی۔ جب پانی لیکر آئی تو میں نے گلاس پکڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فضل کہاں ہے؟ کہنے لگی شہر گئے ہیں ڈیزل لینے۔ میں نے یہ سوچتے ہوئے جیب میں ہاتھ مارا کہ امی کو فون کر کے پوچھتا ہوں کوئی سبزی چاہیے تو بتائیں۔ لیکن جیب خالی تھی۔ میں موبائل اپنے روم پر ہی بھول آیا۔ لوڑے لگ گئے کیا منحوس دن ہے آج کا۔ پھر ٹھیکے دار کی بیوی زبیدہ نے پوچھا خیریت ہے؟ میں نے جواب دیا ہاں خیریت ہے۔ ویسے ہی ملنے چلا آیا۔۔۔۔ دل میں سوچ رہا تھا کہ بہن کی لیتے لیتے اپنی دینی پڑ گئی۔ کیا چتیاپا ہے یار۔ اور ناگواری سے دوسری طرف دیکھنے لگا۔ اس عورت کو ٹالنے کے لیے میں نے کہا میں یہاں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں دھوپ میں۔ آپ اپنا کام کریں بے شک۔ تو اس نے نہ سمجھتے ہوئے کہا۔ آپ چارپائی کو دھوپ میں لے جائیں میں اندر سے تکیہ لے آتی ہوں۔ اور ساتھ ہی چائے بناتی ہوں۔ میں نے کہا اگر تیز پتی والی چائے مل جائے تو بڑا احسان ہوگا۔ کام میرا باڈی بلڈنگ ہے لیکن شوق میرے ڈرائیوروں والے ہیں۔ زبیدہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔ صاحب احسان کی کیا بات ہے۔ آپ کا اپنا ہی گھر ہے۔ لیکن یہ بتائیں خیریت تو ہے؟ کیونکہ آپ ایسے کبھی بغیر کام کے آئے نہیں۔ یار یہ دنیا کی تمام خواتین میں ایک تھانیدار ضرور چھپا ہوتا ہے۔ انویسٹیگیشن کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ بال کی کھال اتارنے میں دیر نہیں لگاتیں۔ میں نے کہا میری ماں سب ٹھیک ہے۔ بس طبیعت ٹھیک نہیں یہاں سے گزر رہا تھا سوچا کچھ دیر فضل سے گپ شپ لگاتا ہوں اور دھوپ میں بیٹھتا ہوں۔ بس یا اور کچھ؟ میرا جواب سن کر زبیدہ اندر چلی گئی۔ 40 کے قریب عمر رہی ہوگی۔ لیکن کھیتوں میں کام کرنے کی وجہ سے چست بھی ہے اور فٹ بھی۔ خیر مجھے کیا میں کون سا گندی نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد زبیدہ چائے کا کپ اور تکیہ لے آئی۔ میں چائے پیتے ہوئے پھر سے وہی سوچنے لگا۔ کہ روچی نے امی کا بتایا ہوگا۔ کہ بھائی میرے مموں کو تاڑتا ہے۔ اور ایک بار کوشش کی مجھے قریب کرنے کی۔ آگے سے امی کیا کہیں گے۔ ہے ہی کمینہ کھلا ہوا سانڈ۔ جو کچھ بھی تھا مجھے ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ کیا محبت ایسی ہوتی ہے؟ کیا محبوب کو تھپڑ مارا جاتا ہے؟ بچپن سے اب تک روچی میرے ساتھ رہی۔ مجھے کبھی تکلیف نہیں اٹھانے دی۔ مجھ سے بے شک 1 سال ہی۔ لیکن تھی تو بڑی نا۔ میں ایموشنل ہوتا گیا اور میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ مزے کی دھوپ اور ذہنی تھکاوٹ کی وجہ سے مجھے نیند آگئی۔ اچانک میرے سر میں شدید درد ہوا اور میں جاگ گیا۔ آس پاس دیکھا تو یاد آیا میں تو ڈیرے پر ہوں۔ روشنی سے لگ رہا تھا غالباً دن ڈھل رہا ہے۔ 3 کا ٹائم ہوگا۔ ادھر ادھر نظر گھمائی تو فضل پانی کے پیٹر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا۔ میں اپنی چارپائی سے اٹھا اس سے تھوڑی دیر بات کی۔ وہ بھی میری آمد اور یہیں سونے کی وجہ سے حیران تھا۔ وہاں سے بائیک لیکر گھر کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ میرا گھر جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن جانا بھی ضروری تھا خامخواہ پریشان ہوتے رہیں گے۔ یا پھر سوچتے ہوں اچھا ہے کامی سے جان چھوٹی۔ شہر میں یہاں وہاں گھومتے ٹائم گزار رہا تھا۔ مغرب کے وقت گھر جانے لگا۔ آتے ہوئے پھر ٹھنڈی ہوا سے میرا سر دکھنے لگا تھا۔ گھر آیا تو بائیک گیراج میں کھڑی اور ڈرے ڈرتے گھر کے اندر داخل ہوا۔ سب سے پہلی نظر مریو پر پڑی جو ادھر ادھر بھاگ رہی تھی۔ امی کہیں نظر نہیں آرہی تھیں۔ شاید کچن یا باتھ روم میں تھیں۔ اور یہ میرے لیے بہترین موقع تھا۔ میں بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں آیا۔ سب سے پہلے تو اپنا موبائل دیکھا۔ امی کے نمبر سے 5 کالز تھیں۔ اور ایک کال روچی کے فون سے کی گئی۔ میں موبائل کو سائیڈ ٹیبل پر چھوڑ کر گیا تھا جبکہ ابھی وہ میرے بیڈ پر تھا۔ اس کا مطلب ہے کچھ کالز کرنے کے بعد گھر والوں کو پتا چل گیا ہوگا کہ میں موبائل روم پہ ہی چھوڑ گیا ہوں۔ میں باتھ روم میں گھس گیا اور شاور لینے لگا۔ یہی مجھ سے غلطی ہو گئی۔ مجھے نہانا نہیں چاہیے تھا۔ وہ میں آگے چل کر بتاؤں گا۔ کپڑے تبدیل کر کے میں بیڈ پر لیٹ گیا۔ مجھے ٹھنڈ کا شدید احساس ہوا۔ میں نے اپنے اوپر کمبل لے لیا۔ میرا پورا جسم ٹوٹ رہا تھا۔ کمر اور کندھے درد کرنے لگے تھے۔ اور میں پھر نیند کی وادیوں میں پہنچ گیا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی شاید آدھا گھنٹا میرے کمرے کا دروازہ کھلا۔ اور امی کی گرج دار آواز آئی۔ کامی بے شرم انسان۔۔۔۔۔ اس وقت میری حالت یہ تھی کہ کانوں میں سائیں سائیں ہو رہی تھی۔ پسینے سے شرابور تھا۔ اور تھر تھر کانپ رہا تھا سردی سے۔ زبردستی آنکھیں کھولتے ہوئے منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔۔۔۔ وڑ گئے وائی۔ اب ماں بہن ایک ہونے والی ہے۔ منہ سے کمبل ہٹانے ہی والا تھا کہ والدہ محترمہ نے زبردستی میرے منہ سے کمبل ہٹا دیا۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔ لال سرخ آنکھیں اور ان میں نمی۔ پورا چہرہ پسینے سے بھیگا ہوا۔ ہونٹ سکڑے ہوئے۔ فوراً جھک کر میرے ماتھے پر ایک ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔ کیا ہوا کامی بیٹے؟ تمہیں تو بہت تیز بخار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امی نے تشویش میں ڈوب گئیں۔ میں کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن گلا خشک تھا بول نہیں پایا۔ ویسے بھی بولتا کیا؟ کہ آپ کی بیٹی پر دل آیا ہے۔ اس نے انکار کیا تو تھپڑ دے مارا۔ بولو بیٹا کیا ہوا؟ میں نے نحیف سی آواز میں کہا پتا نہیں امی آج کیا ہو گیا۔۔۔۔ امی غالباً سمجھیں کہ بہن کو مارنے کی وجہ سے دکھی ہے۔ اسی لیے پورا دن گھر نہیں آیا اور اتنی ٹینشن لی کہ بخار ہو گیا۔ چوپڑیاں وہ بھی دو دو۔۔۔۔۔۔ امی فوراً میرے اوپر جھکیں اور میرے ماتھے کو چوما۔ میں کسی ولی کی طرح آنکھیں بند کر چکا تھا۔ اب میں نے ممے نہیں دیکھنے بری بات ہے یہ۔ امی اسی وقت کمرے سے باہر نکلیں۔ اور 5 منٹ بعد واپس آئیں۔ ساتھ میرے کانوں کو رس کھولتی ہوئی آواز آئی۔ کامی۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ سر سے پاؤں تک اس آواز کو سنتے ہی سرشار ہو گیا۔ دل ہی دل میں کہا۔ میری روچی۔۔۔۔۔ اب کمبل کو نہ اٹھانا میری محبت کی توہین ہوگی۔ میرے سامنے امی اور ساتھ روچی کھڑی تھی۔ دونوں کے چہرے پر ہوائیں اڑ رہیں تھیں۔ کمبل اٹھاتے ہوئے روچی آگے بڑھی اور میرے بیڈ کے سرہانے کے پاس نیچے فرش پر پنجوں کے بل بیٹھ گئی۔ اور بے قراری سے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ درجہ حرارت محسوس کرتے ہی اس کے دل کا درجہ حرارت بھی بڑھنے لگا اور دو موٹے موٹے آنسو اس کے گالوں پر بہنے لگے۔ بی سی یہ کیا ہو رہا ہے۔ مجرم تو میں ہوں۔ رو یہ رہی ہے؟ کہیں مجھے ٹھنڈی مار مارنے کا ارادہ تو نہیں۔ جس کی میٹھی بے عزتی کہتے ہیں۔ امی نے فوراً روچی کو اٹھایا اور میری سرہانے بیٹھ کر مجھے سہارا دے کر اٹھانے لگیں۔ میں نے اٹھتے ہوئے روچی کو دیکھا۔ ننگے پاؤں، تنگ ٹراؤزر اور سرخ رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ دوپٹے سے بے نیاز ممے میرا ہی منہ چڑا رہے تھے۔ مرد کی ٹانگیں قبر میں بھی ہوں وہ ٹھرک سے باز نہیں آتا۔ یہی حال میری بھی تھی۔ روچی نے چائے سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور میرے ننگے سینے پر اپنے نازک سے ہاتھ رکھ دیے۔ میری چھاتی جم کی وجہ سے سخت تھی اور بہترین بناؤٹ تھی۔ روچی نے عجیب حرکت کی۔ میرے پورے سینے پر آہستہ سے ہاتھ پھیرتی پھیرتی ہاتھ اٹھا لیے۔ پھر عین میری گردن کے نیچے سے جہاں سے میرا سینہ شروع ہوتا ہے دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی میرے سینے کی درمیان والی لائن پر پھیرتی ہوئی نیچے پیٹ تک لے گئی۔ میرے اور اس کے درمیان آدھے فٹ کا فاصلہ تھا۔ میری نظر ہمیشہ کی طرح دودھ کی طرح سفید مموں پر جا پہنچی۔ موٹے موٹے ممے میری آنکھوں کے سامنے تھے۔ لن نے سر نکالا۔ اور دل چاہا دونوں ہاتھوں سے قدرت کے شاہکار مموں کو چھو لوں۔ او بہن چود پھر پکڑا گیا۔ جونہی روچی کو دیکھا وہ میری آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ لیکن لیکن شکر ہے چہرے پر غصہ نہیں تھا۔ بلکہ ہلکی سی سمائل ہے۔ کامی۔۔۔۔ ایک بات کہوں؟ روچی کی نشیلی آواز مجھے ہوش میں لے آئی۔ جی جی۔۔۔۔ میں نے چوری پکڑنے جانے پر شرمندہ ہوتے ہوئے تیزی سے کہا۔ روچی ویسے ہی میرے سینے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگی۔ جیسی محبت تم مجھ سے کرتے ہو۔ ایسی محبت میں بھی تم سے کرتی ہوں۔ میں حیرت زدہ تھا۔۔۔۔۔ بالکل مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ایک ہی رات میں ایسا کیا ہوگیا؟ میں نے نیم مدہوشی کی حالت میں پوچھا۔۔۔ مطلب؟؟ روچی نے ہنستے ہوئے جواب دیا بعد میں بتاؤں گی اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔ پھر اچانک اٹھی اور مجھے اٹھا کر چائے دی۔ چائے پی کر وہ باہر چلی گئی۔ میں پہلے سے بہتر محسوس کر رہا تھا۔ ڈور بیل بجی امی شاید دروازہ کھولنے گئیں۔ کچھ دیر بعد احسان اور آشی اور ان کی امی آگئے۔ میں فوراً اٹھا اور شرٹ تلاش کرنے لگا۔ اس دوران آشی مسلسل میرے مسلز اور جسم کو ہی گھور رہی تھی۔ مجھے بڑا عجیب لگا۔ ان کو بھی خبر ہو چکی تھی میں بیمار ہوں۔ احسان کرید کرید کر پوچھنے لگا کہ کل کہاں تھا۔ میں نے بھی کھیتوں کا کہہ کر موضوع تبدیل کر دیا۔ کچھ احسان اور اس کی امی سے باتیں کرتا رہا اس کی امی اور باجی کھڑے کھڑے ہی نیچے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد روچی نے احسان کو آواز دی۔ احسان چائے پی لو۔ آیا آپا۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ نیچے گیا اور پھر دو چائے کے کپ اٹھا کر اوپر میرے پاس آگیا۔ شارٹ کٹ یہ کہ گھنٹہ ایک بیٹھنے کے بعد وہ چلے گئے پھر امی آگئیں۔ میرا بخار و مجھے دیکھ پوچھ کر کہنے لگیں ابھی پھر میڈیسن لے لو۔ ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تم۔ برتن اٹھا کر نیچے چلی گئیں۔ میں روچی کے رویے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کے رویے میں 180 ڈگری تبدیلی۔ اور کیا بات کرنی ہے مجھ سے؟ کچھ دیر بعد پھر امی آئیں پانی کا گلاس اور پیناڈول کی گولی میری سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔ اور تاکید کی کہ کچھ دیر بعد لینا ابھی تم نے چائے پی رکھی ہے۔ دس منٹ بعد میں نے گولی لی اور پانی پی ہی رہا تھا روچی آگئی۔ اس کو دیکھتے ہی میرے منہ سے پانی کا فوارہ چھوٹنے والا تھا جو میں نے بامشکل روکا۔۔۔ بہن چود یہ گھر ہے میرا کوئی فحاشی کا اڈہ نہیں۔ وہی ہاف وائٹ سوٹ لیکن اوپر کا بٹن کھلا ہوا۔ جس سے اس کے مموں کی ایک دو انچ کی درمیانی لائن نظر آرہی تھی۔ ہاتھ میں جھاڑو لیے آدھمکی۔۔۔ میرے ہاتھ سے گلاس لینے آگے آئی تو میری نظر حسب معمول گورے چٹے بڑے بڑے مموں پہ تھی۔ اس نے اب برا بھی نہیں پہنی۔ مجھے مصروف دیکھ کر اونچی آواز میں کہا صفائی ٹائم۔۔۔۔۔ میں چونک گیا۔ کل سے لن میرا آدھا کھڑا آدھا بیٹھا۔ یہ چل کیا رہا ہے۔ روچی کا منہ اب میرے کمرے میں رکھی الماری کی طرف تھا اور میری طرف پیٹھ۔ اس نے پیچھے گانڈ سے قمیض اٹھائی اور جھک کر جھاڑو دینے لگی۔ اب کیا بتاؤں موٹی سے گول سی گانڈ اور تنگ سا ٹراؤزر۔ غیر ارادی طور پر میرا ایک ہاتھ کمبل کے نیچے لن پر جا پہنچا۔ روچی کی بیک ابھی بھی میری طرف ہی تھی اور میں نے لن کو مسلنا شروع کر دیا۔ تصور ہی تصور میں 8 انچ لن کو روچی کی گانڈ میں اتار رہا تھا۔ ایسی صورتحال اور سین پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ البتہ پورن فلمیں ضرور دیکھی ہیں۔ لیکن اتنا مزہ اور سرور۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی سوچ رہا تھا کہ الماری پر لگے شیشے پر نظر پڑی۔ وڑ گئے یار پھر پکڑا گیا۔ روچی اسی شیشے میں پیچھے مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں شرارت تھی۔ جیسے وہ میری صورتحال کو انجوائے کر رہی تھی۔ میرا لن اس وقت فل تناؤ تھا۔ اس سے پہلے کہ روچی کی نظر لن پہ پڑتی میں نے دائیں کروٹ لی۔ روچی جھاڑو لگاتے لگاتے گھومی اب اس کا چہرہ میری طرف تھا۔ میرا ایک ہاتھ لن پہ تھا۔ روچی کے ممؤں کے درمیان کی لائن اب چار پانچ انچ تک لمبی ہو چکی تھی۔ برا کے بغیر ممے اس کی شرٹ کے اندر جھول رہے تھے۔ میں بڑے غور سے انہی کو دیکھ رہا تھا۔ روچی مزید دوہری ہوتی کھلے گلے کی حد ختم ہو گئی لیکن اس کے مموں کی حد ختم نہیں ہوئی یعنی کافی بڑے گول گول سے تھے۔ لن اس وقت فل جوبن پہ تھا۔ روچی نے دوبارہ میری طرف نہیں دیکھا بلکہ شریف لڑکیوں کی طرح اپنا کام کرتی رہی اور مجھے قدرت کے حسین نظارے کرواتی رہی۔ جونہی وہ باہر گئی میں نے سکے کا سانس لیا۔ کیونکہ مجھ سے اب برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ میرا دل چاہا باتھ روم جا کر ایک پیاری سی مٹھ لگاؤں۔ پھر سوچا نہیں یار یہ گناہ ہے۔ اچھا بہن کے ممے دیکھنا کوئی گناہ نہیں۔ واہ رے منافق۔ جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
