بیتے لمحے قسط 07

0

 






میں آنٹی کے گھر سے نکلا اور گھر آ گیا لیکن زندگی بدل چکی تھی مجھے آنٹی کی باتیں ساری یاد تھیں اور مجھے اں باتوں پہ چلنا تھا۔ سب سے مشکل بات امی کو نہ دیکھنا تھا جو مجھے بہت مشکل لگ رہا تھا لیکن جو مزہ مجھے آنٹی نے دیا تھا اور جس مزے کی پیشن گوہی کی تھی وہ میری سوچ سے بڑھ کہ تھا میری زندگی میں یہ کسی بھی عورت کی طرف کا پہلا قدم تھا میری نظر امی پہ پڑتی لیکن اگلے ہی لمحے مجھے کلثوم آنٹی کی بات یاد آ جاتی اور میں نظریں چرا لیتا۔ شادی تک کے دنوں میں بہت بار ایسا ہوا سکول اور گھر بھی جب بھی نظرین امی کی طرف جاتیں میں خود کو کنٹرول کر لیتا ۔ پھر شادی کا دن آ پہنچا جس دن شادی تھی تو میں باہر کھیلنے کے بعد گلی سے واپس آ رہا تھا کہ مجھے کلثوم آنٹی اپنے دروازے میں کھڑی نظر آئیں میں ان کے پاس پہنچا اور انہیں سلام کیا تو وہ سلام کا جواب دیتی ہوئی دروازے سے پیچھے ہٹ گئیں اور مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ میں بے دھڑک ان کے گھر داخل ہو گیا۔ ان سے سیکس کے بعد یہ ہماری پہلی ملاقات تھی مین ان سے ملنے پھر نہیں آیا تھا اور نا ہی ان سے سامنا ہوا تھا میں ان کے گھر داخل ہوا تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی انہوں نے آگے بڑھ کہ دروازہ بند کیا تو میں نے ان کی کمر پہ ہلکا سا ہاتھ پھیرا ۔ وہ چونک کہ پیچھے مڑیں اور بولیں وقت کم ہے تو جیسے سمجھایا تھا ویسے ہی کرنا میں نے ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بولیں گیارہ سے پہلے اس کو میں سٹیج پہ دولہن کے پیچھے لے آوں گی اور تم بھی سٹیج پہ آنا اور ہمارے پیچھے کھڑے ہو جانا میں وہاں اس کی گانڈ پہ ہاتھ پھیروں گی تو وہ مڑ کر دیکھے گی تو میں ہوں گی تم تب اس کی طرف نا دیکھنا میں بار بار اس کے ساتھ یہی کروں گی اور پھر جب گیارہ بجے بجلی جائے گی تو جنریٹر آن ہونے تک تم اس پہ ہاتھ پھیر لینا اس کو محسوس تو ہو جائے گا کہ یہ میرا ہاتھ نہیں لیکن اس کے ری ایکشن سے مجھے ضرور پتہ چل جائے گا وہ کس طرح کی عورت ہے پھر اگلی بات طے کریں گے۔ میں ان کی بات سن اور سمجھ رہا تھا میں نےان کی بات میں کوئی مداخلت نا کی وہ جب بولتے بولتے چپ ہوئیں تو میں ان کی طرف دیکھنے لگ گیا اور پوچھا مجھے کتنا چھونا ہے؟ آنٹی کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اور بولیں تم ہلکے سے اس کے گانڈ کے درمیان ہاتھ مارنا اگر چپ رہی تو پھر زرا زور سے دبانا میں نے کہا کیا مطلب آنٹی؟ میں سمجھا نہیں ۔ تو آنٹی نے اپنا ایک ہاتھ اپنے ماتھے پہ مارا اور بولی ارے میرے انجان ماہیا تجھے تو سب کچھ سکھانا پڑے گا اور مسکراتے ہوئے مجھے پکڑ کر گلے سے لگایا اور میرا ایک ہاتھ پکڑ کہ اپنے بھاری چوتڑون پہ رکھا اور بولی کہ پہلے بار ایسے ٹچ کرنا ہے اور میرا ہاتھ پکڑ کہ اپنی بھاری گانڈ کے درمیان ہلکا سا پھیرا اور پھر بولیں اگر تمہاری مما جانی چپ رہی نا ہلی تو پھر یوں کرناساتھ ہی میرا ہاتھ اپنی گانڈ کی دراڑ میں اچھے سے پھیرا اور مسکرا کہ مجھے دیکھتے ہوئے بولیں سمجھ گئے منے؟؟ میں نے مسکرا کہ اثبات میں سر ہلا دیا ان کی اس حرکت سے میری للی جھٹکا کھا کہ کھڑی ہو گئی تھی۔ آنٹی نے اس کو فورا محسوس کر لیا اور ایک ران میری للی سے رگڑ کہ بولیں اگر تیری امی اس پہ بھی چپ رہی تو اگلی بار ایسے کرنا اور میرا ہاتھ انگلیوں سے پکڑ کر اپنی گانڈ کے سوراخ پہ رگڑنے لگ گئیں اور پھر بولیں اگر تیری امی صوفے پہ جھک گئی جس کے چانس تو بہت ہی کم ہیں پھر تم اس کی یہ جگہ مسلنے لگ جانا اور میرا ہاتھ پیچھے سے نیچے کر انہوں نے اپنی پھدی پہ رکھا لیکن ان کے بھاری وجود کی وجہ سے میرا ہاتھ ان کی پھدی پہ نہیں پہنچ رہا تھا۔ وہ تھوڑا آگے ہوئیں اور مجھے چھوڑتے ہی صحن میں پڑی چارپائی پہ جھکتے ہوئے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا میں جب ان کے پیچھے پہنچا تو انہوں نے کہا کہ وہ اگر جھکی تو ایسے جھکے گی تو تم اس کی ٹانگوں کے درمیان پھدی مسلتے رہنا لیکن عین ممکن ہے وہ تمہیں دیکھے اور اس کے چہرے پہ غصہ ہوا تو دیکھتے ہی بھاگ جانا۔ 


امی کے چہرے پہ غصہ بھی ہو گا یہ بات سنتے ہی میری ہوا نکل گئی اور میں نے ڈرتے ہوئے آنٹی سے کہا آنٹی وہ مجھے بہت ماریں گی اگر انہوں نے دیکھ لیا تو۔ آنٹی سیدھی ہوئیں اور سنجیدہ ہوتے ہوئے بولیں دیکھو مین اس لیے اسے پہلے سٹیج پہ لیکر جاوں گی اور اسے خود چھو کہ عادی کروں گی کہ اس کو یہی لگے کہ میں کر رہی ہوں لیکن اس بات کا بھی چانس ہے کہ وہ تمہارے اور میرے ہاتھ کا فرق پہچان لے اور ہل جائےتو وہ پہلے یا دوسری بار چھونے پہ تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ اندھیرے میں بھی اس کا ری ایکشن کیا ہے اور سخت ری ایکشن دیکھتے ہی تم بھاگ جانا میں سنبھال لوں گی اور یہ کہتے ہوئے آنٹی نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا ڈرو نہیں بالکل بھی میں ہوں نا میرے ہوتے تمہیں کچھ نہیں ہو گا اور میرا سر سہلانے لگیں آنٹی نے میرا سر سہلاتے ہوئے کہا اب تم جاو اور جیسا کہا ہے ویسا ہی کرنا اس سے ہٹ کہ کچھ نہ کرنا میں نے آنٹی کی طرف دیکھا اور ہاتھ اوپر کر کہ ان کے دونوں ممے پکڑنے کی ناکام کوشش کی آنٹی میری اس کوشش پہ ہنس پڑیں اور بولیں بدمعاش اتنے دن آیا نہیں اور جب وقت نہیں ہے تو اب کھینچنے لگا ہے اتنے دن کیوں نہیں آیا ماں چود ۔ میں شرمندہ سا ہو کہ ہنس پڑا کیونکہ مجھے آنٹی کی طرف آنے میں ایک جھجھک تھی اور اگر وہ نا بلاتیں تو شائد میں آج بھی ان کی طرف نا آتا۔ وہ خود ہی بولیں اچھا اب جاو دیر ہو رہی ہے رات شادی پہ ملتے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا آنٹی بس خیال رکھنا مجھے مار نا پڑے ایسا نا ہو مجھے امی ماریں تو وہ ہنس پڑیں اور بولیں اس عورت کے حسن کے لیے لوگ کیا کیا کر جائیں اور تم مار سے ڈرتے ہو اور ڈرنے والے کو کچھ نہیں ملتا اور ہنسنے لگیں۔ پھر بولیں کچھ نہیں ہو گا ابھی تو یہ پہلا ٹیسٹ ہے اس پہ دیکھ کہ آگے عمل کریں گے اور میرے گال اپنے ہاتھ میں لیکر کھینچنے لگیں ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے جیسا آپ کہتی ہو وہی ہوگا میں ویسا ہی کروں گا۔ وہ بولیں تو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے تم بھی یاد کرو گے مجھے کہ کس سے دوستی کی تھی اور پھر بولیں اب جاو گھر جلدی سے مجھے بھی دیر ہو رہی ہے میں پھر ان سے مل کہ گھر کی طرف نکل پڑا۔ گھر پہنچا تو امی نے کھانا وغیرہ تیار کیا ہوا تھا مجھے گھر آتے دیکھ کہ انہوں نے کہا کہ جلدی آو کھانا کھا لو پھر ہم نے شادی پہ بھی جانا ہے میں ان کی آواز سن کہ کچن کی طرف بڑھ گیا اور امی نے مجھے کھانا دیا اور میں کھانا کھانے لگا امی مجھے کھانا دے کر کچن سے باہر نکل گئیں ۔ کھانا کھانے کے بعد میں نے برتن واش بیسن میں رکھے اور باہر نکلا تو دیکھا امی لاونج میں نہ تھیں تو میں ان کے کمرے کی طرف چل پڑا کہ اپنے کپڑون کا ان سے پوچھ لوں کہ کون سے پہنوں ۔ میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو ایک لمحے کے لیے مجھے سکتہ ہو گیا امی نے ہلکے گلابی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور ان کے بال کھلے ان کی کمر تک تھےاور وہ شیشے کے آگے جھکی میک اپ کر رہی تھیں ۔ دروازہ کھلنے سے انہوں نے شیشے میں ہی مجھے آتے دیکھا اور پھر میک اپ میں مشغول ہو گئیں ۔ میں نے شیشے میں انہیں دیکھا تو ان کے کھلے گلے کی وجہ سے ان کے ممے آدھ ننگے شیشے میں سامنے نظر آ رہے تھے اور میں ان کے پاس کھڑا تھا ان کے جسم سے ہلکی ہلکی مہک نکل رہی تھی۔ انہوں نے اسی طرح برش چہرے پہ چلاتے ہوئے پوچھا ہاں کیا مسئلہ ہے ؟ میں نے شیشے میں انہیں دیکھا اور پھر نظر جھکا کہ کہا وہ میرے کپڑے کون سے ہیں میں کون سے کپڑے پہنوں تو امی نے ایک ادا سے سر کو جھٹکا جس سے ان کے بال ایک سائیڈ پہ ہوئے اور کندھے کے دوسری طرف سے اپنا تھا کرتے ہوئے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں بالوں کو پکڑا اور سیدھی کھڑی ہوئیں تو ایک لمحے کے لیے مجھے لگا کہ ابھی امی کی قمیض پھٹ جائے گی اور یہ ممے اچھل کر باہر آ جائیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ امی نے مجھے یوں تاڑتے دیکھا تو اسی انداز میں بولیں مجھے ہی دیکھتے رہو گے یا اب جا کہ تیار بھی ہو گے؟ میں نے ان کی طرف ایک ستائش بھری نظر ڈالی اور کہا امی آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں ماشااللہ کہیں نظر ہی نا لگ جائے۔ میرے انداز میں اتنی بے ساختگی تھی کہ امی بھی ہنس پڑین اور مڑ کہ خود کو شیشے میں دیکھنے لگ گئین اور میں نے کہا دیکھ لیں آپ کتنی پیاری لگ رہی ہیں آج، انہوں نے ماتھے پہ ہلکی سی سلوٹ ڈال کر کہا کیا مطلب آج پیاری لگ رہی ہوں کیا میں روز پیاری نہیں ہوتی؟؟ میں نے جلدی سے کہا ارے نہیں آپ تو روز ہی پیاری لگتی ہو آج بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہو میں نے اس لیے جلدی جلدی کہا کہ وہ ناراض نا ہو جائیں لیکن اس بات کو وہ پکڑ کر بولیں تو اچھا جناب مجھے روز پھر اسی طرح دیکھتے ہیں کہ میں پیاری لگ رہی ہوں یا نہین اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے پیٹ کے گرد رکھ لیے مطلب اپنی سائیڈوں پہ جیسے بندہ لڑائی کے لیے تیار ہو رہا ہو میں امی کی بات سن کر بوکھلا گیا کیونکہ آنٹی کلثوم نے کہا تھا کہ امی کو شک نہ ہونے دینا کہ تم اس کو دیکھتے ہو جب کہ یہاں معاملہ ہاتھ سے نکل گیا تھا میں نے امی کی طرف دیکھا تو مجھے اور تو کچھ نا سوجھا میں نے سر کھجاتے ہوئے کہا وہ آپ اتنی پیاری لگ رہی ہوتی ہو کہ بس خود ہی پیاری لگ جاتی ہو میں جان کہ تو نہیں دیکھتا۔ امی نے سنجیدہ ہونے کی کوشش کی لیکن ان کے منہ سے ہنسی کا فوارہ چھوٹ گیا اور وہ ہنستے ہوئے دوہری ہوتی گئیں ان کے اس طرح جھکنے سے ان کے گول مٹول ممے آدھے سے زیادہ ان کے گلے سے جھانکنے لگے اور میں سب کچھ بھول کر ان کے موٹے رسیلے ممے دیکھنے لگ گیا وہ اسی طرح ہنستے ہنستے اوپر ہوئیں اور میری آنکھوں میں دیکھا اور بولیں ارے میرا منا تو جوان ہو گیا ہے اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ میں شرمندہ ہو گیا اور میں نے آنکھیں جھکا لین وہ اسی طرح مسکراتے چہرے سے بولیں چلو جاو اور سٹور سے کپڑے پہنو پھر ہم چلتے ہیں ۔ میں نے ایک نظر امی کی طرف دیکھا اور ان کے بھرپور سراپے سے اپنی نظر سینکتا ہوا واپس باہر کی طرف مڑ گیا اور سٹور کیطرف چل پڑا۔ سٹور سے کپڑے تبدیل کر کہ میں باہر نکلا تو ابو بھی لاوئنج میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے میں نے ان کو سلام کیا اور ان کے پاس ہی بیٹھ گیا اتنے میں امی کمرے سے نکلیں تو اب انہوں نے گلے میں دوپٹہ ڈالا ہوا تھا لیکن اس سے انہوں نے کچھ بھی چھپایا ہوا نہیں تھا۔ ابو نے امی کی طرف دیکھا اور بولے بیگم اطمینان سے آ جانا میں بچوں کو دیکھ لوں گا اور علی کا دھیان رکھنا۔ امی نے تشکر بھری نظروں سے ان کو دیکھا اور کہا چلیں یہ تو اچھا ہے اب میں اطمینان سے شادی میں شرکت کر لوں گی ویسے بھی بچے سو جائیں گے ۔ ابو نے کہا بیگم تم ان کی فکر مت کرو میں گھر ہوں بس علی کا دھیان رکھنا اور پھر مجھ سے بھی مخاطب ہوتے ہوئے بولے بیٹا باہر آوارہ مت پھرنا اور ماں کے پاس ہی رہنا اور اکھٹے گھر آنا ماں کے ساتھ اور ایسا نا ہو کہ آوارہ گردی کرتے رہو۔ میں نے سعادت مندی سے سر ہلا دیا اور کہا ٹھیک ہے ابو ایسا ہی ہو گا۔ ابھی ہم بات کر ہی رہے تھے کہ باہر گھنٹی بجنے کی آواز آئی تو میں اٹھ کر باہر کی طرف گیا اور دروازہ کھولا تو سامنے کلثوم آنٹی کھڑی تھیں ۔ میں نے ان کو سلام کیا اور اندر آنے کا راستہ دیا تو وہ میرے سلام کا جواب دیتی ہوئی مجھے نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئیں میں حیران سا رہ گیا اور دروازہ بند کرتے ہوئے پیچھے مڑا تو وہ امی سے گلے مل رہی تھیں اور اس طرح کہ ان کا چہرہ اور امی کی کمر میری طرف تھی۔ انہوں نے امی کے کندھے پہ چہرہ رکھتے ہوئے مجھے آنکھ ماری اور امی سے مخاطب ہوتے ہوئے بولیں اف بنو آج تو محلے والوں کی خیر نہیں ہے اتنی پیاری لگ رہی ہو اور ایک ہاتھ نیچے کرتے ہوئے ان کے کولہوں کو ایک سائیڈ سے دبایا امی ان کے ایسا کرنے سے ایک دم ان سے الگ ہوئیں اور ان کے بازو پہ ایک مکا مار کہ پیچھۓ مڑ کہ مجھے دیکھا اور پھر ان کی طرف مڑ کہ بولیں بدتمیز کچھ شرم کرو بچہ سامنے کھڑا ہے ۔ کلثوم آنٹی ہنستے ہوئے بولیں ارے یہ تو بچہ ہے قیامت تو جوانوں پہ گزرے گی جانے کتنے کو صبح اٹھ کہ نہانا پڑے گا امی ان کی بات پہ شرمندہ سی ہو گئیں اور وہیں سے تھوڑا آگے ہو کر ابو کو آواز لگائی کہ ہم جا رہی ہیں اور پھر دروازے کی طرف چل پڑیں اور مجھے بھی چلنے کا اشارہ کیا اور میں ان کے پیچھے پیچھے دروازے کی سمت چل پڑا جیسے ہی امی دروازے سے باہر نکلنے لگیں کلثوم آنٹی نے میری طرف دیکھا اور مجھے آنکھ ماری اور ہاتھ آگے بڑھا کہ امی کے کولہوں کے درمیان ہلکا سا گھسا دیا اور ان کے پیچھے ہو گئیں۔ امی دروازے سے باہر نکلین اور ان کو گھور کہ میری طرف اشارہ کیا مگر کلثوم آنٹی ہنس کہ آگے چل پریں اور میں بھی ان کے ساتھ چلنے لگا


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)