بیتے لمحے قسط 04

0

 







میں ان کا چہرہ صاف کرتے ہوئے پھر ان کے کشادہ گریبان میں اندر تک جھانکا جہاں میرے بچپن کی خوراک کے برتن آب وتاب سے چمک رہے تھے امی کی بند آنکھیں دیکھ کر میں اور شیر ہو گیا اور تولیہ ان کے منہ پہ پھیرتے پھیرتے اپنی نظریں ان کے گریبان میں فوکس کر لیں ان کے ممے برا میں قید تھے اور برا سے باہر بھی مموں کے درمیان ہلکا ہلکا پسینہ چمک رہا تھا۔ امی نے ایک گہری سانس لی اور پھر آنکھیں کھول کہ مسکراتے چہرے کے ساتھ مجھے دیکھا اور بولیں میرا شہزادہ پتر کتنا خیال کرتا ہے میرا اور آگے ہو کہ میرے گال پہ ایک پیار کیا ان کے نرم ہونٹ مجھے اپنے گال پہ لگے ہی تھے کہ مجھے اپنے کندھے پہ کوئی نرم نرم چیز لگتی محسوس ہوئی میں نے ایک دم ادھر نظر کی تو ان کے ممے مجھے ہلکا سا چھو کر واپس ہو رہے تھے۔ انہوں نے مجھے پیار کرنے کی کوشش کی تو اس دوران ان کے ممے مجھ سے ٹکرا گئے تھے۔ یہ ان کے لیے نارمل بات تھی اور وہ بات جاننے سے پہلے میرے لیے بھی یہ ایک عام روٹین تھی لیکن اب پانی پلوں کے نیچے کے بجائے اوپر سے گزر چکا تھا ۔ امی کے گول سڈول مموں کے دیدار نے میری ننی منی سی للی کو اکڑا دیا تھا جو اس وقت شائد تین انچ کی ہوئی ہو گی۔ بچپنا تھا بس ان کو دیکھنا چھونا ہی سب کچھ تھا یہ جانے بغیر کہ وہ میری پہلی حرکت سے پہلی نظر سے سب کچھ جانتی ہیں میں اپنی طرف سے بہت تیز بنا ہوا تھا لیکن بعد میں علم ہوا کہ وہ تو پہلی نظر سے ہی سب جان گئی تھیں۔ ماں کے اندر برداشت کرنے کی ایک بہت بڑی صلاحیت ہے اور اپنے بچے کے لیے ہر حد سے گزرنے کی گنجائش بھی۔ خیر پھر امی نے کھانا لگایا اور کھانے کے دوران بھی ان کی قمیض گانڈ سے ہٹی رہی ان کی بڑی سی گانڈ کو ایک شلوار ڈھانپنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی اور ممے بھی تقریبا آدھے ننگے تھے۔ یہاں یہ بات کہ یہ کھلے گلے وہ پہنتی رہتی تھیں لیکن پہلے کبھی میں نے اس نظر سے نہیں دیکھا تھا۔کھانا کھانے کے بعد ہم سب لاونج میں لیٹ گئے اور امی کے

 مختلف نظارے دیکھتے دیکھتے جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا۔ میری جب آنکھ کھلی تو شام ہو رہی تھی میں نے ہوم ورک کیا اور پھر محلے کی طرف کھیلنے نکل گیا میرا دل تو یہی چاہ رہا تھا کہ میں گھر ہی رہوں اور امی کو دیکھتا رہوں لیکن پھر ایک ہچکچاہٹ کی وجہ سے میں گھر سے باہر نکل گیا اور گراونڈ میں کھیلنے پہنچ گیا۔ گراونڈ میں جاتے ہی مجھے یاسر بھی مل گیا یاسر نے مجھے گراونڈ میں آتا دیکھا تو دوڑ کہ میرے پاس آیا اور مجھے ملنے لگا وہ بہت خوش ہو رہا تھا مجھے ملتے ہی اس نے کہا یار بہت شکریہ تم آ گئے مجھے بہت فکر ہو رہی تھی کہ تم ناراض نہ ہو جاو۔ میں اس سے مل کہ الگ ہوا اور اسے چھیڑنے کے انداز میں کہا چوتیا آدمی اگر میں تمہیں کہوں کہ تمہاری امی کے ممے پیارے ہیں تو تمہیں بھی لگ پتہ جائے گا۔ یاسر نے ادھر ادھر دیکھا اور میرے قریب ہوتے ہوئے کہا ابے گدھے اگر خوبصورت ہوں گے تو تمہارے کہنے سے خراب تو نہیں ہو جائیں گے اب اچھی چیز سب کو اچھی لگتی ہے یاسر نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک آنکھ میچ کر کہا۔ میں یاسر کی یہ بات سن کر ہکا بکا رہ گیا یاسر نے مجھے حیران ہوتے دیکھا تو میرے قریب ہوا اور بولا یار علی سب کو ہی یہ فیلنگز آتی ہیں اب ٹیچر کو دیکھ کہ تمہاری للی بھی ہلتی ہے اسی طرح اپنی امی کو دیکھ کہ میری بھی ہلتی ہے اب کیا کریں کس کو بتائیں لیکن یہ حقیقت ہی ہے۔ میں ایک لمحے میں اس کی بات سمجھ گیا مگر انجان بنتے ہوئے کہا تم بکواس کرتے ہو مجھے ایسی کوئی فیلنگز نہین آتی ہیں تم ہی گندے بچے ہو۔ یاسر نے میری اس بات پہ ایک فرمائشی قہقہہ لگایا اور میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔ جو نظارہ سب سے اچھا لگے گا رات کو وہ سوچ کہ ہاتھ سے للی کو ہلانا اور پھر دیکھنا سکون کیا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا اس نے کہا چلو جی اب کھیلتے ہیں اور میں سب کچھ بھول کر کھیل میں مگن ہو گیا۔ کھیل ختم کر کہ مغرب کے قریب جب میں گھر کے لیے روانہ ہوا تو دروازے پہ ہی امی ہماری پڑوسن کلثوم آنٹی کے ساتھ کھڑی تھیں جن کا رنگ بہت کالا تھا میں نے ان کو سلام کیا اور اندر داخل ہو گیا امی گیٹ پہ کھڑی ان سے گپ لگا رہی تھیں ۔ میں اندر صحن میں جا کہ بیٹھ گیا اور امی کی طرف دیکھنے لگا ۔ میری نظر بار بار امی کے جسم کا طواف کر رہی تھی اور میرے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ سامنے کھڑی کلثوم آنٹی یہ سب نوٹ کر رہی ہیں ۔ ان کی گپ شپ جاری تھی اور میں نظارے میں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک امی نے مجھے آواز دی اور مجں نے چونک کہ ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے کئا آؤ آنٹی کو بازار سے سبزی لا دو۔ کلثوم آنٹی کوئی چالیس سال کے قریب عمر کی ایک کالی سی عورت تھیں جن کا جسم بھرا بھرا تھا مگر ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔امی نے کہا آو آنٹی کو سبزی لا کہ ان کے گھر دے کہ آو میں جلدی سے اٹھا ان سے پیسے لیے اور بازار کی طرف نکلنے لگا تو انہوں نے کہا کہ سبزی لے کر گھر آنا میں گھر ہی جا رہی ہوں۔ یہ ایک نارمل بات تھی جس پہ مجھے کوئی حیرانی یا الجھن نہ تھی میں بازار گیا وہاں سے سبزی لی اور کلثوم آنٹی کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا کلثوم آنٹی کے گھر کیونکہ کھلم کھلا آنا جانا تھا تو میں سبزی لیکر ان کے گھر کی طرف چل پڑا اور دروازہ کھول کہ اندر داخل ہوا تو وہ سامنے صحن میں لگے نل کے آگے پاؤں کے بل بیٹھی برتن دھو رہی تھیں انہوں نے مڑ کر دیکھا تو مجھے آواز دی کہ دروازہ بند کر کہ سبزی کچن میں رکھ دو۔ میں نے اچٹتی سی نظر ان پہ ڈالی اور کچن کی طرف بڑھ گیا ابھی میں سبزی رکھ رہا تھا کہ انہوں نے آواز دی علی وہاں سے گندے برتن اٹھا کر لیتے آو میں نے کچن سے گندے برتن اٹھائے اور ان کو دینے چل دیا۔ جب میں ان کے آگے برتن رکھنے لگا تو ان کے منے آدھے سے بھی زیادہ ننگے تھے اور انہوں نے کوئی چادر نہیں لی ہوئی تھی۔ برتن رکھتے میری نظر ان پہ پڑی تو ان کے ممے بناوٹ میں مجھے انی کے مموں سے بھی اچھے لگے لیکن رنگ تھوڑا کالا ہونے کی وجہ سے مجھے کوئی خاص کشش نہ محسوس ہوئی۔ اور میں ان کے سامنے برتن رکھ کہ پیچھے ہٹ گیا اور صحن میں پڑے تخت پوش پہ بیٹھ گیا کہ یہ برتن دھو کہ فارغ ہوں تو بقایا پیسے دیکر گھر کی طرف نکل جاوں۔ یوں بیٹھے بیٹھے میں نے نظر گھمائی تو کلثوم آنٹی پہ میری نظر پڑی جو قمیض کا دامن پیچھے سے خاصا اونچا کیے پاوں کے بل بیٹھی ہوئی تھیں جس سے ان کی کالی سی کمر بھی نمایاں ہو رہی تھی۔ میں نے ایک نظر ان کو دیکھا اور پھر نظر ہٹا لی کیونکہ کالے رنگ میں مجھے کوئی کشش محسوس نہ ہو رہی تھی۔ میں ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا تو مجھے محسوس ہوا کوئی میری طرف دیکھ رہا ہے میں نے جب دیکھا تو کلثوم آنٹی نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں کے نیچے دبایا ہوا تھا اور وہ مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ مجھے ان کے دیکھنے کا انداز بہت عجیب سا لگا اور میں نے گھبرا کہ آنکھیں نیچے کر لیں مجھے محسوس ہوا کہ وہ چلتی ہوئی میری طرف آ رہی ہیں میں نے اپنی نگاہیں فرش پہ گڑا دیں اور نیچے دیکھنے لگ گیا وہ بھی چلتی ہوئی میرے پاس آئیں اور میرے سامنے کھڑی ہو گئیں مجھے فرش پہ ان کے پاوں نظر آئے لیکن میں نے ان کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا۔ کلثوم آنٹی میرے سامنے کھڑی تھیں اور ان کی سانسوں کی آواز مجھے واضح طور پہ سنائی دے رہی تھی۔ میں سر جھکائے بیٹھا تھا کہ مجھے کلثوم آنٹی اپنے پاس بیٹھتی ہوئی محسوس ہوئیں ان کے ایک بار دیکھنے سے ہی میں کچھ گھبرا سا گیا تھا ورنہ بچپن سے ان کے گھر آتا جاتا تھا اور ان سے بہت پیار بھی کرتا تھا جیسا کہ بچے محلے میں کئی آنٹیوں سے مانوس ہوتے ہیں۔ لیکن آج مجھے ان کا دیکھنا کچھ عجیب سا لگا تھا جس سے میں کچھ ڈر گیا تھا۔ وہ میرے پاس جڑ کہ میرے ساتھ بیٹھ گئیں ان کی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں میں نے ڈرتے ڈرتے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے اپنے ہاتھ گود میں رکھے ہوئے تھے اور اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھیں ان کے سانولے چہرے پہ پسینہ آیا ہوا تھا اور سانس لینے سے ان کے موٹے ممے اوپر نیچے ہو رہے تھے ان کے گلے میں چادر نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ ان کی نگاہیں بھی فرش پہ گڑی ہوئی تھیں اور ان کی ران میری ران سے جڑی ہوئی تھی ان کی جو ران مجھ سے جڑی تھی اس کی گرمی مجھے اپنی ران پہ محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے جیب سے پیسے نکالے اور ان کی طرف بڑھا دئیے اور کہا آنٹی یہ لیں باقی پیسے رکھ لیں یہ کہتے ہوئے میں زرا ڈرا ہوا بھی تھا۔ انہوں نے میری بات سنتے میری طرف دیکھا اور اپنے چہرے پہ جبری مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا کہ تم یہ پیسے رکھ لو اور میرا ایک کام کر دو۔ میں نے کہا بتائیں نا ایسا کیا کام ہے جس کے لیے میں آپ سے پیسے لوں گا آپ بتاو میں ابھی کام کر دیتا ہوں۔ ان کی اس بات سے میرا ڈر کم ہو گیا کہ آنٹی کوئی کام بتا رہی ہیں میں تو ایسے ہی ڈر رہا تھا۔ آنٹی نے میری طرف دیکھا اور کہا لیکن تم وعدہ کرو یہ بات کسی کو نہیں بتاو گے یہ بات کرتے ان کے سانولے چہرے کے تاثرات کچھ عجیب سے ہو گئے۔ میں نے کہا آنٹی آپ بے فکر ہو کہ بولو میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گا کسی کو کچھ نہیں بتاوں گا آپ کام بتاو۔ آنٹی نے مجھے ایک بازو میرے سر کے پیچھے سے گزارتے ہوئے اپنے ساتھ لگا لیا اور کہا علی دیکھو یہ بات کسی کو بھی نا بتانا جو میں تمہیں کہہ رہی ہوں ۔ میں آنٹی کے ساتھ لگ گیا اور ان سے کہا آپ بولو تو سہی میں کسی کو نہیں بتاوں گا ۔ آنٹی نے میرے چہرے کو پکڑ کر اوپر کیا اور میرے گال کو ہونٹوں میں لیکر ایک طویل بوسہ دیا جیسے وہ میرے گال کوچوس رہی ہوں۔ آنٹی کے اس بوسے سے میرے جسم میں جیسے چیونٹیاں رینگ گئیں اور مجھے ناف کے نچلے حصے میں عجیب سنساہٹ سی محسوس ہوئی جو آج تک کبھی محسوس نہ ہوئی تھی۔



Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)