بیتے لمحے قسط 03

0










امی نے کلاس لی اور اسکے بعد وہ کلاس سے نکل گئیں لیکن میری سوچ میرا دماغ بدل چکا تھا میری آنکھوں کے سامنے بار بار وہ امی کی گانڈ پہ ہاتھ لگنا اور اس کا تھرتھرانا اور ہلنا اور پھر امی کا کچھ نہ کہنا مجھے دکھائی دے رہا تھا مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پہ تھی کہ امی نے اس پہ کوئی ردعمل نہ دیا تھا اور وہ یوں چپ رہی کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس حرکت پہ تھپڑ تو مارنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے یوں نظر انداز کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اسی سوچنے کے درمیان ہماری چھٹی کا وقت ہو گیا اور ہم سکول سے نکلے تو گیٹ پہ امی بھی چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑی تھیں میں بھی جا کہ کھڑا ہی ہوا تھا کہ وین آ گئی اور سب بچے وین کی طرف لپکے عام طور پہ میں بھی دوڑا کرتا تھا لیکن تب میرا دل کیا کہ آج امی کو پیچھے سے دیکھوں گا۔ سب بچے وین کی طرف دوڑے تو دو تین بچے امی سے ٹکرتے ہوئے وین کی طرف لپکے ان کی دیکھا دیکھی میں بھی دوڑا اور یہ کوشش کی کہ امی کے پیچھے سے ٹکرتا ہوا گزروں لیکن کیونکہ اناڑی پن تھا تو میں نے جو ہاتھ ان کی سائیڈ پہ لگانا تھا میرے اناڑی پن کی وجہ سے ان کے بھاری چوتڑوں کے بالکل درمیان میں زور سے لگا کیونکہ میں بھاگ رہا تھا تو یوں لگا جیسے کسی نے گانڈ پہ تھپڑ دے مارا ہو۔ میرا ہاتھ ان پہ لگتے ہی تھپ کی آواز آئی اور اسکے ساتھ ان کے منہ سے اوئی نکلا اور وہ بھڑک کہ پیچھے مڑی تو وہاں سے میں دوڑ کہ گزر رہا تھا اور میرے اوسان خطا ہو چکے تھے۔ امی نے پہلے تو خونخوار نظروں سے دیکھا لیکن مجھے دیکھ کہ وہ آگے پلٹ گئیں اور چھوٹی کو اٹھا کر وین میں رکھنے لگیں۔ جیسے ہی وہ چھوٹی کو اٹھانے کے لیے جھکیں تو پیچھے ایک دلکش نظارہ تھا جو بڑی بڑی گانڈ کی وسیع پہاڑیوں کو الگ الگ کرتے ہوئے دعوت دے رہا تھا میں پھر ان کے پیچھے سے لگتا ہوا گزرا اور وین میں سوار ہونے کی کوشش کی۔ اب کی بار انہوں نے کہا علی زرا صبر کرو دو منٹ مجھے چھوٹوں کو پہلے بٹھانے دو۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔۔ میں نے فورا آگے بڑھتے ہوئے پاوں واپس کھینچ لیے اور پیچھے ہٹ گیا مجھے پیچھے ہٹتا دیکھ کہ وہ بولیں بیٹھ بھی جاو اب لیکن میں فورا پیچھے ہو کر نیچے اترا اور پھر سے دیدار کرنے لگ گیا۔ دل کے کسی کونے میں ہلکی سی یہ آواز ابھری بھی کہ یہ غلط بات ہے لیکن وسوسے نے یہ سمجھا دیا کہ باقی کلاس فیلوز ہاتھ بھی پھیر جاتے ہیں میں تو صرف دیکھ ہی رہا ہوں ۔ امی نے سب کو گاڑی میں سوار کیا اور پھر میری طرف مڑیں اور مجھے گاڑی میں آنے کا اشارہ کر کہ سیڑھی پہ قدم رکھا میں نے سہارا لینے کے بہانے ہاتھ اوپر کیا اور ان کے ایک موٹے چوتڑ پہ لگا دیا انہوں نے دوسرا قدم اٹھایا اور گاڑی میں داخل ہو گئیں میں نے بھی وہاں دو تین بار ہھر ان کو چھو لیا ۔ اس طرح ہم گاڑی میں بیٹھے رہے میں بار بار ان کی طرف دیکھ رہا تھا جب تین چار بار ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے بھی میری طرف دیکھا جیسے ہی ہماری نگاہیں ملی ان کی نگاہ مجھے اندر تک اترتی محسوس ہوئی جیسے میرے دل سے ہر راز کی بات نکال رہی ہوں

میں نے گھبرا کہ آنکھیں چرا لیں اور ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا انی کے دیکھنے سے میں بھی کنفیوز ہو گیا اور ان سے نظر چرا لی لیکن میرا دل کر رہا تھا میں پھر ان کی طرف دیکھوں میں بار بار نظر ان کی طرف کر کہ راستے سے واپس موڑ لیتا لیکن کب تک۔ آخر میں نے امی کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھیں میں نے جیسے ہی ادھر دیکھا تو انہوں نے دانتوں سے نیچے والا ہونٹ دبایا ہوا تھا اور ان کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی۔ ہماری نظرین چار ہوتے ہی انہوں نے میری طرف اشارہ کیا کہ کیا بات ہے؟ میں نے نظرین چرا کہ پھر سر جھکا لیا گاڑی میں اور بچے بھی تھے سب اپنی اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے میں نے پھر اپنی طرف سے نظر بچا کہ امی کو دیکھا اور پھر دیکھتا رہ گیا انہوں نے ایک ہاتھ اوپر کر کہ وین کی چھت سے لگے ڈنڈے کو پکڑا ہوا تھا جس سے ان کے مموں کی ایک سائیڈ سے چادر ہٹ چکی تھی ان کا ایک موٹا تازہ مما دوپٹے سے بالکل باہر تھا اور ان کے گلے کے درمیان گئری لائن بالکل واضح نظر آ رہی تھی ان کی گردن سے نیچے سفید رنگ میں عجب سی کشش اور جازبیت تھی۔ چلتے چلتے جیسے گاڑی ہلتی تو اسی ردھم میں ان کے ممے میں بھی ہلکی سی تھرتھراہٹ ہوتی۔ ایک بچے کے لیے اس منظر سے الگ ہونا ناممکن ہو چکا تھا ۔ مجھے یوں لگا جیسے میں باقی دنیا سے کٹ چکا ہوں اور دنیا میں امی کے اس ممے کے سوا کچھ بھی حقیقت نہیں ہے میں شاید ایک منٹ ہی یہ نظارہ دیکھ سکا کہ امی نے مجھے دیکھے بغیر اپنی چادر ٹھیک کرتے ہوئے ممے کو ڈھانپ لیا لیکن انہوں نے میری طرف نہ دیکھا ۔ مین بھی اپنی طرف سے خوش ہوا کہ ان کو میری اس گستاخی کا علم نہیں ہوا۔ ہم گھر کے قریب سٹاپ پہ پہنچے تو گاڑی سے اترنے لگے میرے آگے جونہی امی کھڑی ہوئین تو بیچاری قمیض ان کے بھاری بھرکم چوتڑوں کے انتہائی اندر تک گھسی ہوئی تھی جس کو انہوں نے کھینچ کر باہر نکالا اور گاڑی سے نیچے اتر گئی۔ ہم گھر میں داخل ہوئے اور میں اپنے کپڑے تبدیل کرنے اپنے کمرے کی طرف چل پڑا کپڑے تبدیل کرتے بھی میرے زہہن میں یہی سب چل رہا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا کیوں نا امی کو دیکھا جائے وہ بھی تو کپڑے بدل رہی ہوں گی میں نے جلدی سے کپڑے تبدیل کیے اور ان کے کمرے کی طرف بھاگا میں نے بہانہ سوچ رکھا تھا کہ ان کے کمرے کا دروازہ اگر بند ہوا تو کھول کر کہوں گا مجھے بھوک لگی ہے اور جو بھی نظارہ ہو گا دیکھ لوں گا میں بھاگتا ہوا ان کے کمرے تک پہنچا تو دیکھا دروازہ کھلا تھا میں بے دھڑک اندر داخل ہوا تو امی دوپٹہ بیڈ سے اٹھا رہی تھیں اور وہ کپڑے تبدیل کر چکی تھیں مجھے دیکھ کہ ان کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی مگر انہوں نے مجھے کچھ نہ کہا اور میری طرف بڑھتی آئیں میں دروازے پہ کھڑا اپنے پلان کے ناکام ہونے کا ماتم کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں۔ وہ میرے پاس پہنچی میرے گال سہلائے اور کہا چلو آو کچن میں چلتے ہیں کھانا کھا لو دوسرے سب تو لاونج میں بیٹھے ہیں ۔ میں نے سر ہلا دیا اور امی میرے آگے بڑھ گئیں میں ان کے پیچھے چلنے لگا اور پیچھے چلتے چلتے میں نے جب ان کی طرف دیکھا تو میری سانس جیسے گلے میں اٹک گئی ان کی قمیض اوپر کمر تک پھنسی ہوئی تھی مطلب ان کی قمیض کا دامن ان کے چوتڑوں سے اوپر تک تھا اور بھاری بھر کم چوتڑ پہ صرف شلوار تھی اور وہ میرے آگے چل رہی تھیں ان کے چلنے سے ان کے بھاری چوتڑ اچھل کود کر رہے تھے لیکن سفر ایک دم ختم ہو گیا لاوئنج میں پہنچتے ہی انہوں نے رک کہ میری طرف مڑ کہ دیکھا میں جو ان کی گانڈ کی گہری وادی کے نظارے میں گم تھا ایک دم۔ رک گیا جیسے ہی میں نے ان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ عجیب سی مسکراہٹ تھی ۔ میں اپنی جگہ پہ شرمندہ ہوا کہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہوں لیکن امی نے ومیض درست نا کی اور نہ ہی میں نے ان کو بتایا۔ چھوٹے بہن بھائیوں نے ٹی وی لگا لیا ہوا تھا اور وہ ٹی وی دیکھ رہے تھے ۔ امی ایک آدھ منٹ ان کے پاس رکیں اور پھر کچن کی طرف بڑھ گئیں میں بھی ان کے پیچھے کچن کی طرف بڑھتا گیا۔ اور میری للی پہ اس نظارے کو دیکھتے دیکھتے اپنے ہونے کا احساس دلانے لگی بچپن سے جوانی کا یہ سفر بہت انوکھا بھی تھا اور شرم بھی آ رہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے لیکن جو ہو رہا تھا وہ جسم کو اچھا لگ رہا تھا۔ کچن میں پہنچ کہ امی کھانا پکانے لگ گئیں اور میں نے ڈائننگ ٹیبل پہ برتن لگانے شروع کر دئیے۔ میں برتن لگاتے ساتھ امی کی طرف بھی دیکھ رہا تھا جنہوں نے اپنا دوپٹہ اتار کہ ایک کرسی پہ رکھ دیا تھا۔ برتن رکھ کہ میں ڈائننگ ٹیبل کے پاس کرسی پہ بیٹھ گیا اور ان کو کام کرتے دیکھنے لگ گیا کچن میں بالکل خاموشی تھی ۔ امی جب روٹی پکانے کے لیے اسے ہاتھوں پہ ادھر ادھر مارتیں تو ان کا سارا جسم تو ہلتا لیکن ان کی گانڈ بھی ایک اچھا منظر پیش کرتی میں اٹھ کر ان کے پاس چلا گیا اور ان کو روٹی پکاتے دیکھنے لگا۔ امی نے ایک کھلے گلے والی قمیض پہن رکھی تھی بلکہ وہ اسی طرح کا لباس پہنتی تھیں ہم نے ہی کبھی غور نہ کیا تھا ورنہ ان کی روٹین یہی تھی ۔ روٹی پکاتے ان کے مموں کی اچھل کود پہ نظر ڈالتے ہوئے میں نے دیکھا تو ان کے ماتھے پہ پسینہ آیا ہوا تھا لیکن چہرے پہ وہی ازلی مسکراہٹ تھی۔ میں نے کبھی امی کو غصے میں نہیں دیکھا تھا وہ ہمیشہ مسکراتی رہتی تھیں۔ میں نے ان کو کہا امی آپ کو تو بہت پسینہ آ گیا ہے امی میری بات سن کہ بولیں بیٹا چولہے کے پاس گرمی ہے نا تم پیچھے ہٹ جاو تمہیں بھی گرمی لگے گی مجھے تو کام کرنا ہے ۔ میں نے کہا امی جہاں آپ گرمی برداشت کر لو گی وہاں میں بھی کر لوں گا ۔ اب یہ ایک بچے کے دل کی آواز تھی جس میں ہوس یا کچھ اور شامل نہ تھا۔ میں یہ بات کہہ کر باہر آیا اور چھوٹا تولیہ لیکر امی کے پاس گیا اور کہا امی یہ لیں پسینہ صاف کر لیں۔ امی میری طرف دیکھ کہ بولیں ارے میرا پیارا بچہ میرے ہاتھ کے ساتھ تو آٹا لگا ہے میں کیسے صاف کروں گی اور ویسے بھی بس تھوڑی دیر ہے پھر صاف کر لوں گی۔ میں ان کی بات سن کہ ان کے قریب ہوا اور ان کا چہرہ صاف کرنے کی کوشش کی ۔ امی کا قد ٹھیک ٹھاک ہے وہ ایک بھاری بھرکم مطلب بھرے بھرے جسم کی ایک خوبصورت عورت ہیں تو میں نے ہاتھ اوپر کر کہ ان کا ماتھا اور چہرہ صاف کرنے کی کوشش کی تو وہ ہنستے ہوئے میرے آگےمیری طرف مڑ کہ جھک گئیں ۔ ان کے جھکنے سے میرا ہاتھ جو ان کے چہرے سے پسینہ صاف کرنے لگا تھا سامنے کا نظارہ دیکھ کہ ایک لمحے کے لیے رک سا گیا ان کے کھلے گلے سے نرم و ملائم اور بھاری چھاتیاں تقریبا پوری ننگی میرے سامنے آ گئیں اور اگر برا نا ہوتی تو وہ مجھے پوری ہی نظر آتیں ۔ مجں نے ان کے چہرے سے پسینہ صاف کرتے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں ۔



Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)