میرے تمام چاہنے والوں کو میرا سلام جن کی محبتیں میرا حوصلہ ہیں۔ ایک نئی کہانی کے ساتھ حاضر ہوئی ہوں امید ہے یہ اپروو ہو جائے گی اور کچھ فن تقسیم ہوگا۔ تو چلتے ہیں کہانی کی طرف اور یہ کہانی بھی جس پہ گزری ہے اسی کے انداز سے لکھی جائے گی ۔ میرا نام علی ہے اور یہ میری سچی آپ بیتی ہے جو آپ لوگوں تک پہنچے گی ۔ ہم چار بہن بھائی ہیں ابو ایک درمیانے درجے کے کاروباری اور امی ایک بہت اچھے پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہیں یہ تب کی بات ہے جب میں کلاس آٹھ میں تھا باقی ایک بھائی اور دو بہنیں مجھ سے چھوٹے ہیں میں سب سے بڑا ہوں۔ ہم سب امی کے سکول میں ہی پڑھتے تھے اور انہی کے ساتھ سکول آتے جاتے تھے ایک وین ہمیں سکول سے پک ڈراپ کرتی تھی جس میں اور بچے اور ٹیچرز بھی ہوتے تھے۔ کہانی تب سے شروع ہوتی ہے جب میں آٹھویں کلاس میں تھا میرا ایک ہی اچھا دوست تھا جس کا نام یاسر تھا۔ ایک دن سکول بریک میں جب میں کینٹین سے واپس کلاس کی طرف جا رہا تھا تو یاسر کے ساتھ ہی میرے کلاس کے دو لڑکے عمیر اور یوسف کھڑے تھے اور کسی بات پہ ہنس رہے تھے مجھے دیکھتے ہی ان کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ کچھ پریشان سے ہو گئے۔ میں جا کر ان سے ملا اور باتیں کرنے لگا لیکن وہ تینوں کچھ الجھے الجھے نظر آئے اور جلد ہی وہ دونوں کھسک گئے اور اب میں اور یاسر اکیلے رہ گئے ۔ پہلی بار میں نے نوٹ کیا کہ یاسر مجھ سے نگاہیں چرا رہا ہے جیسے وہ کچھ بات چھپانا چاہ رہا ہو۔ میں نے یاسر سے پوچھا کیا مسئلہ ہے تم اتنے پریشان کیوں ہو رہے ہو؟ یاسر ایک دم بوکھلا سا گیا اور بولا کچھ بھی ایسا نہیں ہے ۔ لیکن میں شک میں پڑ چکا تھا اور میں نے یاسر سے پوچھا لیکن وہ بات کو ٹالنے لگا۔ میں بار بار اس سے بات کے لیے اسرار کرنے لگا لیکن اس کے بات بتانے سے پہلے ہی بریک ختم ہو گئی اور ہمیں کلاس میں جانا پڑا۔ یاسر کے اس رویے سے مجھے اس پہ بہت غصہ آیا اور میں اس سے ناراض ہو گیا کلاس میں بھی میں نے اس سے کوئی بات نہ کی اور چھٹی کے بعد گھر آ گیا
۔ اس سے ناراضگی کی وجہ سے میں کھیلنے کے لیے گراونڈ میں بھی نہ گیا اور جب شام میں وہ میرے گھر کھلینے کے لیے مجھے لینے آیا تو میں نے اسے منع کر دیا اور اسے واپس بھیج دیا یاسر نے بہت منت سماجت کی لیکن میں نے اس کی کوئی بات نا مانی اور ناراض ہی رہا تھک کہ وہ بھی واپس چلا گیا۔ اگلے دن سکول میں بھی میں نے اس سے کوئی بات نہ کی اور بریک تک وہ مجھے منانے کی کوشش کرتا رہا لیکن میں نے اس سے بات نہ کی۔ جونہی بریک ہوئی میں باہر جانے لگا تو اس نے ایک دم میرا بازو پکڑ لیا اور مجھے کہا دیکھو علی ناراض مت ہو میں وہ سب تمہیں بتا دیتا ہوں لیکن مجھ سے ایک وعدہ کرو پہلے۔ میں نے جب یہ دیکھا کہ وہ مجھے بات بتانے کے لیے راضی ہے تو میرا دل نرم ہوتا گیا ۔ میں نے کہا ہاں ٹھیک ہے بولو کیا وعدہ کرنا ہے،؟؟ اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔ میں نے یاسر کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ مجھے بے بس نظر آیا اور بولا دیکھ علی تم ضد کر رہے ہو اور ناراض ہو لیکن یہ بات جان کہ تم اور ناراض نہ ہونے کا وعدہ کرو تو بتا دوں گا لیکن یہ وعدہ کرو کہ یہ بات کسی کو نہیں بتاو گے اور مجھ سے ناراض بھی نہیں ہو گے۔ یہ وعدہ کرنے میں مجھے تو کوئی مشکل نہ تھی اس لیے میں نے اس کا ہاتھ تھامے اس سے وعدہ کر لیا ۔ سارے بچے کلاس سے نکل چکے تھے میں اور وہ کلاس میں کھڑے تھے۔ یاسر نے میرا ہاتھ چھوڑا اور کلاس روم سے باہر جھانک کہ اندر میری طرف مڑا اس کے چہرے پہ ہوائیں اڑ رہی تھی اور وہ بار بار اپنی زبان ہونٹوں پہ پھیر رہا تھا اور بولنے کی ہمت جمع کر رہا تھا اور میں اس کی طرف مشتاق نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے وہ کوئی مجھے کرتب دکھانے والا ہو میرا بھی سسپنس عروج پہ تھا کہ جانے اب کیا بات مجھے پتہ چلے گی ۔ میں یاسر کی طرف دیکھ رہا تھا اور وہ بات کرنے کی ہمت جمع کر رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا بات ہے آخر بتاو تو سہی۔ یاسر نے بے بسی سے سر ہلایا اور ہاتھ ملتے ملتے بولا یار علی میں کیسے بتاوں تمہیں یہ بات؟؟ میں نے کہا جس طرح تم ان سے ہنس ہنس کہ بات کر رہے تھے اسی طرح بتا دو مجھے کیونکہ مجھے بھی بہت سسپنس ہو رہا تھا کہ جانے اب بات کیا ہے ۔ یاسر نے اسی طرح الجھے ہوئے لہجے میں کہا یار ناراض نہ ہونا لیکن وہ عمیر کہہ رہا تھا کہ اس کو ٹیچر شازیہ (امی) کے دودھ بہت اچھے لگتے ہیں اور جب وہ جھک کہ پڑھاتی ہیں یا کاپی چیک کرتی ہیں تو گلے سے اندر تک نظر آتے ہیں اور پھر ان کے موٹی بنڈ میں جب قمیض پھنستی ہے تو میری للی کھڑی ہو جاتی ہے یہ سب وہ کہہ رہا تھا یاسر نے یہ ساری بات جلدی جلدی ایک ہی سانس میں کی لیکن میرے کانوں میں جیسے سائیں سائیں ہونے لگا، یہ بات مجھے بہت ہی بری لگی اور میرا سارا وجود جھنجھنا اٹھا میں ایک جھٹکے سے آگے ہوا اور یاسر کا گلہ پکڑا اس سے پہلے کہ میں اسے مارتا اس نے میرے آگے ہاتھ جوڑے اور جلدی سے بولا دیکھ علی تو نے وعدہ کیا تھا کہ ناراض نہیں ہوگا اور کسی کو نہیں بتائے گا۔ دیکھ تو مجھے مارے گا تو بات باہر نکل جائے گی۔ اس کی بات سن کہ میں نے ایک جھٹکے سے اسے پیچھے دھکیل دیا لیکن مجھے بہت غصہ آیا ہوا تھا میرا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہو چکا تھا اور مجھے اپنے کان کی لووئیں جلتی محسوس ہو رہی تھیں ۔ میں نے خونخوار نظروں سے یاسر کی طرف دیکھا تو وہ پھر بولا یار وہ یہ بات کہہ رہا تھا میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں نے خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اب اتنی سمجھ مجھے بھی تھی کہ اس بات سے امی کی بدنامی ہو گی میں نے اس لیے اپنے آپ کو کنٹرول کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ یاسر میرے سامنے کھڑا تھا اور میں کرسی پہ بیٹھ چکا تھا میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا اور کیا بکواس اس کمینے نے کی؟ یاسر میرے پاس آیا اور بولا دیکھ علی خود کو کنٹرول کر میں تمہیں سب بتا دوں گا اور اس نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کہ مجھے تھپکی دی اور کہنے لگا دیکھ میں جانتا ہوں یہ بہت بری بات ہے لیکن ہم اس پہ کوئی ایکشن اس طرح نہیں لے سکتے میں عمر کے اس دور سے گزر رہا تھا جہاں ابھی ابھی جنس کے فرق کا اندازہ ہونا شروع ہوا تھا مرد اور عورت کے جسمانی اعضا میں فرق ہے یہ علم تو بچپن سے ہی دیکھے گئے کئی مناظر نے بتا دیا تھا ۔ (یہاں ایک بات بتاتی چلوں کہ بہت سی عورتیں چھوٹے بچوں کو معصوم سمجھتے ہوئے ان کے سامنے لباس بدل لیتی ہیں یا ان کو نہلاتے ہوئے نہا لیتی ہیں یا ٹوائلٹ استعمال کر لیتی ہیں جس سے ان کے پوشیدہ حصے اس بچے کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں ایسا بالکل بھی نہیں کرنا چاہیے یہ انتہائی غلط حرکت ہے اور بچے کے زہہن پہ بہت برا اثر ڈالتی ہے اس سے بچنا چاہیے۔ ) تو مجھے یاسر کی بات انتہائی بری لگی کیونکہ اتنا تو میں جانتا تھا کہ امی کے یا ان کے جسم کے بارے میں ایسا بولنا گندی بات ہے جس پہ مجھے غصہ بھی آیا تھا لیکن بچپنا بھی تھا تو اس لیے سوچ وعدے کا پاس رکھنے کی بھی تھی اور یہ بھی کہ اگر لڑائی کی جائے تو بات نکلے گی اور جب امی کو پتہ چلے گا تو کتنا برا لگے گا تو میں غصے کے باوجود چپ ہو گیا۔ یاسر نے مجھے کہا کہ چلو آو باہر چلتے ہیں میرا موڈ تو نا تھا مگر میں یاسر کے ساتھ کینٹین کی طرف چل پڑا۔ میں خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس میں کامیاب بھی رہا۔ کلاس روم سے کینٹین کے راستے کئی بچے ملے لیکن میں خاموش یاسر کے ساتھ چلتا ہوا کینٹین کی طرف چل پڑا۔ ہم نئے نئے جوان ہو رہے تھے تو کینٹین کی رش میں کئی بار ہم نے کلاس کی یا دیگر لڑکیوں کے کولہوں پہ ہاتھ لگانے کی شرارت کی ہوئی تھی اور ہم اسے ایک ایڈونچر کے طور پہ کرتے تھے لیکن کبھی کسی نے اس پہ منع یا شکایت اس لیے نہیں لگائئ تھی کہ وہ چھونا بس ہلکے سے چھونے تک تھا اور کئی بار تو شائد متاثرہ لڑکی نے لمحاتی لمس کے سوا اس نے سوچا بھی نہ ہو ۔ خیر ہم کینٹین پہ پہنچے تو ہم نے چیزیں لیں اور میرے حصے کے پیسے بھی میرے بہت منع کرنے کے باوجود یاسر نے دئیے۔ ہم چیزیں لیکر باہر گراونڈ کی طرف آئے لیکن اس سے پہلے ہم کوئی بات کرتے تو بریک ختم ہو گئی۔ امی ہماری کلاس میں دو پیریڈز لیا کرتی تھیں اور وہ بہت ہنس مکھ اور نرم دل ٹیچر تھیں کلاس کے سبھی بچے ان سے بہت خوش تھے مجھے حیرت تھی کہ کوئی بچہ ان کے بارے میں غلط بات کیسے کر سکتا ہے؟ میں عمر کے اس دور میں تھا جہاں سسپنس اور سیکھنے کی لگن زیادہ ہوتی ہے تو یہی لگن مجھے بہت کچھ سکھاتی گئی اور میرا سب کچھ بدلتا گیا ۔