عائشہ اور طارق
چھوٹے سے شہر میں پرائمری اسکول کلاس 5کی ٹیچر تھیں۔ ان کی ایک عادت تھی کہ وہ کلاس شروع کرنے سے پہلے ہمیشہ " آئی لو یو آل " بولا کرتیں۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ وہ سچ نہیں کہتیں۔ وہ کلاس کے تمام بچوں سے یکساں پیار نہیں کرتی تھیں۔ کلاس میں ایک ایسا بچہ تھا جو مس عائشہ کو ایک آنکھ نہ بھاتا۔ اس کا نام طارق تھا۔ طارق میلی کچیلی حالت میں اسکول آجایا کرتا۔ اس کے بال بگڑے ہوئے ہوتے، جوتوں کے تسمے کھلے ہوئے، قمیض کے کالر پر میل کا نشان۔ ۔ ۔ لیکچر کے دوران بھی اس کا دھیان کہیں اور ہوتا۔ مس عائشہ کے ڈانٹنے پر وہ چونک کر انہیں دیکھنے تو لگ جاتا مگر اس کی خالی خولی نظروں سے انہیں صاف پتہ لگتا رہتا کہ طارق جسمانی طور پر کلاس میں موجود ہونے کے باوجود بھی دماغی طور پر غائب ہے۔رفتہ رفتہ مس عائشہ کو طارق سے نفرت سی ہونے لگی۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی طارق مس عائشہ کی سخت تنقید کا نشانہ بننے لگتا۔ہر بری مثال طارق کے نام سے منسوب کی جاتی۔بچے اس پر کھلکھلا کر ہنستے اور مس عائشہ اس کی تذلیل کر کہ تسکین حاصل کرتیں۔طارق نے البتہ کسی بات کا کبھی کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ مس عائشہ کو وہ ایک بے جان پتھر کی طرح لگتا جس کے اندر احساس نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہر ڈانٹ، طنز اور سزا کے جواب میں وہ بس اپنی جذبات سے عاری نظروں سے انہیں دیکھا کرتا اور سر جھکا لیا کرتا۔ مس عائشہ کو اب اس سے شدید چڑ ہو چکی تھی۔پہلا سیمسٹر ختم ہوا اور رپورٹیں بنانے کا مرحلہ آیا تو مس عائشہ نے طارق کی پروگریس رپورٹ میں اس کی تمام برائیاں لکھ ماریں۔ پروگریس رپورٹ والدین کو دکھانے سے پہلے ہیڈ مسٹریس کے پاس جایا کرتی تھی۔ انہوں نے جب طارق کی رپورٹ دیکھی تو مس عائشہ کو بلا لیا۔مس عائشہ پروگریس رپورٹ میں کچھ تو پروگریس بھی نظرآنی چاہیے۔آپ نے تو جو کچھ لکھا ہے اس سے" "طارق کے والدین اس سے بالکل ہی نا امید ہو جائینگے۔میں معذرت خواہ ہوں مگر طارق ایک بالکل ہی بدتمیز اور نکما بچہ ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں
اس کی" "پروگریس کے بارے میں کچھ لکھ سکتی ہوں۔ مس عائشہ نفرت انگیز لہجے میں بول کر وہاں سے اٹھ آئیں۔ہیڈ مسٹریس نے ایک عجیب حرکت کی۔انہوں نے چپڑاسی کے ہاتھ مس عائشہ کی ڈیسک پر طارق کی گزشتہ سالوں کی پروگریس رپورٹس رکھوا دیں۔اگلے دن مس عائشہ کلاس میں داخل ہوئیں تو رپورٹس پر نظر پڑی۔الٹ پلٹ کر دیکھا تو پتہ لگا کہ یہ طارق کی رپورٹس ہیں۔ پچھلی کلاسوں میں بھی اس نے ً یقینا یہی گل کھلائے ہونگے۔" انہوں نے سوچا"اور کلاس 3کی رپورٹ کھولی۔رپورٹ میں ریمارکس پڑھ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ رپورٹ اس کی تعریفوں سے بھری پڑی ہے۔طارق جیسا ذہین بچہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔انتہائی حساس بچہ ہے اور اپنے دوستوں اور ٹیچر سے بے حد" "لگاؤ رکھتا ہے۔آخری سیمسٹر میں بھی طارق نے پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔مس عائشہ نے غیر یقینی کی حالت میں کلاس 4کی رپورٹ کھولی۔" " طارق نے اپنی ماں کی بیماری کا بے حد اثر لیا ہے۔اس کی توجہ پڑھائی سے ہٹ رہی ہے۔"طارق کی ماں کو آخری اسٹیج کا کینسر تشخیص ہوا ہے۔گھر پر اس کا اور کوئی خیال رکھنےوالا نہیں جس کا گہرا اثر اس کی پڑھائی پر پڑا ہے۔طارق کی ماں مر چکی ہے اور اس کے ساتھ ہی طارق کی زندگی کی رمق بھی ۔ ۔ اسے بچانا پڑے گا اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے۔مس عائشہ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ کانپتے ہاتھوں سے انہوں نے پروگریس رپورٹ بند کی۔ آنسو ان کی آنکھوں سے ایک کے بعد ایک گرنے لگے۔اگلے دن جب مس عائشہ کلاس میں داخل ہوئیں تو انہوں نے اپنی عادت مستمرہ کے مطابق اپنا روایتی جملہ " آئی لو یو آل " دہرایا ۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ وہ آج بھی جھوٹ بول رہی ہیں۔ کیونکہ اسی کلاس میں بیٹھے ایک بے ترتیب بالوں والے بچے طارق کے لیے جو محبت وہ آج اپنے دل میں محسوس کر رہی تھیں وہ کلاس میں بیٹھے اور کسی بچے کے لیے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔لیکچر کے دوران انہوں نے ِ حسب معمول ایک سوال طارق پر داغا اور ہمیشہ ہی کی طرح طارق نے سر جھکا لیا۔ جب کچھ دیر تک مس عائشہ کی طرف سے کوئی ڈانٹ پھٹکار اور ہم جماعت ساتھیوں کی جانب سے ہنسی کی آواز اس کے کانوں میں نہ پڑی تو اس نے اچھنبے میں سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ ِ خلاف توقع ان کے ماتھے پر آج بل نہ تھے، وہ مسکرا رہی تھیں۔ انہوں نے طارق کو اپنے پاس بلوایا اور اسے سوال کا جواب بتا کر زبردستی دہرانے کے لیے کہا۔طارق تین چار دفعہ کے اصرار کے بعد آخر بول ہی پڑا۔اس کے جواب دیتے ہی مس عائشہ نے نہ صرف خود شاندار انداز میں تالیاں بجائیں بلکہ باقی سب سے بھی بجوائیں۔پھر تو یہ روز کا معمول بن گیامس عائشہ ہر سوال کا جواب اسے خود بتاتیں اور پھر اس کی خوب پذیرائی کرتیں۔ہر اچھی مثال طارق سے منسوب کی جانے لگی۔ رفتہ رفتہ پرانا طارق سکوت کی قبر پھاڑ کر باہر آگیا۔اب مس عائشہ کو سوال کے ساتھ جواب بتانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ وہ روز بلا نقص جوابات دے کر سب کو متاثر کرتا اور نئے نئے سوالات پوچھ کر سب کو حیران بھی۔اس کے بال اب کسی حد تک سنورے ہوئے ہوتے، کپڑےبھی کافی حد تک صاف ہوتے جنہیں شاید وہ خود دھونے لگا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے سال ختم ہوگیا اور طارق نے دوسری پوزیشن حاصل کرلی۔ الوداعی تقریب میں سب بچے مس عائشہ کے لیے خوبصورت تحفے تحائف لے کر آئے اور مس عائشہ کے ٹیبل پر ڈھیر کرنے لگے۔ ان خوبصورتی سے پیک ہوئے تحائف میں ایک پرانے اخبار میں بد سلیقہ طرز پر پیک ہوا ایک تحفہ بھی پڑا تھا۔ بچے اسے دیکھ کر ہنس پڑے۔ کسی کو جاننے میں دیر نہ لگی کہ تحفے کے نام پر یہ چیز طارق لایا ہوگا۔مس عائشہ نے تحائف کے اس چھوٹے سے پہاڑ میں سے لپک کر اسے نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اس کے اندر ایک لیڈیز پرفیوم کی آدھی استعمال شدہ شیشی اور ایک ہاتھ میں پہننے والا ایک بوسیدہ سا کڑا تھا جس کے زیادہ تر موتی جھڑ چکے تھے۔ مس عائشہ نے خاموشی کے ساتھ اس پرفیوم کو خود پر چھڑکا اور ہاتھ میں کڑا پہن لیا۔ بچے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ۔خود طارق بھی۔آخر طارق سے رہا نہ گیا اور مس عائشہ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔۔ کچھ دیر بعد اس نے اٹک اٹک کر مس عائشہ "کو بتایا کہ " آج آپ سے بالکل میری ماں جیسی خوشبو آ رہی ہے۔وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔ دن ہفتوں، ہفتے مہینوں اور مہینے سال میں بدلتے بھلا کہاں دیر لگتی ہے؟ مگر ہر سال کے اختتام پر مس عائشہ کو طارق کی طرف سے ایک خط باقاعدگی کے ساتھ موصول ہوتا جس میں لکھا ہوتا کہ " میں اس سال بہت سارے نئے ٹیچرز سے ملا۔ ۔ مگر آپ جیسا کوئی نہیں تھا۔ " پھر طارق کا اسکول ختم ہوگیا اور خطوط کا سلسلہ بھی۔ کئی سال مزید گزرے اور مس عائشہ ریٹائر ہو گئیں۔ ایک دن انہیں اپنی ڈاک :میں طارق کا خط ملا جس میں لکھا تھااس مہینے کے آخر میں میری
شادی ہے اور میں آپ کی موجودگی کے سوا شادی کا نہیں سوچ سکتا۔ ایک اور" "بات۔۔ میں زندگی میں بہت سارے لوگوں سے مل چکا ہوں۔ ۔ آپ جیسا کوئی نہیں ہے۔ فقط ڈاکٹر طارقساتھ ہی جہاز کا ریڑن ٹکٹ بھی لفافے میں موجود تھا۔مس عائشہ خود کو ہر گز نہ روک سکتی تھیں۔انہوں نے اپنے شوہر سے اجازت لی اور وہ دوسرے شہر کے لئے روانہ ہو گئیں۔ عین شادی کے دن جب وہ شادی کی جگہ پہنچیں تو تھوڑی لیٹ ہو چکی تھیں۔ انہیں لگا تقریب ختم ہو چکی ہوگی۔ مگر یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ شہر کے بڑے بڑے ڈاکڑ، بزنس مین اور یہاں تک کہ وہاں موجود نکاح خواں بھی اکتایا ہوا کھڑا تھا مگر طارق تقریب کی ادائیگی کے بجائے گیٹ کی طرف ٹکٹکی لگائے ان کی آمد کا منتظر تھا۔ پھر سب نے دیکھا کہ جیسے ہی یہ بوڑھی ٹیچر گیٹ سے داخل ہوئیں طارق ان کی طرف لپکا اور ان کا وہ ہاتھ پکڑا جس میں انہوں نے اب تک وہ بوسیدہ سا کڑا پہنا ہوا تھا اور انہیں سیدھا اسٹیج پر لے گیا۔مائیک ہاتھ میں پکڑ کر اس نے کچھ یوں اعلان کیادوستو آپ سب ہمیشہ مجھ سے میری ماں کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں نے سب سے وعدہ کیا تھا کہ جلد آپ سب کو ان سے ملواؤنگا۔ ۔ ۔ یہ میری ماں ہیں شاید کہ ہمیں سمجھ آ جائے کہ ہمارے اردگرد کئی طارق موجود ہیں جن کو آپ کی ضرورت ہے۔۔۔۔
چھوٹے سے شہر میں پرائمری اسکول کلاس 5کی ٹیچر تھیں۔ ان کی ایک عادت تھی کہ وہ کلاس شروع کرنے سے پہلے ہمیشہ " آئی لو یو آل " بولا کرتیں۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ وہ سچ نہیں کہتیں۔ وہ کلاس کے تمام بچوں سے یکساں پیار نہیں کرتی تھیں۔ کلاس میں ایک ایسا بچہ تھا جو مس عائشہ کو ایک آنکھ نہ بھاتا۔ اس کا نام طارق تھا۔ طارق میلی کچیلی حالت میں اسکول آجایا کرتا۔ اس کے بال بگڑے ہوئے ہوتے، جوتوں کے تسمے کھلے ہوئے، قمیض کے کالر پر میل کا نشان۔ ۔ ۔ لیکچر کے دوران بھی اس کا دھیان کہیں اور ہوتا۔ مس عائشہ کے ڈانٹنے پر وہ چونک کر انہیں دیکھنے تو لگ جاتا مگر اس کی خالی خولی نظروں سے انہیں صاف پتہ لگتا رہتا کہ طارق جسمانی طور پر کلاس میں موجود ہونے کے باوجود بھی دماغی طور پر غائب ہے۔رفتہ رفتہ مس عائشہ کو طارق سے نفرت سی ہونے لگی۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی طارق مس عائشہ کی سخت تنقید کا نشانہ بننے لگتا۔ہر بری مثال طارق کے نام سے منسوب کی جاتی۔بچے اس پر کھلکھلا کر ہنستے اور مس عائشہ اس کی تذلیل کر کہ تسکین حاصل کرتیں۔طارق نے البتہ کسی بات کا کبھی کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ مس عائشہ کو وہ ایک بے جان پتھر کی طرح لگتا جس کے اندر احساس نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہر ڈانٹ، طنز اور سزا کے جواب میں وہ بس اپنی جذبات سے عاری نظروں سے انہیں دیکھا کرتا اور سر جھکا لیا کرتا۔ مس عائشہ کو اب اس سے شدید چڑ ہو چکی تھی۔پہلا سیمسٹر ختم ہوا اور رپورٹیں بنانے کا مرحلہ آیا تو مس عائشہ نے طارق کی پروگریس رپورٹ میں اس کی تمام برائیاں لکھ ماریں۔ پروگریس رپورٹ والدین کو دکھانے سے پہلے ہیڈ مسٹریس کے پاس جایا کرتی تھی۔ انہوں نے جب طارق کی رپورٹ دیکھی تو مس عائشہ کو بلا لیا۔مس عائشہ پروگریس رپورٹ میں کچھ تو پروگریس بھی نظرآنی چاہیے۔آپ نے تو جو کچھ لکھا ہے اس سے" "طارق کے والدین اس سے بالکل ہی نا امید ہو جائینگے۔میں معذرت خواہ ہوں مگر طارق ایک بالکل ہی بدتمیز اور نکما بچہ ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں
اس کی" "پروگریس کے بارے میں کچھ لکھ سکتی ہوں۔ مس عائشہ نفرت انگیز لہجے میں بول کر وہاں سے اٹھ آئیں۔ہیڈ مسٹریس نے ایک عجیب حرکت کی۔انہوں نے چپڑاسی کے ہاتھ مس عائشہ کی ڈیسک پر طارق کی گزشتہ سالوں کی پروگریس رپورٹس رکھوا دیں۔اگلے دن مس عائشہ کلاس میں داخل ہوئیں تو رپورٹس پر نظر پڑی۔الٹ پلٹ کر دیکھا تو پتہ لگا کہ یہ طارق کی رپورٹس ہیں۔ پچھلی کلاسوں میں بھی اس نے ً یقینا یہی گل کھلائے ہونگے۔" انہوں نے سوچا"اور کلاس 3کی رپورٹ کھولی۔رپورٹ میں ریمارکس پڑھ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ رپورٹ اس کی تعریفوں سے بھری پڑی ہے۔طارق جیسا ذہین بچہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔انتہائی حساس بچہ ہے اور اپنے دوستوں اور ٹیچر سے بے حد" "لگاؤ رکھتا ہے۔آخری سیمسٹر میں بھی طارق نے پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔مس عائشہ نے غیر یقینی کی حالت میں کلاس 4کی رپورٹ کھولی۔" " طارق نے اپنی ماں کی بیماری کا بے حد اثر لیا ہے۔اس کی توجہ پڑھائی سے ہٹ رہی ہے۔"طارق کی ماں کو آخری اسٹیج کا کینسر تشخیص ہوا ہے۔گھر پر اس کا اور کوئی خیال رکھنےوالا نہیں جس کا گہرا اثر اس کی پڑھائی پر پڑا ہے۔طارق کی ماں مر چکی ہے اور اس کے ساتھ ہی طارق کی زندگی کی رمق بھی ۔ ۔ اسے بچانا پڑے گا اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے۔مس عائشہ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ کانپتے ہاتھوں سے انہوں نے پروگریس رپورٹ بند کی۔ آنسو ان کی آنکھوں سے ایک کے بعد ایک گرنے لگے۔اگلے دن جب مس عائشہ کلاس میں داخل ہوئیں تو انہوں نے اپنی عادت مستمرہ کے مطابق اپنا روایتی جملہ " آئی لو یو آل " دہرایا ۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ وہ آج بھی جھوٹ بول رہی ہیں۔ کیونکہ اسی کلاس میں بیٹھے ایک بے ترتیب بالوں والے بچے طارق کے لیے جو محبت وہ آج اپنے دل میں محسوس کر رہی تھیں وہ کلاس میں بیٹھے اور کسی بچے کے لیے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔لیکچر کے دوران انہوں نے ِ حسب معمول ایک سوال طارق پر داغا اور ہمیشہ ہی کی طرح طارق نے سر جھکا لیا۔ جب کچھ دیر تک مس عائشہ کی طرف سے کوئی ڈانٹ پھٹکار اور ہم جماعت ساتھیوں کی جانب سے ہنسی کی آواز اس کے کانوں میں نہ پڑی تو اس نے اچھنبے میں سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ ِ خلاف توقع ان کے ماتھے پر آج بل نہ تھے، وہ مسکرا رہی تھیں۔ انہوں نے طارق کو اپنے پاس بلوایا اور اسے سوال کا جواب بتا کر زبردستی دہرانے کے لیے کہا۔طارق تین چار دفعہ کے اصرار کے بعد آخر بول ہی پڑا۔اس کے جواب دیتے ہی مس عائشہ نے نہ صرف خود شاندار انداز میں تالیاں بجائیں بلکہ باقی سب سے بھی بجوائیں۔پھر تو یہ روز کا معمول بن گیامس عائشہ ہر سوال کا جواب اسے خود بتاتیں اور پھر اس کی خوب پذیرائی کرتیں۔ہر اچھی مثال طارق سے منسوب کی جانے لگی۔ رفتہ رفتہ پرانا طارق سکوت کی قبر پھاڑ کر باہر آگیا۔اب مس عائشہ کو سوال کے ساتھ جواب بتانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ وہ روز بلا نقص جوابات دے کر سب کو متاثر کرتا اور نئے نئے سوالات پوچھ کر سب کو حیران بھی۔اس کے بال اب کسی حد تک سنورے ہوئے ہوتے، کپڑےبھی کافی حد تک صاف ہوتے جنہیں شاید وہ خود دھونے لگا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے سال ختم ہوگیا اور طارق نے دوسری پوزیشن حاصل کرلی۔ الوداعی تقریب میں سب بچے مس عائشہ کے لیے خوبصورت تحفے تحائف لے کر آئے اور مس عائشہ کے ٹیبل پر ڈھیر کرنے لگے۔ ان خوبصورتی سے پیک ہوئے تحائف میں ایک پرانے اخبار میں بد سلیقہ طرز پر پیک ہوا ایک تحفہ بھی پڑا تھا۔ بچے اسے دیکھ کر ہنس پڑے۔ کسی کو جاننے میں دیر نہ لگی کہ تحفے کے نام پر یہ چیز طارق لایا ہوگا۔مس عائشہ نے تحائف کے اس چھوٹے سے پہاڑ میں سے لپک کر اسے نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اس کے اندر ایک لیڈیز پرفیوم کی آدھی استعمال شدہ شیشی اور ایک ہاتھ میں پہننے والا ایک بوسیدہ سا کڑا تھا جس کے زیادہ تر موتی جھڑ چکے تھے۔ مس عائشہ نے خاموشی کے ساتھ اس پرفیوم کو خود پر چھڑکا اور ہاتھ میں کڑا پہن لیا۔ بچے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ۔خود طارق بھی۔آخر طارق سے رہا نہ گیا اور مس عائشہ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔۔ کچھ دیر بعد اس نے اٹک اٹک کر مس عائشہ "کو بتایا کہ " آج آپ سے بالکل میری ماں جیسی خوشبو آ رہی ہے۔وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔ دن ہفتوں، ہفتے مہینوں اور مہینے سال میں بدلتے بھلا کہاں دیر لگتی ہے؟ مگر ہر سال کے اختتام پر مس عائشہ کو طارق کی طرف سے ایک خط باقاعدگی کے ساتھ موصول ہوتا جس میں لکھا ہوتا کہ " میں اس سال بہت سارے نئے ٹیچرز سے ملا۔ ۔ مگر آپ جیسا کوئی نہیں تھا۔ " پھر طارق کا اسکول ختم ہوگیا اور خطوط کا سلسلہ بھی۔ کئی سال مزید گزرے اور مس عائشہ ریٹائر ہو گئیں۔ ایک دن انہیں اپنی ڈاک :میں طارق کا خط ملا جس میں لکھا تھااس مہینے کے آخر میں میری
شادی ہے اور میں آپ کی موجودگی کے سوا شادی کا نہیں سوچ سکتا۔ ایک اور" "بات۔۔ میں زندگی میں بہت سارے لوگوں سے مل چکا ہوں۔ ۔ آپ جیسا کوئی نہیں ہے۔ فقط ڈاکٹر طارقساتھ ہی جہاز کا ریڑن ٹکٹ بھی لفافے میں موجود تھا۔مس عائشہ خود کو ہر گز نہ روک سکتی تھیں۔انہوں نے اپنے شوہر سے اجازت لی اور وہ دوسرے شہر کے لئے روانہ ہو گئیں۔ عین شادی کے دن جب وہ شادی کی جگہ پہنچیں تو تھوڑی لیٹ ہو چکی تھیں۔ انہیں لگا تقریب ختم ہو چکی ہوگی۔ مگر یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ شہر کے بڑے بڑے ڈاکڑ، بزنس مین اور یہاں تک کہ وہاں موجود نکاح خواں بھی اکتایا ہوا کھڑا تھا مگر طارق تقریب کی ادائیگی کے بجائے گیٹ کی طرف ٹکٹکی لگائے ان کی آمد کا منتظر تھا۔ پھر سب نے دیکھا کہ جیسے ہی یہ بوڑھی ٹیچر گیٹ سے داخل ہوئیں طارق ان کی طرف لپکا اور ان کا وہ ہاتھ پکڑا جس میں انہوں نے اب تک وہ بوسیدہ سا کڑا پہنا ہوا تھا اور انہیں سیدھا اسٹیج پر لے گیا۔مائیک ہاتھ میں پکڑ کر اس نے کچھ یوں اعلان کیادوستو آپ سب ہمیشہ مجھ سے میری ماں کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں نے سب سے وعدہ کیا تھا کہ جلد آپ سب کو ان سے ملواؤنگا۔ ۔ ۔ یہ میری ماں ہیں شاید کہ ہمیں سمجھ آ جائے کہ ہمارے اردگرد کئی طارق موجود ہیں جن کو آپ کی ضرورت ہے۔۔۔۔