سوتیلی ماں اور بہن ۔۔قسط ۔۔ 8

0

 












"تم کو میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں... اور نہ ہی آپ کی امی کو..... (مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ، میں کیا کچھ بولے جا رہا تھا...) مجھے اپنی ضرورتوں کو پورا کرنا آتا ہے...."

میری بات سن کر نجیبہ کے گال سرخ ہو گئے تھے۔ مجھے بھی اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ، میں نے غصے میں نجیبہ کو کیا کہہ دیا ہے۔ "اگر میں آپ کی بیوی ہوتی تو کیا آپ میری بات مان لیتے؟" نجیبہ نے سر جھکائے ہوئے کہا۔ میں نجیبہ کی بات سن کر ایک دم حیران رہ گیا۔ نجیبہ سامنے سے سیدھا سیدھا سبز اشارہ دے رہی تھی... لیکن جو اُس نے کل کیا تھا، اس کے لیے میں اُسے اتنی جلدی معاف نہیں کرنے والا تھا۔ "تم ہوتی کون ہو ردا آپی کو اس طرح سے گھر سے باہر نکالنے والی! یہ گھر پہلے میرا ہے، پھر تم دونوں ماں بیٹی کا۔ تمہیں کوئی حق نہیں ہے کہ تم یہ فیصلے کرو کہ میرے گھر میں کون آئے گا اور کون نہیں۔"

نجیبہ: "اس گھر میں آپ کے ساتھ میں اور امی بھی رہتے ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ وہ ردا یہاں کیوں اور کس لیے آتی تھی۔ میں نے اُس کو دوبارہ یہاں کبھی نہیں آنے دینا۔"

میں: "اچھا، اگر تمہیں پتا ہے ہی کہ ردا یہاں کیوں آتی ہے، تو یہ بھی بتا دو... میری وہ ضرورتیں بھی تم پوری کرو گی؟"

میری بات سن کر نجیبہ کا چہرہ ایک دم لال ہو گیا۔ اُس نے اپنا سر جھکا لیا۔ "بولو، اب خاموش کیوں ہو گئیں؟" نجیبہ بغیر کچھ بولے باہر چلی گئی۔ مجھے اپنے آپ پر بہت غصہ آ رہا تھا کہ آخر میں یہ سب کیوں بول گیا۔ میں بھی کچن سے نکل کر اپنے کمرے میں آ گیا... اور سوچنے لگا کہ آخر مجھے ایسا کیا ہو جاتا ہے... جو میں اپنے آپ پر ہی قابو نہیں رکھ پاتا۔ کل میں نے ردا کو بھی کتنی بری طرح ذلیل کیا تھا۔ میں ردا کے بارے میں سوچتے ہوئے پھر سے اپنے پرانے دنوں کی یادوں میں کھو گیا۔


اس دن سمرا چاچی کی پھدی دو بار مارنے کے بعد میں بہت خوش تھا۔ اگلے دن جب میں سکول سے آنے کے بعد سمرا چاچی کے گھر گیا تو، سمرا چاچی گھر پر نہیں تھیں۔ وہ فاروق چاچا کے ساتھ اپنی بڑی بہن کے گھر گئی ہوئی تھیں۔ دروازہ ردا نے کھولا تھا۔ اس وقت وہ نیچے ہی تھی، اُس کے دونوں بچے چاچی کے کمرے میں سو رہے تھے۔ سکول سے آنے کے بعد میں سیدھا اپنے گھر گیا تھا، اس لیے وہاں سے ہی تازہ دم ہو کر اپنے کپڑے بدل کر آیا۔

میں اندر آ کر بیگ نیچے رکھا، تو ردا میرے پاس آ کر میرے بکھرے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا... "کھانا کھاؤ گے؟" مجھے بھوک نہیں تھی، اس لیے میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ میری نظریں سمرا کو تلاش کر رہی تھیں، لیکن جب وہ مجھے نظر نہیں آئیں تو، میں نے ردا آپی سے پوچھ ہی لیا۔

میں: "آپی، چاچی جی کہاں ہیں؟"

ردا آپی: "امی اپنی بڑی بہن کے گھر گئی ہیں۔"

میں: "کب تک آئیں گی وہ؟"

ردا آپی: "کل واپس آئیں گی، کیا ہوا چاچی کے بغیر تمہارا دل نہیں لگتا کیا؟"

ردا آپی نے ہنستے ہوئے کہا تو، میرا گلا خشک ہو گیا۔ حالانکہ اس وقت تک ردا کو میرے اور سمرا چاچی کے کل والے واقعے کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں تھی۔ "آج میں صبح سے گھر کا کام کر کے تھک گئی ہوں... اس لیے میں تمہیں کل پڑھا دوں گی... کل تو ویسے بھی جمعہ ہے، تمہاری چھٹی ہو گی نا؟"

میں: "جی آپی..."

ردا آپی: "تم بھی گرمی میں پریشان ہو کر آئے ہو گے سکول سے... چلو آؤ تم بھی لیٹ جاؤ..."

ردا آپی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مجھے چاچی کے کمرے میں لے گئیں۔ ردا کے دونوں بیٹے دیوار والی سائیڈ پر سو رہے تھے۔ ردا بیڈ پر چڑھی اور بیچ میں لیٹتے ہوئے بولی... "چلو آ جاؤ تم بھی لیٹ جاؤ..." میں بھی بیڈ پر لیٹ گیا۔ میں بیڈ پر لیٹ تو گیا تھا... لیکن میرے دل میں چاچی کے ساتھ بتایا ہوا کل کا وقت کی یادیں بھری ہوئی تھیں... کہ کل میں نے کیسے کیسے چاچی کی پھدی ماری۔ میں وہی سب سوچ رہا تھا... نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی... ردا آپی کب کی سو چکی تھیں۔ میرا لن شلوار میں پوری طرح سے سخت ہو کر کھڑا ہو چکا تھا۔ کل کی جنسی تعلق کے بارے میں سوچتے ہوئے میں نے شلوار کے اوپر سے ہی اپنے لن کو پکڑ کر دبانا شروع کر دیا۔ لیکن دل کو تسلی نہ ہوئی۔ میں نے ردا آپی کی طرف دیکھا جو گہری نیند میں سو رہی تھیں۔

تبھی ردا آپی اٹھ گئیں... جیسے ہی وہ اٹھ کر بیٹھنے لگیں، میں نے اپنے لن سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا اور ایسے لیٹ گیا... جیسے میں سو رہا ہوں۔ ردا آپی آہستہ سے بیڈ سے اٹھیں اور باہر جانے لگیں... شاید وہ پیشاب کرنے کے لیے جانے والی تھیں۔ پر جیسے ہی وہ دروازے پر پہنچیں، اُن کا ایک بیٹا اٹھ گیا۔ اُس نے اٹھتے ہی رونا شروع کر دیا۔ ردا آپی دروازے سے واپس آ گئیں۔ وہ جلدی سے بیڈ پر چڑھی... اور اپنے بیٹے کو گود میں لے کر بیٹھ گئیں۔ ردا آپی نے اپنی قمیض اوپر اٹھا کر اپنے بیٹے کو دودھ پلانا شروع کر دیا۔ ردا آپی بیڈ کے بیچ میں بیٹھی ہوئی تھیں... مجھے سائیڈ سے اُن کا ایک سینہ صاف نظر آ رہا تھا۔ میرا لن جو تھوڑا ہی ڈھیلا پڑا تھا، ردا آپی کے سینے کو سائیڈ سے دیکھ کر پھر سے کھڑا ہونے لگا۔ میرے حالات بڑی خراب ہو رہے تھے... میرا لن شلوار کو اوپر اٹھائے ہوئے چھت کی طرف دیکھ رہا تھا... مجھے ڈر تھا کہ کہیں ردا آپی کی نظر میرے کھڑے لن پر نہ پڑ جائے۔ میں بیڈ سے ایسے اٹھا... جیسے...۔۔۔​نیند سے جاگا ہوا ہوں... "کیا ہوا کچھ چاہیے؟" ردا آپی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کمرے میں بہت کم روشنی تھی۔ "نہیں کچھ نہیں... پیشاب کرنے جا رہا ہوں..." میں وہاں سے اٹھ کر باہر آ گیا... اور سیدھا باتھ روم میں گھس گیا۔ میں نے باتھ روم کے اندر پہنچتے ہی جلدی سے اپنی شلوار کھولی اور اپنے لن کو باہر نکالا جو ایک دم سخت کھڑا تھا۔ میں نے اپنے لن کو ہاتھ میں لیا اور بالکل اسی انداز میں ہلانا شروع کیا جیسے کل سمرا چاچی نے ہلایا تھا۔

​جیسے جیسے میرا ہاتھ لن پر چل رہا تھا... ویسے ویسے میں مزے اور لطف کی وادیوں میں کھوتا جا رہا تھا۔ میرا لن پوری طرح اکڑ چکا تھا... اور میں سمرا کی جنسی تعلق کے بارے میں سوچتے ہوئے تیزی سے اپنے لن کو ہلائے جا رہا تھا۔ مجھے وقت کا بھی کوئی احساس نہ تھا کہ، میں کتنی دیر سے باتھ روم کے اندر ہوں۔ میں اُس وقت اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آیا... جب مجھے ردا آپی کے قدموں کی آہٹ باتھ روم کی طرف آتے ہوئے سنائی دی۔

​اس سے پہلے کہ میں اپنے لن کو شلوار کے اندر کرتا، ردا آپی باتھ روم کے دروازے پر پہنچ چکی تھیں... "سمیر! اتنی دیر سے اندر کیا کر رہے ہو... جلدی باہر آؤ مجھے بھی پیشاب کرنا ہے..." ردا آپی کو اُس وقت سے پیشاب لگا تھا جب وہ اٹھ کر پیشاب کے لیے باہر جانے والی تھیں... پر اُن کے بیٹے کے اٹھنے کی وجہ سے وہ باتھ روم نہ جا سکیں۔ اسی وجہ سے اُن کو پیشاب کا پریشر بہت تیز لگا ہوا تھا۔ پر اِدھر میرے حالات ایسے تھے کہ، میں جھڑنے کے بے حد قریب پہنچ چکا تھا... اور میرا لن پوری طرح سخت تھا۔ "سمیر!" ردا آپی نے پھر سے چلایا... اور اس بار وہ باتھ روم کے اندر آ گئیں۔

​اندر آ کر ردا آپی نے جلدی سے اپنی الاسٹک والی شلوار کو گھٹنوں تک نیچے کیا اور نیچے پیروں کے بل بیٹھ گئیں۔ میری ایک سائیڈ اُن کی طرف تھی... "تم بڑا وقت لگاتے ہو پیشاب کرنے میں... تمہیں کیا شروع سے یہ مسئلہ ہے؟" ابھی میں ردا آپی کے سوال کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ، ایک تیز سیٹی جیسی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ میں نے چہرہ گھما کر ردا آپی کی طرف دیکھا تو ردا آپی نیچے پیروں کے بل بیٹھی ہوئی تھیں... اور اُن کی پھدی سے تیز پیشاب کی دھار نکل کر نیچے فرش پر گر رہی تھی... "اوئے چل منہ اُدھر کر بے شرم..." ردا آپی نے مسکراتے ہوئے کہا... لیکن تب تک میری نظر ردا آپی کے کالے بالوں سے بھری پھدی پر پہنچ چکی تھی۔ میں نے پہلی بار ایسی جگہ پر اتنے گھنے بال دیکھے تھے... کل جب سمرا چاچی کی پھدی ماری تھی... تب اُن کی پھدی پر ایک بھی بال نہ تھا... لیکن مجھے ردا آپی کی کالے بالوں سے بھری ہوئی پھدی دیکھ کر بہت زیادہ جوش ہو رہا تھا۔

​ردا آپی نے پیشاب کرنے کے بعد کھڑے ہو کر اپنی شلوار اوپر کی اور میرے پاس آتے ہوئے میرے سر پر ہلکا سا تھپڑ مارتے ہوئے بولی... "بے شرم! ایسے کیوں گھور رہا تھا... شرم نہیں آتی تمہیں؟" میں ردا آپی کی بات کا کوئی جواب نہ دے پایا... "اب یہیں دوپہر گزارنے کا ارادہ ہے کیا... اندر نہیں چلنا؟" مجھے کچھ اور تو نہ سوجھا تو، میں نے ایسے ہی کہہ دیا... "آپی! میں نے ابھی پیشاب نہیں کیا..."

​ردا آپی: "تو اتنی دیر سے یہاں مکھیاں مار رہا ہے کیا؟"

​میں: "آپی! پتا نہیں آ نہیں رہا..."

​ردا آپی: "اگر نہیں آ رہا تو، مت کر کسی نے تمہیں سزا سنائی ہے کیا؟"

​میں: "پر آپی مجھے ایسا لگ رہا ہے... جیسے آنے والا ہو... پر باہر نہیں آ رہا..."

​ردا آپی: "یہ تو بڑی مشکل ہے... تمہیں ڈاکٹر سے چیک کروانا پڑے گا... کب سے ایسے ہو رہا ہے؟"

​میں: "جی دو تین دن سے..."

​ردا آپی: "چل تو اندر آ جا... شام کو ڈاکٹر کے پاس چلے گے..."

​میں: "آپی! میرا یہ اتنا کیوں اکڑا ہوا ہے؟"

​میں نے اپنے لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا... جو کہ اُس وقت قمیض کے پلو سے ڈھکا ہوا تھا... "کیا... اکڑا ہوا ہے؟ دکھا ذرا..." ردا آپی نے میری بات سن کر حیرت سے کہا... تو میں نے اپنی قمیض کو اوپر اٹھا دیا۔ جیسے ہی ردا آپی کی نظر میرے پوری طرح سخت لن پر پڑی تو، اُن کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا... وہ حیرت سے میرے لن کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ آہستہ سے بولیں... جس کی مجھے تھوڑی بہت سمجھ آئی... "اتنا بڑا..."

​میں: "جی آپی..."

​ردا آپی: "کیا کچھ نہیں..."

​ردا آپی نے پیروں کے بل نیچے بیٹھتے ہوئے کہا... اب میرے لوہے کی راڈ کی طرح کھڑے لن ردا آپی کی آنکھوں سے کچھ ہی انچوں کے فاصلے پر تھا... میں نے محسوس کیا کہ، ردا آپی اپنے ہاتھوں کو مٹھیاں بنا کر دبا رہی ہیں... جیسے اُن کے دل میں میرے لن کو پکڑنے کی خواہش پیدا ہو رہی ہو... اُن کی نظریں میرے جھٹکے کھاتے لن پر اٹکی ہوئی تھیں... "دیکھیں نا ردا آپی! اسے کیا ہو گیا ہے... یہ ایسے کیوں ہو گیا ہے؟"

​ردا آپی میرے لن کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں... "پلیز آپی! کچھ کریں نا..." میں نے ردا آپی کے کندھے کو ہلایا اور بولا... ردا آپی نے نظریں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کانپتے ہوئے ہاتھ سے میرے لن کو پکڑ لیا... جیسے ہی آپی نے میرے لن کو پکڑا تو اُن کے جسم کو جھٹکا سا لگا... شاید میرے لن کی سختی محسوس کر کے... "کیا درد ہو رہی ہے؟" ردا آپی نے ایک بار میرے لن کو دیکھا اور پھر میرے چہرے کی طرف...​...کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

​میں: "جی تھوڑی تھوڑی ہو رہی ہے۔"

​میں نے دیکھا کہ ردا آپی کچھ سوچنے میں مصروف تھیں۔ وہ کبھی میرے چہرے کو دیکھتیں تو کبھی میرے لن کو۔ لن کا لال سُرخ ہو چکا ٹوپا اُن کی آنکھوں کے سامنے آیا تو، اُنہوں نے منہ سے "سیییی" کی آواز نکالی... "دیکھ سمیر! میں اِسے ٹھیک کر دیتی ہوں... لیکن تمہیں مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا..."

​میں: "جی آپ کہیں ردا آپی..."

​ردا آپی: "دیکھ، تمہارے اِسے ٹھیک کرنے کے لیے میں جو کچھ بھی کروں... تم نے وہ کسی کو بھی نہیں بتانا، سمجھے؟"

​میں: "جی سمجھ گیا..."

​ردا آپی: "اچھا، پہلے اپنے ابو کی قسم کھاؤ..."

​میں: "جی میں ابو کی قسم کھاتا ہوں..."

​ردا آپی: "دیکھو سمیر! اگر تو نے یہ بات کسی کو بتائی تو، ہمارے دونوں خاندانوں کی پورے گاؤں میں بے عزتی ہو جانی ہے..."

​میں: "آپی! میں نے کہا نا، میں کسی سے نہیں کہوں گا..."

​جب ردا آپی کو یقین ہو گیا کہ، اب میں کسی سے کوئی بات نہیں کروں گا تو وہ کھڑی ہو گئیں... اُنہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے باتھ روم سے باہر لے جانے لگیں۔ میں نے دوسرے ہاتھ سے اپنی شلوار پکڑی اور ردا آپی کے پیچھے چل پڑا۔ جیسے ہی ہم دونوں کمرے میں پہنچے تو، ردا آپی نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا... اُنہوں نے اندر سے دروازہ بند کر دیا... اور کمرے کی لائٹ بند کر دی... جس سے کمرے میں پوری طرح اندھیرا ہو گیا... اب کمرے میں بڑی کم روشنی تھی... "سمیر..." ردا آپی نے سرگوشی بھری آواز میں کہا...

​میں: "جی..."

​ردا آپی: "اپنے سارے کپڑے اُتار کر بیڈ پر لیٹ جاؤ..."

​میں نے اندھیرے میں ہی اپنے سارے کپڑے اُتار دیے... اور بیڈ پر لیٹ گیا۔ دیوار کی طرف ردا آپی کے دونوں بچے سو رہے تھے... تھوڑی دیر بعد ردا آپی بیڈ پر چڑھیں... حالانکہ کمرے میں اب بہت زیادہ اندھیرا ہو گیا تھا... لیکن میں اتنا تو دیکھ ہی پا رہا تھا کہ، ردا آپی اُس وقت اپنی سفید رنگ کی برا کو چھوڑ کر سارے کپڑے اُتارے ہوئے تھیں... جیسے ہی وہ بیڈ پر چڑھیں تو اُنہوں نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھ کر حالات کا جائزہ لیا... پھر وہ میری طرف کروٹ کے بل لیٹ گئیں... ردا آپی نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے آہستہ سے کہا... "سمیر! جو بھی کرنا ہے آہستہ سے کرنا ہے... کہیں بچے نہ اٹھ جائیں..."

​میں: "جی آپی..."

​ردا آپی: (میرے سینے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے...) "اب بتاؤ، ابھی بھی وہاں درد ہو رہا ہے؟"

​میں: "جی آپی..."

​ردا آپی نے میرے سینے پر ہاتھ گھماتے ہوئے آہستہ آہستہ میرے لن کی طرف لے جانا شروع کر دیا... جیسے ہی ردا آپی نے میرے لن کو پکڑا میرا پورا جسم کانپ گیا... ردا آپی نے آہستہ آہستہ میرے لن کو ہلانا شروع کر دیا... میں تو جیسے مزے کی وادیوں میں اُڑنے لگا تھا... "سمیر! کیسا لگ رہا ہے اب؟" ردا آپی نے سرگوشی سے بھری آواز میں کہا... شاید وہ بھی میرے لن کی سختی محسوس کر کے گرم ہو چکی تھیں... "جی اب اچھا محسوس ہو رہا ہے..."

​ردا آپی: "لیکن یہ تو اور سخت ہوتا جا رہا ہے..."

​میں: "جی..."

​میں صرف اتنا ہی جواب دے پایا... تو ردا آپی اٹھ کر بیٹھ گئیں... اور آہستہ آہستہ میرے لن کو دباتے ہوئے اُس کی لمبائی موٹائی ناپنے لگیں... میری آنکھیں مستی میں بند ہونے لگی تھیں... میں نے دیکھا کہ ردا آپی نے اپنا ایک ہاتھ اپنی کمر پر لے جا کر اپنی برا کے ہکس کھولنے شروع کر دیے تھے... اور پھر اُنہوں نے اپنی برا کو بھی کھول کر سائیڈ میں پھینک دیا... "لگتا ہے یہ ایسے ٹھیک نہیں ہونے والا..." ردا آپی نے میرے لن کو ہلاتے ہوئے کہا...

​اور میرے لن کو چھوڑ کر میری سائیڈ میں پیٹھ کے بل لیٹتے ہوئے، مجھے اپنی طرف گھمانے کو کہا... میں نے جیسے ہی ردا آپی کی طرف کروٹ لی... ردا آپی نے مجھے اپنی بانہوں میں بھر کر اپنے ساتھ لگا لیا... اُن کے بڑے بڑے تنے ممے میرے سینے میں دب گئے... ایک عجیب سی خمار میرے دماغ پر چڑھنے لگی... "میرے اوپر آؤ..." ردا آپی نے مستی سے بھری آواز میں کہا تو، میں ردا آپی کے اوپر آ گیا... اِس دوران بھی ردا آپی نے اپنی بانہوں کو میرے جسم پر لپیٹے رکھا... جیسے ہی میں ردا آپی کے اوپر آیا تو، اُنہوں نے نیچے سے اپنی ٹانگیں کھول دیں... جس سے میرے جسم کا کمر سے نیچے والا حصہ اُن کی دونوں کھلی ہوئی ٹانگوں کے درمیان آ گیا... "دیکھ سمیر! میں جو بھی کر رہی ہوں وہ سب تمہاری خاطر کر رہی ہوں... کہیں بھول سے بھی یہ بات کسی کو بتا نہ دینا..."

​ردا آپی نے اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جاتے ہوئے کہا... "نہیں آپی! میں کسی کو نہیں بتاؤں گا..." میں نے اپنی کمر کو خود ہی اوپر اٹھا لیا... جس سے ردا آپی نے آسانی سے ہاتھ نیچے لے جا کر میرے لن کو پکڑ کر اپنی پھدی کے ہونٹوں کے بیچ میں رگڑنا شروع کر دیا... جیسے ہی میرا لن ردا آپی کی پھدی کے ہونٹوں کے درمیان رگڑ کھانے لگا... مجھے ردا آپی کی پھدی سے نکلتی ہوئی بے انتہا گرمی اپنے لن کے ٹوپے پر محسوس ہونے لگی... جس سے میرا لن پہلے سے بھی زیادہ سخت ہو گیا... ردا آپی نے میرے لن کو تین چار بار اور اپنی پھدی کے ہونٹوں کے درمیان رگڑا تو، میرے لن کا ٹوپا ردا آپی کے پانی سے پوری طرح...گیلا ہو گیا۔

​"سییی سمیر..." ردا آپی نے سسکتے ہوئے میرے لن کے ٹوپے کو اپنی پھدی کے سوراخ پر جیسے ہی سیٹ کیا... تو اُن کے جسم نے تیز جھٹکا کھایا... اور ساتھ ہی سرگوشی اور مستی بھری آواز میں بولیں... "اب اِسے آہستہ آہستہ اندر دھکیلو..." میں نے بنا کوئی جواب دیے... جیسے ہی آگے کی طرف زور لگایا تو، میرا لن ردا آپی کی پوری طرح گیلی پھدی میں پھسلتا ہوا اندر جانے لگا... "آہہہہ سمیر... ہاں پورا اندر کرو... ایسے ہی... ہاں بہت اچھے... شاباش... ڈال دو پورا اندر..." ردا آپی نے مستی میں سسکتے ہوئے میرے لن سے ہاتھ ہٹا لیا... کیوں کہ، اب تک میرا آدھا لن اُس کی پھدی کے اندر جا چکا تھا... جیسے ہی ردا آپی نے میرے لن سے ہاتھ ہٹایا تو، میں نے ایک زور دار جھٹکا مارا، تو میرا لن ردا آپی کی پھدی کی رگوں کو رگڑتا ہوا پورا کا پورا اندر جا گھسا۔

​میرے اس تگڑے جھٹکے سے ردا آپی ایک دم کانپ اٹھیں... درد سے نہیں مزے سے اور اس بات کا احساس مجھے تب ہوا جب ردا آپی نے اپنی بانہوں کو میری پیٹھ پر کستے ہوئے اپنا ایک ہاتھ میرے سر پر رکھ کر مجھے اپنے ہونٹوں پر جھکانا شروع کر دیا... کل سمرا چاچی کے سکھائے ہوئے سبق مجھے اچھی طرح یاد تھے... میں نے جھک کر ردا آپی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنا شروع کر دیا... بالکل ویسے ہی جیسے کل سمرا چاچی نے میرے ہونٹوں کو چوسا تھا... میری اس حرکت سے ردا آپی حیران ضرور ہوئیں... لیکن اُس وقت اُنہوں نے یہ بات ظاہر نہیں ہونے دی... تھوڑی ہی دیر میں ردا آپی نے اپنے ہونٹوں کو ڈھیلا چھوڑ دیا... اور میں اپنی مرضی سے اُن کے ہونٹوں کو چوسنے لگا... ردا آپی نے بھی جیسے مجھے کھلی چھٹی دے دی تھی کہ، میں جیسے مرضی چاہے کروں... وہ میرے لن کو پھدی میں لیے بڑی مستی سے اپنے ہونٹوں کو چسوا رہی تھیں... میں نے ردا آپی کے ہونٹوں کو چوستے ہوئے اپنے لن کو ٹوپی تک باہر نکالا اور پھر اندر گھسا دیا... میرے ایسے کرنے سے ردا آپی نے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سے الگ کر لیا... لیکن میں نے جھٹکے لگانے شروع کر دیے تھے... میرا لن ردا آپی کی پھدی میں آسانی سے اندر باہر ہونے لگا... "آہہہہ اوہہہہ سمیر... تو نے یہ سب کچھ کہاں سے سیکھا..." ردا آپی نے میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا... "دوستوں سے آپی..."

​ردا آپی: "کیا دوستوں سے؟"

​میں: "ہاں وہ سب یہی باتیں کرتے رہتے ہیں..."

​میں نے اب اپنے لن کو اور تیزی سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا...

​"اور کیا کیا پتا ہے تمہیں..." ردا آپی نے بھی اپنی کمر کو اوپر کی طرف اچھالتے ہوئے کہا... "بس یہی پتا ہے..." میں بڑے آرام سے لن کو اندر باہر کر رہا تھا۔ آپی نے میری پیٹھ سے اپنی بانہیں الگ کیں اور پھر میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے دونوں مموں پر رکھ دیے...

​آپی: "سمیر! ممے زور سے دباؤ اور تھوڑا تیز تیز جھٹکے مارو..."

​میں نے دونوں ہاتھوں سے آپی کے دونوں ممے پکڑ لیے اور جھٹکوں کی رفتار بھی تیز کر دی...

​آپی: "ہاں سمیر ایسے ہی تیز کرو... سمیر! ممے کھینچو اور کھینچو..."

​میں آپی کا حکم مانے جا رہا تھا...

​آپی: "سمیر! پورا باہر نکال کے پھر اندر کرو... ہاں ایسے ہی شاباش... ایسے ہی کرو..."

​میں نے بھی لن کو پورا نکال نکال کر آپی کی پھدی میں ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ میری رفتار کافی تیز تھی جس سے پورا بیڈ ہل رہا تھا اور کبھی کبھی تو زور کے جھٹکے سے بیڈ "ٹھک" کر کے دیوار سے ٹکراتا... کچھ دیر بعد ہی آپی نے اپنی ٹانگوں کو میری کمر کے گرد لپیٹ لیا اور میری گردن کو اپنے بازوؤں کی گرفت میں لے کر اپنے قریب لے آئیں پھر مجھے ہونٹوں سے چومتے ہوئے ایک بار پھر تیز جھٹکے مارنے کا کہا... اس حالت میں میرے لیے تیز جھٹکے مارنا مشکل تھا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری...

​اور لن کو پورا نکال نکال کر اندر ڈالتا رہا... جب لن آپی کی گیلی پھدی میں اندر باہر ہوتا تو "پُچ پُچ" کی آواز پورے کمرے میں پھیل جاتی... اسی طرح کرتے کراتے آپی نے پاگلوں کی طرح مجھے چومنا شروع کر دیا... بس پھر کچھ ہی دیر میں تڑپتی ہوئی آواز سے مجھے پکارا: "سمیر! زور سے کرو... پورا اندر کرو... زور سے جھٹکے مارو... زور سے جھٹکے مارو..." بس پھر آپی نے مجھے اپنے بازو اور ٹانگوں میں جکڑ لیا... لیکن آپی نے مجھے رُکنے نہ دیا... مجھے کہا: "سمیر! کرتے رہو..." آپی نے بھی تیزی سے اپنی کمر کو اوپر کی طرف اچھالنا شروع کر دیا...

​"آہہہہ ہائے سمیر... بس تھوڑی دیر اور... آہہہہ ہائے امی... میری پھدی..." پھر کیا تھا... آپی کا جسم پوری طرح کانپتے ہوئے جھٹکے کھانے لگا... میں اس کے اوپر ابھی بھی چڑھا تھا اور اس کو جھٹکے مارے جا رہا تھا... "اوہہہ سمیر... تو نے تو خوش کر دیا آج... ہاں کر اور زور سے کر..." میں نے بھی جوش میں آ کر اپنے لن کو ان کی پھدی میں جڑ تک گھسانا شروع کر دیا... اور ایک ہی منٹ بعد مجھے ایسا لگنے لگا... جیسے میرے جسم کا سارا خون میرے لن میں اکٹھا ہو گیا ہو... اور پھر دھماکے کے ساتھ میرے لن نے آپی کی پھدی میں ہی پانی چھوڑنا شروع کر دیا...

​میں اُس وقت خیالوں کی دنیا سے باہر آیا... جب باہر برآمدے میں رکھے فون کی گھنٹی بجی... میں اٹھ کر باہر آیا اور فون اٹھایا... دوسری طرف سے ابو کی آواز آئی... "ہیلو سمیر..."

​میں: "جی ابو، کہیے..."

​ابو: "دیکھو بیٹا! آج رات ہم گھر نہیں آ پائیں گے... یہاں یہ سب لوگ بہت ضد کر رہے ہیں کہ رات یہیں رُکو... اس لیے ہمارا آج رات آنا مشکل ہو گا..."

​میں: "جی ابو..."

​ابو: "ہم کل صبح جلدی واپس آ جائیں گے... اپنا اور نجیبہ کا خیال رکھنا..."

​میں: "جی..."

​میں نے فون رکھا اور جیسے ہی مُڑا تو دیکھا پیچھے نجیبہ کھڑی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی میں بول پڑا... "ابو کا فون آیا تھا، کہہ رہے تھے کہ آج رات کو نہیں آئیں گے..." نجیبہ کچھ نہ بولی اور پلٹ کر اپنے کمرے میں جانے لگی۔ "آج تمہاری امی گھر نہیں آئیں گی تو، اپنے کھانے کے لیے کچھ بنا لو..."

​نجیبہ: "کیوں آپ نہیں کھائیں گے؟"

​میں: "نہیں، میرا دل نہیں ہے..."

​نجیبہ: "ٹھیک ہے تو پھر میں نے بھی کچھ نہیں کھایا..."

​میں: "جیسے تمہاری مرضی..."

​میں گھر سے باہر چلا گیا... ایسے ہی اِدھر اُدھر گھومنے لگا... تو دل میں فياض کے امی صبا کا خیال آیا... سوچا کیوں نہ فياض کے گھر کا چکر لگا آؤں۔ میں فياض کے گھر کی طرف چل پڑا۔ شام کے 5 بج چکے تھے... جب میں فياض کے گھر پہنچا تو گیٹ بند تھا۔ میں نے ڈور بیل بجائی، تو تھوڑی دیر بعد اوپر سے صبا چاچی کی آواز آئی... "کون ہے؟" میں نے گیٹ سے تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر اوپر دیکھا اور بولا... "سلام چاچی جی... فہیم گھر پر ہے؟"

​میں نے دیکھا کہ صبا مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھیں... شاید اُس دن کی میری حرکتوں کی وجہ سے... "ہاں، ابھی بھیجتی ہوں..." اور وہ پیچھے ہو گئیں... تھوڑی دیر بعد فياض نے آ کر گیٹ کھولا...

​میں: "کیا ہوا تیرا چہرہ لٹکا ہوا کیوں ہے؟"

​فہیم: "کچھ نہیں یار، ہلکا سا بخار ہو گیا ہے... چل اندر تو آ..."

​میں اندر چلا گیا... ہم دونوں اوپر آئے اور فياض کے کمرے میں چلے گئے... "امی دو کپ چائے بنا دو..." فياض نے اپنے کمرے سے چلاتے ہوئے کہا... تو باہر سے صبا چاچی کی آواز آئی... "اچھا..."

​فياض: "اور سنا کدھر گھوم رہا ہے؟"

​میں: "بس یار، ایسے ہی گھر پر اکیلے بور ہو رہا تھا... اس لیے یہاں چلا آیا..."

​فياض: "تو پھر اب گھر کا ماحول کیسا ہے؟"

​میں: "ٹھیک ہے یار..."

​ہم دونوں اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے... تھوڑی دیر بعد صبا بھی چائے لے کر آ گئیں... چائے دینے کے بعد صبا نے فياض سے کہا... "بیٹا چائے پی کر میرے ساتھ چل، میں نے پاس والے گاؤں سے اپنے سوٹ لے کر آنے ہیں... کل شادی میں وہی پہن کر جانا ہے..."

​فياض : "امی آپ دیکھ تو رہی ہیں کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے... میں کل صبح صبح لا دوں گا نا..."

​صبا: "اب میں کس سے کہوں... تیرے دادا جی بھی تو گھر پر نہیں آئے ابھی تک..."

​فياض: "امی آپ تیار ہو جاؤ... اور سمیر کے ساتھ چلی جاؤ... سمیر میری بائیک پر آپ کو لے جائے گا... سمیر! پلیز یار امی کو پاس والے گاؤں تک لے جا... وہاں امی نے کپڑے سلوانے کے لیے دیے ہوئے ہیں..."

​میں نے صبا کی طرف دیکھا تو، اُن کی نظریں فياض کی طرف تھیں... اُن کے چہرے سے کچھ بھی ظاہر نہیں ہو رہا تھا... "ٹھیک ہے، چلا جاتا ہوں..." میں نے چائے پیتے ہوئے کہا...

​فياض: "جاؤ امی! اِس کے ساتھ چلی جاؤ..."

​صبا نے ایک بار میری طرف دیکھا اور باہر جاتے ہوئے بولی... "ٹھیک ہے میں تیار ہو کر آتی ہوں..." میں نے چائے ختم کی اور فياض کے ساتھ نیچے آ گیا... میں نے بائیک سٹارٹ کر کے گھر سے باہر نکالی اور صبا چاچی کے آنے کا انتظار کرنے لگا... تھوڑی دیر بعد صبا چاچی باہر آئیں... میرے منہ سے "واہ" نکلتے نکلتے بچا... صبا چاچی اس عمر میں بھی قیامت ڈھا رہی تھیں... اُنہوں نے سیاہ رنگ کا چپکا ہوا قمیض پہنا ہوا تھا... اور نیچے سفید رنگ کی پاجامی پہنی ہوئی تھی... وہ جلدی سے میرے پیچھے بائیک پر بیٹھ گئیں... میں نے فياض کی طرف دیکھا تو، اُس نے کہا... "اب جلدی جاؤ... آج بادل بھی ہو گئے ہیں... کہیں راستے میں ہی بارش نہ شروع ہو جائے..."

​میں نے بائیک چلا دی... اور دوسرے گاؤں جانے کے لیے مین روڈ کی طرف مُڑا ہی تھا کہ، صبا چاچی نے مجھے ٹوک دیا... "اس طرف سے نہیں، دوسری طرف کچے راستے سے چلو... اُدھر سے جلدی پہنچ جائیں گے..."

​میں: "چاچی کوئی خاص فرق نہیں پڑنا... زیادہ سے زیادہ 5 منٹ کا فرق پڑے گا... اور اوپر سے راستہ بھی کچا ہے..."

​چاچی: "میں نے کہا نا، اِدھر سے چلنا ہے..."

​میں: "ٹھیک ہے، جیسے آپ کہیں..."

​میں نے بائیک کچے راستے کی طرف موڑ دی... میں یہ سوچ رہا تھا کہ، صبا چاچی نے اس طرف سے چلنے کا کیوں کہا... اس طرف سے کوئی خاص فرق تو پڑنا نہیں ہے... اوپر سے اونچے نیچے راستے پر جھٹکے الگ لگنے ہیں... کہیں چاچی دوسرے موڈ میں تو نہیں ہیں... خیر ہم کچے راستے پر پہنچ گئے... یہ راستہ کھیتوں کے بیچ سے ہو کر جاتا تھا... دونوں طرف گنے کے کھیت تھے... بائیک چلاتے ہوئے "سائیں سائیں" کی عجیب سی آواز آ رہی تھی... اُس وقت وہاں نہ تو، کسی انسان کا نام و نشان نظر آ رہا تھا... اور نہ کسی جانور کا... اوپر سے کچے راستے میں گڑھے اتنے تھے کہ، بائیک کی رفتار بہت آہستہ ہو گئی تھی... جب ہم صبا چاچی کے گھر سے نکلے تھے... تو ہم دونوں کے بیچ بہت فاصلہ تھا... لیکن بائیک کے گڑھوں میں اُچھلنے کی وجہ سے اب مجھے صبا چاچی کی اگلی سائیڈ مجھے اپنی پیٹھ پر محسوس ہو رہی تھی... میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ، اُن کے ممے میری پیٹھ سے رگڑ کھا رہے تھے... کیوں کہ صبا چاچی نے اپنا ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھا ہوا تھا۔ جس سے اُن کے ممے میری پیٹھ پر ٹچ ہونے سے بچے ہوئے تھے... ہاں، بیچ میں جب بائیک کا ٹائر گڑھے پر پڑتا اور بائیک اچھلتی تو اُس وقت اُن کے ممے میری پیٹھ سے ضرور ٹکرا جاتے... صبا چاچی اونچے قد کی عورت تھیں... اُس وقت بھی اُن کی قَد میرے اور تھا۔ جس سے اُن کے ممے میری پیٹھ پر ٹچ ہونے سے بچے ہوئے تھے... ہاں، بیچ میں جب بائیک کا ٹائر گڑھے پر پڑتا اور بائیک اچھلتی تو اُس وقت اُن کے ممے میری پیٹھ سے ضرور ٹکرا جاتے... صبا چاچی اونچے قد کی عورت تھیں... اُس وقت بھی اُن کی قَد میرے اور فیاض جتنا تھا... میرے پیچھے بیٹھے ہونے کے باوجود بھی وہ آگے سب دیکھ رہی تھیں... اور مجھے ہدایت دے رہی تھیں کہ، سامنے گڑھا ہے اِدھر بائیک کر لو اُدھر کر لو... اور جب بائیک گڑھے میں پڑ کر اُچھلتی تو ہم دونوں ہنسنے لگ جاتے... ابھی ہم آدھے راستے میں ہی پہنچے تھے کہ سامنے ایسا منظر آیا کہ، ہماری ہنسی ایک دم سے بند ہو گئی... سامنے ایک کتا کتی پر چڑھا ہوا پھدی مار رہا تھا... کتا مکمل رفتار سے اپنے لن کو کتی کی پھدی میں گھسائے جا رہا تھا... مجھے صبا چاچی کا تو پتا نہیں... لیکن جب تک ہم اُس کتے کتی سے آگے نہیں نکل گئے...

​تب تک وہ منظر میں دیکھتا رہا... جب ہم پاس سے گزرے تو، میں نے چہرہ سائیڈ میں کر کے بھی دیکھا... تو پیچھے سے صبا چاچی کی آواز آئی... اُنہوں نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کو روکا... لیکن پھر بھی تھوڑا سا ہنستے ہوئے بولیں... "سمیر آگے دھیان دو ہی ہی..." میں تھوڑا شرمندہ سا ہو گیا... اور آگے دیکھنے لگا... ابھی ہم کچھ ہی آگے پہنچے تھے کہ، ایک دم سے بارش شروع ہو گئی... بارش بھی اتنی زور سے پڑی کہ، ہمیں وہیں رُکنا پڑا... میں نے بائیک کو ایک آم کے درخت کے نیچے روک دیا... آم کا درخت کافی گھنا تھا... اس لیے اُس کے نیچے بارش کا پانی کم آ رہا تھا...

​ہم دونوں آم کے درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے... "اُفف اس بارش کو بھی ابھی شروع ہونا تھا..." صبا چاچی نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا... "میں نے تو پہلے ہی آپ سے کہا تھا کہ، سڑک کی طرف سے چلتے ہیں... وہاں سے جاتے تو، کسی دکان پر رُک بھی جاتے... اب کیا کریں... تھوڑی دیر بعد تو، اس کے پتوں سے بھی پانی نیچے آنا شروع ہو جانا ہے..."

​صبا چاچی: "مجھے کیا پتا تھا کہ بارش شروع ہو جانی ہے... واپسی کے وقت مین روڈ سے ہی آئیں گے... توبہ! غلطی ہو گئی..."

​ہم وہیں کھڑے ہو کر بارش بند ہونے کا انتظار کرنے لگے... بارش کے ساتھ ساتھ بڑی تیز ہوا چلنے لگی تھی... ایک تو سردی کا موسم اور اوپر سے بارش... اور اوپر سے تیز ٹھنڈی ہوا... لیکن اُس تیز ہوا نے تو، میرے اندر آگ لگا دی... اُس وقت جب میری نظر صبا چاچی کی طرف پڑی... اُن کا دھیان میری طرف نہ تھا... میں تھوڑا پیچھے درخت کے تنے کے ساتھ کھڑا تھا... اور صبا چاچی تھوڑا آگے تھیں... ہوا سے صبا چاچی کے قمیض کا پلو اُڑ رہا تھا... جس سے صبا چاچی کی گانڈ سے پلو ہٹ چکا تھا... سفید رنگ کی تنگ پاجامی میں صبا چاچی کی چوتڑ صاف نظر آ رہی تھی... کیا موٹی چوتڑ تھی... میرا تو لن ہی میری پینٹ میں سخت ہونا شروع ہو گیا... اور اوپر سے صبا چاچی نے نیچے سرخ رنگ کی پینٹی پہنی ہوئی تھی... جو اُن کی پاجامی میں سے صاف نظر آ رہی تھی...

​میں صبا چاچی کی چوتڑ کو گھورے جا رہا تھا... میرا دھیان تو صبا چاچی کی طرف تھا ہی نہیں... تبھی صبا چاچی نے چہرہ گھما کر میری طرف دیکھا... اور مجھے اپنی چوتڑ کی طرف گھورتے ہوئے دیکھ لیا... لیکن تب بھی میرا دھیان صبا چاچی کی چوتڑ پر ہی اٹکا ہوا تھا... اور صبا چاچی نے میری پینٹ میں تنے ہوئے لن کو بھی دیکھ لیا تھا... اچانک میں نے صبا چاچی کے چہرے کی طرف دیکھا تو، میں نے شرمندہ ہو کر نظریں نیچے کر لیں... "بڑے بے شرم ہو تم... لگتا ہے فیصل بھائی صاحب سے تمہاری شکایت کرنی ہی پڑے گی..." میں نے غور کیا کہ، صبا چاچی کے چہرے پر مسکان تھی...

​میں: "کون سی شکایت؟ میں نے تو کچھ نہیں کیا..."

​صبا چاچی: "اچھا؟ تم اتنے بھی بھولے نہیں ہو... جتنے تم دکھتے ہو..."

​میں نے دیکھا کہ، صبا چاچی ترچھی نظروں سے میری پینٹ میں پھولے ہوئے لن کو دیکھ رہی تھیں... "مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا آپ کس بارے میں بات کر رہی ہیں..."

​صبا چاچی: "اچھا، ابھی تم مجھے گندی نظر سے گھور نہیں رہے تھے؟"

​میں: "چاچی جان! اِس میں میرا کیا قصور... اب کوئی خوبصورت چیز دِکھے گی تو دیکھوں گا ہی نا..."

​صبا چاچی: (شرم سے مسکراتے ہوئے...) "اچھا، ایسی کون سی خوبصورت چیز دیکھ لی تم نے... ذرا مجھے بھی تو پتا چلے..."

​میں: "وہی چیز جس کی تعریف اُس دن بلّو کر رہا تھا..." (میرا سیدھا سیدھا اشارہ صبا کی چوتڑ کی طرف تھا...)

​صبا چاچی: "تم سچ میں بڑے بے شرم ہو گئے ہو..."

​میں چاچی کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا... "چاچی! نیچے جو لال رنگ کی پہنی ہے... اُس نے بے شرم ہونے پر مجبور کر دیا ہے..." میں نے چاچی کی سرخ رنگ کی پینٹی کے بارے میں کہا تو، اُن کا چہرہ ایک دم سے سرخ ہو گیا... اُنہوں نے اپنی نظریں نیچے کر لیں... اور ہونٹوں میں مسکراتے ہوئے بولیں... "بکواس بند کرو..."

​میں: "چاچی! بلّو سچ کہتا تھا... تمہاری چوتڑ کو دیکھ کر دبانے کا من کرتا ہے..." (چاچی کی شرم اور مسکراہٹ نے میرے اندر ہمت اور حوصلہ بھر دیا تھا... جو میں اتنا سب کچھ کہہ گیا تھا... اور وہ مجھے ناراض تو کسی بھی زاویے سے نہیں لگ رہی تھیں... میں نے ہمت کرتے ہوئے چاچی کی چوتڑ پر ہاتھ رکھ کر آہستہ سے مسل دیا... تو چاچی ایک دم سے گھبرا گئیں... اور آگے کی طرف ہوتے ہوئے بولیں...) "یہ کیا بدتمیزی ہے... اگر کسی نے دیکھ لیا تو..."

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)