میرے پورے جسم میں مزے کی لہریں دوڑ رہی تھیں.... پھر سمرا چاچی نے میرے آدھے لن کو منہ میں لیا اور اپنی زبان کو میرے لن کی ٹوپی پر گول گول گھمانا شروع کر دیا... جیسے ہی سمرا چاچی کی زبان میرے لن کی ٹوپی پر پیشاب والے سوراخ پر رگڑ کھاتی، تو میں مستی میں مچل اٹھتا... میرے لن کی رگیں پوری طرح پھول چکی تھیں... سمرا چاچی نے میرے لن کو منہ سے باہر نکالا اور میری کمر کے دونوں طرف ٹانگیں کر کے میرے اوپر آ گئیں... میرا لن سمرا چاچی کے تھوک سے پوری طرح گیلا ہو چکا تھا... سمرا چاچی نے ہاتھ نیچے لا کر میرا لن پکڑا اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی، "چل تجھے میں دکھاتی ہوں کہ عورتیں لن کی سواری کیسے کرتی ہیں..." سمرا چاچی نے لن کو پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا اور جیسے ہی اس نے پھدی کو لن پر دبایا تو میرا لن سمرا چاچی کی پھدی کے اندر گھسنے لگا... "آہ... ہائے... بڑا تگڑا ہے تیرا لن..." سمرا نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا...
اور آہستہ آہستہ اپنی پھدی کو میرے لن پر دباتے ہوئے پورا لن پھدی میں لے لیا... سمرا نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر تیزی سے اوپر نیچے ہونا شروع کر دیا... میں بیڈ پر پیٹھ کے بل لیٹا ہوا تھا... سامنے سمرا میرا لن پھدی میں لیے اوپر نیچے ہو رہی تھی... اس کی موٹی بنڈ میری رانوں سے ٹکرا کر شڑپ شڑپ کی آوازیں کرنے لگی... اس کے بڑے بڑے ممّے ایسے ہل رہے تھے... سمرا نے جب دیکھا کہ میں حسرت بھری نظروں سے اس کے اوپر نیچے ہوتے ممّوں کو دیکھ رہا ہوں، تو اس نے میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے ممّوں پر رکھ دیا... "تُو کیوں فارغ بیٹھا ہے... چل اپنی گشتی سمرا کے ممّے دبا..." سمرا نے تیزی سے اپنی بنڈ ہلاتے ہوئے کہا...
میں نے بغیر کچھ کہے سمرا کے ممّے دبانے شروع کر دیے...سمرا پوری رفتار سے اپنی بنڈ ہلائے جا رہی تھی... میرا لن پھر سے سمرا کی پھدی کے پانی سے گیلا ہو کر اندر باہر ہو رہا تھا... سمرا پاگلوں کی طرح آہ اوہ کیے جا رہی تھی... "ہائے سمیر... اب تو مجھے تیرا لن روز چاہیے اپنی پھدی میں... آہ... سی... اوہ... مزا آ گیا... بول روز میری پھدی مارے گا نا..." سمرا نے پوری رفتار سے اپنی بنڈ کو اوپر نیچے کرتے ہوئے کہا... پورے کمرے میں سُرپ سُرپ، تھپ تھپ کی آوازیں گونج رہی تھیں... سمرا کا جسم پھر سے اکڑنے لگا... سمرا کی پھدی سے مزید پانی بہہ کر باہر آ رہا تھا... سمرا نے مستی میں آ کر جھک کر میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے... اور پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنی کمر کو ہلانے لگی... اب سمرا کی آہ و پکار ہم دونوں کے منہ کے اندر گھٹ کر رہ جا رہی تھی...
جیسے ہی سمرا کیپھدی نے پانی چھوڑا... سمرا نے تیزی سے سانس لیتے ہوئے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سے ہٹا لیا... "آہ... آج پوری ہوئی تسلی۔۔۔" چاچی میرے اوپر سے اٹھ کر بستر پر سائیڈ میں لیٹ گئیں۔۔۔لیکن میں ابھی راستے میں ہی تھا۔۔۔چاچی کو بھی اس بات کا اندازہ تھا۔۔۔چاچی نے دو تین لمبی سانسیں لیں۔۔۔اور پھر اٹھ کر ڈاگی سٹائل میں آ گئیں۔۔۔یہ سب میرے لیے ایک دم نیا تھا۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔"سمیر چل پیچھے آ کر دے اپنی چاچی کی پھدی میں لن اور جلدی سے اپنا پانی نکال لے۔۔۔" چاچی کی بات سنتے ہی میں چاچی کے پیچھے گھٹنوں کے بل آ گیا۔۔۔چاچی نے اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان سے ایک بازو نکال کر میرے لن کو پکڑ کر اپنی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کر دیا۔۔۔
اب مجھے چاچی کے آگے ہکمی بولنے ضرورت نہیں تھی۔۔۔جیسے ہی میرے لن کا ٹوپی چاچی کی پھدی پر لگا تو، میں نے پورے جوش سے ایک زبردست جھٹکا مارا۔۔۔"آہہہہہ ایسے ہی ۔۔۔ہاں۔۔۔جان ۔۔۔" چاچی نے پیچھے گردن گھما کر کہا۔۔۔"ہاں میری بنڈ کو پکڑ کر زور زور سے شاٹ مار۔۔۔" میں نے ایسے ہی کیا۔۔۔چاچی کی موٹی بنڈ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر دباتے ہوئے زور زور سے شاٹ لگانے شروع کر دیے۔۔۔اس پوزیشن میں چاچی کو چودتے ہوئے میں بہت زیادہ جوش میں آ چکا تھا۔۔۔اس لیے مزید 1-2 منٹ میں ہی میں نے چاچی کی پھدی میں اپنا پانی نکالنا شروع کر دیا۔۔۔
جب میں دوسری بار جھڑا تو میں بری طرح تھک چکا تھا۔۔۔میرا لن جیسے ہی ڈھیلا ہو کر چاچی کی پھدی سے باہر آیا۔۔۔میں پیچھے بستر پر لیٹ گیا۔۔۔چاچی بھی ایک لمبی سانس لیتے ہوئے بستر پر لیٹ گئیں۔۔۔
ان پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے میری بری حالت ہو رہی تھی۔۔۔دوپہر کے 3 بج چکے تھے۔۔۔اس بار میں خیالوں سے باہر آیا۔۔۔جب باہر ڈور بیل بجی۔۔۔میرا لن اس وقت تک ٹائٹ تھا۔۔۔میں نے باہر جا کر گیٹ کھولا تو دیکھا کہ، باہر نجیبہ اپنے مامی کے ساتھ کھڑی تھی۔۔۔"کیا ہوا تم اتنی جلدی کیسے آ گئیں۔۔۔۔؟" میں نے گیٹ سے پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا تو، نجیبہ اندر آ گئی۔۔۔اسکے ہاتھ میں کچھ شاپنگ بیگز تھے۔۔۔"اچھا نجیبہ اب میں جاتی ہوں۔۔۔" نجیبہ کی مامی نے مڑتے ہوئے کہا تو، نجیبہ نے پیچھے مڑ کر اپنی مامی سے کہا۔۔۔
نجیبہ: مامی پانی تو پی لیں۔۔۔"
"نہیں بہت دیر ہو رہی ہے۔۔۔پھر کبھی آؤں گی۔۔۔"
اسکی مامی کے جانے کے بعد میں نے گیٹ بند کیا اور جیسے ہی مڑا تو دیکھا کہ، نجیبہ اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔ اور اسکے کمرے کا دروازہ بند تھا۔۔۔میں نے سوچا شاید وہ تھک گئی ہوں گی۔۔۔اس لیے میں وہاں سے اپنے کمرے میں آ کر بستر پر لیٹ گیا۔۔۔لیٹے لیٹے مجھے نیند آنے لگی۔۔۔ابھی میری آنکھ لگے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ، مجھے کسی نے ہلایا۔۔۔جب میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو، بستر کے پاس نجیبہ کھڑی تھی۔۔۔"کھانا کھا لو۔۔۔" نجیبہ باہر چلی گئیں۔۔۔میں بستر سے اٹھا اور ہاتھ منہ دھونے کے لیے باتھ روم میں چلا گیا۔۔۔جب واپس آیا تو دیکھا نجیبہ برآمدے میں چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔اسنے اپنے سامنے دو پلیٹیں رکھی ہوئی تھیں۔۔۔میں اسکے سامنے چارپائی پر بیٹھ گیا۔۔۔
جب میں نے پلیٹ میں کھانے کو دیکھا تو اندازہ ہو گیا تھا کہ، نجیبہ باہر ہوٹل سے ہی کھانا لے کر آئی تھیں۔۔۔"تم تو شام کو آنے والی تھیں۔۔۔پھر اتنی جلدی کیسے آ گئیں۔۔۔" میں نے کھانا کھانا شروع کر دیا۔۔۔
"ایسے ہی میرا من نہیں لگا شاپنگ میں۔۔۔"
میں:اچھا۔۔۔پر میں نے تو سنا ہے کہ، لڑکیوں کو شاپنگ کرنا بہت پسند ہوتا ہے۔۔۔پھر تمہارا من کیسے نہیں لگا شاپنگ میں۔۔۔
نجیبہ:اب نہیں لگا تو نہیں لگا۔۔۔اس میں ایسی بتانے والی بات نہیں ۔۔۔
میں نے دیکھا کہ نجیبہ کا موڈ تھوڑا آف تھا۔۔۔اس لیے میں چپ ہو گیا۔۔۔اور کھانا کھانے لگا۔۔۔نجیبہ نے بھی کوئی بات نہ کی۔۔۔ میں نے کھانا کھا کر اپنی پلیٹ اٹھا کر کچن میں چلا گیا۔۔۔وہاں جا کر میں نے سنک میں پلیٹ کو دھونا شروع کیا تھا کہ، نجیبہ کچن میں آ گئیں۔۔۔"پلیٹ یہاں دے دو میں دھو دیتی ہوں۔۔۔" نجیبہ نے اپنی پلیٹ شیلف پر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔مجھے اسکے اکھڑے ہوئے موڈ کا احساس تھا۔۔۔"مجھے اپنے کام خود کرنے کی عادت ہے۔۔۔میں اپنی عادت خراب نہیں کرنا چاہتا۔۔۔" میں نے پلیٹ کو دھو کر رکھا اور باہر آ گیا۔۔۔اور سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔
نجیبہ بھی پلیٹ دھو کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔ابھی کچھ ہی وقت گزرا ہوگا کہ، باہر ڈور بیل بجی۔۔۔اس سے پہلے کہ میں اٹھ کر باہر جاتا۔۔۔میں ابھی دروازے پر پہنچا ہی تھا کہ، میں نے دیکھا نجیبہ اپنے کمرے سے نکال کر گیٹ کی طرف جا رہی ہیں۔۔۔نجیبہ نے گیٹ کھولا تو سامنے ردا کھڑی تھیں۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے اندر آ گئیں۔۔۔ان دونوں میں کچھ بات ہوئی، لیکن وہ دونوں دور کھڑی تھیں۔۔۔عام طور پر دونوں باہر برآمدے میں بیٹھ کر کافی دیر تک باتیں کرتی رہتی تھیں۔۔۔لیکن آج نجیبہ نے گیٹ بند کیا اور سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئیں۔۔اور ردا میرے کمرے کی طرف آ گئیں۔۔۔"آج نجیبہ کو کیا ہوا۔۔۔؟" ردا نے اندر آ کر پوچھا۔۔۔"پتہ نہیں صبح اپنے ماما کے ساتھ شاپنگ پر گئی تھیں۔۔۔جب سے واپس آئی ہیں ایسے ہی موڈ آف کیے گھوم رہی ہیں۔۔۔تم جا کر ان سے پوچھو کہ آخر بات کیا ہے۔۔۔"
ردا:اچھا جاتی ہوں۔۔۔
ردا نجیبہ کے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔میں وہیں بیٹھا انتظار کر رہا تھا کہ، کب ردا باہر آئیں۔۔۔اور مجھے بتائیں کہ، آخر نجیبہ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔۔۔تقریباً آدھے گھنٹے بعد ردا کمرے میں آئیں۔۔۔اور میرے پاس آ کر بستر پر بیٹھ گئیں۔۔۔"کیا ہوا کچھ بتایا اس نے۔۔۔؟" میں نے ردا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔تو ردا نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔"کیا ہوا اسے۔۔۔۔۔"
ردا:عشق۔۔۔
میں: کیا کہا عشق۔۔۔کس سے۔۔۔
ردا: (مسکراتے ہوئے۔۔۔) تم سے اور کس سے۔۔۔
میں: تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔۔۔تم جانتی ہو نا۔۔۔ہمارا کیا رشتہ ہے۔۔۔اور تم یہ کیا فضول باتیں کر رہی ہو۔۔۔۔؟
ردا: اب جو سچ ہے وہ سچ ہی رہے گا۔۔۔آج جب وہ اپنے مامی اور مامے کے ساتھ شاپنگ پر گئی تھیں۔۔۔تو اسکی مامی کا بھتیجا بھی وہاں آیا ہوا تھا۔۔۔ اسکی مامی چاہتی ہیں کہ، نجیبہ اور اسکی بڑی بہن کے بیٹے کا رشتہ ہو جائے۔۔۔
میں: لیکن وہ ہوتے کون ہیں۔۔۔نجیبہ کے بارے میں اتنا بڑا فیصلہ لینے والے۔۔۔
ردا: ایسے فیصلے سب کی رضامندی کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔۔۔نجیبہ کی مامی نے نجیبہ کی امی نازیہ سے پہلے ہی بات کر رکھی تھی۔۔۔نجیبہ کی امی کے ہاں کے بعد ہی، اسکی مامی نے آگے قدم اٹھایا ہے۔۔۔
میں: لگتا ہے نجیبہ کی امی پاگل ہو گئی ہیں۔۔۔ابھی نجیبہ کی عمر بھی کیا ہے۔۔۔ابھی اسکول بھی پاس نہیں کیا اسنے۔۔۔اور اسے اپنی بیٹی بولی لگانے لگیں۔۔۔
ردا: بات بولی کے نہیں ہے سمیر۔۔۔دراصل نجیبہ کی مامی کی بہن کا بیٹا ہے، کچھ مہینے پہلے ہی پولیس میں نوکری لگی ہے۔۔۔اچھی پوسٹ پر بھی ہے۔۔۔اسکی عمر بھی 20 سال ہے۔۔۔خاندان بھی رئیس ہے۔۔۔اس لیے سگائی کے لیے راضی ہو گئی ہوں گی اسکی امی۔۔۔اب ایسے رشتے تو بار بار نہیں ملتے نا۔۔۔
میں نے دیکھا کہ، ردا مجھے ایسے سب سنا رہی تھیں۔۔۔جیسے مجھے بھڑکانا چاہتی ہوں۔۔۔"اچھا پھر وہ اتنی اداس کیوں ہیں۔۔۔اتنا اچھا رشتہ آیا ہے۔۔۔اسے سگائی کر لینی چاہیے۔۔۔"
ردا: کیوں تمہیں برا نہیں لگے گا۔۔۔اگر نجیبہ کی شادی اس سے ہو گئی تو۔۔۔
میں: کیوں مجھے کیوں برا لگنا۔۔۔
ردا: دفاع کرو ان باتوں کا۔۔۔میں یہاں تم سے ملنے آئی تھی۔۔۔اور تم دونوں نے مجھے کون سی باتوں میں الجھا کر رکھ دیا ہے۔۔۔
ردا نے میرے پیجامے کے اوپر سے میرے لن کو ہاتھ میں لے کر دبانا شروع کر دیا۔۔۔لیکن نجیبہ کے رشتے کی بات سن کر میرا موڈ اتنا اپسیٹ ہو گیا تھا کہ، میں نے ردا کا ہاتھ پکڑ کر ہٹا دیا۔۔۔"کیا ہوا۔۔۔۔؟" ردا نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔
میں: کچھ نہیں تم جاؤ یہاں سے۔۔۔
ردا: کمال ہے غصہکسی کا نکل رہے کسی پر۔۔۔اب اس میں میرا کیا قصور۔۔۔ رشتہ تو اسکی امی کرنا چاہتی ہیں وہاں پر۔۔۔
میں: میں نے اب اور کچھ نہیں سننا۔۔۔جاؤ یہاں سے۔۔۔
ردا: جا رہی ہوں۔۔۔اگر اتنا ہی شوق ہے تو، جا کر اسے چود کیوں نہیں دیتے۔۔۔ جب پیٹ سے ہو جائے گی تو، نازیہ آپی کو اسکی شادی تمہارے ساتھ ہی کرنی پڑے گی۔۔۔
ردا اٹھ کر باہر چلی گئیں۔۔۔ردا کی بات سن کر میرا خون کھول اٹھا۔۔۔میرے اندر مانو شیطان گھر کر چکا تھا۔۔۔میں تیزی سے باہر نکل کر ردا کے پیچھے جانے لگا۔۔۔ ابھی ردا گیٹ تک ہی پہنچی تھیں کہ، میں نے پیچھے سے ردا کے بالوں کو پکڑتے ہوئے اسے سائیڈ میں دیوار کے ساتھ لگا دیا۔۔۔ردا کی فرنٹ سائیڈ دیوار سے دب گئی۔۔۔"آہہہہہ سمیر یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔" اس سے پہلے کہ ردا کو کچھ سمجھ آتا۔ میں نے جھٹکا دے کر ردا کی ایلاسٹک والی شلوار کو نیچے کھینچ دیا۔۔۔"پاگل مت بنو سمیر اگر یہی سب کرنا ہے تو کمرے میں چلو۔۔۔" ردا نے مجھے الجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔
لیکن اب تک میں جھٹکے سے پیجامے کو نیچے سرکا چکا تھا۔۔۔میں نے اپنے لن کو ہاتھ میں لے کر دو تین بار ہی ردا کی بنڈ کی لائن میں رگڑا تھا کہ، میرا لن پوری سختی سے کھڑا ہو گیا۔۔۔میرے ساڑھے 8 انچ لمبا اور 3 انچ موٹا لن ہوا میں پوری شدت کے ساتھ جھٹکے کھانے لگا۔۔۔میں نے اپنے لن کے ٹوپی کو ردا کی بنڈ کی لائن میں رگڑتے ہوئے، تھوڑا سا گھٹنوں کو بینڈ کیا۔۔۔اور پھر اسکی ٹانگوں کے درمیان سے اپنے لن کو گزارتے ہوئے، اپنے لن کے ٹوپی کو ردا کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کر کے زور دار دھکا مارا۔۔۔میرا لن ردا کی پھدی کی دیواروں سے رگڑ کھاتا ہوا ایک ہی بار میں پورا کا پورا اندر جا گھسا۔۔۔
ردا کی پھدی یک دم خشک تھی۔ جیسے میرا لن ردا کی پھدی کو چیرتا ہوا اندر گھسا ردا درد سے ایک دم چیخ اٹھیں۔۔۔"****** مر گئی۔۔۔۔" لیکن میرے سر پر تو، وحشی جانور سوار ہو چکا تھا۔۔۔میں نے ردا کے بالوں کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر پیچھے کی طرف کھینچا اور دوسرے ہاتھ سے ردا کے بائیں ممے کو قمیض کے اوپر سے دباتے ہوئے دھکے لگانے شروع کر دیے۔۔۔ردا نے اپنے چہرے کو گھما کر میری طرف دیکھا تو، اسکی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔"**** کے لیے مجھ پر ترس کھاؤ۔۔۔آہہہہہ سمیر دھیرے۔۔۔اوہہہہ ہائے امی۔۔۔کڈ لے۔۔۔سمیر۔۔۔۔" ردا نے درد سے چلاتے ہوئے کہا۔۔۔
اسکی پھدی ایک دم خشک تھی۔۔۔جسکی وجہ سے اسے بہت درد ہو رہا تھا۔۔۔لیکن مجھ پر اسکی درد بھری آوازوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔۔۔میں اپنی ہی دھن میں لگاتار اپنے لن کو ردا کی چوت کے اندر باہر کر رہا تھا۔۔۔میں یہ بھی بھول گیا تھا کہ، دو قدم پر نجیبہ کا کمرہ بھی ہے۔۔۔تبھی میری نظر نجیبہ کے کمرے کے دروازے پر پڑی۔۔۔نجیبہ کمرے کے دروازے پر کھڑی حیرت بھری نظروں سے مجھے اس روپ میں دیکھ رہی تھیں۔۔۔ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔۔۔جب میں نجیبہ کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا، مجھے پتا نہیں کیا ہوا، میں نے اور زور سے نجیبہ کے بالوں کو پکڑ کر کھینچا تو اسکا سر پیچھے کی طرف ہو گیا۔۔۔میں نے لن کو پوری رفتار سے ردا کی پھدی میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔
ردا کی نظر بھی نجیبہ پر پڑ گئی۔۔۔لیکن وہ بے بسی سے بھری ہوئی آنکھوں سے نجیبہ کو دیکھتی رہی۔۔۔پر پھر بھی کچھ نہ بولی۔۔۔آخر کار جب میرے وحشی پن کی انتہا ہو گئی تو۔۔۔نجیبہ آگے بڑھ کر مجھے دھکا دے دیا۔۔۔میں پیچھے کی دیوار سے جا ٹکرایا۔۔۔"ہوش میں آؤ۔۔۔یہ کیا وحشی پن ہے۔۔۔" میرا لن ردا کی پھدی سے باہر آ چکا تھا۔۔۔جو اب نجیبہ کی آنکھوں کے سامنے لہرا رہا تھا۔۔۔جیسے ہی اس کی نظریں میرے لمبے موٹے عضو پر پڑیں تو، اس نے نظریں جھکا لیں۔۔۔میں نے ردا کی طرف دیکھا، جو وہیں دیوار کے ساتھ پیٹھ ٹکائے کبھی میری طرف تو کبھی نجیبہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔"اور تم کیو بیٹھی ہو۔۔۔" نجیبہ نے گرجیلی آواز میں ردا سے کہا۔۔۔تو ردا فوراً وہاں سے کھڑی ہو گئی۔۔۔اس نے اپنی شلوار کو درست کیا۔۔۔"اب دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔اور آئندہ ۔۔۔یہاں کبھی بھی نہیں آنا۔۔۔نہیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔" نجیبہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔
ردا نے ایک بار میرے طرف حیرت بھری نظروں سے دیکھا اور گیٹ کھول کر باہر جانے لگی تو، میں نے بھی جلدی سے اپنے پاجامے کو اوپر کر لیا۔۔۔ردا کے جانے کے بعد میں نے گیٹ بند کیا۔۔۔تو میرا غصہ تھوڑا کم ہوا۔۔۔لیکن اب مجھے غصہ ردا پر نہیں نجیبہ پر آ رہا تھا۔۔۔میں اپنے کمرے میں آ گیا۔۔۔اس کے بعد اور کوئی خاص بات نہ ہوئی، رات کو سات بجے میری سوتیلی ماں اور ابّو ادھر واپس آ گئے ۔۔۔اس دن میرا موڈ بہت خراب رہا۔۔۔میں کھانا کھائے بغیر سو گیا۔۔۔اگلی صبح میں اٹھا اور تیار ہو کر کالج کے لیے چلا گیا۔۔۔صبح بھی ناشتہ نہیں کیا۔۔۔پورا دن موڈ خراب رہا۔۔۔
کالج سے آف کے بعد میرے گھر جانے کا بھی موڈ نہیں تھا۔۔۔میں کالج کے گیٹ کے باہر کھڑا سوچ رہا تھا کہ، گھر جاؤں یا نہ جاؤں۔۔۔تبھی پیچھے سے ہارن کی آواز سنائی دی۔۔۔فیاض اپنی بائیک لے کر میرے پاس آیا۔۔۔"کیا ہوا یہاں ایسے کیوں کھڑا ہے۔۔۔چل بیٹھ۔۔۔"
میں: نہیں یار تم جاؤ۔۔۔میں بعد میں آؤں گا۔۔۔
فیاض: ہوا کیا میرے سرکار۔۔۔تمہارا موڈ آف لگ رہا ہے۔۔۔
میں: یار ایسے ہی۔۔۔کل نجیبہ کے ساتھ جھگڑا ہو گیا۔۔۔میرا دل نہیں کر رہا گھر جانے کا۔۔۔
فیاض: اوہ اور کہاں جانا ہے تم۔۔۔چل بیٹھ گاؤں چلتے ہیں۔۔۔میرے گھر چل۔۔۔
اور کہیں جا بھی تو نہیں سکتا تھا۔۔۔اس لیے فیاض کی بائیک پیچھے بیٹھ گیا۔۔۔اور ہم گاؤں کی طرف چل پڑے۔۔۔"دیکھ یار ایسی چھوٹی موٹی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں گھر خاندان میں۔۔۔پھر اس طرح اپنا موڈ کیوں خراب کر رہے ہو۔۔۔"
میں: یار توں نہیں سمجھے گا۔۔۔
فیاض: دیکھ تیرا دوست ہوں۔۔۔اسلیے تجھے سمجھا رہا ہوں۔۔۔تمہاری سوتیلی ماں اور بہن تو یہی چاہیں گی نہ کہ، تم ایسے ہی ناراض ہو کر کہیں دور چلے جاؤ۔۔۔اور بعد میں تمہارے حصے کی جائیداد بھی سنبھال لیں۔۔۔دیکھ اس گھر پر سب سے زیادہ تیرا حق ہے۔۔۔وہ تیرا ہے۔۔۔پھر کیوں ایسے باہر گھومنا۔۔۔
میں: ہاں شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔
ایسے ہی باتیں کرتے کرتے ہم گاؤں پہنچ گئے۔۔۔فیاض نے بائیک کو میرے گھر کے سامنے روک دیا۔۔۔"لے یار تیرا گھر آ گیا۔۔۔اب مرد بن اور حالات کا سامنا کرنا سیکھ۔۔۔" فیاض بائیک لے کر چلا گیا۔۔۔میں نے ڈور بیل بجائی تو تھوڑی دیر بعد نجیبہ نے گیٹ کھولا۔۔۔وہ مجھ سے کچھ کہنے ہی والی تھی کہ، میں اسے ایگنور کرتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔میں نے کپڑے بدلے اور باتھ روم میں جا کر ہاتھ منہ دھو کر اپنے کمرے میں آ گیا۔۔۔
میں نے ٹی وی آن کیا اور بستر پر بیٹھا ہی تھا کہ نجیبہ اندر آ گئیں۔۔۔"آپ کے لیے کھانا لگا دوں۔۔۔"
میں: مجھے اپنے کام خود کرنے کا عادی ہو ۔۔۔مجھے تمہاری مدد کی کوئی ضرورت نہیں جاؤ یہاں سے۔۔۔
نجیبہ: تھوڑا سا کھا لیں۔۔۔آپ نے کل رات بھی کچھ نہیں کھایا۔۔۔اور صبح بھی کچھ کھا کر نہیں گئے۔۔۔
میں: تو تمہیں کیوں اتنی فکر ہو رہی ہے میرے کھانے کی، تم جاؤ یہاں سے۔۔۔مجھے کوئی کھانا وانا نہیں کھانا۔۔۔
نجیبہ: میں دیکھتی ہوں کیسے نہیں کھاتے آپ۔۔۔میں لے کر آتی ہوں۔۔۔
میں: تمہیں میری بات سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔تمہیں میری پرواہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔
نجیبہ: مجھے ضرورت نہ ہوگی تو اور کسے ہوگی۔۔۔
میں: دیکھو میں تمہارے منہ نہیں لگنا چاہتا۔۔۔اس سے پہلے کہ میں کچھ غلط بول دوں جاؤ یہاں سے۔۔۔
نجیبہ: نہیں جاتی اور میں بھی دیکھتی ہوں آپ کھانا کیسے نہیں کھاتے۔۔۔
نجیبہ کمرے سے باہر نکل کر کچن میں چلی گئیں۔۔۔مجھے اب نجیبہ پر بہت غصہ آ رہا تھا۔۔۔مجھے پتہ نہیں کیا ہوا، میں اٹھ کر کچن میں چلا گیا۔۔۔ نجیبہ پلیٹ میں کھانا ڈال رہی تھیں۔۔۔میں نے اس کے ہاتھ سے پلیٹ ہٹا کر شیلف پر پھینک دی۔۔۔"تمہیں ایک بار میں میری بات سمجھ نہیں آتی کیا۔۔۔میرا تم لوگوں کے ساتھ نہ کوئی رشتہ تھا۔۔۔اور نہ کوئی ہو سکتا ہے۔۔۔خواہ مخواہ رشتہ بنانے کی کوشش نہ کرو۔۔۔"
نجیبہ: معاف کر دوں۔۔۔صبح امی ابو دونوں مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کھانا کیوں نہیں کھا کر گئے۔۔۔میں انہیں کیا جواب دیتی۔۔۔آپ کا خیال رکھنا میری ذمہ داری ہے۔۔۔
میں: میری بیوی نہیں ہو تم۔۔۔جو میں تمہاری ہر بات مانتا رہوں۔۔۔