رنگیلا سسر

0

 


رانی ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی ہے  اس کی ابھی  ہی شادی ہوئی ہے، یعنی کہ تقریباً 6 ماہ پہلے اور اس کا شوہر 2 مہینے بعد اپنی نوکری پر واپس جے پور چلا گیا اور گھر میں صرف اس کی بیوی اور پاپا رہ گئے، ممی تقریباً 6 سال پہلے انتقال کر گئی تھیں، سسر کی عمر تقریباً 46 سال ہو گی اور وہ ابھی بھی صحت میں اپنے لڑکے سے بھاری ہی پڑتے ہیں، پرانے ٹائپ کا کسرت والا بدن ہے ان کا اور ابھی بھی روز تیل مالش کرتے ہیں۔ اور رانی کا فگر زبردست ہے، اس کے بدن کو دیکھ کر تو مجھے بھی جلن ہونے لگتی ہے، کیا خوبصورت بدن، گورا بدن، گلابی ہونٹ، ابھار دار، ٹھوس، بھری بھری چھاتیاں اور سب سے اچھے اس کے چوتڑ تھے... ٹائٹ اور ابھار دار۔ بیٹے کے جانے کے کچھ دن بعد سے رانی نے گھر کا سامان لانا شروع کر دیا تھا، پتا جی کو ان کا بیٹا کوئی کام نہیں کرنے دیتا تھا اور ویسے بھی ان کی پرانی پراپرٹی ہی بہت تھی، کافی کرایہ آ جاتا تھا جس سے گھر کا خرچ بہت آرام سے چل جایا کرتا تھا۔

ایسے ہی ایک دن جب رانی بازار گئی اور واپس آئی، تب اس نے ایک لڑکے کو گھر کے باہر نکلتے ہوئے دیکھا اور جب گھر میں آئی تو بابو جی دھوتی اور بنیان میں تھے، رانی کچھ سمجھ نہیں پائی اور پھر تو اکثر ہی ایسا ہونے لگا۔ رانی جب بھی باہر سے آتی تو اسے کبھی کوئی، کبھی کوئی لڑکا باہر جاتا ہوا دکھ جاتا یا گھر میں ہی مل جاتا، جس کے بارے میں پوچھنے پر سسر جی کچھ نہ کچھ بتا دیتے تھے کہ کچھ منگوانا تھا اس لیے بلایا تھا، ایسے ہی ایک دن کی بات ہے، رانی سبزی وغیرہ لے کر جب آئی تو اس نے دروازہ بند دیکھا، اس کو تھوڑا شک ہوا تو وہ پیچھے کی طرف سے گئی اور اندر کچھ عجیب سی آواز آ رہی تھی۔ آواز سن کر رانی اور متجسس ہو گئی، یہ جاننے کو کہ آخر اندر ایسا ہو کیا رہا ہے؟

کچھ دیر کوشش کرنے کے بعد آخر اسے دروازے میں ایک جھری نظر آ ہی گئی اور ایسی جگہ بھی جہاں اسے کوئی باہر سے دیکھ نہیں سکتا تھا، اس نے جب آنکھ لگا کر اندر کا نظارہ دیکھا تو اس کا من غصے سے بھر گیا۔ اندر اس کے سسر جی پوری طرح سے ننگے تھے اور ایک چکنا سا تقریباً 15 سال کا لڑکا صرف نکر میں تھا جس کا لُنڈ اس کے سسر جی اپنے ہاتھ سے پکڑ کر سہلا رہے تھے اور سسر جی کا لُنڈ لٹکا ہوا تھا جسے وہ لڑکا اپنے ہاتھ سے ادھر ادھر جھٹکے دے رہا تھا، یہ سب دیکھ کر رانی کو بہت غصہ آیا، وہ غصے سے بڑبڑاتی ہوئی مین دروازے کی طرف بڑھنے لگی، تب ہی اس کے دماغ کی بتی جلی، وہ اس چیز کو دوسرے پہلو سے سوچنے لگی کیوں کہ اس کی ساس تو تقریباً 6 سال پہلے ختم ہو چکی تھی اور سسر جی ابھی ایسے بڈھے بھی نہیں ہوئے تھے، آخر جسم کی بھی کوئی ڈیمانڈ ہوتی ہے تو وہ بیچارے بھی کیا کریں، یہی سوچ کر وہ وہیں باہر بیٹھ گئی کیوں کہ اندر تو واسنا کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد رانی نے سوچا کہ کیوں نہ یہاں بیٹھنے سے اچھا اندر کا نظارہ دیکھ کر کچھ مزہ لیا جائے؟

وہ پھر سے اس طرف آئی اور اندر دیکھنے لگی، اندر بابو جی اس لڑکے کو بول رہے تھے، ریشو بیٹا کل ہی تم کو 50 روپے دیے تھے اور آج تو نے پھر سے 50 کی مار دی، یہ تو اچھی بات نہیں ہے نا، اس طرح کیسے کام چلے گا؟ تو وہ لڑکا جس کا نام ریشو تھا، وہ بولا انکل کل تو آپ نے میری مار... مار کر سوجا ہی دی تھی، رات بھر بہت درد ہوا تھا اور آج بھی کوئی کسر نہیں چھوڑنے والے لگ رہے ہیں، پر میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ 4 دن بعد میں آپ کو ایک بہت اچھا مال دلاؤں گا، ابھی بالکل کورا ہے، کسی نے چھوا بھی نہیں۔ ان دونوں کی باتیں سن کر رانی کو ایسا لگ رہا تھا کہ کل یہ حرامی محلے کی کسی لڑکی کو پتا کر لائے گا اور میرے گھر میں اس کی چوت کا باجا بجوائے گا، پر ریشو نے جب رمیش کا نام لیا تو میں چکرا گئی، میں سوچنے لگی کہ پتا جی کس حد تک گر گئے ہیں کہ کوئی عورت یا لڑکی نہیں مل رہی تو بیچارے کو لڑکوں کے ساتھ تعلق بنانے پڑ رہے ہیں۔

اور پھر میں نے دیکھا کہ نئے لڑکے کے بارے میں سن کر پتا جی چہک گئے تھے اور اس لڑکے کا لُنڈ زور سے دبا دیا انہوں نے، جس پر وہ چیخ پڑا آآآہ، انکل، آہستہ... آہستہ دبائیے، آپ تو بہت بے رحم بن جاتے ہیں، پلیز، آج آپ میری گانڈ مت ماریے کیوں کہ ابھی کل کا ہی درد ہے، میں تو آپ کو رمیش کے بارے میں بتانے کے لیے آیا تھا، تو پتا جی بولے بیٹا گانڈ تو میں ماروں گا تیری، پر ہاں تجھے تکلیف ہے تو ذرا آرام... آرام سے مار لوں گا، کیوں کہ تو بہت کام کا بچہ ہے اور یہ کہہ کر اس کے نازک سے ہونٹوں کو چومنے لگے، وہ لڑکا بھی پتا جی کے چومنے کا جواب زوردار طریقے سے دینے لگا اور تھوڑی ہی دیر بعد میں نے دیکھا کہ پتا جی کا لُنڈ تن کر تقریباً 7 انچ کا ہو چکا تھا، پھر سسر جی بولے، چلو بیٹا آئس کریم چوسنے کا ٹائم ہو گیا ہے، جلدی سے منہ میں لو۔

اور وہ لڑکا بابو جی کا لُنڈ کچھ دیر ہاتھ سے مسلنے کے بعد اپنے منہ میں ڈال کر چوسنے لگا، وہ بالکل کسی آئس کریم کی طرح ہی لُنڈ کو چوس رہا تھا اور یہ سب دیکھ کر میری حالت بھی خراب ہوتی جا رہی تھی کیوں کہ ابھی میری جم کر چودائی بھی نہیں ہو پائی تھی اور میرے پتی باہر چلے گئے تھے، میری چوت تقریباً 2 مہینے سے پیاسی تھی، جس سے اس میں بھی خارش ہونے لگی۔

رانی نے باہر سے اپنے سسر کو لڑکے کے ساتھ ننگی حالت میں دیکھا تو سسر جی اس لڑکے کا لُنڈ ہاتھ میں لیے تھے اور وہ لڑکا جس کا نام ریشو تھا، وہ بھی سسر کا لُنڈ ہاتھ میں لے کر سہلا رہا تھا، کچھ دیر سہلانے کے بعد سسر جی نے اس سے کہا، چلو بیٹا اب آئس کریم چوسنے کا وقت آ گیا ہے اور وہ لڑکا ان کے لُنڈ کو چوسنے لگا، جس سے ان کا لُنڈ پوری طرح سے تن کر کھڑا ہو گیا۔

یہ سب دیکھ دیکھ کر میری بھی پینٹی گیلی ہوئی جا رہی تھی، کیوں کہ میں بھی تقریباً 2 مہینے سے چودی نہیں تھی، میں نے اپنا ہاتھ شلوار کے اوپر سے ہی اپنی چوت پر رکھ لیا اور سہلانے لگی، اندر کا ماحول گرم ہوتا جا رہا تھا، بابو جی کا لُنڈ تو ان کے بیٹے سے بھی لمبا اور موٹا نظر آ رہا تھا مجھے اور کچھ دیر بعد جب ان کا لُنڈ پوری طرح سے تیار ہو گیا تو وہ ریشو سے بولے، چلو بیٹا اب جھک جاؤ، ان کی بات سن کر میرے کان کھڑے ہو گئے، میں سوچ رہی تھی کہ یہ اپنا لُنڈ اس کے ہاتھ سے جھڑوا کر مطمئن ہو جائیں گے، پر بڈھا تو بہت بڑا تھرکی نکلا، یہ تو لڑکے کی گانڈ مارنے کے چکر میں تھا۔

 

لڑکا ڈرتے ڈرتے بولا انکل آرام...آرام سے ماریے گا، کل آپ نے بہت زوردار پیلائی کی تھی، ابھی تک درد ہے، اگر آپ نے ذرا بھی حرامی پنا دکھایا تو میں رمیش کو نہیں لاؤں گا، سسر جی بولے ہاں ہاں بیٹا تو چنت مت کر، میں بہت آرام سے کروں گا، آج مجھے پتا ہے تجھے تکلیف ہے، اوکے اور وہ لڑکا دیوار کی طرف کو منہ کر کے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر گھوڑے کی طرح ہو گیا، بابو جی پیچھے سے اس کے گورے گورے چوتڑوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے رگڑ کر مسل رہے تھے اور پھر انہوں نے اپنا منہ اس کی گانڈ سے چپکا دیا۔ اس سین کو دیکھ کر میری چوت پرپاڑانے لگی، میرا دل یہی کر رہا تھا کہ ساری لاج شرم کو طاق پر رکھ کر بابو جی کے سامنے چلی جاؤں اور اپنی چوت کو ان کے آگے پسار دوں اور ان کے موٹے لُنڈ سے خوب جم کر چدوائوں، پر ہائے رے بھارتیہ ناری، شرم کی ماری، میری پینٹی پوری طرح بھیگ چکی تھی اور اب میری انگلی شلوار کے اوپر سے ہی چوت کے سوراخ کو کرید رہی تھی۔ میں نے پھر سے آنکھ گاڑ کر دیکھا تو اب بابو جی اپنے تنے ہوئے لُنڈ کو لڑکے کی گانڈ پر رکھ کر اندر ڈالنے کی تیاری میں تھے۔

وہ اپنے لُنڈ کو اس کی گانڈ پر کچھ دیر سہلاتے رہے، پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ سے اس کی گانڈ پوری طرح سے کھول کر پھیلا دی اور اپنا لُنڈ کی ٹوپی اس کی گانڈ کے اندر انہوں نے جیسے ہی گھُسائی، لڑکے کے منہ سے ہچکی نکل پڑی، وہ کھڑبڑا سا گیا، پر اچانک بابو جی نے پھر سے ایک دھکا مارا اور اب کی بار تو لڑکا آآآآآآآآہ آآآآآآآہ ہااااااااائے آآآآآآآہ مار ڈالا اوووف انکل پلیزززززز آہستہ...آہستہ کیجیے آآآآہ آآآہ پلیزززززز انکل، پر مجال جو بڈھا مان جائے، وہ تو گانڈ پھاڑنے پر پوری طرح سے آمادہ تھا، اس نے گھما گھما کر 4...6 دھکے اور مارے اور اپنا پورا لاؤڈا لڑکے کی گانڈ میں گھُسا کر اس پر ڈھہ گیا اور اپنے ہاتھ آگے لے جا کر اس کے سینے پر پھیرنے لگا، اب لڑکے کو کچھ راحت مل رہی تھی۔

جب چودو سسر نے دیکھا کہ اب لڑکے کو درد نہیں ہو رہا تو انہوں نے اپنی رفتار بڑھا دی، اب تک لڑکے کو بھی مزہ آنے لگا تھا، وہ بھی اپنے چوتڑوں کو آگے پیچھے کر رہا تھا اور اب اس کے منہ سے درد کی جگہ مزے دار سسکیاں نکل رہی تھیں آآآآہ آآآہ انکل مزہ آ رہا ہے اور زور سے پیلیے آآآآہ آآآہ اووووف کتنا مزہ آتا ہے آپ سے گانڈ مروانے میں آئیئیئیئی آآآآآآآآہ آآ یے سب دیکھ کر میری پینٹی پوری طرح سے گیلی ہو چکی تھی اور اب میں اپنا ہاتھ شلوار کے اندر گھسیڑ کر اپنی چوت میں انگلی کرنے لگی تھی۔

تب ہی اندر سے اور زوردار آوازیں آنے لگیں کیوں کہ اب بڈھا جھڑنے والا تھا، اس نے لڑکے کی گانڈ کا بند بجا دیا تھا، وہ اپنے لُنڈ کو پوری طرح باہر نکال کر پھر سے اندر ڈال دیتا تھا۔ اور کچھ دیر بعد وہ اپنے لُنڈ کے سارے رس کو اس کی گانڈ میں انڈیل کر اس پر ڈھہ گئے، پر جیسے ہی وہ ہٹے، لڑکے نے پلٹ کر جھٹ سے ان کا لاؤڈا اپنے منہ میں ڈال لیا اور چوسنے لگا، اس پر ابھی بھی ڈھیر سارا چکنا چکنا گاڑھا... گاڑھا رس لگا ہوا تھا جسے وہ بہت مزے لے کر چوس رہا تھا، جب اس نے ان کا لاؤڈا پوری طرح صاف کر دیا، تب بابو جی اپنے کپڑے فٹ... فٹ پہنتے ہوئے بولے، اب جلدی سے اپنے کپڑے پہنو اور نکل پڑو ورنہ ابھی بہو آتی ہی ہوگی۔ یہ سب دیکھ کر میری حالت خراب ہو چکی تھی۔

 

اس دن رانی نے من ہی من سوچ لیا کہ سسر کو کسی دن رنگے ہاتھوں پکڑ کر ان سے اپنی چوت کی خارش مٹوا لوں گی اور اب تو اکثر ہی میں اپنے سسر کو اپنے جسم کے درشن کراتی رہتی تھی، جب وہ کمرے میں اخبار پڑھ رہے ہوتے، تب میں روم میں پونچھا لے کر پہنچ جاتی اور اس طرح جھک کر پونچھا لگاتی کہ ان کو میری دودھ فیکٹری پوری طرح سے نظر آ جائے اور اب میں اکثر ہی ہلکے کلر کی ساڑیاں پہنا کرتی تھی، جب میں پونچھا لگاتی تھی تب بابو جی چور نگاہوں سے مجھے گھورا کرتے تھے۔

اور ایک دن میری مراد پوری ہو گئی، میں سودا لینے مارکیٹ گئی ہوئی تھی اور بہت ہی جلدی واپس بھی چلی آئی، اس دن جب میں لوٹ کر آئی تو گھر کا دروازہ بند تھا، جسے دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ آج میرا رنگیلا سسر پھر ریشو کی گانڈ مار رہا ہوگا، مگر جب میں پلٹ کر پیچھے کی طرف گئی اور جھانک کر اندر کا نظارہ دیکھا تو میری چوت میں بری طرح سے سنسنی ہو گئی، اندر بابو جی پوری طرح سے ننگے، بیڈ پر بیٹھے تھے اور ان کے بغل میں ریشو کے ساتھ ایک لڑکا جس کی عمر تقریباً 14 سال کی ہوگی، تینوں ننگے تھے اور وہ دونوں لڑکے بابو جی کا لُنڈ سہلا رہے تھے اور بابو جی کا لُنڈ لمبا ہو کر 7 انچ کا ہو کر سلامی دے رہا تھا، تب بابو جی نے رمیش جو کہ نیا والا لڑکا تھا اس سے کہا، بیٹا لو، اب اسے چوس کر مزہ لو۔

اور رمیش نے گپ سے ان کا لُنڈ منہ میں لے لیا اور چوسنے لگا، اس کے پیچھے ریشو اس کے چوتڑ کی طرف بیٹھ کر اس کے گلابی چوتڑ کو سہلا رہا تھا، بابو جی اپنا لُنڈ رمیش کے منہ میں ڈالے ہوئے تھے اور ریشو رمیش کے چوتڑ سہلاتے ہوئے اپنے ہونٹ اس کے چوتڑ پر لے جا کر دانت سے کاٹنے لگا، جس سے رمیش چیخ پڑا اور پیچھے دیکھنے لگا، بولا، ریشو کیا کر رہے ہو، پلیز، کاٹو مت، چوما لو خالی، اور رمیش اپنا منہ پھر سے بابو جی کی لُنڈ کو لے کر آگے پیچھے کرنے لگا اور بابو جی اب بہت جوش میں آ چکے تھے، ادھر میری بھی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی، میں بھی اپنی چھاتیوں کو کپڑوں کے اوپر سے ہی مسلنے لگی تھی اور چوت میں بھی خارش ہونے لگی تھی، جی کر رہا تھا کہ بس دروازہ توڑ کر فوراً ہی بابو جی کا موٹا ڈنڈے جیسا لُنڈ اپنی چوت میں دھنسا لوں۔ اب بابو جی ریشو سے بولے، بیٹا اس سے پہلے کہ میں جھڑ جاؤں، میں اپنا پانی اس کی گانڈ میں گرانا چاہتا ہوں، تو ریشو بولا، بابو جی میں نے اس کی گانڈ کو پوری طرح سے تیار کر دیا ہے، آپ اب آرام سے اس کی گانڈ مار سکتے ہیں، بابو جی بولے، چلو تو آسان لگاؤ۔

اور پھر ریشو بیڈ کے سرہانے پر جو اوپری حصہ ہوتا ہے، اس پر بیٹھ گیا اور رمیش سے بولا، چلو بیٹا اب تم میرے لُنڈ کو منہ میں لے کر گھوڑے کی طرح کھڑے ہو جاؤ اپنے چوتڑ پیچھے کی طرف کرکے اور رمیش نے اس کے لاؤڑے، جس کی لمبائی ابھی زیادہ نہیں تھی، پھر بھی 5 انچ کا تو تھا ہی، اس کو اپنے منہ میں ڈال لیا اور اپنے چوتڑ پیچھے کی طرف ابھار کر چوپایہ بن کر کھڑا ہو گیا، اس کے پیچھے بابو جی جب اپنے ڈنڈے جیسے لُنڈ کو لے کر آئے تو میری سانس دھک دھک ہونے لگی، میری حالت خراب ہوتی چلی جا رہی تھی اور مجھے بیچارے رمیش پر ترس بھی آ رہا تھا، جس کی کومل سی گانڈ میں بابو جی اپنا حلبّی سا لاؤڈا گھُسنے جا رہے تھے، وہ اپنے لاؤڑے کو اس کی گانڈ کے دہانے پر رکھ کر گھِسنے لگے اور آگے سے ریشو رمیش کے منہ میں لاؤڈا گھُسائے پڑا تھا۔

کچھ دیر تک رمیش کے چوتڑ پر اپنا لاؤڈا گھِسنے کے بعد اس کے چوتڑ کو بابو جی نے دونوں ہاتھوں سے پھیلایا اور اس کی گانڈ پر تھوڑا سا تھوک لگایا اور اپنے ہاتھ سے تھوک لے کر اپنے لاؤڑے پر رگڑنے لگے اور تھوک لگانے کے بعد اپنے لاؤڈ کو ہاتھ سے پکڑ کر اس کی گانڈ میں گھُسانے لگے اور ریشو کو انہوں نے آنکھ مار کر اشارہ بھی کر دیا تھا، جس کا مطلب تھا کہ اب وہ لُنڈ گھُسانے جا رہے ہیں اور انہوں نے جیسے ہی اپنی ٹوپی اس کے چوتڑ کو پھیلا کر اس کے اندر گھُسائی کہ رمیش چیخ پڑا آآآآآآہ، مر گیا، انکل پلیزززززز بہت درد ہو رہا ہے، نیکاااااال لیجیے اپنے لاؤن کو، آئیئیییی، آآآآآآہ، ممی مر گیا، تو بابو جی بولے، بھوسڑی والے، ابھی تو کچھ ہوا ہی نہیں، زبردستی کا ڈراما کر رہا ہے، ابے، ابھی تو صرف ٹوپی ہی گھُسائی ہے اندر، ابھی سے اتنا چلا رہا ہے۔

رمیش بولا، نہیں انکل سچ میں کہہ رہا ہوں، بہت درد ہو رہا ہے، تب ہی بابو جی نے رمیش کو ریشو کو اشارہ کیا اور ریشو اپنا لاؤڈا رمیش کے منہ سے نکال کر رمیش کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں رکھ کر چوسنے لگا اور تب ہی بابو جی نے ایک زوردار دھکا مارا اور گھچ کی آواز آئی، رمیش نے اپنے ہونٹ چھڑانے کی بہت کوشش کی، مگر ریشو پورا گھاگ تھا، اس نے اس کے ہونٹ چھوڑے ہی نہیں، ادھر بابو جی کا طوفانی دھکا دیکھ کر میں بھی ہل گئی تھی، ان کا پورا لُنڈ رمیش کی گانڈ میں گھُس چکا تھا اور اس میں سے خون ٹپک رہا تھا اور وہ بری طرح تڑپ رہا تھا، کچھ دیر ایسے ہی پڑے رہنے کے بعد بابو جی دھکے لگانے لگے، کچھ دیر بعد رمیش کو کچھ راحت ملنے لگی اور اب وہ بھی اپنے چوتڑ کو آگے پیچھے کرنے لگا۔

اب مجھ سے بھی برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا اور مجھے یہ موقع بھی بہت اچھا لگا، میں نے فوراً کھڑکی کا پردہ ایک طرف کھسکایا اور زور سے بولی، بابو جِیییییی، کیا ہو رہا ہے یہ سب؟ اچانک ہی تینوں کی نظر میری طرف اٹھی تو تینوں ہی ہڑبڑا گئے، جس میں سب سے زیادہ بابو جی کی حالت خراب ہو رہی تھی، میں نے کہا، دروازہ کھولیے، ابھی بتاتی ہوں ان لوگوں کو اور میں ادھر سے ہٹ گئی، کچھ ہی دیر میں بابو جی نے دروازہ کھول دیا، دونوں لڑکے کپڑے اٹھا کر تیزی سے بھاگ گئے اور رہ گئے بابو جی، انہوں نے ابھی بھی صرف اپنا انڈرویئر ہی پہنا ہوا تھا۔

میں بہت غصے میں تھی، میں نے کہا، یہ سب کیا ہو رہا تھا، بابو جی، آپ کو شرم نہیں آتی یہ سب کرتے ہوئے؟ بابو جی نظریں جھکائے ہوئے کھڑے تھے، میں نے پھر سے کہا تو وہ بولے، بہو، اب تجھے کیا بتاؤں، تیری ساس تو ہے نہیں اور ابھی میں اتنا بڈھا بھی نہیں ہوا ہوں، تو اب تو ہی بتا میں کیا کروں؟ تو میں بولی، آپ باہر بھی کسی کے پاس جا سکتے تھے، میرا مطلب کہ کسی عورت کے ساتھ یہ سب کرنا اچھا لگتا ہے، پر آدمی... آدمی کے ساتھ، چھی... چھی، کتنی گندی بات ہے، اگر آپ کے بیٹے کو پتا چل جائے تو کیا ہو گا۔

اب تو بابو جی کی گھِگی ہی بندھ گئی، وہ مجھ سے بولے، بہو، میں تیرے ہاتھ جوڑتا ہوں، پلیزززززز راج کو کچھ نہ بتانا، اب بھلا مجھے عورت کہاں ملے گی؟ تو میں بولی، کم سے کم مجھ سے ہی کہا ہوتا، آخر میں آپ کی بہو ہوں، میں ہی آپ کا خیال نہیں رکھوں گی تو بھلا کون رکھے گا۔

ہاں تو جب میں نے سسر سے یہ بات کہی کہ کم سے کم آپ کو مجھ سے تو بتانا ہی چاہیے تھا کہ آپ میں ابھی بھی اتنی جوانی ہے اور لاؤڈا اتنا بے قابو ہو جاتا ہے کہ آپ کو کسی لڑکے کی گانڈ مارنی پڑے، تو میں آپ کے لیے کوئی نہ کوئی جگاڑ تو کر ہی دیتی، اب آپ کی بہو ہوں تو کیا اتنا بھی فرض نہیں بنتا میرا؟

میرے منہ سے ایسی کھلے عام باتیں سن کر سسر جی کا منہ ہی کھلا رہ گیا، تو میں ان سے بولی، بابو جی، اگر آپ برا نہ مانیں تو میں ایک راستہ بتاتی ہوں، آپ کو، وہ بولے، بولو بیٹی۔

تو میں نے کہا، آپ مجھے بھی تو چود سکتے ہیں؟ بابو جی گھبرا کے بولے، نہیں بہو، ایسا کیسے ہو سکتا ہے، بھلا تو میری بہو ہے اور بہو بیٹی کی طرح ہوتی ہے، میں بھلا تمہارے ساتھ کیسے تعلق بنا سکتا ہوں؟ میں نے ان کی نکر کے اوپر سے ان کے لاؤڑے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، بابو جی، دیکھیے، پیاسے آپ بھی ہیں اور میں بھی، تو کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے؟ وہ بولے، نہیں بیٹی، یہ ٹھیک نہیں، تو میں نے کہا، اچھا اور آپ جو بیچارے معصوم لڑکوں کی گانڈ مار رہے ہیں، وہ ٹھیک ہے؟

میرے ہاتھ کی سہلاہٹ سے ان کے لُنڈ میں تناؤ آنے لگا تھا اور وہ بھی اب نارمل ہوتے جا رہے تھے، بولے، اگر کسی کو پتا چل گیا تو بہت بدنامی ہو جائے گی بیٹی، میں نے کہا، اب بابو جی چھوڑیے بھی بدنامی کا ڈر، وہ تو اگر میں آپ کے بیٹے سے بتا دوں، تو ویسے بھی ہونی ہے، میری بات سن کر بابو جی بولے، ٹھیک ہے بیٹی، جیسے تمہاری مرضی، اور میں نے ان کا لاؤڈا مٹھی میں دبایا اور بیڈ روم کی طرف بڑھ گئی، میں آگے اور وہ میرے پیچھے، میں نے ان کے لاؤڈے کو پکڑے پکڑے ہی بیڈ پر دھکیل دیا ان کو اور جھٹ سے اپنی ساڑی کھول کر، برا اور پینٹی میں رہ گئی، وہ میرا ایسا روپ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔

اور انہوں نے بھی جھٹ سے اپنا انڈرویئر اتار دیا، ان کا لاؤڈا پہلے ہی تنا ہوا تھا، میں اس کو ہاتھ میں لے کر سہلانے لگی اور بابو جی میری چھاتیوں دبا کر مجھے گرم کر رہے تھے، تب ہی انہوں نے میری چھاتی اپنے منہ میں بھر لی اور چوسنے لگے، دوسری چھاتی کے نپل کو اپنی انگلی سے مسل رہے تھے، میں بھی مستائی جا رہی تھی، میں نے ان کے منہ سے اپنی چھاتی چھڑا کر کہا، بابو جی، میں آپ کا لاؤڈا چوسنا چاہتی ہوں، وہ بولے، بیٹا تیرا جو جی میں آئے وہ کر، اس کے بعد جو میرا من کرے گا، میں کروں گا، اوکے۔

اور میں ان کا لاؤڈا منہ میں لے کر چوسنے لگی اور بابو جی میری چھاتیوں کو دباتے جا رہے تھے، کچھ دیر میں ہی جب ان کا لاؤڈا پوری طرح سے کھڑا ہو گیا، تو میں نے کہا، بابو جی، اب آپ اپنا لاؤڈا میری چوت میں ڈال دیجیے، نہیں تو جھڑ جائے گا، تو وہ بولے، بیٹی، تو فکر مت کر، یہ اتنی جلدی جھڑنے والا نہیں ہے، میں تیری چوت چوس کر اس کے بعد ڈالتا ہوں اس کو اندر، ٹھیک ہے۔

اس کے بعد بابو جی نے سر کے پیچھے سے تکیہ نکال کر میرے چوتڑ کے نیچے لگایا اور اپنی ہونٹ میری بر کے پاس لا کر اسے کسی کتے کی طرح سونگھنے لگے، میں نے کہا، کیا سونگھ رہے ہیں، بابو جی؟ وہ بولے، بیٹی، تیری بر سے بہت اچھی مہک آ رہی ہے، اور اپنے ہونٹ میری چوت کی فانک پہ رکھ کر کس کرنے لگے، اور تھوڑی دیر بعد وہ کسی آم کی طرح میری چوت چوس رہے تھے اور میں اپنے چوتڑ نیچے سے اچھال... اچھال کر ان کی چوت چوسائی کا مزہ لے رہی تھی اور میرے منہ سے آآآآآآآآآہ آآآآآآآآآآی کی مزے دار سسکاری نکل رہی تھی اور بابو جی کسی کتے کی طرح چپر... چپر کرکے میری چوت چاٹ رہے تھے، ان کی دھواں دھار چوسائی کی وجہ سے میں نے بہت جلدی ہی اپنا آپا کھو دیا اور بولی، واااااہ بابو جی، ایسے چوسائی تو آج تک آپ کے بیٹے نے بھی نہیں کی،

بابو جی، وہ بھوسڑی کا کیا تیری چوسائی یا تھوکائی کرے گا، اس کو کمانے سے فرصت ملے تب نہ، آج مجھ سے چُدوانے کے بعد تو اس کے ساتھ چُدوانا بھول ہی جائے گی، اس بات کا تو میرا دعویٰ ہے، اور شاید بابو جی صحیح بھی کہہ رہے تھے، میں جھڑ جھڑا کر جھڑنے لگی، آآآہ آآآآیئیی بابو جی، چوس لو میرے رس کو، پی جاؤ اس امرت کو، یہ آپ کو جوان کر دے گا، آآآآآآآآہ، مزہ آ گیا، آپ سے اپنی چوت چُسوا کر آآآآآآآآہ، جنت کا مزہ آیا، آج تو، اؤؤؤففففف اور بابو جی نے چوت کو پوری طرح سے چاٹ کر سُکھا دیا تھا... اور اس طرح میں بابو جی کے لن کی دیوانی ہو گئی، سچ، بابو جی نے بہت مزہ دیا۔

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)